عمرانی علوم (سوشیالوجی )سے متعلق بیانات اور نظریات کی خامی یہ ہے کہ ہر صاحب علم کا نکتہ نظر دوسرے سے مختلف ہے بعض علماءکی رائے مفہوم کے لحاظ سے یکساں لیکن کچھ کے زیادہ جامع اور واضح ہوتے ہیں اور کچھ علماءکی رائے دوسرو ں سے یکسر مختلف ہوتی ہے یہی اس علم کی خوبی بھی ہے کہ مسلسل سوچنے اور جدت لانے کے لیے وسیع کینوس فراہم کرتاہے جس سے صاحب بصیرت اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور سوچ کی گہرائیوں سے نئے مفہوم دریافت کرتے یا نئے نظریات پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ سماج مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ اس لیے کہ انسانی سرشت یکساں نہیں رہتی ۔سماج اور انسانی سر شت (رویہ ) ایک دوسرے کی تخلیق ہیں یہ جملہ حیران کن لیکن حقیقت سے قریب ہے کیوں کہ ایک بچہ جس سماج( ایک ایساگرو ہ جس میں رہنے والے افراد کی انفرادی سر گرمیاں اور رویے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوں ) میں جنم لیتاہے اس کے بیشتر عادت واطواراپنا لیتاہے ۔اس کی ثقافت ، زبان، مذہب اور تہذیب وغیرہ کو غیر اردادی یا ارادی طور پر قبول کرتاہے اور یہی بچہ اپنی منفرد سوچ کی بدولت انقلاب کا محرک بن کر سماج کی بنیاد ی قدروں کوبدلنے کاکارنامہ بھی سر انجام دیتاہے ۔
یہاں ہرصاحب الرائے کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے اس کی رائے غلط یا درست ہوسکتی ہے ۔درست کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ مطالعہ کی صلاحیت رکھتا ہے ۔غلط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے غلط ہوگایا وہ علمی حلقے سے خارج سمجھا جائے گا ۔افلاطون اور ارسطوکے بہت سے نظریات جدید دور میں غلط ثابت ہوچکے ہیں لیکن آج بھی ان کی نظریات کو اہم سمجھا جاتاہے ۔اکثر قوانین کسی غلط نظریے کی تصحیح یا جانچ کے بعد وضع کیے گئے ہیں ۔ارسطوکا گوبرسے بچھو پید اہونے کا نظریہ گوکہ آج ہمیں مضحکہ خیز لگتاہے لیکن یہ ان کے گہرے مشاہدے کا نتیجہ تھا جسے غالباًسترویں او ر اٹھارویں صدی کے درمیان ریڈی نامی سائنسدان نے تجربات کے بعد غلط ثابت کردیااور یوں اُن کے اس بیان کو قانون کا درجہ حاصل ہو گیا کہ "بے جان چیز سے جاندار پیدا نہیں ہوتی ۔"ارسطو کا نظریہ لوگوں کو گندگی سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے جب کہ ریڈی کا قانون تخلیق کے لیے اُکساتاہے یوں ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نظریا ت متحرک کرتے ہیں قانون منظم ۔
مندرجہ بالا مثال پر غورکرتے ہوئے کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ارسطو باشعور نہ تھے ؟ہم سب ا حتراماًبیک زبان کہہ سکتے ہیں کہ نہیں 'لیکن یہ ایک مشکل سوال ہے ۔اس کا جواب نہیں سے اتفا ق کرتے ہوئے میں شعور کی یہ تعریف اخذ کرپایاہوں کہ :"مادہ پر غور کرتے ہوئے اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صلاحیت شعور ہے ۔قائم کردہ رائے غلط بھی ہوسکتی ہے صحیح بھی ۔"غلط رائے یہ ظاہر کرتاہے کہ آپ نے درست مطالعہ نہیں کیا تھا ۔مطالعہ کا یہ طریقہ کا ر مجھے سائنسی معلوم ہوتاہے کہ اپنے ذہن میں سوالات کا انبار لگائیں ۔اپنے مطالعے کے لیے چنی گئی چیز کے ہر اہم اور غیر اہم حصے سے متعلق سوالات کریں اور پھر ان سوالات کے جوابات تلا ش کرکے ترتیب دیں ۔
مطالعہ اور مشاہدہ کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے مجھے ان کی مروجہ تعریفیں بدلنی پڑیں ۔کسی کتاب کا پڑھنا مطالعہ (اسٹیڈی )ہر گز نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے کے مطالعے کوپڑھنا (ریڈ)ہے ۔اصل مطالعہ یہ ہے کہ آپ کسی چیز کا مشاہدہ کرکے اس سے متعلق سوالات کے جوابات اخذ کریں ۔میر ایہ بیان شعور سے متعلق دیئے گئے بیان سے گڈ مڈ معلوم ہوتاہے لیکن فرق موجود ہے "مادہ سے متعلق رائے قائم کرنے کی صلاحیت شعور ہے جب کہ اس کی تخلیق 'ضرورت 'استعمال اور اثرات وغیرہ سے متعلق درست جوابات حاصل کرنا مطالعہ ہے ۔"
