''ثنا خوان تقدیس مغرب کہاں ہے ؟......................بالے میاں خو ب ! ہمارے کانوں کو چھیدنے کے لیے صریرخامہ نوائے سروش ۔صفحہ پلٹو بوڑھے بلوچ کی نصیحت بھی کہیں لکھی ہوگی۔اس میں سے کچھ سنا ؤ، یہ سر زمین سے محبت کا فسانہ ہے ،ھڈیاں خاک ہوئیں 'خاک نعرہ زن ہے .................کفن یا وطن ۔''


قنلدر نے عورت کا موضوع چھیڑا ہے: ''یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عور ت کو منصب خالقی سے بیک جنبش قلم ہٹاکر تخلیق کا حقیر درجہ دو۔لفظ الجھا دیتے ہیں خالق ، تخلیق ، مخلوق ۔لیکن ہم کیوں اُلجھیں یہ بجھارت نہیں سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے سلجھی ہوئی بات ہے ۔یہ اشرف المخلوقات ہے خالق بھی مخلوق بھی ۔

عورت کو جنس بناکر بے لبا س کردویہ دور جدید کا سوداگری دودمان

(Corporate Culture )

آفاقی اُصولوں کا بھی سودا کرتے ہیں ۔تقدس قلم ، حرمت الفاظ ......خوب تماشاہے۔ صحافت کے نام پر غلام قوم کے قلمی مزدوروں کو چوکور ڈبے میں بند کر کے کٹھ پتلی بنا دیا جاتاہے _______بے ڈور کے ہلنے والے گوشت پوست کے اچھے خاصے انسان 'گمنام بے چہرہ لوگوں کے جنبش ابر وپر حرکت کرتے ہیں ۔بڑے بڑے نام ڈاکٹر ، فاضل ، عالم۔ بڑے بڑے دعوے سچ ، علم، روشنی ، اکیڈمی ، نکتہ آغاز،میرے مطابق ، قلم کمان ، حسب حال ، بزان __________سب ناٹک سب کردار مفلوج ذہن کے کٹھ پتلی نما گوشت پوست کے اداکار ۔جن سے کہا جاتاہے کہ کان سے سنو نہیں سمجھو۔ان کے ذہن برتن ہیں جنہیں انہی دونوں چھیدوں سے بھرا جاتاہے جب یہ بھر جاتے ہیں توان کو ہر ایک کا ذہن خالی برتن معلوم ہو تاہے جنہیں یہ اپنی بے تکی باتوں سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کوئی ان کو سننے سے انکار کرئے تو ان کو غصہ آتا ہے اور یہ خو د کو خاک سمجھ کر نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں ________آزادی صحافت زندہ باد۔''

قلندر وجد میں آگئے اور بات عورت سے شروع ہوکر حدِ ادب پار کرگئی۔میں نے موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے مداخلت کی :''مرشد !عورت کا معاشرے میں ایک خاص مقام اور احترام ہے ہمیں بہر حال اس کی پاسداری کی تاکید ہے۔آپ ہمیں روایت شکنی کے لیے شہہ دے رہے ہیں ؟''

''روایت شکنی !کونسی روایت ؟زرتشت کی ؟..... مسیح کی ؟ .......گوتم بدھ؟ .........پیغمبر اسلام ؟............منصور کے اناالحق کی روایت یاپھر راج نکیبو اور ان کے بالوھان ( پروانوں ) کی روایت ؟....یہ سبھی تو روایت شکنی ہیں اور روایت بھی ۔ جی چاہتا ہے کہ تقد س 'احترام ، اعتبار اور عظیم جیسے الفاظ خزینہ الفاظ سے نکال دوں یہ سب بالادستوں کی فرمائش پر تراشے گئے الفاظ ہیں ۔علم اور سچائی نے انہی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور خو د انہی کا قید ی بن کر بالادست سے بھی زیادہ پرجوش ردعمل کا اظہار کررہے ہیں __________یہ لاش گری ہے یہ سیاسی نواب کی لاش ہے اس پر خوب سیاست کرؤ یہ دوسری لاش چہرہ ہوتے ہوئے بھی بے چہرہ ہے ہاں یہ بھاگا کی لاش ہے اسے بھول جاؤ۔ شہادت صرف سیاسی نوابوں کی ہوتی ہے باقی سب پیادے ہیں مہرے ہیں .........یہ بچہ ، یہ بوڑھا ، یہ عورت ، یہ مرد کس نے کیے ہیں یہ طبقاتی وجنسی تفریق ؟کس تہذیب وتمدن کی روایات کہاں کے اقتدار ؟جنگ کی آگ نے سب کو نگل لیاہے ۔سب چہرے نقوش کھوچکے ہیں ۔گوشت پوست کی کٹھ پتلیوں کے کان کے چھید وں میں زرینہ مری کی چیخ کا داخلہ منع ہے ۔نہ گلناز ، مھناز، شھنا ز،یاسمین، ازگل اور ........................سے حق زیست چھیننے والوں سے پوچھنے کی انہیں جسارت ہوتی ہے ۔ان کا نعرہ کالے کپڑے پر لکھ کر ان کے چہرے پر ڈال دو ____________آزادی صحافت زندہ باد۔قومی مفادات کے محافظ ،سچائی کے علمبردار۔

