جمعہ کے اخباارت میں بی این پی کے قائمقام صدر واجہ جہانزیب جمالدینی کا بیان پڑھا ۔جس میں حسب روایت واجہ جمالدینی نے کئی مبہم باتیں کی ہیں جن پر اعتراض کیاجاسکتا ہے لیکن مجھے جس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی وہ اُن کی طر ف سے بی این ایم کے موقف کی تعریف ہے ۔بی این ایم نے بی این پی کے حوالے سے ہمیشہ نسبتاًدیگر پارلیمانی جماعتوں کے نرم رویہ اختیار کیے رکھاہے جس کی کئی ٹھوس وجوہات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود بی این پی کی قیادت ہمیشہ بی این ایم او ر خاص طور پر شہید واجہ غلام محمد کو اپنا حریف سمجھتے تھے ۔بی این ایم کے خلاف پروپیگنڈہ ہو یا ان کے قیادت کی کردار کشی بی این پی میں شامل چند عناصر اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں ۔بی این پی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے لوگوں سے یہاں تک کہا گیاکہ'' غلام محمد کی پارٹی میں شامل ہونے سے بہتر ہے کہ براہ راست ایجنسیوں کے پے رول پر کام کیا جائے ۔''قلات گرینڈ جرگہ میں بی ایس او کے نوجوانوں کی نعرہ بازی سے زک ہوکر اختر جان کی شہید واجہ کی طرف شہادت کی انگلی کا اشارہ کر کے آپ کو خطرناک نتائج کی دھمکی دینے کاواقعہ آپ کے ساتھیوں کے ذہن میں ایک انمٹ زخم کے نشان کی طرح باقی ہے ۔لیکن باوجود اس کے جب بی این ایف کا اتحاد قائم ہوا شہید واجہ نے بحیثیت بی این ایف کے پہلے آرگنائزر پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح طور پر بی این پی کو نیشنل پارٹی ، عوامی ودیگر نام نہاد پارلیمانی جماعتوں سے بہتر سمجھ کراُ س کے لیے خاص کا لفظ استعمال کیا ۔آپ کے الفاظ تھے کہ '' تین شرائط بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد ، پاکستانی پارلیمنٹ سے مکمل علیحدگی اور بلوچ سر مچاروں کی حمایت پر اتفاق کرنے کی صورت تمام قوم دوست جماعتوں'' خاص طور پر بی این پی '' سے اتحاد کرنے کو تیار ہیں ۔'' آپ کی شہادت کے بعد اس وقت اختر جان کے متنازعہ دورہ مکران کے دوران ان کے جلسہ جلوسوں میں اکا دکاناخوشگوار واقعات بھی ہوچکے تھے اور بی این ایف میں شامل تنظیموں کے کچھ دوست بی این پی کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنائے ہوئے تھے ۔ بی این ایم کے قائمقام صدر عصاظفر نے بحیثیت سیکریٹری جنرل بی این ایف شہید واجہ کے الفاظ کو لفظ بہ لفظ دہرایا ۔وا جہ عصا کے اس بیان پر کچھ دوست ناراض بھی ہوئے ۔چوں کہ یہی بی این ایف کے قیام مقصد ہے کہ بلوچ سیاسی جماعتوں کو کم ازکم تین نکات پر متحد کیا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ بلاوجہ اختلافات پیدا نہ کیے جائیں اسی بنیاد پر واجہ عصا ظفر کے موقف کو پذیرائی حاصل ہوئی۔


بی این ایم کے بی این پی کی طرف ( قومی مفادات کے شرائط پر) مشروط اتحاد کے لیے اس جھکاؤ کے باوجود آپ کی شہادت کے بعدبھی بی این پی حسب معمول اپنے سیاسی موقوف کے خلاف بلوچ عوام کی ناراضگی کو بی این ایم کی سازش سمجھتی رہی ۔جس طرح کوئٹہ واقعہ کے ذمہ دارشہید واجہ کو قرار دے کر آپ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا ۔بی این پی کی طلبا ء ونگ بی ایس او کی طرف سے انٹر نیٹ پر باقاعدہ لیٹر جاری کر کے شہید واجہ کو ریاستی ایجنٹ قرار دیاگیا جس کی کاپیاں آج بھی محفوظ ہیں ۔