کچھ رویے ، غیر تحریری پالیسی ، نعروں اور شعار کوبلوچ جھدکاروں میں مقبول
دیکھ کر میں اکثر حیران ہوجاتا ہوں کہ آخروہ کونسے عناصر ہیں جو ان کو ایک
ایسے راستے کی طرف دھکیل رہے ہیں جو بلوچ قوم دوست جماعتوں کی پالیسیوں کا
حصہ نہیں ۔ یہ کیسے نعرے ان کے منہ میں ٹھونس دیئے گئے ہیں جن کا قومی
تحریک دور کی بات بلوچ قوم سے بھی کوئی نسبت نہیں ۔ ہمارے اپنے ہی کارکنان
کو اس قدر جذباتی اُبال دیا گیا تھا کہ اُن سے اُٹھتےبھاپ کی تپش سے اچھے
اچھے لیڈر قریب نہیں ہوپاتے تھے ۔ اس رویے کی بیخ کنی کے لیے میں نے کئی
مرتبہ اپنے پارٹی کے قائدین سے بات کی اور اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ
کوششوں پر اتفاق بھی کیا گیا، پروگرامات بھی ترتیب دیئے گئے جو چند
زون میں تجرباتی طور پر انتہائی کامیاب ہوئے ۔ آسان طریقہ تھا ہر کام کرنے
سے پہلے منصوبہ بندی لازمی ، منصوبہ بندیوں پر عمل اور مختلف کام کی
انجام دہی کے لیے ٹیم اور ذمہ داروں کا تقرر( حتی کہ پوسٹر چپکانے سے پہلے
بھی اجلاس طلب کیا جاتا اور اس کے بعد تحریر ی رپورٹ جمع کیے جاتے ) پارٹی
پالیسی اور تحریک سے متعلق کوئی چھوٹی سی بات بھی بغیر صلاح ومشورہ کے
پھیلانے پر پابندی ، عوام کے ساتھ ایک ہمدرد کی طرح پیش آکے انہیں یہ احساس
دلانا کہ پارٹی اور تحریک کی پالیسیاں اورسرگرمیاں اُن کے مفاد ات اور
خواہشات سے ہم آہنگ ہیں اور سماج مخالف یا سماجی معیار سے مطابقت نہ رکھنے
والے کام سے اجتناب ۔
لیکن ظاہر ہے ایک محدود حلقے کی یہ سرگرمیاں جن کے اثرات کو وسیع ہونے سے
روکنے کے لیے بھی مسلسل کام ہورہاہو ایکدم پوری تحریک میں اصلاح نہیں
لاسکتیں ۔ ان کو تجرباتی کوششیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ اولذکر رویوں کی وجہ
سے تمام زونوں میں ان کو یکبارگی رائج کرنا ایک انتشار پیدا کرنے کے
مترادف تھا ۔ مثلاً اخلاق سے گری ہوئی اور عقل سے عاری نعرہ بازی سے روکنے
والوں کو بزدل اور ڈرپوک جیسے القابات سے نواز ا جاتا ۔ یہ سوچے بغیر کہ
یہ باتیں پارٹی کا لیڈر کہہ رہاہے جس پر پارٹی کو پالیسیوں کے مطابق چلانے
کی ذمہ داری ہے ۔ ہم پر اس دوران کئی روایتیں اور کئی چیزیں آسمان سے اس
طرح نازل کیے گئے کہ اب ان پر بات کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ۔ مثلاً
ہمار ا ’’ ترنگا ‘‘ کس نے بنایا ہے ؟ جب کہ ہماری جدوجہد ایک آزاد
ریاست کی بحالی ہے نہ کہ آزادی حاصل کرنے کا ( اس لیے ہم ریفرنڈم کی تجویز
کو رد کرتے ہیں ) تواس آزاد ریاست کا کوئی جھنڈا بھی یقیناً تھا ، وہ کیوں
اور کس کے کہنے پر لپیٹ دیا گیا؟ شہید واجہ غلام محمد سے اس پر بات ہوئی تو
انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے تجویز دی ’’ چوں کہ ’’اب یہ’’ ترنگا ‘‘ عوامی
مقبولیت حاصل کرچکاہے ( اب یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اسے کیوں کر عوامی
