29مارچ کے روزنامہ توار میں شائع ہونے والے مضمون کی خاص بات یہ ہے کہ اسے ڈاکٹر ناگمان نے لکھا ہے ؟ یااس سچ کو جامہ تحریر پہناناجو ہمدردان تحریک کے ذہنوں میں سنجیدہ خدشات کا باعث ہے ؟ یا جدید بلوچ قومی تحریک کے سیاسی محاذ کے بانی شہید واجہ ( غلام محمد ) کے بی این ایف سے متعلق وہ الفاظ جو بقول راقم اس کے پاس امانتاً محفوظ تھے ؟ جس نے مذکورہ مضمون پڑھا مندرجات کی سچائی ، افادیت اور طرز تحریر کی مجموعی پختگی پر اتفاق کیا ، تحریر میں کوئی ایسی بات نہیں کہ سخت اختلاف کیاجائے۔ایک ایسی تحریر جسے اجتماعی طور پر پڑھا گیا یعنی اس پر باہمی تبصروں اور تبادلہ خیال کے نتیجے میں مبہم باتوں کی گرہ کھولنے میں بھی آسانی کا اہتمام تھا ۔ مضمون میں بلوچ قومی تحریک کے سرکردہ رہنماؤ ں کے ساتھ میرا ذکر خیر مجھ جیسے طفلان مکتب کے لیے باعث حیرت بھی ہے اور سرشاری بھی ’’ ہم سے ہمارا ذکر اچھا جو اس محفل میں ہے ۔‘‘موضوع ایسا کہ میں اس پر واقعہ
بہ واقعہ تقریباً یہی کچھ لکھتا رہا ہوں انداز فکر میں تضاد محض یہ کہ ناچیز کسی کو ایموشنل بلیک میل کرنے کا قائل نہیں ۔ میرے نزدیک ’’ شٹ اَپ ‘‘ اور اس کے متبادل بدبودار الفاظ کا استعمال کرکے مخاطب کے ذہن کو بولنے سے پہلے ہی موضوع سے بھٹکا کر ’’ ذات ‘‘ اور’’ فرد ‘‘ کے پنجرے میں قید کرنا مکالمہ بازی میں سب سے بڑی دھاندلی ہے۔ اگر مجھے ذرا ساغصیلہ لہجہ اختیار کرنے کی اجاز ت ہو تو سن لیں ’’ کسی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والی شخصیت پر طنز کرنابد تہذیبی کی انتہاء اور معراج علم ’’ مکالمہ ‘‘ پر قاتلانہ حملہ ہے‘‘ ۔ شاعر حضرات کی ہجوگوئی کو اس دائرے سے باہر رکھیں کیوں کہ وہاں ’ فرد ‘‘ ہی موضوع ہے ۔

مگر روزنامہ توار کے اس مضمون سے متعلق اُٹھائے گئے مندرجہ بالا سوالات کے کیا جوابات ہونے چا ہئیں ؟پہلا آپشن بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ فرد اجتماعیت کی بنیاد رکھتا ہے ، معاشرے میں فرد کی اہمیت سے انکا ر نہیں ، اس لیے سپہ سالار اور سپاہی میں فرق میں بہ زبان شاعر ہی بھلا ’’ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز ۔ نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز ‘‘ ورنہ محمود نہ ہو تو ایاز کی کیا حیثیت ، بندہ نواز نہ ہو تو بندہ کہا ں جائے ؟۔ دوسرے آپشن کو کتابوں کے لکھے پر ایمان رکھنے والے بلا جھجک درست سمجھتے ہیں ۔ تیسرا آپشن دوسرے آپشن کی تشریح بھی ہے اور پہلے آپشن سے نتھی بھی ۔مگر ۔ مگر ۔ مگر ، شاید مجھ سا سادہ لوح کے لیے اگلا جملہ اس تحریر کا حلیہ ہی بگاڑ دے ’’ ڈاکٹر ناگمان بلوچ کے مطابق یہ اچھی تحریر انہوں نے نہیں لکھی ہے بلکہ کسے مہربان نے ااُن کا نام استعما ل کیا ہے ۔‘‘ انہوں نے فیس بک پر اس مضمون کے تعاقب میں لکھے گئے میرے مضمون پر رائے زنی کرتے ہوئے بلوچی میں مزید لکھا ہے کہ : ’’ ولک کجا ءُ کپگ کجا ۔ میں کہا ں اور شہید غلام محمد کی مشیری کہاں ؟ یار میرے اس مہربان دوست سے کہیں کہ ایسی اچھی تحریروں کو دوسروں کے نام کیوں کرتے ہو ؟‘‘