اسی طرح جو کچھ تربت جلسہ عام میں ہوا اس کی ذمہ داری واجہ عصاظفر پر ڈالی گئی حالانکہ 2مئی کو بل نگور کے جلسہ عام کے موقع پر پارٹی کارکنان کوواجہ عصاظفر نے سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ وہ بی این پی کے جلسہ گاہ میں نہ جائیں تاکہ کسی قسم کی ممکنہ بدمزگی کی صورت بی این ایم پر الزام نہ آئے ۔کیوں کہ ہمیں خدشہ تھا کہ بی این پی میں شامل کچھ عناصراس جذباتی ماحول سے فائدہ اٹھا کر اس طرح کے واقعات کا موقع فراہم کرکے بی این ایم کے خلاف لاٹھی ڈنڈے کی سیاست شروع کرنے کاجواز پیدا کرنا چاہتے ہیں اوراپنے ہی پیداکردہ بد مزگی کے ردعمل میں( حالانکہ جس طرح کوئٹہ اور گوادر میں بی این پی کے جلسہ عام کو بد مزگی سے بچانے کے لیے بی این ایم کے ذمہ داران نے اہم کردار اداکیا تھا تربت میں بھی انہوں نے مشتعل لوگوں کو قابو کیے رکھا ) بی این پی نے جس طرح وہ ظاہر کرتی ہے اس کے متضاد رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے پختگی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ اسی کے جواب میں واجہ عصاکے خضدار کے مجوزہ جلسہ پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی جس کے بارے میں پیشگی اطلاع ملنے پر بی این ایم نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے جلسہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔

ان واقعات کا یہاں ذکر کرنے سے یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں بی این پی کے خلاف آزادی پسندوں ک
ے مخاصمانہ رویے کا جواز پید اکرنا چاہتا ہوں بلکہ اس کامقصد بی این پی کے قیادت کی اس بات کا جواب دینا ہے جو وہ اکثر اپنے کارکنان کے سامنے کرتی ہے کہ ''ان کا رویہ ( ا ن سے مراد بی این ایف میں شامل جماعتیں لیکن بی این پی کے ان سے مراد زیادہ تر بی این ایم ہے ) ہمارے ساتھ درست نہیں یہ ہمیں اپنے اتحاد میں شامل کرنا نہیں چاہتے ۔''خود اختر جان نے گوادر جلسہ عام میں یہی تاثر دیا تھاکہ بی این ایف والے اُن کی شخصیت کے خلاف ہیں ۔اُنہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا تھاکہ'' ہمیں دروازے سے ہی آواز دی جاتی ہے اپنے ساتھ بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دیاجاتا ۔'' یہ باتیں واجہ مینگل کی شخصیت کے سحر میں گرفتار کارکنان کے لیے یقیناًموثر ہوسکتی ہیں لیکن سمجھدار سیاسی کارکنان کو متاثر نہیں کرسکتیں اس لیے توبی این پی کے جوکارکن سیاسی مزاج کے تھے وہ بی این پی کے سیشن تک انتظار کے بعد اُن کا ساتھ چھوڑ کر بی این ایم میں شامل ہوگئے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ بی این پی جن خدشات اور تحفظات کا شکار ہے وہ کھل کر عوام کے سامنے ان کا اظہار نہیں کرپارہی ۔یہ تاثر کہ بی این ایف کے اتحاد میں اُن کی شمولیت پر دیگر جماعتوں کو اعتراض ہے سراسر غلط ہے ۔البتہ بی این پی'بی این ایف کے اتحاد کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی کئی بار بی این ایم پر اعتراض اٹھاچکی ہے ۔بی آرپی ذرائع کے مطابق ایجنسیوں نے جن لوگوں کو اغواء کر کے غائب کیا ہے اُن کے بازیابی کے حوالے سے بی آرپی اور بی این پی کا جس شرط پر مشترکہ پروگرامات کرنے پر اتفاق ہو اتھا وہ بی این پی کی طرف سے عائد کردہ یہ شر ط تھی کہ ان پروگرامات میں بی این ایم کو شامل نہیں کیا جائے ۔