اروندھتی رائے کا یہ بیان کہ "کہانی غول کی شکل میں آتے ہیں "ایک لکھاری کی ذہنی کیفیت کے بارے میں ان کی قائم کردہ رائے ہے ۔اس کو درست طور پر جاننے کے لیے اس کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے میں خود کئی بار اس تجربے سے گرزچکاہوں اور ایک ہی نشست یا تسلسل میں ایک سے زائد افسانے یا ان کی کہانیاں ترتیب دے چکاہوں ۔یہ صحیح ہے کہ ایک خاص کیفیت میں لکھاری اپنے ذہن کو سوچنے کی دعوت دیتاہے یاکسی مشاہدے کے بعد ذہن ایک فرمانبردار ملازم کی طرح مشاہدہ کو بیان کرنے کے لیے کئی منصوبے اور خاکے پیش کرتاہے ۔اگر کوئی لکھاری ، محقق یا فلسفی ایک خاص موضوع پر سوچتے ہوئے ان تمام خیالات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دے جو اس کے ذہن میں بے ترتیب بہہ رہے ہوتے ہیں تو کہانی ، تحریر ، تحقیق ، افسانہ اور فلسفیانہ بیان وغیرہ مبہم اور متضاد خیالات کا مجموعہ بن کر اپنی وہ خوبصورتی کھو دے گا جسے دراصل تخلیق کار خیالات کے غول سے چن کر بناﺅ سنگھار کے بعد پیش کرتا ہے ۔لیکن اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتاکہ ہوسکتاہے کئی ایسے لکھاری ہوں جنہیں اس کیفیت سے دوچار ہونا نہیں پڑتا اگر ایک بھی ایسا لکھاری نہیں تو یہ ایک مطلق قانون ہوا۔
بعض معاملات میں شعور مطالعے پر وقت ضائع نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنے اخذ کردہ رائے پر عمل کرنے پر زور دیتاہے ۔یہ سب معروضی حالات پر منحصر ہے مثلا ًایک چھت گررہی ہے تو شعور یہ کہے گا کہ اس گرتی ہوئی چھت سے دور ہوجاﺅجب کہ علم اس چھت کے قریب رہ کر اس کے گرنے کی وجوہات ، رفتار ،نقصانات اور اس جیسے کئی سوالات کے جوابات تلاش کرﺅ تاکہ آئندہ اس طرح کے کسی حادثے کے امکانات نہ رہئیں ۔ دونوں پر عمل کرنا ہی انسان کے فائد ے میں ہے لیکن یہ مت بھولیے کہ بعض اوقات حالات علمی طریقہ ہائے کار سے مطابقت نہیں رکھتے ایسے حالات میں شعور عموماًدرست رہنمائی کرتا ہے ۔سماجی معاملات میں شعور ی فیصلے چیزوں پر زبردست اثرات ڈالتے ہیں بعدازاں سازگار ماحول ملنے پر"علم " کو پنپنے کا موقع ملتا ہے تو حاصلات یکسر مختلف اور زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں ۔جنگی حالات میں علماءعمرانیات (سوشیالوجسٹ )کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ غلط تھے بلکہ اس لیے کہ اُن کے نظریات پر عمل کے لیے حالات موافق نہ تھے ۔
اس جنگ اور شورش کے ماحول میں ہم بھی بہت سی چیزوں کو ترتیب دینے کی حالت میں نہیں ۔مثلاً ہم اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کروانے اور زبان کی ترقی کے لیے بھر پور توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے کیوں کہ جنگی صورتحال میں سر دست ان کی وجود کو خطرہ ہے ۔ہمیں اس صورتحا ل میں یہ سمجھنا ہوگاکہ یہ جس قوم سے متعلق ہیں وہ اپنی بقاءکی جنگ لڑرہی ہے ہمیں زیادہ توانائی جنگ جیتنے کے لیے چاہئے ۔اس وقت ہمارے لیے عام حالات کے سنگین مسائل بھی فروعی ہیں اُن پر وقت ضائع کرنانقصاندہ ہے ۔ان حالات میں "علم "کو شعور کی حد بندیوں میں مقید رہنا ہوگا۔یہ ہمارا شعوری فیصلہ ہے کہ دشمن کے خلاف جنگ کے بغیر کوئی چارہ نہیں اس فیصلے کے بعد اگر علم اور منطق کی ضرورت ہے توجنگ جیتنے کے لیے ۔اس دور میں باشعور اور پختہ شعور وہ ہے جو میدان جنگ میں دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا رہاہے ۔اس کی جنگی حکمت عملیاں زیادہ موثر ثابت ہورہی ہیں ۔ان حالات میں "ہوا"کے اس آزاد جھونکے کی کوئی حیثیت نہیں جو پھولے ہوئے غبارے سے باہر ہے ۔