ڈاکٹر ناگمان کے اس انکشاف سے میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ، فیس بک پر نقاب پوش دانشوروں سے روز علیک سلیک رہتی ہے جو خود پردے میں رہ کر ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اُن کے جوابدہی کا حق تسلیم کرتے ہوئے تمام پردے چاک کردیں مگر روزنامہ توار میں لکھنے والے اس نقاب پوش نے تو کمال جرأ ت دکھایا ہے اپنی تحریر ڈاکٹرسے منسوب کرکے چھپوا دی اور ہم نادانوں کو مخمصے میں ڈال دیا ۔ اس اُلجھن سے نکلنے کے لیے میں نے ایک دوست سے مددلی : ’’ اب اس کی تصدیق کون کرئے گا کہ فیس بک کے ڈاکٹر اصلی ہیں ؟ ‘‘ انہوں نے محض اپنے وجدان کے بھروسے زور دیا کہ ’’ فیس بک والے ڈاکٹر ہی اصلی ہوں گے ۔‘‘ ہمارے فیس بک والے ڈاکٹر صاحب بھی ہکا بکا ہیں جب میں نے اُن سے پوچھا ’’ بھئی سنا ہے کہ آپ کا قلمی کلون بنا یا گیا ہے ؟‘‘ قلمی کلون کی ترکیب پر ڈاکٹر نے اپنی مسکراہٹ کو تحریری شکل دیتے ہوئے جواب دیا :’’ ایک دن خود پتا چل جائے گاکہ یہ تحریر کس نے لکھی ہے ۔‘‘ 


ڈاکٹر صاحب بجا فرماتے ہیں وہ ایک دن جب سب کے راز پاش ہوجائیں گے ضرور آئے گا ، جب سب نقاب پوش قلمی گوریلے اور فیس بک کے دانشور نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے اپنے کارنامے بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے، جب بھگوڑے بسمل کے نظم کا یہ جملہ بطور سند پیش کرکے ’’ من تتکگ آں تو گل کتہ ، من سنگرے بدل کتہ ‘‘ غازیان آزادی کا سرٹیفکٹ لینے آئیں گے۔ قلمی گوریلا بننا ایک پرانا طریقہ ہے جس پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا اس کے ٹھوس علمی ، سیاسی اور ادبی وجوہات ہیں تاکہ قاری الفاظ کی حرمت کو شخصیت کی ترازو میں تولنے کی بجائے الفاظ و افکا ر پر غور کریں۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ کچھ لکھاریوں نے اپنے روزمرہ کے معمولات کے تحفظ کی خاطر قلمی ناموں کا سہارہ لیا ۔ بلوچی زبان میں سیاسیات و سماجیات پر لکھنے والے اولین لکھاریوں میں سے ایک ’’ شئے رگام ‘‘ بھی ماضی کے کامیاب ’’ قلمی گوریلا ‘‘ تھے۔ آج وہ دن ہے کہ اسے سب جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی مگر کیا اب وہ زمانہ بھی آ گیا ہے کہ ہم ’’ قلمی گوریلا وں‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ قلمی کلونز ‘‘ کو بھی اجازت دیں کہ وہ کاغذی سرکس میں قلم کے سرکنڈے پراپنے اُچھل کود مظاہرہ کریں ؟ جس طرح ڈاکٹر ناگمان کا قلمی کلون بزعم خود دعوی کرتا ہے کہ’’ جب وہ لکھیں گے تو کوئی انکار کرنے ولا نہ ہوگا‘‘( صد شکراگر یہ الفاظ ڈاکٹر ناگمان کے قلم کے نہیں) مگراب جب کہ فیس بک کے ناگمان ، توار کے ناگمان کی تحریر کو اپنی تحریر ماننے سے انکاری ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ میں نے روزنامہ توار کو اپنی وضاحت بھی ارسال کی ہے۔