لیکن بی این ایم کی لیڈر شپ اس کواپنے انا کا مسئلہ نہیں بنا نا چاہتی اور آج بھی اپنے اصولی موقف پر قائم ہے ۔جس کی بنیاد پر بی این ایم کا قیام عمل میں لایا گیاتھااور جو پارٹی پروگرام کا اساس ہے ''بلوچ نیشنل موومنٹ قومی آزادی کی بحالی کی خاطر بلوچ سر مچاروں کی مکمل تائید وحمایت کرتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد میں سر گرم عمل تمام بلوچ قوم دوست قوتوں کو بلوچ مسلح تحریک آزادی کے ساتھ مربوط وہم آہنگ بنانے اور ان کے ساتھ سیاسی اتحاد واشتراک عمل قائم کرنے کے لیے بھر پور جدوجہد کرئے گی ۔. بی این ایم ۔آئین دفعہ 6۔ذیلی دفعہ iv. اور ''بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان میں مذہبی تعصب ، فرقہ وارانہ دہشت گردی ، قبائلی ولسانی عدم رواداری ومنافرت کی بیخ کنی کرکے بلوچ سماج میں اجتماعیت ، بھائی چارگی اور قومی یکجہتی کے فروغ دینے کے لیے جدوجہد کرئے گی ۔ .بی این ایم آئین دفعہ 6۔ذیلی دفعہ viii
بی این ایم دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ اس بات کی دعویدار ہے کہ وہ ریڈیکل او رنظریاتی بنیادوں پر قومی آزاد ی کے لیے جہد کرئے گی ۔اس لیے اس پارٹی کے ذمہ دارن اور کارکنا ن کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کا رویہ دوسری جماعتوں او ر تنظیموں کے کارکنان کے رویے سے مختلف ہونا چاہئے ۔ذاتی پسند ونا پسند یا جذباتی روش کی تحریکوں میں قطعاًگنجائش نہیں ہوتی۔ ریڈیکل ہونے کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ معروضی حالات سے روگردانی کی جائے یا جذباتی نہ ہونے کا یہ مطلب لینا کہ جدوجہد کے سیدھے راستے کو چھوڑ ا جائے، غلط ہے ۔اگر بی این پی یہ سمجھتی ہے کہ بلوچستا ن کے بیس فیصد لوگ بھی انتہائی جدوجہد کے لیے آمادہ نہیں تو اس کاکیا مطلب ؟؟..........................اگر یہ بات غلط
ی سے بی این ایم کی قیادت کہے تو ہم اس کا یہی مطلب لیں گے کہ اپنی منزل کی طرف ہم نے جو سیدھا راستہ چنا ہے اسے پر گامزن رہتے ہوئے مزید محنت سے اپنے نظریات کے ابلاغ پر توجہ دینا چاہئے اور یہ بات اگر ان حالات میں کہ دشمن بلوچ طاقت سے خوفزدہ ہے ،دل کو پارہ پارہ کرنے والی بے شمار قربانیاں بھی ہیں لیکن کامیابیاں بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،اگریہ کہوں کہ یہ بات دشمن کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوگی تو شاید واجہ جمالدینی کو بر الگے لیکن میری رائے یہی ہے ...............اگر فلسطین میں روز دس لاشیں اُٹھ رہی ہیں تو کیابلوچستان میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ دی جائے ؟گزشتہ مہینے کے اخبارات ہی اُٹھا کر دیکھ لو ۔محبوب واڈیلہ ، بوھیر ، مقبو ل ،جلیل اور ملوک کو اغواء کر کے غائب کردیا گیا ۔کوئٹہ میں ایف سی کی جارحانہ کارروائیوں کے بعد سینکڑوں نوجوان لاپتہ ہیں ۔ ایک مینگل بلوچ بوڑھی خاتون کو کوئٹہ میں تشدد کرکے شہید کیا گیااور آصف اور مختار محاذجنگ میں شہید ہوئے ۔یہ سب گزشتہ ایک ہفتے کے وہ واقعات ہیں جنہیں میں ایک سیکنڈ میں ذہن کے پردے پر لا سکا ہو ں ورنہ گزشتہ ایک مہینے میں جوقیامت ڈھائی گئی ہے اُس کی فہرست کافی طویل ہے ۔اب اگر یہ بھی بیس فیصد نہیں بنتے تو پھر ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ حساب کتاب میں ہم کافی کمزو ر ہیں یا پھر ہم نے اس بلوچی بتل پر تکیہ کیا ہو اہے ''جنگاں سرانی تاوان ھساب نہ بنت ''جس میں یہ اضافہ میری طرف سے ہے ''راجی سوت ءُ نپ ھساب بنت ۔''

