گزشتہ مضامین پر ردعمل اور پذیرائی توقع سے کچھ بڑھ کر ہے ، دوستوں کا جواب دینے پر کافی اصرار ہے مگر رہنے دیں کبھی سچ جھوٹ سے زیادہ سچ نقصان دہ ہوتے ہیں، انسانی کی جان اور عزت کی خاطراگر کبھی سچ بولنے کے’’ جنون ‘‘ کو پابہ جولا ں کرنا پڑے کوئی حرج نہیں، چاہئے جھوٹ کو ’’ آرا ء‘‘ کہہ کر لوگوں کے ذہنوں پر تضادات کے کوڑے برسائے جارہے ہوں وقتی خاموشی بہترین حکمت ہے ۔ کسی کواشتعال دلانے کا نفسیاتی حربہ یہ نہیں کہ اس کی حقیقت بیان کی جائے بلکہ اس کی ایسی خامی خوبیاں بیان کی جائیں جو اس میں موجود نہ ہوں۔ ’’خوبیاں بھی‘‘ یقین نہیں ! تو کسے گنجے کو کہہ کر دیکھ لیں :’’ آپ کے بالوں کی تراش وترتیب جاذب نظر ہے۔‘‘
میدان سیاست و ادب میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اس مخصوص بیماری کا شکار ہیں ،جنہوں نے کچھ لوگوں سے خودساختہ خیالات اور عمل کی توقع کر رکھی ہے ۔ یہ بیمار ذہنیت کے لوگ ان سے ہمیشہ اپنے ہی ذہن میں پالے ہوئے خیالات سننا چاہتے ہیں ۔ کمیکل لوچا ٹائپ کی اس بیماری نے ان کے سیاسی ادراک کو دیمک کی طرح چاٹ کر اتنا کمزور کردیا ہے کہ انہیں سامنے کی چیزیں بھی نظر نہیں آرہئیں ۔ اس بیمارستان میں ہمیں محتاط رہنا ہوگا دوسرے کی باتوں اور’’ آرا ‘‘ پر ایمان لانے کی بجائے اپنی آنکھوں پر زیادہ بھروسہ کرنا چاہئے اور اپنے عقل کا جو ایک فیصد حصہ ہم استعمال کرسکتے ہیں اس کو زنگ نہ لگنے دیں اور دکھاوے پر جانے کی بجائے عقل لگائیں ۔
تجزیات کی بہار ، تبصروں کا جمعہ بازا ر لگا ہوا ہے ۔ ایک گروہ دوسروں کے بولنے پر کس قدر مشتعل ہے ، راقم پر کیے گئے اوچھے حملے سے اندازہ لگالیں ۔ کیا یہ سمجھنا ہمارے عقل کل ہونے کے زہم میں مبتلا ہونے کی نشاہدی کرتا ہے کہ ہربات پر کہا جائے ’’ تو کیا ہے ؟‘‘ پھر خود ہی بڑابڑاتا ہوا جواب دیا جائے ’’ کچھ بھی تو نہیں ، منتشر ذہنیت کے مالک ، غیر مستقل مزاج ، خود کو عقل کل سمجھتے ہو، علم نہیں رکھتے اورتمہارے پاس ڈاکٹریٹ کی بھی ڈگری نہیں اس لیے تم دانشور بھی نہیں ہو ۔ ‘‘ یا معاملہ اس کے برعکس ہے ؟ جس کے نزدیک کوئی دوسرا اس قابل نہیں کہ علمی ، سائنسی ، سماجی اور سیاسی تبصرہ کرسکے دراصل وہی خو د کو عقل کل سمجھتا ہے اوراگر اس کا اظہار مندرجہ بالا الفاظ میں کر ئے تو اخلاقی گراوٹ کا بھی شکار ہے،اسے دوسروں کا علاج کرنے کی بجائے پہلی فرصت میں اپنی ذہنیت کی جانچ کرنی چاہئے ۔اگرایسی غیر اخلاقی باتوں کاجو ’’ مطلق سچائی ‘‘ کے بہروپ سامعین کی سماعت پر ضر ب لگارہے ہیں جواب دیا جائے تو یہ صفر سے ضرب ہونے جیسا ہے ۔ اگر اسی معیار کو اپنا یا جائے تو دنیا کے تمام بڑے مفکر ’’ شیخ چلی ‘‘ لگنے لگیں ۔ تمام شعبوں میں انسانی ترقی کی بنیاد علم کا معراج ’’ مکالمہ ‘‘ ہے۔ جنہیں آج ہم بیوقوفانہ باتیں سمجھتے ہیں انہی کی بنیاد پر انسان نے ترقی کے مدراج طے کیے ہیں ۔ جن ، بھوت ، پریاں اورنیک وبدح روحیں کسی زمانے میں محض قصہ کہانیاں نہیں تھیں بلکہ بڑے بڑے جید علماء کا ان پر اعتقاد تھا ۔ جنہوں نے علامہ دبیری کی کتاب حیواۃ الحیوان پڑھی ہے انسان کے یقین کی حماقت سے بھی واقف ہوگا ’’ شیرنی فرج سے بچہ جننے کی بجائے ایک گوشت کے ٹکڑے کو سامنے رکھ کر چالیس دن تک پھونک مارتی ہے جس سے اُس میں جان پڑتی ہے یا عورتوں کے بالوں کو اگر پانی میں ڈالا جائے تو پانی کے سانپ بن جاتے ہیں ۔‘‘ مذکورہ کتاب میں یہ معلومات عامہ کے طو ر پر درج ہیں ، ایک ایسی کتاب جو گزشتہ کئی صدیوں سے نہ صرف مشرق بلکہ مغرب میں بھی ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے اور یہ صرف ایک مشرقی اور مذہبی خیالات رکھنے والے محقق کا المیہ نہیں بلکہ تمام سائنسی قوانین ایسے ہی بظاہر احمقانہ مفروضوں کے رد میں ہیں۔