‘‘ تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جس سچ کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو اسے کیوں کر پذیرائی دی جائے ؟ مندرجہ بالا سطور میں ہی عرض کیا تھا کہ موصوف قلمی کلون کا لکھا گیا توجہ نامہ قابل غور ہے مگر اب کہ سچ لکھنے والا ہی نام چور اور جھوٹا ہے تحریر کے مندرجات کی اہمیت رہ جاتی ہے ؟ نہیں بالکل نہیں ۔ قلمی گوریلاوں کی لکھی ہوئی تحریروں کی اہمیت اس لیے برقرار رہتی ہیں کہ وہ اس میدان میں اپنا ایک مخصوص شناختی کوڈ استعمال کرتے ہیں نہ کہ کسے جیتے جاگتے لکھاری کا نام ۔ جملہ لکھتے ہوئے یاد آیاکہ توار ہی کے صفحات پر میں نے شہید جاوید نصیر کے اصرار اور اہتمام پر سرگزشت بولان کے نام سے ہفتہ وارسیاسی ڈائری نما کالم لکھے تھے جن کے لیے قلمی نام بھی شہید نے چناتھا ۔ ’ ’ مِھراللہ مِھر ‘‘ بلوچی کے مسلسل لکھنے والے افسانہ نگار ہیں مگر یہ نام کی چوری اس لیے نہیں تھی کہ ہماری نیت اُن کی شہرت سے فائدہ اُٹھانا نہیں تھابلکہ شہید جاوید کو مہینوں بعد پتا چلا کہ مِھراللہ مِھر نام کے ایک دوسرے لکھاری بھی ہیں اور توار کے قارئین کے علم میں بھی یہ بات تھی کہ مِھراللہ مِھر قلمی نام ہے ۔ مگریہاں معاملہ اُلٹا ہے اگر فیس بک کے ڈاکٹر کی بات درست مانی جائے تو نہ صرف اس تحریر کے لکھاری نے ایک ہر دلعزیز اور قابل اعتبار شخصیت کا نام چوری کیا بلکہ چند من گھڑت واقعات بھی اُن سے منسوب کیے ہیں ، انداز تحریر میں بھی ان کی نقالی کی کامیاب کوشش کی گئی ہے تاکہ قارئین کو پختہ یقن ہوکہ وہ ڈاکٹر ناگمان کی ہی تحریر پڑھ رہے ہیں ۔


سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر کے اس مہربان دوست نے کیا سوچ کر یہ چال چلی ہے ۔ وہ ہم جیسے گھامڑوں کا امتحان لے رہے تھے جو ہمیشہ مکالمہ بازی کی تاک رہتے ہیں یا یہ اپنی تہی بلوچ قوم کی نفسیات کا مذاق اُرانے کی کوشش تھی؟ اگر انہوں نے یہ سوچ کر کہ لوگ نام دیکھ کر تحریر پڑھتے ہیں یہ احمقانہ حرکت کی ہے تو اس فطین کو ا س نکتے پر بھی سوچنا چاہئے تھا کہ ڈاکٹر ناگمان کو ایک دن میں سند کا درجہ حاصل نہیں ہوابلکہ انہوں نے یہ مقام اپنی ذاتی خوبیوں کے بناء پر حاصل کیاہے ۔ ڈاکٹر ناگمان کے قلمی کلون اگر اسی پیرائے میں اپنے نام سے بھی لکھیں یقین جانیں اس کی تحریروں کو ناگمان کے مقابلے میں کمتر درجہ نہیں دیا جائے گا یا پھر وہ شئے رگام کا راستہ بھی چن سکتے ہیں جنہوں نے اپنے قلم کے بل بوتے پر شئےرگام کے قلمی نام کو وہ عزت اور مقام بخشا کہ اب یار دوست اصلی نام کی بجائے شئے رگام کے نام سے اُن کاذکر کرتے ہیں ۔یہ دراصل ’’ شئے رگام ‘‘ کے خالق کا اپنے مقصد میں کامیابی ہے انہوں نے ’’ شئے رگام ‘‘ کی تخلیق بھی اس لیے کی تھی کہ وہ حقیقی زندگی کے بندشوں سے آزاد ہوکر لکھنا چاہتے تھے نہ کہ انہوں نے یہ راستہ دوسروں کی پگڑی اُچھالنے کے لیے اختیار کیا ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پشاور میں پیدا ہونے والے سید احمد شاہ بخاری اُردو ادب کے صاحب طرزانشاء نویس پطرس بخاری کا اصل نام ہے۔ پھر کیا کمال کی وجہ تسمیہ ،اسکول کے ہیڈ ماسٹر واٹکنز اُنہیں پیر کہا کرتے تھے انگریز کی ادائیگی میں شاہ صاحب کی سماعت کو ’’ پیر ‘‘ فرانسیسی کا لفظ لگا جس کا انگریزی ترجمہ ’’ پیٹر‘‘ اور یونانی پطرس ہے ، بلاشبہ قلمی نام اختیار کرنا بھی ایک فن ہے ۔ روزنامہ گراب میں بنام قطعہ میں جو قافیہ بندی کیا کرتا تھا اس کے لیے ’’ سید گل شاد‘‘ کا قلمی نام بظاہر عامیانہ مگر سید ۔ گل اور شاد کوعلیحدہ کریں تو بلوچی زبان کے تین نامور شعرا ء کے نام ہیں جس کے استعمال کی اجازت ہماری پہلی صحافتی سواری ’ ’ گراب ‘‘کی ٹیم کے ساتھ بحث کے بعد ملی ۔ مختصراً یہ کہ لکھنا محض وقت گزاری نہیں ایک مقدس کام ہے ،الفاظ کاغذپرچپک کربے جان سیاہی نہیں بنتے بلکہ ہر لفظ کسی مخصوص احساس کا ترجمان ہے ۔ قلمی گوریلا جو مرضی چاہئیں کوڈ نام اختیار کریں کسی کو اعتراض نہیں مگر کسی کا قلمی کلون بن جاناایسا ہی متنازعہ معاملہ ہے جیسے کسی جیتے جاگتے انسان کاکلون تیارکرنا ۔


’’لکھنے کے فن سے آشنا قلمکار کے قلم سے ٹپکے جوہراورعام لکھاری میں فرق یہی ہے کہ اول الذکر لکھنے سے پہلے اپنی تحریر کا ردعمل بھانپ لیتاہے ( میرے اُستاد اسماعیل بلوچ ) ‘‘ پھر اُنہیں اپنی تحریر سے جوحاصل کرنا ہوتا ہے کر لیتے ہیں ۔ یہ تحریر اگر ڈاکٹر ناگمان کی لکھی ہوئی ہوتی تویہی مطلب لیا جاتاکہ وہ اپنے نام کے سکہ کے ساتھ اس لب ولہجے کا استعمال کرکے فکری جمود میں ارتعاش پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ شکایت درست ہے کہ عام لکھاریوں کی بی این ایف پر تنقید کا وہ اثر نہیں ہوسکتا جو ناگمان پائے کےلکھاری جمع ہردلعزیز شخصیت کا ہوسکتا ہے ۔ صاحب قلم ہی جانتا ہے کہ اظہار سچ کاسلیقہ کیا ہے۔ مذکورہ مضمون میں کئی جملے ایسے ہیں جن کا اثر سچ کا گلا گھونٹ سکتے ہیں اپنے باتوں پر ’’ انکار کی گنجائش نہیں رہے گا ‘‘ کا دعوی دراصل متعلقہ موضوع پردوسروں کی رائے سننے سے انکار کے مترادف ہے ۔ایک ایک لفظ کو پڑھنے کے بعد جب میں نے اس موضوع پر لکھا تو اصلی ڈاکٹر ناگمان کو مخاطب کرنا فطری امرتھا کیوں کہ اس تحریر میں بھی وہ ایک چلتے پھرتے کردار ہیں مگر جب سنا کہ یہ تحریر اُنہوں نے نہیں لکھی ،تو جتنے الفاظ میں یہ احساس ضبط تحریر میں لایا جاسکتا ہے یہ ہے کہ میرے احساسات مجروح ہوئے ۔ ایسا لگا کہ جیسے کسی نے میر ا سر کھول کر اس میں تیزاب اُنڈیلا ہو۔ وہ الفاظ جنہیں میں ایک جیتے جاگتے انسان کی سماعت تک پہنچانا چاہتا تھا غلط پتے پر بھیجے گئے خط کی طرح چیختے چلاتے پلٹ پڑے ۔


 اس تحریر میں 