اب دوسری بات کی طرف آتے ہیں کہ بی این پی اکثر اس بات پر حیران ہوتی ہے کہ وہ زبردست قربانیاں دی رہی ہے لیکن پھر بھی اس پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔قربانیوں کوکسی حد تک ہمیں بھی کھلے د ل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلیم کرنا چاہئے کہ یقیناًبی این پی سے تعلق رکھنے والے کئی دوست ایسے ہیں جو خفیہ ٹارچر سیلوں میں بند ہیں ۔شہادتیں بھی ہوئی ہیں یا جو کچھ اختر جان کے ساتھ ریاستی سلو ک تھا یقیناًاگر وہ جام یوسف ' بھوتانی ' رئیسانی ' مگسی اور مالک کی طرح ہوتے تو ان کے ساتھ بھی بہتر رویہ اختیار کیا جاتا ۔بی این پی کا دعویٰ ہے کہ انہیں دوران حراست سست اثرزہر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ کافی علیل ہوچکے ہیں ۔ہم ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے لیکن یہ سوال اہم ہے کہ یہ قربانیاں کس لیے دی جارہی ہیں ؟ تسلیم کرتے ہیں کہ بات اب پوائنٹ آف نوریٹرن پر ہے ' کنکرٹ لسٹ سے آگے نکل چکی ہے لیکن کہاں تک پہنچی ہے کیا اس کی وضاحت ضرور ی نہیں ؟


میرے خیال میں بی این پی ، بی این ایم کی سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت سمجھ کر خود کو دھوکا د ی رہی ہے ۔بی این ایم کے اعلیٰ سطحی ( زونل سطح پر اکا دکا جو بیانات جاری ہوتے ہیں اُن سے صرف نظر)کوئی ایسا بیان ریکارڈ میں نہیں جس میں کبھی سردار مینگل کے ذاتی معاملات کو زیر بحث لایا گیا ہویا پھر اختر جان کے اُٹھنے بیٹھنے اور پہناؤ پر اعتراض کیا گیا ہو ۔ہاں البتہ غیر پارلیمانی سیاست کے حوالے سے بی این پی جس گومگو کا شکار ہے وہ پوزیشن بی این ایم کی نہیں ہے ۔بی این ایم واضح طور پر پاکستان کی پارلیمنٹ ک
و مسترد کرتی ہے ۔جس کے جواب بھی بی این پی بجائے اس کو سمجھنے کی جو تاویلیں پیش کرتی ہے وہ اس کو مزید ابہام کا شکار بنارہی ہیں کہ جمہوریت وپارلیمنٹ یہ سب جدید دور کے تقاضے ' دنیا کی ضرورتیں ہیں وغیر ہ لیکن اس بات کو فراموش کرتی ہے کہ بی این ایم بھی جمہوری جماعت ہے اور پالیمانی طرز سیاست پر یقین رکھتی ہے لیکن پاکستان کی جمہوریت اور پارلیمنٹ کو قابض کی پارلیمنٹ سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بننے کو قومی غداری سے تعبیر کرتی ہے ۔''بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچستان پر قابض ریاست کی مسلط کردہ سیاسی ، پارلیمانی ، انتظامی اور استعماری ڈھانچے کا حصہ نہیں بنے گی ۔ بی این ایم آئین ۔دفعہ 6۔ذیلی دفعہ .آگے جمہوریت کا تذکرہ ہے ''بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچ قوم کی قومی ، سیاسی ، معاشی ، تعلیمی وثقافتی ترقی کے لیے بلوچستان میں سماجی انصاف ، جمہوریت وترقی پر مبنی سیاسی وسماجی ڈھانچہ تشکیل دینے کی جدوجہد کرئے گی بی این ایم آئین ۔دفعہ 6۔ذیلی دفعہ.

یعنی بی این پی کا سب سے بڑ امسئلہ پارلیمان کے حوالے سے گومگو کی کیفیت میں ہونا ہے. ہم پارلیمنٹ کا حصہ نہیں لیکن پارلیمانی جدوجہد سے انکاری نہیں

تیسری اور حسب حال بات گرینڈ الائنس کی ہے گرینڈ الائنس کا ذکر آتے ہی سرداروں کا فلاپ شویا د آجاتاہے جسے گرینڈ قومی جرگہ کہا گیاتھا جس کے انعقاد میں اخترجان کے کاوشوں کا اکثر ذکر کیاجاتاہے ۔ نام نہاد قوم دوست جماعتوں کے درمیان بے مقصد غیر ضروری
بے بنیاد انضمام کی باتیں بلوچ سیاسی روایت کا حصہ رہی ہیں جس پر شہید واجہ کے سیاسی ہم نواؤں نے یہ کہہ کر فل اسٹاف لگا دیا کہ ''ایک پارٹی کی نہیں ایک ایجنڈے پر اتفا ق کی ضرورت ہے ''چیزوں کو گرینڈ جیسی نام دینے سے اُن کی عظمت نہیں بڑھتی اگر ایسا ہوتاتو پھر رئیسانی اور مگسی گرینڈ جرگہ کے گرینڈ سپریم کونسل کے گرینڈ ممبرز ہونے کی حیثیت سے مشر ف سے بالمشافہ نہ ہوتے جن کے ہاتھ شہید اکبر کے خون سے رنگے ہیں ۔بقول شہید بالاچ ''جن کی منزل الگ ہوتی ہیں اُنہیں ایک بس میں سوار کرنا دانشمندی نہیں ''ا ب جس گرینڈ جرگہ میں مگسی رئیسانی نما سردار ہوں اس کا انجام تو بالآخر یہی ہونا تھا جو سب کے سامنے ہے ۔اب ان حالا ت میں کہ قومی آزادی کے ایجنڈے پر متفق عناصر یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں ''اتحاد اتحاد ''کا رٹ لگا کر لوگوں کو نفسیاتی طور پر اس اُلجھن میں رکھنا کہ کامیابی کے لیے اتحاد ضروری ہے جوکہ موجود نہیں ابہام پید اکرنے کے مترادف ہے ۔پھر جس گرینڈ الائنس کا ذکر کیا جارہاہے اس کو بھی واضح نہیں کیا گیاہے کہ وہ نیشنل پارٹی ، بی این پی عوامی ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہورہاہے( جس طرح گوادر میں ان کا آپس میں بعض معاملات پر ایکتا ہے )یا بی این ایم اور بی آرپی کے ساتھ یا پھر جس طرح ہماری ڈکشنری ( اکسفورڈ ڈکشنری ) کی تعریف کے مطابق ''قومی آزادی کی جدوجہدسے انکار کرنے والی جماعتیں نیشنلسٹ نہیں ''بی این پی کی ڈکشنری میں بی این ایم اور بی آرپی قوم دوستی کی معیار پر پورا نہیں اُترتیں اس لیے جس قوم دوستوں کے درمیان جس گرینڈ الائنس کی کچھڑی پکائی جارہی ہے اُس میں کم ازکم بی این ایم کے حوالے سے میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسے شامل نہیں رکھا گیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہاں بھی بی این ایم نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے دوٹوک موقف اختیا ر کیا ہے کہ اگر بی این ایف کے نکات پر گرینڈ الائنس کی بات کی جارہی ہے تو اس کی ضرور ت نہیں کیوں کہ پہلے سے ہی الائنس موجود ہے اگر ان نکات سے ہٹ کر کسی معاملے پر اتحاد کی تیاریاں ہیں تو اس میں بی این ایم کی شمولیت ممکن نہیں ۔اس پر بی این ایم کی بات زیادہ مضبو ط ہے کہ اس نے اتحا د کی دعوت دینے میں پہل کی ہے اور بار بار اس بات کو دہراتا جارہاہے کہ وہ ''بی این پی کے ساتھ قومی آزادی کے ایجنڈے پر اتفاق کی صورت اتحا د کے لیے تیا ر ہے ۔''یہاں یہ دلچسپ صورتحال کا ذکر بھی ضرور ی ہے کہ جب شہید اکبر نے سنگل پارٹی کی بات کی تھی توبی این پی نے کہا تھا کہ پہلے وہ نکات واضح ہونی چاہئیں جس کی بنیادراتحاد ہونے جارہاہے بعدازاں جب بی این ایف قائم ہوا تو بی این پی نے اس کے برعکس موقف اپنا یا کہ پہلے اتحاد کے لیے شرائط طے کرنے ضروری ہیں ۔

