میرے حلقہ شناسان میں ایسے لوگو ں کی معقول تعداد ہے جو مجھے انٹی پختون بنانے کے لیے طرح طرح کی دلیلیں پیش کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پختون بنیادی طور پر کٹر مذہبی ہیں اور بلوچ اعتدال پسند۔ ان کے نفسیات ایک دوسرے سے بلکل میل نہیں کھاتے اس لیے ان کے درمیان ایک مخاصمت کا رشتہ چھپا ہواہے جسے منہ زبانی مفاہمانہ رشتہ کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ ہمیں اس خوابیدہ دشمن سے ہوشیار رہناہو گا ۔میں ہر بار ان کی دلیلوں کو اپنے زور خطابت او ر پختون بلوچ دوستی کی پرجوش مثالوں سے رد کرتاہوں ۔ لیکن درحقیقت مجھے اپنا یہ منطق زیادہ معقول لگتا ہے کہ بلوچ بے چاری کوئی سپر مین قسم کی قوم نہیں کہ بیک وقت ایران کی شیعہ رجیم سے بھی الجھے ،تخت لاہور سے بھی چھیڑ خانی کرئے او رپختونوں سے بھی پنجہ آزمائے ۔ نہ کبھی بلوچوں کا "زگر مینگلوں" کی طرح یہ دعویٰ رہاہے کہ وہ زگر قوم(خالص قوم ) ہیں ۔ہم ببانگ دہل تسلیم کرتے ہیں کہ ہم میں نسلی اعتبار سے افریقہ کے کالے بھی ہیں ہندوستان کے ڈومب بھی اور عرب کے روبا خور بدھوبھی ۔یہ اعزاز شاید بلوچ قوم کو ہی حاصل ہے کہ نسلی برتری یامخصوص نسلی خصوصیات کی بنیاد پر اپنی قومی آزادی کا مطالبہ نہیں کرر ہی بلکہ خالصتاً سیاسی انداز میں اپنی ریاست کی آزادی کی بحالی کی جنگ لڑرہی ہے اور یہ بھی قابل تعریف ہے کہ رواں جدوجہد میں بلوچستان کا ہر طبقہ بغیر کسی طبقاتی اونچ نیچ کے شریک ہے ۔ایک ایسی قوم جس میں "ھڈ پروش "کا رسم موجود ہے یعنی اگر کوئی غیر بلوچ خاندان یا قبیلہ بلوچ قومی شرائط تسلیم کر نے پر تیارہو تو بلوچوں کو بھی اسے اپنانے میں کوئی عار نہیں۔اس طرح کی مخلوط النسل قو م کیوں کر پوری دنیا سے لڑنے مرنے کا روادار ہوسکتی ہے۔ جس کا کوئی دعویٰ جارحانہ نہیں اس طرح کی جنگ لڑنے کے لیے ہمیں مشرق ومغرب کے عظیم تمدن وتہذیب کے مالکوں سے عظیم اقوام کے جنگی نظریےادھار لینے پڑیں گے مثلاًسندھی زبان میں "ڈ " کی آواز جس طرح مختلف آہنگ میں نکالی جاتی ہے وہ کفر ہے اور ہم کو پیر فلک کی طرف سے کفر کو مٹانے کاخاص پر مٹ عطا ہو اہے ۔ گلگت والوں کی سر خ چمڑی اور چپٹی ناک سے عجیب احساسات جنم لیتے ہیں جن سے انسانیت کو خطرہ ہے ۔سرائیکی جاٹکی زبان میں بات کرتے ہیں جو بلوچی سے بغاوت کے مترادف ہے ان باغیوں کی بلوچ بقا کی خاطر سر کوبی لازمی ہے ۔ پختون کئی گزلمبی چادر سرپر باندھتے ہیں اوراس سے زیادہ کندھے پر رکھتے ہیں اس سے خدشہ ہے کہ دنیا میں کپڑے کی قلت ہوجائے گی اور بلوچوں کے لیے گیردار شلوار بنانے کو کپڑانہیں رہے گاجس سے بلو چ ثقافت کا دنیا سے مٹنے کا احتمال ہے وغیرہ جیسے نظریات ہمیں مذکورہ ہمسایہ اقوام سے لڑنے پر اکساسکتی ہیں۔
