اس مضمون کو بلوچی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں ۔

موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے کئی رویے عہدوحشت سے مشابہہ ہیں جس طرح عہدس وحشت میں اِنسان محض ایککھانے والی مشین تھا آج بھی فردکی ذاتی عیاشیوں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔جو طرز تعلیم رائج ہے اس کا ایک مقصد ’’تعلیمی صنعت ‘‘سے وابستہ افراد کوروزگار اور دوسراسرمایہ دارانہ نظام کو علم کے بغیر فنی صلاحیتوں سے کام کرنے والی افرادی قوت مہیاکرنا ہے۔اسی سوچ کے زیر اَثر اِسکول میں طلباء کونا پختہ عمر میں ہی یہ سوال کرکے کہ ’’بڑے ہو کر کیا بنوگے ؟‘‘دراصل ذہن نشین کی جاتی ہے کہ تعلیم کابنیادی مقصد آرام طلب روزگار ہے۔جدید طبقاتی دور میں ’’پٹی بورژا‘‘کی طبقاتی درجہ بندی بھی اسی طرح ہے کہجو اپنی ڈگری والی تعلیم کی بدولت زیادہ گریڈوالا پوسٹ حاصل کر ئے وہ سماج میں زیادہ معتبر بن جاتاہے جنہیں ہمارے یہاں عرف عام میں بیوروکریٹ یاافسرشاہی کہا جاتاہے جو دماغ سے نہیں دوسروں کے وضع کرد ہ جائز وناجائز اُصولوں پر عمل کرتے ہیں ان افسران شاہی کواستحصالی طقبہ ہمیشہ محکوموں سے ہی منتخب کرکے اُن کے بالواسطہاستحصال کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
اس لیے استحصالی طبقے کے خلاف کھڑے ہونے والے رہنماؤں نے استحصالی نظا م تعلیم کو ناپسند یدگی کی نظر سے دیکھا ۔فرائرے وہ پہلے دانشور ہیں جنہوں نے ’’محکوم اقوام کی تعلیم ‘‘ نامی کتاب ( جس کا اُردوترجمہ ’’ تعلیم اور مظلوم اقوام‘‘ کے نام شائع ہوچکا ہے ) لکھ کر محکوموں کو رائج طرز تعلیم سے نجات کا راستہ دکھا یا ۔اُس نیسمجھایا کہ ’’طالب علم کے ذہن کوخالی برتن نہ سمجھاجائے کہ جس میں اُستا د جو چاہئے اپنی مرضی سے بھر دے ۔‘‘اس نے مکالماتی طرزتعلیم کا نظریہ پیش کیا یعنی ’’اُستاد مضمون کو ایک مسئلے کوطورپر پیش کرکے اس کے حل کے لیے طالب علم سے مکالمہ کرئے ۔‘‘اس اصول کے تحت تعلیم کو اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ ’’ ایکمحمد علی جناح نامی آدمی ہندوستان میں مسلم لیگ کے رہنماء کے طور قیام پاکستان کا محرک بنا اور اس نے فلا ں فلاں کارنامے سر انجام دیئے ہیں ۔اب آپ کیا کہتے ہیں کہ وہ کس طرح کی شخصیت تھے ؟‘‘اس کے برعکس نظریاتی تعلیم میں یہ گنجائش نہیں چھوڑی جاتی ہے ۔محمد علی جناح کو بغیر رحمت اللہ علیہ ، حضرت اور قائداعظم جیسے لاحقے اورسابقے کے لکھناگناہ تصور کیاجاتاہے ۔اس مثال کو اچھی طرح سمجھنے کے بعدیہ بات حیران کن نہیں رہتی کہ مدارس کیوں کر ہزاروں کی تعداد میں خود کش حملہ آؤر بنانے میں کامیاب ہیں ‘یہ طرز تعلیم ذہن کو افیون کی طرح مفلوج بنادیتا ہے جس طرح ہندو سماج میں برہمن سے زیادہ’’شودر ‘‘کو یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ وہ بھگوان کے پاؤں سے جنمے ہیں اسی طرح استحصالی نطام تعلیم میں بھی طالب علم کو اپنے وجودسے بیگانہ کرکے رائج نظام کاکل پرزہ بنانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے ۔