اس مضمون کا خلاصہ ان مندرجات کے ساتھ کہ بی این پی اگر ایماندارانہ طور پر بلوچ قومی تحریک میں غیر متنازعہ کردار اداکرنا چاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ابہام سے نکل آئے ۔اگر وہ سمجھتی ہے کہ بی این پی ایک مضبوط جماعت ہے تو اپنے موقف کے مطابق بلا جھجک اپنی سیاست آگے بڑھائے لیکن اس شر ط کے ساتھ نہیں کہ اُس کے خلاف کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوگی ہاں البتہ ذاتیات پر کیچڑاُچھالنا غلط عمل ہے جس سے سب کو احتراز کرنا چاہئے لیکن سیاسی تنقید سے منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں کو سیاست کرنے ہی نہیں دیاجائے یا پھر بی این پی کا آڑلے کر اگر کوئی کسی دوسری جماعت کے سیاسی کارکنان کے خلاف ایسی کارروائیاں کر ئے جسے وہ قومی غداری سے تعبیر کرتے ہیں اورا س کو اپنا قبائلی وسیاسی حق سمجھا جائے تو پھر بی این پی کی حیثیت بلوچستان میں بی این پی ( عوامی ) سے بھی کمتر ہوگی ۔اگر اس کے برعکس بی این پی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد پر ایمان رکھتی ہے تو حالات کا تقاضاہے کہ وہ اپنی قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچائے بقول شہید سدو ''دشمن کسی کو معاف نہیں کرئے گا ''۔یقیناًجو راستہ بی این ایم اور بی این ایف کے دیگر اتحاد ی جماعتوں کا ہے وہ انتہائی کھٹن ہے۔ اس میں کشتیاں جلا کر آنا پڑتا ہے ۔بی این پی کو بی این ایم کی طرح اس بات کا بروقت ادراک کرنا ہوگا کہ ''اب حق خود اردایت ایک زائد المعیاد اصطلاح بن چکی ہے'' اور جس طرح بی این ایم
نے دوہی سال ہوئے ہیں اسے اپنے آئین سے اسے نکال باہر کیا ہے بی این پی بھی ہمت کر کے اس سے جان چھڑا لے ۔بی این پی رئیسانی ، مگسی اور زردار ی کی حالت زاردیکھ کر اپنے الیکشن میں بائیکاٹ کے دوراندیشانہ فیصلے پر فخر کرتے ہوئے اسے جوازبناکر پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ دے ۔پاکستان میں آج کی جمہوریت اور آج کی عدلیہ سے زیادہ جمہوریت کے لیے موافق حالات اورپاکستانی نظام سیاست میں بہتری کی توقع رکھنا حبث ہے۔ اب کہ فو ج دباؤ کے باعث سیاسی معاملات میں برائے راست ملوث ہونے سے گریزاں ہے بلوچستان حکومت کی حیثیت بشمول زرداری حکومت کی زیاد ہ قابل رحم ہے ایک ایف سی اور دوسرا اِیم کیوایم جیسی فاشسٹ جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل اور فوجی بوٹوں کی آوازسے خوف زدہ ہے ۔اب بھی بلوچوں کے اغواء کیے جانے کاسلسلہ جاری ہے کیا بی این پی یہی آس لگائی ہوئی ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ بن کر یاضلعوں میں اپنے ناظمین لگاکر بلوچ عوام کی ہمدردی حاصل کرئے گی ۔اس عمل سے بلوچ عوام اور بی این پی کے درمیان دوریاں اور ان کے قابض سر کار سے قربت میں اضافہ ہو گا ۔اگر اختر جان قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ بلا شبہ اپنے تحفظات ، خدشات، پارٹی بیرک اور پارٹی ڈھانچہ کو برقرار رکھ کر چاہئے تجرباتی بنیادوں پرہی صحیح بی این ایف کے شرائط پر اتحاد کر کے اس میں شمولیت اختیار کرئے مجھے یقین ہے کہ اُن کے چند قد م ساتھ چلنے سے سب دوریاں ختم ہوں گی سب گلے شکوے مٹ جائیں گے ۔ہم بھول جائیں کہ سردار صاحب نے شہید واجہ کے بارے میں کیا کہا تھا سردار صاحب بھی اپنے شکوے بھول جائیں ۔

بی این ایف اور خاص طور پر بی این ایم کے ذمہ داران اور جھدکاران کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہید واجہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو پیچے کی طرف ہرگز دھکیلنے کی کوشش نہ کریں نہ ہی خود کو کمزور سمجھ کر اس وہم کا شکار ہوں کہ بی این پی کے اُن کے صفوں میں گھس کر اُن کو کمزور کردے گی ۔جس طرح شہید واجہ نے بی این پی ہی کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا '' آپ ایک قدم آگے آئیں ہم دس قدم آگے بڑھ کر استقبال کر یں گے ۔''اور بی این ایم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہی کرئے گی ۔

***
14-05-2010
نوٹ :مندرجہ بالا تحریر بی این ایم کی پالیسیوں کا ترجمان ہے جو کہ بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات کی حِیثیت سے لکھی گئی ہے۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.