گھنگرایالے بالوںوالے اس لڑکے میں پیدائشی طور پر او ر کوئی خاص بات تو نہیں تھی سوائے اس کے کہ ان کا رنگ اپنے خاندان کے دیگر لوگوں سے ذرا اُجلا تھا ۔اُن کو بھی ”واجہ اور بانک “کے مخصوص لفظ سکھائے گئے جو اس زمانے میں ہر غلام فرزندکو سکھائے جاتے تھے ۔ گوکہ وہ اس زمانے میں جنمے جب گورے آقاﺅں کے سر کاری حکم کی وجہ سے کوئی شخص آزادانہ طور پر غلام رکھنے کا دعوی نہیں کرسکتا تھایا شاید خو”و اجھان“ میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ ”ٹی اور ٹینگان “کو قابل مشقت بنانے کے لیے اپنے جھوٹے کھلاسکیں۔ کافی عرصہ غلاموں کو آزادانہ زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالنے میں بھی لگی ،یہ اسی زمانے کا سنگم تھا ۔
انسانوں کے ساتھ گل وخشت جیسا برتاﺅ کرنے والے سماج نے ان کو بھی اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔جب وہ پیدا ہوئے ہوں گے شاید ہی ان کے خاندان نے ”بانک اور واجھان “کی روایت نبھا کر ان کے منہ میں شہد ٹپکا یا ہو .......................بھلا غلام کبھی خواب دیکھتے ہیں !۔
اس سچائی پر صرف نظر نہ کیاجائے کہ ”پیدائشی مذہب “کے ساتھ انسان کا رشتہ ماں بولی جیسا ہی ہے ۔ ضرورت ، عادت اور مجبوری میں مخصوص لب ولہجے کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی اور الفاظ کی روح تک اترنے والوں میں فرق ہے وہی فرق جو عام اور خاص میں ہوتا ہے ۔ ایک عام شخص تب خاص بنتا ہے جب وہ ”کیوں ؟“سوچ کوبولنے کی جسارت کرتا ہے ۔ وہ مخصوص سماجی سانچوں میں ڈھلنے سے انکارکرکے اپنی کمیت کے مطابق ہیت کے تعین کی کوشش کرتا ہے ۔سماج کے سانچے عموماًخاصان خاص کے لیے تنگ پڑ جاتے ہیں ۔
”غلامک اب تم بڑ ے ہوگئے ہو سات سال کی عمر میں مسلمانوں پر روزہ اور نماز فرض ہوجاتے ہیں ،مدرسے میں استاد کی ساتھ بد تمیزی نہیں کرنا جو وہ بولے ان کی بات پر عمل کرنا ۔“غلامک کا مدرسہ کیا ