بلا ٓخر اسرائیل نے وہی کیا جو اس جیسی غیر فطری ریاستوں کا طرہ امتیاز رہاہے یعنی گزشتہ دن 31مئی 2010 کوغزہ کے محصورین کے لیے امداد ی سامان لے جانے والے آٹھ کشتیوں پر مشتمل بحری بیڑے فریڈم فلوٹیلا پر غزہ کی بندرگاہ سے 65کلومیٹر دور بین الاقوامی سمندری حدود میں حملہ کردیا ۔اسرائیل نے غزہ میں حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے علاقے کی اقتصادی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ہر ہفتے پندرہ ہزار ٹن امداد غزہ میں لے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ وہاں کی ضرورت کا چوتھا ئی حصہ بھی نہیں۔اسرائیل کی اس جارحانہ کارروائی کے نتیجے میں مختلف میڈیا ذرائع کے مطابق بیس سے زائد امدادی کارکنان جاں بحق اور ساٹھ زخمی ہوگئے ہیں ۔اسرائیل نے امدادی بیڑے اور امدادی کارکنان کو تحویل میں لے رکھا ہے ۔اس امدادی بیڑے میں صرف اسلامی ممالک کے افراد نہیں بلکہ یونان ، ترکی ،اسپین ، سویڈن سمیت کئی دیگر یورپی ممالک کے امدادی کارکنان بھی شامل ہیں ۔اتنے ممالک کے افراد کی اس بیڑے میں جو کسی بھی جارحیت کی نیت سے غزہ کی طرف نہیں جارہاتھا بلکہ محض انسانی بنیادوں پر دوائیاں اور دیگر امدادی سامان لے کر غزہ کی طرف ایک پرامن انداز میں دنیا کو امن کاپیغام دیتے ہوئے بڑھ رہاتھا کہ اسرائیلی فوج نے امن کی اس فاختہ کے منہ سے شاخ زیتون چھین کر اسے خون میں نہلا دیا۔اس اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکہ کے شہر واشنگٹن میں بھی شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے شکار لاکھوں افراد تک امدادی قافلے فریڈم فلوٹیلا کو متاثرین تک پہنچنے کی اجازت دی جائے۔ مظاہرین نے متعدد پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر غزہ کی تعمیر نو، فریڈم فلوٹیلا کو غزہ جانے کی اجازت، امریکی عوام کے پیسوں کو اسرائیلی مدد میں استعمال نہ کرنے اور اسرائیل کو جنگی جرائم سے رکوانے کے مطالبات درج تھے۔

میں اس واقعے کو عرب ‘ اسرائیل تنازعہ یا یہودی مسلمان کےنکتہ نظر سے دیکھنے کا قائل نہیں ۔نہ ہی میں یہ سمجھتاہوں غزہ کی پٹی دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے جہاں انسان زمین پر قبضے کے لیے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں ۔نہ ہی میرا دل پاکستانی میڈیا کی طرح مشینی انداز میں کا م کرتا ہے کہ غزہ کی پٹی پر ہونے والی جارحیت کو محسوس کرئے لیکن اس سے صرف ایک دن قبل کوئٹہ میں اپنے مجاہد نوجوانوں کے ہاتھوں نہتے احتجاجی بلوچ سیاسی کارکنان کے قتل عام پر اس میں ٹھیس نہ اُٹھتی ہو یا خدا نہ کرئے ان سطور کے چھپنے تک مکران میں پاکستان آرمی کی جارحانہ خون ریزی کا خدشہ درست ثابت ہو ( جس کی اطلاعات کے مطابق مکمل تیاری کر لی گئی ہے ) تو بھی اسے کچھ نظر نہ آنے کا امکان ہے۔ہم کچھ عرصے سے یہ فراموش کرچکے تھے کہ دنیا میں اسرائیل وہ پہلی ریاست ہے جس کا قیام مذہب کے بنیاد پر عمل میں لایا گیاہے اور یہ چی مگوئیاں بھی اکثر ہوتی رہتی ہیں کہ پاکستان اسرائیل کے قیام کو جواز فراہم کرنے کے لیے بنا یا گیاہے جو کہ دنیا میں اسرائیل کے بعد دوسری ایسی ریاست ہے جو مذہب کو قومیتمنواکر حاصل کیا گیا (حاصل کرنا؟)۔دونوں ممالک کے نام نہاد اعلان آزادی کی تاریخ 14ہے یعنی14 مئی 1948کو اسرائیل اور 14اگست 1948کو پاکستان کی آزادی کا اعلان کیا گیا ۔دونوں کی آزادی اور اس کے تحفظ کی ابتدائی ذمہ داری تاج برطانہ نے اُٹھائی ( بلکہ اب بھی دونوں ممالک کے بعض معاملات پر برطانیہ غیر معمولی حساسیت کا مظاہرہ کرتاہے)ان میں ایک اور خطرناک مماثلت یہ ہے کہ دونوں ممالک نے حیرت انگیز طور پر اپنے قیام کے بعد بڑی جلدی ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی حالانکہ اپنے قیام سے لے کر اب تک نہ اسرائیل میں امن قائم ہوسکا ہے نہ پاکستان میں مستحکم حالات رہے ہیں ۔دونوں کی فوجی طاقت کی دنیا میں مثالیں دی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سوچتاکہ مذکورہ دونوں ممالک تریسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اس قابل نہیں کہ اپنے عوام کو پر سکون زندگی دے سکیں۔ پھر یہ فوجی طاقت کے پیچھے راز کیا ہے ؟ وہ کونسی صلاحیت تھی جس کے بل پر دونوں ریاستوں نے اس قدر عسکری طاقت حاصل کرلی کہ ناقابل تسخیر ہوکر دنیا کو بلیک میل کررہیہیں بظاہر دونوں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی ضد ریاستیں ہیں لیکن اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دونوں کی فوجی طاقت کا منبع ایک ہی ہے ۔


اسرائیل کے متعلق دنیا میں عام خیال یہ ہے کہ دنیا اس کے اشارے پر ناچتی ہے اورامریکہ جیساسپر پاﺅر ملک اس کی نازبرداری کرتا ہے ۔غزہ واقعہ پر تبصر ہ کرتے ہوئے عرب نیوز کے ایڈیٹر خالد المعینہ کے اسرائیل سے متعلق الفاظ تھے


Master of American Foreign policy

یعنی انہوں نے واضح الفاظ میں اسرائیل کو امریکہ کے خارجہ پالیسی کا تعین کرنے والاآقا قرار دیا ہے ۔یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ دنیا میں اظہار آزادی کی دعویدار وہ ممالک جو کہ مذہبی لوگوں کی دل آزاری کو بھی آزادی اظہار سمجھتے ہیں ۔ہولوکاسٹ سے انکار پر شدید برہم ہوجاتے ہیں اس سلسلے میں ہولوکاسٹ سے انکار کرنے

والے لکھاریوں کو جنہوں نے ہولوکاسٹ سے متعلق حقائق سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی تھی اور یہ شک ظاہر کیا تھا کہ یہودیوں کو اتنی بڑی تعداد میں ہرگز قتل نہیں کیا گیا تھا جتنا اسرائیل اور یہودیوں کا دعویٰ ہے کیوں کہ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداداس وقت جرمنی میں تھی ہی نہیں ____________اگر ہم ایک آنکھ بند کر کے دیکھیں یا نعرہ تکبیر کی سرور میں( یہی نعرہ لگاکر بلوچستان کے علاقے تربت میں بلوچ قوم دوستوں کے جلسہ عام پر فائرنگ کر کے الطاف بلوچ کو شہید کیا گیاتھا ۔ایف سی نے آسٹریلیا کی جیت کی خوشی منانے والے بولان میڈیکل کالج کے طلبا ءپر بھی یہی نعرہ لگاکر حملہ کیا) یہ بھول جائیں کہ دنیا قائم رہے گی تو تب ہی ہم اپنے عقائد پر عمل پیر اہوسکیں گے۔ اگر ہمیں دنیا میں خالق کائنات نے تباہی اور قتل وغارت گری کے لیے بھیجا ہے تو کیا یہ منطق تخلیق کائنات کے تصورکی نفی نہیں ؟ اگر ایسا ہے تو آج کی دنیا کااصل مسئلہ کیا ہے ۔وہ کونسے اسباب ہیں کہ دنیا خود اپنی تباہی کا سامان بہم پید اکررہی ہے ۔دنیامیں ہر طرف یہی منظر ہے کہ ایک روٹی کے ٹکڑے کےلیے ہزاروں ٹن بارود جلائے جارہے ہیں جن نوجوان اور طاقتور ہاتھوں کو تعمیر کے لیے تعمیر ی اوزار اُٹھانے چائیں وہ تباہی پھیلانے والے اسلحہ سے لیس دنیا کی تخریب کے لیے بے چین ہوئے جارہے ہیں ۔آﺅ دونوں آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں یہ کہا نی قوموں کے قومی حقوق اور قومی وجود سے انکار کی کہانی ہے جس نے بلآخر دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑ اکیا ہے اس کو تباہ کرنے کے لیے کسی جنونی کا ایک ماچس کی تیلی جلانا ہی کافی ہے یہ کہانی نصف صدی پہلے اس وقت سے شروع ہوتی ہے جہاں سے ہم اس کو سننا ہرگز پسند نہیں کریںگے ۔یہ یہودیوں کے دیار عرب سے دیس نکالا سے شروع ہونے والی کہانی ہےجس میں کئی نشیب وفراز دیکھنے کے بعدمظلوم اب ظالم کا روپ دھار چکا ہے ۔

دنیا فلوٹیلا سانحہ پر نہ صرف افسردہ بلکہ کئی ممالک اسرائیل کی اس حرکت پر کافی مشتعل ہیں حیرت انگیز طور پر سب سے سخت ردعمل ترکی کا سامنے آرہاہے جو اسلامی ممالک میںایک سیکولر ملک کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس کے ماضی قریب میں اسرائیل سے نہایت دوستانہ تعلقات رہے ہیں ۔اس واقعے کے ردعمل میں ترکی نے نہ صرف اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے روایتی انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا بلکہ اسرائیل کے ساتھ طے شدہ فوجی مشقوں کی منسوخی کا بھی اعلان کیاہے ۔ترکی ہی وہ واحد ملک ہے جو مستقبل میں اسرائیل کے لیے حقیقی معنوں میں مسئلہ پید اکر سکتا ہے ترکی کی درخواست پر یکم جون کو نیٹو کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جب کہ اوآئی سی (اسلامی سر براہی کانفرنس ) کے” نشستند ‘ گفتند ‘برخاستند “کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ۔اس خطے میں ایک اور ملک جو ہمیشہ اسرائیل کے خلاف زہر اُگلتا رہتا ہے کا یہاں ذکر نہ کرنا تشنگی پیدا کر ئے گا ۔جس طر ح پاکستان نے بھارت کو بہانہ بناکر ایٹم بم کے حصول کے لیے ”جغرافیای ضرورت“ کا نظریہ متعارف کرواکر پاکستانی علما ءسے اس کے لیے اسلامی بم کا فتویٰ جاری کروایا ( جس کی تائید مدتوں امریکہ بہادر کرتارہا ) ایران وہی ملک ہے جو ہمیشہ سے اسرائیل کو دھمکی دے کر فائدہ پہنچاتا رہاہے کہ وہ دنیاکو بتا سکے کہ اس کی بقا خطرے میں ہے یہ مذکورہ ریاست جو میرے نزدیک اسرائیل کے بعد دنیا کی دوسری بڑی غیر ذمہ دارریاست ثابت ہوسکتی ہے مستقبل قریب میں بھی سیاسی طور پر اسرائیل کے لیے معاونت کا کردار نبھاتی رہے گی۔

اس سانحے کو دنیا نہیں بھولے گی لیکن اس کی درستگی کے لیے اجلاس ‘ مذمتی بیانات اورانسانی حقوق کے اداروںکے شور غوغا سے کام نہیں چلنے والا دنیا کو اپنی غلطیوں کو سدھارنا اور ایسے علاقوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی جو غزہ پٹی بننے جارہے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غزہ پٹی جیسے خطے ہی اسرائیل جیسی ریاستیں جنم دیتی ہیں ۔فلو ٹیلا بیڑے کے ایک جہاز پر طلعت حسین نامی پاکستانی صحافی بھی سوار تھے جنہوں نے حال ہی بلوچ قومی تحریک اور بابامری ( بلوچ قوم دوست رہنماء) کے بارے میں زہر افشانی کی تھی ۔اپنے سینے پر تانے گئے بندوق کے سامنے اس کے کیا احساسات رہے ہوں گے‘ اپنے سامنے تڑپتے ہوئے دیکھ کر‘ اُن نہتے امدادی کارکنان کو جو دوسروں کی زندگیاں بچانے کے جنون میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اُس کے اسرائیل یا اُن فوجیوں کے متعلق کیا جذبات تھے؟؟__________ہم بھی تویہی کہتے آرہے ہیں کہ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے اپنے مارنے والے کو کوئی مسیحا نہیں کہتا کوئی اپنے وجود‘ اپنی شناخت سے محض دوسری کی ضد اور طاقت کے آگے دست بردار نہیں ہوتا ۔ا ب اس پر کوئی غور کرئے تو اسے بخوبی سمجھ میں آئے گا میں غزہ لکھتے لکھتے بلوچستان کیوں لکھ بیٹھا_____ جی میں طلعت کی طرح مشینی انسان نہیں ۔

٭٭٭٭٭

31-05-2010


0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.