ایک ایسے لکھاری کے طور پر جو اپنے شعوری فیصلے کے تحت اس تحریک میں شامل ہو اہے میں یہ فرق محسوس کرتا ہوں کہ میری صلاحیتیں 'سوچ اور کارکردگی ایک متعین سر حد کے اندر مقید ہیں جس سے آگے میرے تخیل کو پروازکی اجازت نہیں چاہئے وہاں دریافت کے کئی زیادہ امکانات ہوں ۔ایک اور قابل غور بیان یہ ہے کہ :"اگر میری تنظیم اکثریتی رائے سے یہ فیصلہ کرئے کہ مجھے باتیل سے چھلانگ لگانا ہے ' میر اشعور ' علم وعقل سب اس بات پر متفق ہوں کہ میرے اس عمل سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔اگر میں اپنی تنظیم کے فیصلے پر پہاڑ سے چھلانگ لگانے سے انکار کردوں تو مجھ سے بڑا عقلمند کوئی نہیں اگر میں ایسا کرﺅں تو مجھ سے بڑ اکارکن کوئی نہیں۔"
دنیا کے تمام بڑے ادارے بشمول فوج سب کی بقااور بحیثیت ادارہ موجودگی کا سبب یہی رہنما ءاصول ہے ۔مجھے ماﺅزے تنگ کے خیالات پر مشتمل ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ۔نظم وضبط کے بارے میں ان کی رائے اپنے ذاتی مشاہدے کے عین مطابق معلوم ہوئی کہ "اقلیت کی اکثریت کی طابع دار ی کرنا نظم وضبط ہے ۔"چاہئے اقلیت (فرد ) کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہواسے بہرحال اکثریت کے طابع ہونا پڑتاہے ورنہ ادارے اور تنظیم نہیں رہیں گے ۔
جنگی ماحول میں نظم وضبط کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔جب ایک قوم جنگ لڑتی ہے تو قوم کا ہر فرد اس جنگ میں سپاہی کا کردار اداکرتاہے ۔ہر کوئی جنگ کی بات کرتا ہے ۔تخلیقات 'فن اور علم سب جنگ کی حمایت اور کامیابی کے لیے کام کرتے ہیں ۔جنگ سے بیزاری اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔مبہم اور اختلافی سوالات خاص اداروں کے باہر کرنے کی ممانعت کی جاتی ہے۔ایسے مباحث سے گریز کیا جاتاہے جس سے جنگی نقصان اٹھانے کا احتمال ہو۔ایسے ماحول میں کہ خوشی کی گیت گانے والے گلوکار خون اور تلوار کی بات کررہے ہیں ایک جنگی سپہ سالار کی فلسفیانہ تحریریں اچھا تاثر قائم نہیں کرتیں اگر اس کی زبان گنجلک ' روایتی اور اشارہ کنایوں پر مشتمل ہو تو اور زیادہ اُلجھن ہوتی ہے ۔ایک عام لکھاری کی تحریر کوعام پیرائے میں دیکھا جاتاہے ۔اس میں علمی پہلو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے برعکس ایک قومی رہنماءجب اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے توسب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس اظہار کی ضرورت کیاتھی ؟
دنیا میں کوئی بھی قوم جنگ میں محض دشمن کی عسکری برتری کی وجہ سے شکست سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ شکست ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ قوم کے خاص ذہنیت کے افراد ارادی یا غیر ارادی طور پر سماج کی اکثریت کے ذہنوں کواس کیفیت سے غیر محسوس انداز میں آلودہ کرتے ہیں۔غیر ضروری سوالات کی بوچھاڑ ،شخصی پسند ناپسند ،ذاتی علم ومرتبے کی بلندی کا گھمنڈ ، ساتھی جھدکاروں سے غلامانہ فرمانبرداری کی توقع ایک صحت مند سپاہی کو زخموں سے چور نیم جان سپاہی سے کئی زیادہ تھکا دیتے ہیں ۔زخموں سے چور سپاہی قوت نہ رکھنے کے باوجود اپنے ذہن میں دشمن کو شکست دینے کا ایک شدید جذبہ رکھتا ہے ۔لیکن ذہنی خلفشار کا شکار سپاہی بغیر لڑے جنگ ہار دیتاہے ۔شعور کہتاہے کہ فوری فیصلے کرﺅ ، بڑے فائدے کے لیے اپنے چھوٹے نقصانات کی پرواہ نہ کرﺅ ۔سماجی رشتوں اور ذاتی تعلقات کوجنگی تنظیم ک
ے وضع کردہ نظم وضبط کے پابند بناﺅ ۔اپنے انااور شخصیت کوتنظیم یعنی اکثریت کی رائے کی طابع کرﺅتو شکست ناممکن سے قریب تر ہوگاالبتہ وقتی طور پر پسپائی اکثر ایک زبردست نتیجہ کن حملے کا سبب بنتا ہے ۔

٭٭٭٭
17-04-2010
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.