جس سماج میں استحصالی قوت کے خلاف نفرت بڑھتی ہے وہاں نظام تعلیم بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔آئیڈل اور کتابی سماج کے برعکس سماج دیکھ کر غیر مطمئن طلباء کی ہمدردیاں استحصالی نظام کے خلاف اُٹھنے والی تحریک کے ساتھ ہوتی ہیں جسے روکنے کے لیے استحصالی قوت بھی طلباء کو اپنے نشانے پر رکھتاہے ۔اسے جسمانی اورذہنی حوالے سے تھکادینے والی مشقتوں میں ڈالنے کے لیے نت نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں ۔اُن باتوں کی پابندی یقینی بنائی جاتیہے جو محکوم طبقے کے طلباء کوذہنی انتشار کا شکار بنادیں ۔تحریک کے زمانے میں استحصالی طبقے کی تمام چیزوں کے خلاف نفرت پیداکرکے لوگوں کو اُن سے دور رکھنے یا کہ اُن کے اثرات سے باہر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ،ریاستی نظریات کو باطل قراردے کر ’’تحریکی نظریات ‘‘ فروغ دیئے جاتے ہیں ،یوں طالب علم کے ذہن پر دوطرفہ برسنے والے یہ ہتھوڑے اس کی علمی صلاحیتوں کوکند یامحدود کرتے ہیں ۔جس سے طالب علموں میں دوطبقے پیدا ہوجاتے ہیں ایک جوسرکاری مشینری کا کَل پرزہ بنتاہے دوسراجو اس سے شدید نفرت کرتاہے ۔سرکاری مشینری کا کَلل پرزہ بننے والے طلباء کی اعلیٰ صلاحیتیں فرمانبرداری میں ضائع ہوجاتی ہیں ۔
علم وفن کے اشتراک سے انسانی ضروریات کی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں علم کا بنیادی مقصدانسان کے معیار زندگی کو بہترین سے بہترین بنانا ہے ۔ جن کوسائنسی زبان میں ایجادات کہا جاتاہے وہ بلاشبہ کسی اعلیٰ ذہن کے پیدوار ہیں یعنی اُن کا ماخذ علم ہے لیکن انہیں سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیے ہنرمندی ضروری ہے ۔اس بات کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کیجئے کہ’’ اگر کسی شخص کو پتا ہو کہ ہوائی جہاز کس فارمولے کے تحت اُڑان بھرتا ہے لیکن اسے لوہے کو اپنے فارمولے کے مطابق شکل میں ڈھالنا نہیں آتاتو کیا وہ ہوائی جہاز بنا پائے گا ؟ یقیناًاسے ا پنے نظریے کو عملی شکل دینے میں مشکل پیش آ ئے گی۔ ‘‘ علما ء اگر فن کا سہارہ نہیں لیتے تو آج ہمارے گردو پیش رکھی چیزیں بدصورت ، بے ہنگھم او ر استعمال میں پیچیدہ ہوتیں ۔ کاریگر ( ہنرمند ) ’’ گاڑی ‘‘ بنانے کے ایک سے فارمولے کولاکھوں شکلیں دے کربہترین سے بہتر کی تلاش میں علما ء کے مددگار ہیں ۔ علم کسی کی میراث نہیں ایک گاؤں کاگڈریا بھی زندگی کے اسرار و رموز سے آگا ہی حاصل کرسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ واشنگٹن میں پیدا ہونے والا ہر بچہ عالم وفاضل ہو ۔لیکن ہنر ایک ایسی چیز ہے جسے سیکھنا پڑتا ہے ، سیکھنے کا تعلق دیکھنے سے ۔ ’’ علم ‘‘کا تجربہ گاہ انسان کے کندھوں پر دھری کھوپڑی ہے مگر ہنرمندی کے لیے اوزار کی ضرورت پڑتی ہے ۔اگر ان تمام باتوں کو نچوڑ ا جائے تو حاصل نتیجہ یہ ہے کہ ’’ ہر شکل میں ہنر علم کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔‘‘ خیالات کوالفاظ وعمل کا جامہ پہنانے کے ہنر سے نہ آشنا شخصکو عالم کہنا مشکل ہے ۔
علم کو شاید قید نہ رکھاجاسکے مگر ہنرمندی کے ذرائع اور درکار وسائل پر قبضہ کر کے دوسروں کے دسترس کو محدود یا مشکل بنایا جاسکتا ہے ۔ استحصالی قوت کے فنی ادارے کوشش کرتے ہیں کہ محکوموں سے چھینے گئے وسائل استحصالی طبقے کی ترقی اور آسائش کے لیے استعمال میں لائے جائیں اور ایسے لوگوں کو جدید فنون سے دور رکھاجائے جو ان کے استحصالی منصوبوں کے خلاف ہیں ۔نتیجتاً محکوم طلباء کا استحصال مخالف طبقہ علم کے معراج یا حقیقت تک رسائی کے باوجودہنرمند نہیں بن پاتا ۔استحصالی نظام میں محکوم طقبے کے مفاد کے لیے کام کر نے والے ایسے علما ء شاذ ونادر ہوتے ہیں جوعلم میں پختہ اور اپنے ہنر میں اُستاد ہوں اور اس مختصر گروہ کی اکثریت بھی استحصالی طبقے کی بیڑیوں میں جھکڑی ہوئی حالت میں چلنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
