6 جولائی 2012کڈان کے قریب ھورشولی کے مقام پر ایران کے زیر انتظام مغربی بلوچستان سے آنے والے مسافروں کوایک عارضی قیام گاہ پر نشانہ بنا یا گیا ۔ اس حملے میں 18بے گناہ افراد ہلاک ہوئے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں 13کا تعلق پنجاب اور 5کا افغانستان سے تھا۔
جنگ زدہ بلوچستان میں سرمچاروں نے یہ اعلان کررکھاہے کہ دشمن علاقہ پنجاب کے رہنے
والے بلوچستان سے نکل جائیں اس واضح اعلان کے بعد جو محض کاروباری لوگ تھے بوریابستر سمیٹ کر نکل پڑے پیچھے رہ جانے والے پاکستانی ایجنسیوں کے آلہ کار تھے جنہیں یہی کہا گیا تھا کہ ’’ اب بلوچستان میں تمہیں جہاد کرنا ہے ، سرمچاروں سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ تمہیں پاکستان سے محبت نہیں یا پھر وہ سارا کچھ لوٹا دیں جو پاکستانی ایجنسیوں نے تمہیں دے رکھا ہے یا پھر بلوچ سرمچاروں کی مخبری اور بلوچ سماج میں پنجابی اثر ورسوخ قائم رکھنے کے لیے بلوچستان سے نہ نکلیں ۔‘‘بلوچ سرمچاروں کے انتباہ کے بعد پنجابیوں کا بلوچستان سے نہ نکلنے کا یہی مطلب تھا کہ وہ بلوچ حق ملکیت کو ماننے سے انکاری تھے اس لیے بلوچ سرمچاروں کے پاس کوئی راستہ نہ رہا کہ وہ ان پنجابی مخبروں کے خلاف موثر کارروائی کریں جو حجام ، موچی اور دیگر مزدوروں کے بھیس میں پھیلے ہوئے تھے یہ مجبوری میں اُٹھایا گیا ناگزیر قدم تھا ۔پھربھی انہوں نے محض پنجابی ہونے کے بنا ء پر کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ اچھی طرح تحقیق اور اطمینا ن کے بعد اپنی بندوق کا استعمال کیا ، جو پنجابی اپنے رشتے ناتے پنجاب سے توڑ کر بلوچ سماج کے نفع ونقصان میں حصہ دار ہوچکے تھے اُن سے کوئی بیر نہ رکھا۔البتہ بلوچ قوم دوست جماعتوں میں شامل کچھ نہ سمجھ اور دشمن میڈیانے پروپیگنڈہ کیا کہ بلوچ پنجابی مزدروں کا قتل کررہے ہیں ، چاہئے تھا کہ ہمارے قوم دوست اس جھوٹ کی تردید کرتے اور سیاسی زبان میں دنیا کو سمجھاتے کہ جس طرح آزاد ملک اپنے مخصوص اندرونی حالات کے تناظرمیں غیرملکیوں کو اپنے سرحدوں سے نکالتے ہیں اسی طرح بلوچستان میں بھی جنگ ہورہی ہے یہاں غیرملکیوں کا رہنا بلوچ تحریک اور غیرملکی مزدور دونوں کے مفاد میں نہیں اس لیے جب تک جنگ جاری ہے دشمن قوم سے تعلق رکھنے والے مزدور بلوچستان سے نکل جائیں ۔
لیکن وائے افسوس ! ہمارے میڈیا اور سیاسی کارکنان کی ناسمجھی پر جو پاکستانی میڈیا نے کہا انہوں نے ہوبہو نقل کیا :’’ بلوچ سرمچار آباد کاروں کو قتل کررہے ہیں ‘‘جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں کسی ایک بھی آباد کار کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ کچھ بڑے شہروں کوچھوڑ کر بلوچستان میں کہیں بھی کوئی آباد کار نہیں البتہ دشمن قوم پنجاب سے تعلق رکھنے والے درجن بھر مزدور اور اکا دکا سرکاری ملازمین ہیں ۔ جن چندشہروں میں آباد کار تھے اب بھی وہیں رہتے ہیں کسی نے اُنہیں قتل نہیں کیا کیوں کہ بلوچ کی جنگ پنجابی آبادکاروں اور مزدوروں سے نہیں بلکہ طاقتور پنجاب شاہی سے ہے جو بلوچ سرزمین پر قبضہ جمانا چاہتاہے ۔
مندرجہ بالا خیال اور نظریات کے تحت کوئی جواز نہیں رہتا کہ ایک سمجھدا ر آدمی ہورشولی میں قتل کیے جانیو الے بے گناہوں کے قتل کی حمایت کرئے ، اگر کوئی ہو جو یہ کہے کہ پنجابی ہمارے دشمن ہیں اور دشمن کو مارنا چاہئے تو پھراُن تاجک اور افغانوں کا کیا قصور تھا جو ان کے ساتھ قتل کیے گئے ؟بلوچ قوم دوست دنیا کو یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ اُن کی جدوجہد دہشت گردی نہیں ، اُن کے رہنما ء کم عقل اور جذباتی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں ، جد وجہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ۔ جنگ اُن کا پسندیدہ مشغلہ نہیں بلکہ پاکستانی دہشت گردی نے اُنہیں بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے پھر بھی بلوچ اپنے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلہ سمجھتے ہوئے کوشاں ہیں کہ بین الاقوامی طاقتیں بلوچ مسئلے کے حل کے لیے بلوچوں کا ساتھ دیں ۔