مجھے پختون مخالف بنانے میں سرگرم گروہ میں صرف یوں ہی قسم کے لوگ نہیں اس گروہ میں حبیب جلب جیسے صاحب طرزمقرر بھی ہیں ایک دفعہ جناب نے اشرف حسین کے توجہ دلاﺅ نوٹس پر سردار اختر جان موجودگی میں پختونوں کو بلوچوں کے لیے پنجابیوں سے زیادہ خطرناک قرار دینے کی پرزور وکالت کی لیکن سردار صاحب شاید میرے نظریے کے حامی تھے محض انہیں گھورتے رہے او ر اس مسئلے پر با ت کرنا خلاف شان سمجھا بلا ٓخر جناب حبیب کو اپنی گفتگو جام صاحب کے "ٹماٹر " والے انتہائی غیر سیاسی لطیفے سے ختم کرنا پڑا ۔اس گروہ میں ایک اور صاحب بھی ہیں جو آپ کے لیے اجنبی لیکن میرے یارا ن غار میں سے ہیں جناب کا نام یوں توعبدالہادی ہے لیکن وہ دوستوں میں ادو ٹاور کے نام سے مشہور ہے ان کو دیکھ کر ان کے نام اور شخصیت میں کافی تضاد نظر آتاہے "ٹاور" کے نام سے لوگوں کے ذہن میں ٹیلی فون اور موبائل کے ٹاور کا تصور آتاہے جو کافی لمبے ہیں ۔لیکن ہمارے ادو بمشکل چار فٹ تک پہنچ پائے ہیں ا ن کے نام پر تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ ان کے نام کے ساتھ جڑا" ٹاور" انگلش کا نہیں خالص بلوچی کا لفظ ہے۔ "ٹاور " بلوچی میں بھینس کے بچھڑے کو کہتے ہیں اس مناسبت سے ادوٹاور بلکل اسم بامسمی ہیں ناٹے ' کالے اور گول مول موٹے ۔
ادو کی خاصیت یہ ہے کہ ادو سیاست پر بھی بات کرتے ہیں تودرمیان میں ضرور ایسی بات کرتے ہیں کہ ان کواپنا کوئی تازہ لطیفہ سنانے کا موقع مل جاتاہے ۔ ان کے سارے لطیفے پٹھانوں پرہیں جس سے مجھے ہمیشہ ان پر غصہ آتا تھا اور میں انہیں منع کرتاکہ اپنے ہمسایہ اقوام کا یوں مذاق اُڑانا بد تہذیبی ہے اور انہیں سمجھاتا کہ دراصل اس طرح کے لطیفے پنجابی مسلمان اور برہمنوں کی مشترکہ ایجاد ہیں جوانہوں نے سادہ لوح اور خطرناک حد تک جذباتی سکھوں کو نفسیاتی طور پر دباﺅ میں رکھنے کے لیے تراشے تھے ۔تقسیم ہند کے بعد اس ورثے کو مہاجر اپنے ساتھ کراچی لائے ۔ اُصولاً انہیں یہ حربہ بلوچوں کے خلاف استعمال کرنا چاہئے تھا لیکن بوجوہ انہوں نے اپنے لطیفوں کے ہیرﺅ کے طور پر پختون کا انتخاب کیاہے ۔میں اسے کئی بار یہ واقعہ سنا چکاہوں کہ ایک مرتبہ ایک ہوٹل میں اپنے تمام تر ہوش وحواس کو یکجا کر کے بھی جب میں ہاتھ دھونے کی جگہ کو تلاش نہیں کرپایا ۔تو ہوٹل کے پختون مالک سے پوچھاکہ" بھئی میر ی رہنمائی فرما یہ ہاتھ دھونے کی جگہ کہا ں ہے ؟"۔ انہوں نے مجھے کئی مرتبہ اشارے سے بتایاکہ ' ' وہاں' اِدھر ، اُدھر ' یہاں ' یہ ..............." خیر بمشکل مجھے زمین پر پڑا ہوا پائپ نظر آیا جس سے پانی رس رہا تھا ۔میری اس فرش زمین کو نظر انداز کرنے والی حرکت پر پختون بابا نے جوجملہ کہا وہ آج بھی میرے کانوں میں رس گھولتا ہے " تم لوگ خوامخواہ کہتاہے کہ پختون کو عقل نہیں پختون عقل دانے ہے عقل دانے ۔"ٹاور کو عقل دانے کی ترکیب پر اعتراض ہے مجھے "انار دانہ" کے وزن پر تراشے گئے اس ترکیب میں ادیبانہ خوبی نظر آتی ہے اسے بمع اس پس پردہ واقعے کی اردو لغت کی زینت ہونا چاہئے ۔