اس منظرنامے میں محکوم طقبے کا وہ گروہ جو اسمنظر میں مثبت مرکزی کردار ( ہیرو) کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے منفی مرکزی کردار ( ولن ) کو شکست دینے کے لیے اس کے وضع کرد ہ نظام سے قدرے فاصلے پر رہ کر اس کی تبدیلی یا خاتمہ کے لیے جدوجہد کرتا ہے، و ہ ایک مکمل تباہی پھیلانے والی طاقت کی طرح یلغار نہیں کرتا اوربلکہ آئستہ آئستہ استحصالی طقبے کے وضع کردہ نظام میں سرایت کر جاتاہے ۔ اس کے بندوبست کے لیے ایندھن کا درجہ رکھنے والے ’’ روبوٹک انسانوں ‘‘ کے رویے کو جن کا تعلق بھی محکوم طقبے سے ہوتا ہے بدلنے کے لیے وہ استحصالی قوت کے متوازی تربیتی ادارے ( اسکول ) قائم کرتا ہے ۔ جہد کار محکوم استحصالی طقبے کے تکنیکی اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے علم کو بروئے کار لاتے ہیں ۔ اس عمل کا آغاز معاشرے میں گزشتہ دہائیوں کے ان تجربات کے بعد شروع ہونا چاہئے کہ کیسے جہد کار محکوموں نے نادانستہ طور پر تکنیکی ( فنی ) تربیتی اداروں کے خلاف اپنے محکوم طلبا ء کو اُکسا کر انہیں نااہل بنا دیا ۔پیشہ ور تربیت یافتہ جنگجو وں کے مقابلے میں غیر تربیت یافتہ فن سپاہ سے نابلدافراد اگر عددی اعتبار سے بھی زیادہ ہوں تو مقابلہ نہیں کرسکتے یہ تاریخ کا سبق ہے ، نہ ہی جنگ جیتنے کے لیے محض بہادری کافی ہوتی ہے۔
محکوم طقبے کے اسکول علمی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ان کو ایسے پیراسائٹ سمجھ لیں جو استحصالی طبقے کے فنی اسکولوں کے موٹے تنے پر جکڑپکڑتے ہیں ۔ محکوم طقبے کاجھدکار گروہ ( انقلابی تنظیم۔گروہ جب علمی و فنی صلاحیتوں کا حامل ہو تو تنظیم کی تشکیل کرتا ہے ۔)ایسے اسکول عالیشان عمارتوں میں تعمیر نہیں کرتے۔ غالباً یہ بات البرٹ آئن اسٹائن سے متعلق ہے کہ ’’ اس کا تجربگاہ اس کے شانوں پر لدھا ہے جسے وہ اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔‘‘اسی طرح محکوم طبقے کے جہدکاروں کا اسکول بھی ہر ایک جہد کار کے کندھے پہ دھرا ہے ۔ جہد کا ر اپنے عالمانہ صفت کی بدولت استحصالی قوت کی سازشوں کا ادراک رکھتا ہے اس کی انقلابی تنظیم تکنیکی تربیت فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے علم کو دسروں میں منتقل کرنے کے قابل بن جاتا ہے ۔ جہد کار اس وقت صحیح معنوں میں جہدکار کہلانے کے مستحق ہے کہ وہ اپنے خیالات کوعلمی و سائنسی انداز میں دوسروں کو منتقل کر کے انہیں استحصالی طقبے کے خلاف عملی بغاو ت میں ساتھ دینے کے لیے تیار کرئے ۔ جہد کا راپنی ہمہ جہت لڑائی میں ہر جگہ دشمن( استحصالی قابض ) کے مفادات کو نقصان پہنچانے اوراس کے گردگھیرا تنگ کرنے کی ترکیب تلاش کرکے انہیں سائنسی طریقے سے عملی جامہ پہناتا ہے ، نہ وہ محض اپنے انقلابی خیالات کی جگالی کرتا ہے اور نہ ہی بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم اُٹھاتا ہے کیوں کہ وہ روز نت نئے تجربات سے نبرد آزما ہوکر نئی نئی چیزیں سیکھتا ہے اور اسے یہ ہنر سکھانے میں مددگار ہیں محکوم طبقے کے وہ اسکول جو ہر انقلابی کے کندھوں پہ دھرے ہیں ۔
مندرجہ بالا تجاویز غورطلب ہیں اس لیے جہدکارتنظیم( جہدکاروں کا گروہ وضع کردہ اصولوں کے تحت اور داہرہ کار کے اندر ہر ایک جہد کار ) اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اگر یہ اسکول ( اسٹیڈی سرکل ۔ جو حالات کے مطابق تشکیل دیے جاتے ہیں، انہیں کیموفلاج کر کے عام بھی کیاجاسکتا ہے اور جہدکارعلماء پرمشتمل مجلس ( کمیٹی ) کی وضع کردہ طریقوں کے مطابق خفیہ بھی رکھے جاسکتے ہیں۔)درست کام کررہے ہیں تو اطمینان بخش اگر سارا زور قوت آزمائی پر ہے اور اسکول سے بیزاری کا چلن عام ہے تو مستقبل میں نظریاتی جہدکار پیدا ہونا مشکل ہوگا ۔

صبح جب ہم اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑکر اُنہیں اسکول چھوڑ نے کے بعد اپنے
روزمرہ کے کام کو جاتے ہیں تو ہمیں کسی بھی لمحہ یہفکر دامن گیر نہیں رہتا
کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا ۔اسکول کے نام پہ کھڑی جس عمارت میں ہم
اپنے بچوں کو چار گھنٹوں تک اُن لوگوں کے حوالے کر تے ہیں جن میں سے بیشتر
کے نام تک ہم نہیں جانتے ،کیا ہمارے بچوں کی تربیت کر پائیں گے کہ کل وہ
اپنے معاشرے میں باعزت مقا م حاصل کرکے اس کی تعمیر میں کردار اداکر سکیں
گے ؟لیکن پھر بھی ہم بہتر ہیں اُن ہزاروں والدین سے جوابھی تک یہ نہیں
سمجھتے کہ اُن کے بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اُن کے کندھوں پر ہیں ۔
دانشوروں کی بڑی تعداد نیبھی عام اِنسانوں کی طرح تعلیم کے پیداوار ہونے کے باوجود بھی تعلیم کو ثانوی درجہ دیا ۔بھوک اور ننگے بدن پر شہرہ آفاق نظمیں اور کہانیاں گھڑی گئیں جس کی وجہ سے یہ تاثرعام ہے کہ اِنسان کے لیے سب سے زیادہ
اہمیت اس کے پیٹ کی ہے۔ دنیاکی بیشتر سیاسی تحریکیں بھو ک مٹانے کے دعوے کے ساتھ اُٹھیں لیکن ناکامیوں کے گرداب میں پھنس کر رہ گئیں ۔اس کے برعکس علمی تحریکوں نے زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں ،ان تحریکوں نے جنہوں نے بھوک اور دیگر ضروریات زندگی کو ثانوی درجہ دے کر تعلیم وتربیت کو اولیت دی اِنسان کوتہذیب یافتہ بنا کر اس کے معیار زندگی کو بلند کیا ۔دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی تمام مذہبی تحریکیں بھی علمی بنیادوں پر استوار تھیں ۔سدھانت (مہاآتما گوتم بدھ )کے بن واس اورحضر ت محمداکے غار حرامیں قیام کا حاصل علم ہے ۔اسی طرح پیغمبروں کا درجہ حاصل کرنے والے تمام اِنسانوں اور علماء نے بھوک کواِیسی ضرورت قرار دیا جو اِنسانوں اور جانوروں میں مشترک ہے ۔مذکورہ علماء نے ان حیوانی ضروریات(جسمانی ضروریات) پرقابوپانے کے لیے ذہنی وجسمانی ریاضتیں متعارف کراوئیں۔
سطحی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ایک بھوکے اِنسان کی سوچ بیمارہوتی ہے ا ور بھوک ایسی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے باقی تمام ضروریات ہیچ ہیں اس لیے کہا گیاہے کہ ’’بھوک تہذیب کے حدود مٹا دیتی ہے ‘‘ہمیں بھی اس حقیقت سے انکار نہیں لیکن کسی کی بھوک محض اس کے آگے روٹی کا ٹکڑا پھینکنے سے دور نہیں ہوتی۔ ہمارا اِختلاف یہ ہے کہ بھوکے کو جانور کی طرح کھانا کھلانے کی بجائے اسے اِنسانوں کی طرح اِیسی تربیت وتعلیم دی جائے کہ وہ اپنے خوراک کا خود بندوبست کرنے کے قابل ہوجس طرح تاریخ میں پیش آنے والی قحط سالیوں میں صرف وہی لوگ زندہ رہے جنہوں نے خوراک کے درست استعمال کا علم حاصل کیا ۔عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماضی کے اِنسانوں کے لیے بھوک کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن تحقیق سے یہ ثابت ہواہے کہ تاریک دور میں کئی اِنسانی نسلیں بھوک کی وجہ سے مٹ گئیں ۔اِنسانی اِرتقا ء کے درمیانی دور میں جب اِنسان خوراک کے لیے زیادہ تر شکار پر اِنحصار کرتا تھا ’’کھانے کی چیزوں کا ملنا اتنا غیر یقینی تھا جس کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں آدم خوری کا رواج ہوا۔( فریڈرک اینگلز )‘‘جس قدر اِنسان کے علم میں اِضافہ ہوتا گیااِسی طرح اِنسان کی بھوک بھی مٹتی گئی اورخوراک کیپیداوار میں اِضافہ ہوا۔