اس میں شک نہیں کہ ہورشولی میں قتل کیے جانے والے بے گناہ مزدور وں کوبلوچ سرمچاروں نے قتل نہیں کیا لیکن جس غیرمعروف تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی اُس نے خود کو بلوچ سرمچاروں کی تنظیم قرار دیاہے ۔جنگی صورتحال میں اس طرح کی پیچیدہ کارروائی ہوتی ہیں ۔ بلوچ سماج کے بیرگری اور اندھے ردعمل کے نتیجے میں بھی کچھ افراد سرمچاروں سے قربت نہ رکھنے کے باوجود خود سے اس طرح کی کارروائیاں کرتی ہیں پھر بھی بلوچ قوم دوست مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے کیوں کہ اُن کی ذمہ داریوں میں تحریک کو شعورکے ساتھ آگے بڑھانا بھی شامل ہے ۔ سرمچار اور دہشت گرد کے بندوق میں فرق یہی ہے کہ سرمچار انسانی حقو ق اور اُصولوں کی پاسداری کرتا ہے جب کہ دہشت گرد اور لٹیر ے کو انسانی تہذیب اور اُصولوں سے کوئی غرض نہیں ۔ہورشولی واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ کوئی بلوچ راہنما ء اسے اپنا کارنامہ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ بلوچ دنیا کو یہی کہہ رہاہے پنجاب پر دباؤ ڈالے کہ وہ بلوچوں کے قتل عام کو روکے ، بلوچ تحریک کوقبو ل کرئے ، اسیران کے ساتھ جنیوا کنونشن کے تحت سلوک کرئے اور جنگی اُصولوں کی پاسداری کرئے ۔ اب اگر سرمچار بھی گناہ گار اور بے گناہ میں فرق نہ رکھے تو دنیا اس میں اور پنجابی میں کس طرح فرق کرئے گی ؟ اس طرح کی کارروائیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بلوچ تحریک کو کافی نقصان پہنچاہے کیوں کہ جنگ کے بھی کچھ اُصول ہوتے ہیں اُنہیں پنجابی توڑے یا بلوچ قصوروار ہے ،جو شخص جنگ میں شریک نہیں اُسے قتل نہیں کیاجاتا۔جو مسافر ہورشولی میں قتل کیے گئے انہوں نے بلوچ سماج کے خلاف کوئی منفی عمل نہیں کیاتھاالبتہ انسانی اسمنگلنگ دشمن ریاست کے لیے ایک پریشانی ہے ،غیرقانونی طور پر باہر جانے والے اسی راستے سے دنیابھر میں پھیل کرعالمی سطح پر ایران اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ، پاکستان اس کی روک تھام کے لیے کوششیں بھی کررہاہے ۔ 
بلوچ سرمچاروں کا کام محض خوف پھیلانانہیں کہ ہرکوئی بلوچ کے نام سے ہی خوفزدہ ہو ، بلوچ سرمچار باشعور اور سیاسی رہنماء ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کی کارروائیوں پر صرف بلوچ قوم کی نگاہیں نہیں بلکیں پوری دنیا اُن کی طرف متوجہ ہے اس لیے اُنہیں اپنی بندوق کا استعمال انتہائی احتیاط سے کرنا چاہئے ۔ ہورشولی واقعہ معلوم نہیں چند لوگوں کا ذاتی جوش اور جذباتی ردعمل کا نتیجہ تھا یا بدنیتی لیکن یہ واضح ہے کہ اس عمل سے بلوچ تحریک کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس خبرسے دنیا میں بلوچ کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس لیے بلوچ سرمچار اور قوم دوستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعلان کریں کہ ’’ بے گناہوں کے قتل میں اُن کاہاتھ نہیں ۔‘‘یہ بلوچ سرمچاروں کے لیے شروع دن سے ہی ایک مسئلہ تھا کہ خودروتنظیموں کو روکا جائے ، ماضی میں بلوچ سرمچار اس طرح کی خود روتنظیموں کی روک تھام میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں ۔اس دفعہ بھی اُمید کی جاسکتی ہے کہ بلوچ سرمچار اپنی سرزمین کو بے گناہوں کے قتل سے داغدار نہیں کریں گے ۔ اسی طرح بلوچ دانشوروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ نجی محافل میں اس کارروائی کی مذمت کررہے ہیں اپنے مضامین اور تبصروں میں بھی بلوچ نوجوانوں کی درست رہنمائی کریں ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.