مجھے اپنی ذات کے ذکر پر قطعاً اعتراض نہیں مذکورہ تحریر نے تو مجھے چوبیس گھنٹے سرشاری و سرمستی کی کیفیت میں رکھا کہ مجھے ڈاکٹر نے گل ریحان کا خطا ب دیا ہے۔ نقاب پوش سپاہ پاسداران انقلاب اس سے پہلے بھی توار ہی کے صفحات پرمیری ذات کو تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں مگرمیں نے اُن کی گری ہوئی تحریروں کاکوئی جوا ب نہیں دیا۔ نہ ہی فیس بک اور اپنے بلاگ پر دیئے گئے پوچ تبصروں پر احتجاج کیا بلکہ اُن کوڈیلیٹ کرنے سے بھی گریز کیاتاکہ معلوم کرسکوں کہ لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں مگر جب کسی خیر خواہ نے اے آر داد کے نام سے فیس بک پر جعلی اکاونٹ بنا کر وہاں ادبی تبصروں کا سلسلہ شروع کیا تو ہم نے اسے فیس بک میں علمی انقلاب سے تعبیر کرتے ہوئے حصہ لیا ۔ اُن کے دیئے گئے موضوعات پرتبصرہ کرتے ہوتے ہوئے ہر آن اُن کے سامنے دوزانو بیٹھ کر گفتگو کا احساس ہوتا تھا ،ابھی ہم اس روحانی تفریح سے لطف اندوز بھی نہ ہو پائے تھے کہ معلوم ہوا یہ جعلی اکاونٹ ہے ، مذکورہ جعلساز اُستاد اے آر داد کی وضاحت کے بعد بھی بضد ہیں کہ وہ اُن کی تحریروں کو پروموٹ کرکے کوئی جرم نہیں کررہے بلکہ یہ بلوچی ادب کی خد مت ہے میرے خیال میں اُنہیں مجھ سمیت اُستاد اے آر داد پر بھی غصہ آرہاہے جو اس خدمت سے مستفید نہیں ہونا چاہتے۔ 

نقاب پوش دانشورو! فیس بک جدید دور کا ایک سماجی ادارہ ہے ، سماج میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ بستے ہیں ، جس طرح چاقو زیادہ تر پھل سبزیاں کاٹنے کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر اس سے قتل کرنے کے واقعات بھی بے شمار ہیں ۔ آپ اگرسامنے آنے سے کتراتے ہیں یا شناخت چھپانے کا مقصدذاتی زندگی کا تحفظ ہے تو دوسروں کے احساسات کا بھی خیال رکھیں اور اپنے باصلاحیت دماغ کو اس سماج کا گند صاف کرنے کے لیے بروئے کار لائیں ۔اس میں مزید گندگی اُنڈیلنے سے سیدھے اور ان اداروں کے کردار اور تحفظ سے آشنا لوگوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر آپ کی دانش صفر سے ضرب کھا کر قدر کھودے گی ۔ آپ نے شاید کبھی رشتے نہیں بنائے ہیں یا عمر بھر مایا وی دنیا میں خیالی رشتوں پر گزارہ کرتے رہے ہوں اس لیے نہیں جانتے کہ جو لذت اے آر داد اور ڈاکٹر ناگمان جیسے دوست نما اُستادوں سے مکالمہ کرنے میں ملتی ہے وہ لطف ہر ہیرے غیرے سے بات کرنے میں نہیں آتا ، اکثریت آپ کی حد سے زیادہ تعریف کرتی ہے یا حد سے زیادہ مخالفت۔ اور نام چور لکھاری کی خدمت میں بس اتنا ہی عرض کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں اگر آپ میں واجہ منظور عزت کی طرح ڈنکے کے چوٹ پر لکھنے کی ہمت نہیں تو شئے رگام کی طرح بھیس بدل کر سچ لکھیں ۔ چوری چکاری آپ جیسے اچھے لکھاری کو زیبا نہیں _______ فیس بک کے مہربان نقاب پوش دوست !یہ دکھڑ اپڑھنے کے بعد سمجھ لیا ؟’’ بے چہرہ سے بیزاری یا دل آزاری محض اس بنا ء پرکہ پتا نہیں چلتا سامنے آپ سے باخبر اورمعتبر گفتگو کررہاہے یا کوئی محض الفاظ کی پھلجڑیاں چھوڑ رہاہے ، ورنہ غرور کاسر نیچا۔
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.