دانشوروں کی بڑی تعداد نیبھی عام اِنسانوں کی طرح تعلیم کے پیداوار ہونے کے باوجود بھی تعلیم کو ثانوی درجہ دیا ۔بھوک اور ننگے بدن پر شہرہ آفاق نظمیں اور کہانیاں گھڑی گئیں جس کی وجہ سے یہ تاثرعام ہے کہ اِنسان کے لیے سب سے زیادہ
اہمیت اس کے پیٹ کی ہے۔ دنیاکی بیشتر سیاسی تحریکیں بھو ک مٹانے کے دعوے کے ساتھ اُٹھیں لیکن ناکامیوں کے گرداب میں پھنس کر رہ گئیں ۔اس کے برعکس علمی تحریکوں نے زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں ،ان تحریکوں نے جنہوں نے بھوک اور دیگر ضروریات زندگی کو ثانوی درجہ دے کر تعلیم وتربیت کو اولیت دی اِنسان کوتہذیب یافتہ بنا کر اس کے معیار زندگی کو بلند کیا ۔دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی تمام مذہبی تحریکیں بھی علمی بنیادوں پر استوار تھیں ۔سدھانت (مہاآتما گوتم بدھ )کے بن واس اورحضر ت محمداکے غار حرامیں قیام کا حاصل علم ہے ۔اسی طرح پیغمبروں کا درجہ حاصل کرنے والے تمام اِنسانوں اور علماء نے بھوک کواِیسی ضرورت قرار دیا جو اِنسانوں اور جانوروں میں مشترک ہے ۔مذکورہ علماء نے ان حیوانی ضروریات(جسمانی ضروریات) پرقابوپانے کے لیے ذہنی وجسمانی ریاضتیں متعارف کراوئیں۔
سطحی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ایک بھوکے اِنسان کی سوچ بیمارہوتی ہے ا ور بھوک ایسی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے باقی تمام ضروریات ہیچ ہیں اس لیے کہا گیاہے کہ ’’بھوک تہذیب کے حدود مٹا دیتی ہے ‘‘ہمیں بھی اس حقیقت سے انکار نہیں لیکن کسی کی بھوک محض اس کے آگے روٹی کا ٹکڑا پھینکنے سے دور نہیں ہوتی۔ ہمارا اِختلاف یہ ہے کہ بھوکے کو جانور کی طرح کھانا کھلانے کی بجائے اسے اِنسانوں کی طرح اِیسی تربیت وتعلیم دی جائے کہ وہ اپنے خوراک کا خود بندوبست کرنے کے قابل ہوجس طرح تاریخ میں پیش آنے والی قحط سالیوں میں صرف وہی لوگ زندہ رہے جنہوں نے خوراک کے درست استعمال کا علم حاصل کیا ۔عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماضی کے اِنسانوں کے لیے بھوک کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن تحقیق سے یہ ثابت ہواہے کہ تاریک دور میں کئی اِنسانی نسلیں بھوک کی وجہ سے مٹ گئیں ۔اِنسانی اِرتقا ء کے درمیانی دور میں جب اِنسان خوراک کے لیے زیادہ تر شکار پر اِنحصار کرتا تھا ’’کھانے کی چیزوں کا ملنا اتنا غیر یقینی تھا جس کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں آدم خوری کا رواج ہوا۔( فریڈرک اینگلز )‘‘جس قدر اِنسان کے علم میں اِضافہ ہوتا گیااِسی طرح اِنسان کی بھوک بھی مٹتی گئی اورخوراک کیپیداوار میں اِضافہ ہوا۔