قومی مفادات ؟پاکستانی عدالت کے لب کھلے جواب مرگلہ کے پہاڑ وں نے دیا ۔شرمسار عدالت کاقاضی سوچتا کچھ لکھتا کچھ ہے ''جرم ضعیفی کی سزاء موت ''۔سوال قومی مفادت جواب فوجی مفادات ۔عدالت مطمئن ہوگئے۔ چوکور ڈبے کا فتو یٰ جاری کرتے ہیں کہ فلاں دہشت گرد ، فلاں مجاہد ، فلاں ہلاک ، فلاں جاں بحق ، فلاں شہید ____________اے غلامو !تمہاری خواہش اور راحت کے لیے آقا سوچے گا !کبھی رہی ہے یہ روایت کہ وہ تمہیں اپنا گداز بستر اور مرغن غذائیں بعوض وفاداری پیش کرئے ؟ آج تمہاری چیخ وپکار ان کے کان کے چھیدوں میں گھسنے کی جسارت نہیں کرتیں تم ان کے اقدار وتہذیب کا اپنے دل میں داخلہ منع کردو۔تمہارے گوشت پوست کا جسم شاید پتھر ہوجائے یا پھر تمہارا پتھردل دھڑکنے لگے ۔تاج اُچھلیں گے ، تخت گریں گے ، دل کودھڑکنے دو، تہذیب وتمدن ، عظیم ، انسانیت وتقدس ..........ان سراب جیسے الفاظو ں کے حصار سے نکل کر اپنی سوچ کو اُونچائی سے نیچے کی طرف بہنے دو " سراب " جیسے الفاظ کی رکاوٹ کے بغیر ۔پھر خود سے پوچھو''عورت کا مقام کیا ہے ؟''جو جوا ب تمہاری سوچ کومطمئن کرئے وہی سچ ہے مگرصرف تمہارے لیے اسے دوسرو ں پر مسلط کرنے کی کوشش تمہیں طیش دلاسکتا ہے ۔اس کوشش سے تمہاری سوچ کا پارہ چڑھ جائے گا اور عورت پھرسے تمہارے الفاظ کی باندی بن جائے گی __________''

''نہیں ................''یہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی بوڑھی عورت کی آوازتھی جس نے قلندر کی تقریر کا سحر توڑ دیاجیسے خاموشی سے بہنے والے دریا میں کوئی پہاڑی تودہ گرجائے ۔اُن کی دھیمی آواز بھی بلند معلوم ہوئی :''تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ہمیں اپنے الفاظ کی جادوگری سے گمراہ کرنا چاہ رہے ہو ۔میرے چہرے کو دیکھوباسٹھ سالوں سے اس پر تیزاب اُنڈیلا جارہاہے ۔میرا چہرہ مسخ ہواہے لیکن میری شناخت باقی ہے ۔اب تم عورت کی شناخت پر اپنے تیزابی الفاظ کی بارش کر کے اسے مسخ کرنا چاہ رہے ہو ۔تم جھوٹے ہو میں نے زریؔ کا کر ب تمہارے چہرے پر پڑھا ہے جو تمہاری منافقت کی نشانی ہے ۔دوسرے خیالات والفاظ تمہارے سپاٹ چہرے کو شکن آلود نہیں کرتے لیکن اس عورت کا نام تمہاری رنگت بدل دیتاہے شاید یہی احساس عورت کا مقام بھی ہے۔میں تمہاری ماں ھزار سالوں سے تمہاری پرورش کر کے تمہیں نام ونشان دینے والی ماں اس مقام کا تعین کرتی ہو ں تم الفاظ کا منتر پڑھ کراس مقام کو بدلنا چاہتے ہو؟ ..................''

پہلی مرتبہ میں نے کسی کے منہ سے قلندر کے لیے''جھوٹا ''لفظ سنا ہم سب دم بخود رہ گئے ۔

''اے مرشدِ مرشدان ، اے پیر فلک !ہماری بوڑھی ماں کی سوچ بدل دو!...................''قلندر نے نعرہ مستانہ بلندکیا اور آنکھیں بند کرکے تمبورہ بجانے لگا۔

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.