یونان اور ہندوستان کے اساطیری قصے ان کے ادب اور سماج کااٹوٹ حصہ ہیں ۔ ہندوستان میں تو یہ آج بھی ہندو عقائد کا حصہ ہیں جن کا شاید عقلی توجیہ پیش کیا جاسکے لیکن ’’مہابھارت ‘‘ کو آئندہ کئی دہائیوں تک گزشتہ ہزار سالو ں کی طرح ان کوجھیلتے ہوئے ان ہی سے نئی سوچ اور ترقی کی راہیں تلاش کرنا ہوگا ۔ ہندوستان کا کوئی مفکر دیوتا اور ان سے متعلق مفروضوں کو یکسر رد کرکے سماج میں تبدیلی کا محرک نہیں بن سکتا ۔ گاندھی جیسے سیاستدان کو بھی ہندوسماج نے اس وقت مہآتما بنا لیا جب اس نے خود کو ہندو اوتار کے روپ میں پیش کیا ۔ اس وقت کے اخبارات میں گاندھی کرشموں کا بڑا چرچا کیا جاتا تھا۔ ان سے پہلے ہندوستان کے شہزادہ سدھارتھ کو بھی سچائی پیش کرنے کے لیے بن واس لے کر بھگوان گوتم بدھ کا بہروپ اختیار کرنا پڑا ۔ تبدیلی کے لیے سماج سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے مگر جن مانی ہوئی ہستیوں کا حوالہ دیا ہے انہوں نے برائی کا مقابلہ کمتر برائی سے کرنے کی کوشش کی ۔ مذہب کو بہتر مذہب کے نام پر ختم کر کے انسان کے خداؤں میں ایک اور خودساختہ خدا کا اضافہ کیا ۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر بظاہر شکست تسلیم کی لیکن حق اور سچائی کی جدوجہد میں مصلحت کو آڑے آنے نہیں دیا اور امر ہوگئے _______ہمارے پاس کرم چند اور سدھارتھ کے راستے بھی ہیں ، سقراط کا پیالہ بھی۔
سقراط علم کلام پر یقین رکھتے تھے ان کے جو خیالات ہم تک پہنچے ہیں ، اس زمانے کے سماجی رویوں پر مباحثہ ہیں،ہمیں بھی ایسامناسب رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں مکالمہ کی گنجائش ہو ۔ ذات ، صورت ، کردار کو دل پر پتھر رکھ کرایک طرف رکھنا ہوگا ۔ جس نفسیاتی بیماری کا ہم شکار ہیں اس سے چھٹکارہ کا واحد حل یہ ہے کہ ہم دوسروں سے اپنی خواہشات کی تکمیل کی تمنا کرنے کی بجائے اس کے عمل اور خیالات کو دیکھیں ۔ ایسے افکار جن کے عملی تدبیرہم پر اثر انداز ہوں ان کو بہتر بنانے یا رد کرنے کے لیے ہمیں متحرک کردار اداکرنا ہوگا ۔ سب کچھ خاموشی سے دیکھنے والے ان سے زیادہ ناکامیوں کے ذمہ دار ہوں گے ، جو اپنے بساط کے مطابق بہتری کی کوششوں میں عملاً حصہ دار ہیں ۔ دوسروں کے منہ سے سن کر کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا بھی درست نہیں بلکہ ہمیں ہر ایک کے خیالات اس کے اپنے ہی زبانی سن کر ان کے متعلق رائے قائم کرنا چاہئے ، آج کل سوشل میڈیا پر دسروں کی باتوں کا ’’ اقتباس ‘‘ پیش کرکے ان کی مٹی پلید کرنے کی چلن عام ہے ۔ ایسے مباحثوں میں الجھنا ، صفر سے ضرب کھانے جیسا ہی ہے ۔
اس کا میں بھی قائل ہوں کہ دیوتا کے مقابلہ میں دیوتا کھڑا کرنے سے بت پرستی کاخاتمہ ممکن نہیں ۔ مگر تبدیلی اور انقلاب کا راستہ انہی مفروضوں سے ہوکر گزرتا ہے ہمیں ہمت ، حوصلہ اور تسلسل کے ساتھ اپنے خیالات پیش کرنے کی ضرورت ہیں ۔ جن بتوں کو تراشنے میں کئی دہائیاں صرف کی گئی ہیں وہ اتنی آسانی سے ٹوٹنے والے تو نہیں کیوں کہ یہ پتھر کی مورتیاں نہیں نظریاتی بت ہیں جو کسی ایک جگہ کھڑے نہیں بلکہ مختلف ذہنوں میں براجمان ہیں، یاد رہے کہ یہ کارگر نسخہ ہے کہ لوہا لوہے کو کاٹنتا ہے اور ہمیشہ خداکو کسی دوسرے خدا نے شکست دی ہے ، بڑی جلدی بڑی آسانی سے ۔ اب اس تلخ تجربے سے سیکھ کر ہمیں ماضی کی غلطی دہرانا نہیں چاہئے _______ہمیں نظریاتی بت بمقابلہ نظریہ اور قائد بمقابلہ جھدکار کی فیصلہ کن جنگ کی لڑنے کی ضرورت ہے ، جس کی کامیابی کی صورت ہم سب دیوتا ہوں گے یا انسان، مقصد فرق مٹانا ہے نتیجہ چاہئے جو بھی ہو ۔
Post a Comment