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے کئی رویے عہدوحشت سے مشابہہ ہیں جس طرح عہدس وحشت میں اِنسان محض ایککھانے والی مشین تھا آج بھی فردکی ذاتی عیاشیوں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔جو طرز تعلیم رائج ہے اس کا ایک مقصد ’’تعلیمی صنعت ‘‘سے وابستہ افراد کوروزگار اور دوسراسرمایہ دارانہ نظام کو علم کے بغیر فنی صلاحیتوں سے کام کرنے والی افرادی قوت مہیاکرنا ہے۔اسی سوچ کے زیر اَثر اِسکول میں طلباء کونا پختہ عمر میں ہی یہ سوال کرکے کہ ’’بڑے ہو کر کیا بنوگے ؟‘‘دراصل ذہن نشین کی جاتی ہے کہ تعلیم کابنیادی مقصد آرام طلب روزگار ہے۔جدید طبقاتی دور میں ’’پٹی بورژا‘‘کی طبقاتی درجہ بندی بھی اسی طرح ہے کہجو اپنی ڈگری والی تعلیم کی بدولت زیادہ گریڈوالا پوسٹ حاصل کر ئے وہ سماج میں زیادہ معتبر بن جاتاہے جنہیں ہمارے یہاں عرف عام میں بیوروکریٹ یاافسرشاہی کہا جاتاہے جو دماغ سے نہیں دوسروں کے وضع کرد ہ جائز وناجائز اُصولوں پر عمل کرتے ہیں ان افسران شاہی کواستحصالی طقبہ ہمیشہ محکوموں سے ہی منتخب کرکے اُن کے بالواسطہاستحصال کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
اس لیے استحصالی طبقے کے خلاف کھڑے ہونے والے رہنماؤں نے استحصالی نظا م تعلیم کو ناپسند یدگی کی نظر سے دیکھا ۔فرائرے وہ پہلے دانشور ہیں جنہوں نے ’’محکوم اقوام کی تعلیم ‘‘ نامی کتاب ( جس کا اُردوترجمہ ’’ تعلیم اور مظلوم اقوام‘‘ کے نام شائع ہوچکا ہے ) لکھ کر محکوموں کو رائج طرز تعلیم سے نجات کا راستہ دکھا یا ۔اُس نیسمجھایا کہ ’’طالب علم کے ذہن کوخالی برتن نہ سمجھاجائے کہ جس میں اُستا د جو چاہئے اپنی مرضی سے بھر دے ۔‘‘اس نے مکالماتی طرزتعلیم کا نظریہ پیش کیا یعنی ’’اُستاد مضمون کو ایک مسئلے کوطورپر پیش کرکے اس کے حل کے لیے طالب علم سے مکالمہ کرئے ۔‘‘اس اصول کے تحت تعلیم کو اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ ’’ ایکمحمد علی جناح نامی آدمی ہندوستان میں مسلم لیگ کے رہنماء کے طور قیام پاکستان کا محرک بنا اور اس نے فلا ں فلاں کارنامے سر انجام دیئے ہیں ۔اب آپ کیا کہتے ہیں کہ وہ کس طرح کی شخصیت تھے ؟‘‘اس کے برعکس نظریاتی تعلیم میں یہ گنجائش نہیں چھوڑی جاتی ہے ۔محمد علی جناح کو بغیر رحمت اللہ علیہ ، حضرت اور قائداعظم جیسے لاحقے اورسابقے کے لکھناگناہ تصور کیاجاتاہے ۔اس مثال کو اچھی طرح سمجھنے کے بعدیہ بات حیران کن نہیں رہتی کہ مدارس کیوں کر ہزاروں کی تعداد میں خود کش حملہ آؤر بنانے میں کامیاب ہیں ‘یہ طرز تعلیم ذہن کو افیون کی طرح مفلوج بنادیتا ہے جس طرح ہندو سماج میں برہمن سے زیادہ’’شودر ‘‘کو یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ وہ بھگوان کے پاؤں سے جنمے ہیں اسی طرح استحصالی نطام تعلیم میں بھی طالب علم کو اپنے وجودسے بیگانہ کرکے رائج نظام کاکل پرزہ بنانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے ۔
جس سماج میں استحصالی قوت کے خلاف نفرت بڑھتی ہے وہاں نظام تعلیم بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔آئیڈل اور کتابی سماج کے برعکس سماج دیکھ کر غیر مطمئن طلباء کی ہمدردیاں استحصالی نظام کے خلاف اُٹھنے والی تحریک کے ساتھ ہوتی ہیں جسے روکنے کے لیے استحصالی قوت بھی طلباء کو اپنے نشانے پر رکھتاہے ۔اسے جسمانی اورذہنی حوالے سے تھکادینے والی مشقتوں میں ڈالنے کے لیے نت نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں ۔اُن باتوں کی پابندی یقینی بنائی جاتیہے جو محکوم طبقے کے طلباء کوذہنی انتشار کا شکار بنادیں ۔تحریک کے زمانے میں استحصالی طبقے کی تمام چیزوں کے خلاف نفرت پیداکرکے لوگوں کو اُن سے دور رکھنے یا کہ اُن کے اثرات سے باہر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ،ریاستی نظریات کو باطل قراردے کر ’’تحریکی نظریات ‘‘ فروغ دیئے جاتے ہیں ،یوں طالب علم کے ذہن پر دوطرفہ برسنے والے یہ ہتھوڑے اس کی علمی صلاحیتوں کوکند یامحدود کرتے ہیں ۔جس سے طالب علموں میں دوطبقے پیدا ہوجاتے ہیں ایک جوسرکاری مشینری کا کَل پرزہ بنتاہے دوسراجو اس سے شدید نفرت کرتاہے ۔سرکاری مشینری کا کَلل پرزہ بننے والے طلباء کی اعلیٰ صلاحیتیں فرمانبرداری میں ضائع ہوجاتی ہیں ۔