گزشتہ روز جب ٹاورمیرے پاس آئے تو وہ معمول کے برعکس گم سم تھے ۔میرے لیے ٹاور کی یہ کیفیت غیر معمولی تھی میں نے وجہ پوچھی اس نے اخبار میرے آگے کردی ۔ میں نے اخبار کی سر خیوں پر دھڑکتے دل کے ساتھ سری سر ی نظر دوڑائی کہ خدا خیر کرئے شاید کوئی بڑا سانحہ ہوگیاہو لیکن مجھے کوئی ایسی دل ہلادینے والی خبر نظر نہیں آئی۔ میں نے ٹاور سے کہا اس میں تو" کوئی پریشان کن خبر نہیں.........." انہوں نے جس خبر پر انگلی رکھی وہ پاکستانی بندوبست میں شامل صوبہ سر حد کانام تبدیل کر کے " پشتو نخوا خیبر " رکھنے کی خبر تھی نیچے ملک بھر میں جشن کی ذیلی سر خی بھی لگی تھی ۔ مجھے یوں محسوس ہو اکہ جیسے یہ ایساہی مضائقہ خیز نام ہے کہ جیسے بلوچستان کا نام " بلوچستا ن کوئٹہ 'یا "بلوچستان گوادر " رکھ دیاجائے ۔ٹاور گویا ہوئے کہ" میں پھٹانوں کے بے وقوفی کے لطیفے محض تمہیں ستانے کے لیے سناتا ہوں مجھے بھی پختونوں سے تمہاری طرح انسانی اور ہم بندی ( ہمسایے) کی محبت ہے اس لیے آج مجھے دکھ ہورہاہے کہ پختون سیاستدان اپنی قوم کو کس سمت لے جارہے ہیں ۔ان کے مفادات اس قدر حامیانہ اورزمینی حقائق کے بر خلاف کیوں ہیں ۔اس نام سے "پشتونخوااسلامیہ " رکھنے کی تجویز زیادہ سنجیدہ معلوم ہوتی ہے جس کو پاکستان کے آئینی کمیٹی کے ممبران نے مذاق میں اُڑادیا تھا۔میں سوچتا ہوں کیا پختون واقعی ہی نہیں سمجھ رہے کہ "تخت لاہو ر" کے رکھے گئے اس نام میں حاکمانہ طنز چھپا ہواہے اس نام سے کیا سر حد زیادہ باوقار نام نہیں؟................"میں لمحے بھر کے لیے ٹاور کے اس جذباتی رویے پر حیران وششدر اسے تھکتا رہا ۔آج بلوچ اپنی قومی بقاءکی جنگ میں اس پوزیشن میں تو نہیں کہ اس طرح کے خود ساختہ مسئلے پر اپنا وقت ضائع کر ئے لیکن پھر بھی اس میں یہ سوچ موجود ہے کہ خطے میں بسنے والے مظلوم اقوام بھی خوشحال اور حقیقی معنوں میں آزاد ہوں گوکہ بلوچ اپنی جنگ چھوڑ کر دوسروں کے مدد کی مسیحائی خواہش کا اسیر نہیں اور نہ ہی اس طرح کے کسی شوق کا متحمل ہوسکتاہے۔ لیکن وہ خطے کے پسے ہوئے مظلوم اقوام کی قابل رحم حالت پر افسردہ ضرور ہے جس کی ایک مثال ٹاور جیسی شخصیت کے معصومانہ اعتراضات ہیں ۔میرے ذہن میں بھی کئی سوالات اُٹھ رہے تھے لیکن مجھے آج ہی کسی کتاب میں پڑھا ہوا یہ شعر یاد آگیا ۔
"مجھے یہ ضد ہے کہ ہوعام ذوق آزادی
میں نے اخبار دسترخوان کے لیے زمین پر بچھادیااس پر روٹیاں رکھیں اور ٹاور سے کہا :"یا ر! آج کھانے سے پہلے لطیفہ سناﺅ تاکہ بد ہضمی کاخطرہ نہ رہے .........................."
Post a Comment