مقبولیت حاصل ہوئی ) اس لیے اسے مکمل رد کرنے کی بجائے بلوچستان کے ریاستی
جھنڈے کو بھی دوبارہ متعارف کرنے کے لیے پوسٹرز اور اسٹیکر کی صورت چاپ کر
بانٹا جائے ۔‘‘ یہ گواھی ہے کہ آسمانی فیصلوں پر بی این ایم جیسی اہم پارٹی
بھی ابہام کے باوجود مشینی انداز میں عمل کرنے پر مجبور تھی ، اسی طرح ’’
گیارہ اگست ‘‘ جسے بی این ایم نے ’’ یوم تجدید عہد ‘‘ ( سوگند سرسبزی روچ )
کے نام پر منانے کا باقاعدہ اعلان کرر کھا تھا ، اُن کو اعتماد میں لیے
بغیر ’’ جشن آزادی ‘‘ بن گیا ، ستم ظریفی یہ کہ اس دن ڈھول باجوں پر ناچنے
والے بھی بی این ایم کے کارکنان تھے ، جس کی قیادت اسے احمقانہ حرکت سمجھتی
ہے ۔ پھر بے وقوفی کی انتہا ء دیکھئے یہی گروہ عید جیسے تہوار کو یوم سیاہ
کے طور پر منانے کا اعلان کرتا ہے اور دلیل پیش کرتا ہے کہ بلوچ قوم غلام
ہے جس کی کوئی عید نہیں ،ایک طرف یہی غلام قوم ’’ جشن آزادی ‘‘ کے نام پر
ناچ گارہی ، کیک کاٹ رہی اور مبارک بادیں بانٹ رہی ہے لیکن عید کی مبارک
بادیں اس خلائی مخلوق کو قبول نہیں ۔ خلائی مخلوق ایک ایرانی قبیلے کی عورتوں
کے دوپٹہ کو بلوچی قومی لباس کا حصہ بنادیتا ہے اور ہم منہ میں زبان رکھتے
ہوئے بھی گنگ ۔
تو دوستو! ہر ایک فتوے اور بازار میں بکنے والی چیز کو قبول کرکے روایتوں اور رواج کا اٹوٹ حصہ بنانے سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کئی ایسا نہ ہو جب وہ رائج ہو تو ہمارے گلے میں پھنسی ہوئی ایسی ہڈی بن جائے جس کو ہم نگل سکتے ہوں اور نہ اُگل۔ پارٹی جھدکاروں کوہمیشہ پارٹی پالیسیوں اور منصوبہ بندیوں کے مطابق عمل اور ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ وہ اپنے خیالات کو پیش کرنے سے پہلے اسے چھان بین کے لیے اداروں میں پیش کریں ، یہی عمل اسے ایک عام آدمی سے ممتاز بناتا ہے ، دراصل یہی ایک تنظیمی جھدکار کی خوبی ہے اور یہی تنظیم کا فائدہ کہ انسانی سوچ کو نکھار کر کسی اجتماعی عمل کے لیے موزوں کرتی ہے ۔
زیر نظر مندرجات کی موضوع سے یہ نسبت ہے کہ ’’ ھیربیار اور براھمدگ ‘‘ کے درمیان ایک معمولی اختلاف رائے کو لے کر یہی جذباتی گروہ اسے نظریاتی اختلاف کی صورت پیش کررہا ہے ۔ دلیل سے عاری محض جذبات کی بنیاد پر براھمدگ کو سیاسی گالیوں سے نوازا جارہا ہے ۔ یہ سب کام بظاہر ھیر بیار کی محبت میں ہورہے ہیں لیکن بیشک اُن کے ساتھ اس سے بڑھ کر دشمنی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ اس کے ایک مضبوط بازو کو کاٹ کر اسے لولا بنایا جائے، یہ کوئی ایسی حرکت نہیں کہ اس کو شک کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ اس پورے ماحول میں براھمدگ اور اس کی جماعت کا کردار انتہائی مناسب اور مدبرانہ ہے کہ وہ نہ کسی پر الزام تراشی کررہے ہیں اور نہ ہی ان بد تمیزیوں کو خاطر میں لارہے ہیں مگر اس کو یوں ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آخر اس معمولی نکتے کو لے کر یہ جیالے تلواریں سونت کر کیوں کھڑے ہوگئے ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں الیکشن کی تیاریاں ہورہی ہیں ، جو اس کے لیے استحکام یا عدم استحکام کے امکانات کے حامل ہیں ۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم ’’بلوچستان ‘‘ ہے جہاں انتخابی عمل کے بائیکاٹ ہونے کے خدشہ کے پیش نظر پورے پاکستان میں انتخابات کو ملتوی کرنے کا بھی امکان ہے ۔ اس کا عندیہ پاکستان کی اپوزیشن جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف بھی اپنے ایک پریس کانفرنس میں دے چکے ہیں ۔ دوسری طرف بلوچستان میں پارلیمان پسند جماعتیں خاص طور پر نیشنل پارٹی بھر پور کوشش کررہی ہے کہ انتخاب سے قبل قوم دوست جماعتوں کی بلوچستان پر گرفت اور اثرات کو کم کیاجائے تاکہ نیشنل پارٹی الیکشن میں آزادانہ طور پر حصہ لے سکے ۔ اس سلسلے میں مکوران میں پارلیمانی ٹولے کی میٹنگیں بھی ہوچکی ہیں اور لوگوں کو اشارے کنایوں میں بتایا بھی جارہاہے کہ وہ ووٹ کے لیے ان کے دروازے کٹھکٹانے کی بے شرمی سے بآسانی سے باز آنے والے نہیں ۔ دوسری طرف قوم دوست جماعتیں ابھی تک مناسب وقت کے انتظار میں ہیں اور کوئی ایسا پالیسی بیان دینے سے گریز کیا جارہا ہے جس سے ان کی حکمت عملی کا پیشگی علم ہوسکے اگر اندرونی طور پر ایسی کوئی حکمت عملی بنائی گئی ہے تویہی بہتر ہوگا کہ اسے پاکستان میں نگران حکومت کے قیام کے بعد سامنے لایا جائے یا اس کے مطابق عمل کیا جائے ۔
زمین پر جو صورتحال نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ھیربیار اور براھمدگ کے درمیان چارٹر معاملے پر اختلاف رائے کو لے کر پاکستان نواز، پارلیمان پسند جماعتیں بغلیں بجارہی ہیں اور بڑے اطمینان سے مثالیں دے کر کہا جارہاہے کہ جو قوتیں آپس میں متحد نہیں وہ نہ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی بلوچستان میں ہونے والے الیکشن کی سرگرمیوں پراثرانداز ہونے کی اہلیت ۔اب اس اختلاف رائے کواتفاق رائے کی طرف لے جانے کی بجائے کھینچ کر خلا اور زمین کے فاصلے جتنے فاصلے پر لے جانا ان قوتوں کی حوصلہ افزائی اورمدد فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔ بہتر ہے کہ ہم اس پر غیرضروری بحث ختم کرکے اپنی تمام تر توجہ بلوچستان کے موجودہ حالات پر مرکوز رکھیں جس کے لیے فوری نوعیت کے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ پروپیگنڈہ اور اطلاعات کے تمام وسائل منظم طریقے سے اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے صرف ہوں کہ کس طرح بلوچ دشمن قوتوں کے سامنے ایک ’’ یونٹ ‘‘ کی طرح ،چاہئے وقتی اتحاد کی صورت کھڑا ہواجاسکتا ہے ۔ بلوچستان میں انتخابی سیاست ہر علاقے میں مختلف ہے اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے کوئی آسمانی فارمولا نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ۔ قوم دوستوں کوعلاقائی سطح پر متحدہ محاذ بناکر کام کرنے ہوں گے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم اپنے قیادت کے درمیان جو اتحاد اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس کو قوم کے سامنے لائیں اور اُن کو بتائیں کہ ہم براھمدگ ، ھیر بیار اور بی ایل ایف کے قائدین کی رہنمائی میں اُن کے مفادات کے تحفظ کے لیے پارلیمان پسند قوتوں کی نسبت زیادہ منظم اور اپنے عزم پہ قائم ہیں ۔ ان کو آج اس یقین دہانی کی ایک مرتبہ پھر ضرورت پیش آئی ہے کہ بلوچستان کی آزادی محض ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جسے ہم مسلسل قومی جدوجہد اور قومی اتفاق کی بدولت حاصل کرسکتے ہیں ۔
بدقسمتی سے ہم نے قومی اداروں کی بجائے شخصیات پروان چڑھا رکھے ہیں اس لیے ریاستی مشینری ان کو متنازعہ بناکر دراصل لوگوں کو قومی تحریک سے مایوس کرنے کے لیے خصوصی توجہ کے ساتھ سرمایہ کاری کررہی ہے جسے روکنے کے لیے ھیربیار اور اس کی ٹیم کو نہایت سخت رویے کا مظاہر ہ کرنا ہوگا ۔ان حالات میں کہ دوست اور دشمن کی پہچان مشکل ہے کارآمد طریقہ یہی ہے کہ براھمد گ کی کردار کشی کرنے والوں سے قطع تعلق کا اعلان کیا جائے ۔ براھمدگ کی کردار کشی کو بلوچ لبریشن چارٹر کی حمایت اور اس کا تنقیدی جائزہ سمجھنے کی جو آسمانی دانشوروں نے انداز اپنا رکھا ہے اس سے ایسی قوتوں کے لیے دراندزای کے امکانات بڑھ چکے ہیں جو قوم کو مایوس اور تقسیم در تقسیم کرنے کے درپے ہیں ۔
ایسے حالات میں کہ ایک گروہ اپنے متنازعہ موقف کواُصولی سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے بالخصوص اور عام حالات میں بالعوم مخبروں اور دراندازوں کو پہچاننا انتہائی مشکل کام ہے ، یہ ایڈز کے وائرس کی طرح ہیں جوباہر سے دشمن کے روپ میں حملہ کرنے کی بجائے، اندرسے دوست کے بہروپ میں مدافعتی قوت کو کمزور کرنے کے لیے اس پر حملہ کرتے ہیں ، ایڈز کے وائرس انسانی جسم میں داخل ہوکر ان سیلز کا روپ دھار لیتے ہیں جو انسانی جسم کو بیرونی وائرس کے حملے سے محفوظ رکھتے ہیں ، اُن کے بہروپ میں ہونے کی وجہ سے انسانی جسم کے محافظ سیلز ان کو پہنچانے میں دھوکا کھاجاتے ہیں اور یہ دشمن اُن کے درمیان ہی میں رہ کر آئستہ آئستہ اُنہیں کھاجاتاہے جس سے انسان کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے اور باہر سے معمولی حملہ اس کے لیے جان لیو ا ثابت ہوتا ہے ۔ جس طرح اب تک ’’ ایڈٖز ‘‘ کا واحد علاج احتیاط ہے اسی طرح قومی تحریک کو مخبروں اور دراندازوں سے بچانے کا واحد طریقہ بھی مکمل احتیاط ہے، اس کے علاوہ کوئی اعلاج نہیں ۔
Post a Comment