علم وفن کے اشتراک سے انسانی ضروریات کی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں علم کا بنیادی مقصدانسان کے معیار زندگی کو بہترین سے بہترین بنانا ہے ۔ جن کوسائنسی زبان میں ایجادات کہا جاتاہے وہ بلاشبہ کسی اعلیٰ ذہن کے پیدوار ہیں یعنی اُن کا ماخذ علم ہے لیکن انہیں سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیے ہنرمندی ضروری ہے ۔اس بات کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کیجئے کہ’’ اگر کسی شخص کو پتا ہو کہ ہوائی جہاز کس فارمولے کے تحت اُڑان بھرتا ہے لیکن اسے لوہے کو اپنے فارمولے کے مطابق شکل میں ڈھالنا نہیں آتاتو کیا وہ ہوائی جہاز بنا پائے گا ؟ یقیناًاسے ا پنے نظریے کو عملی شکل دینے میں مشکل پیش آ ئے گی۔ ‘‘ علما ء اگر فن کا سہارہ نہیں لیتے تو آج ہمارے گردو پیش رکھی چیزیں بدصورت ، بے ہنگھم او ر استعمال میں پیچیدہ ہوتیں ۔ کاریگر ( ہنرمند ) ’’ گاڑی ‘‘ بنانے کے ایک سے فارمولے کولاکھوں شکلیں دے کربہترین سے بہتر کی تلاش میں علما ء کے مددگار ہیں ۔ علم کسی کی میراث نہیں ایک گاؤں کاگڈریا بھی زندگی کے اسرار و رموز سے آگا ہی حاصل کرسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ واشنگٹن میں پیدا ہونے والا ہر بچہ عالم وفاضل ہو ۔لیکن ہنر ایک ایسی چیز ہے جسے سیکھنا پڑتا ہے ، سیکھنے کا تعلق دیکھنے سے ۔ ’’ علم ‘‘کا تجربہ گاہ انسان کے کندھوں پر دھری کھوپڑی ہے مگر ہنرمندی کے لیے اوزار کی ضرورت پڑتی ہے ۔اگر ان تمام باتوں کو نچوڑ ا جائے تو حاصل نتیجہ یہ ہے کہ ’’ ہر شکل میں ہنر علم کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔‘‘ خیالات کوالفاظ وعمل کا جامہ پہنانے کے ہنر سے نہ آشنا شخصکو عالم کہنا مشکل ہے ۔
علم کو شاید قید نہ رکھاجاسکے مگر ہنرمندی کے ذرائع اور درکار وسائل پر قبضہ کر کے دوسروں کے دسترس کو محدود یا مشکل بنایا جاسکتا ہے ۔ استحصالی قوت کے فنی ادارے کوشش کرتے ہیں کہ محکوموں سے چھینے گئے وسائل استحصالی طبقے کی ترقی اور آسائش کے لیے استعمال میں لائے جائیں اور ایسے لوگوں کو جدید فنون سے دور رکھاجائے جو ان کے استحصالی منصوبوں کے خلاف ہیں ۔نتیجتاً محکوم طلباء کا استحصال مخالف طبقہ علم کے معراج یا حقیقت تک رسائی کے باوجودہنرمند نہیں بن پاتا ۔استحصالی نظام میں محکوم طقبے کے مفاد کے لیے کام کر نے والے ایسے علما ء شاذ ونادر ہوتے ہیں جوعلم میں پختہ اور اپنے ہنر میں اُستاد ہوں اور اس مختصر گروہ کی اکثریت بھی استحصالی طبقے کی بیڑیوں میں جھکڑی ہوئی حالت میں چلنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
اس منظرنامے میں محکوم طقبے کا وہ گروہ جو اسمنظر میں مثبت مرکزی کردار ( ہیرو) کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے منفی مرکزی کردار ( ولن ) کو شکست دینے کے لیے اس کے وضع کرد ہ نظام سے قدرے فاصلے پر رہ کر اس کی تبدیلی یا خاتمہ کے لیے جدوجہد کرتا ہے، و ہ ایک مکمل تباہی پھیلانے والی طاقت کی طرح یلغار نہیں کرتا اوربلکہ آئستہ آئستہ استحصالی طقبے کے وضع کردہ نظام میں سرایت کر جاتاہے ۔ اس کے بندوبست کے لیے ایندھن کا درجہ رکھنے والے ’’ روبوٹک انسانوں ‘‘ کے رویے کو جن کا تعلق بھی محکوم طقبے سے ہوتا ہے بدلنے کے لیے وہ استحصالی قوت کے متوازی تربیتی ادارے ( اسکول ) قائم کرتا ہے ۔ جہد کار محکوم استحصالی طقبے کے تکنیکی اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے علم کو بروئے کار لاتے ہیں ۔ اس عمل کا آغاز معاشرے میں گزشتہ دہائیوں کے ان تجربات کے بعد شروع ہونا چاہئے کہ کیسے جہد کار محکوموں نے نادانستہ طور پر تکنیکی ( فنی ) تربیتی اداروں کے خلاف اپنے محکوم طلبا ء کو اُکسا کر انہیں نااہل بنا دیا ۔پیشہ ور تربیت یافتہ جنگجو وں کے مقابلے میں غیر تربیت یافتہ فن سپاہ سے نابلدافراد اگر عددی اعتبار سے بھی زیادہ ہوں تو مقابلہ نہیں کرسکتے یہ تاریخ کا سبق ہے ، نہ ہی جنگ جیتنے کے لیے محض بہادری کافی ہوتی ہے۔
محکوم طقبے کے اسکول علمی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ان کو ایسے پیراسائٹ سمجھ لیں جو استحصالی طبقے کے فنی اسکولوں کے موٹے تنے پر جکڑپکڑتے ہیں ۔ محکوم طقبے کاجھدکار گروہ ( انقلابی تنظیم۔گروہ جب علمی و فنی صلاحیتوں کا حامل ہو تو تنظیم کی تشکیل کرتا ہے ۔)ایسے اسکول عالیشان عمارتوں میں تعمیر نہیں کرتے۔ غالباً یہ بات البرٹ آئن اسٹائن سے متعلق ہے کہ ’’ اس کا تجربگاہ اس کے شانوں پر لدھا ہے جسے وہ اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔‘‘اسی طرح محکوم طبقے کے جہدکاروں کا اسکول بھی ہر ایک جہد کار کے کندھے پہ دھرا ہے ۔ جہد کا ر اپنے عالمانہ صفت کی بدولت استحصالی قوت کی سازشوں کا ادراک رکھتا ہے اس کی انقلابی تنظیم تکنیکی تربیت فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے علم کو دسروں میں منتقل کرنے کے قابل بن جاتا ہے ۔ جہد کار اس وقت صحیح معنوں میں جہدکار کہلانے کے مستحق ہے کہ وہ اپنے خیالات کوعلمی و سائنسی انداز میں دوسروں کو منتقل کر کے انہیں استحصالی طقبے کے خلاف عملی بغاو ت میں ساتھ دینے کے لیے تیار کرئے ۔ جہد کا راپنی ہمہ جہت لڑائی میں ہر جگہ دشمن( استحصالی قابض ) کے مفادات کو نقصان پہنچانے اوراس کے گردگھیرا تنگ کرنے کی ترکیب تلاش کرکے انہیں سائنسی طریقے سے عملی جامہ پہناتا ہے ، نہ وہ محض اپنے انقلابی خیالات کی جگالی کرتا ہے اور نہ ہی بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم اُٹھاتا ہے کیوں کہ وہ روز نت نئے تجربات سے نبرد آزما ہوکر نئی نئی چیزیں سیکھتا ہے اور اسے یہ ہنر سکھانے میں مددگار ہیں محکوم طبقے کے وہ اسکول جو ہر انقلابی کے کندھوں پہ دھرے ہیں ۔
مندرجہ بالا تجاویز غورطلب ہیں اس لیے جہدکارتنظیم( جہدکاروں کا گروہ وضع کردہ اصولوں کے تحت اور داہرہ کار کے اندر ہر ایک جہد کار ) اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اگر یہ اسکول ( اسٹیڈی سرکل ۔ جو حالات کے مطابق تشکیل دیے جاتے ہیں، انہیں کیموفلاج کر کے عام بھی کیاجاسکتا ہے اور جہدکارعلماء پرمشتمل مجلس ( کمیٹی ) کی وضع کردہ طریقوں کے مطابق خفیہ بھی رکھے جاسکتے ہیں۔)درست کام کررہے ہیں تو اطمینان بخش اگر سارا زور قوت آزمائی پر ہے اور اسکول سے بیزاری کا چلن عام ہے تو مستقبل میں نظریاتی جہدکار پیدا ہونا مشکل ہوگا ۔
Post a Comment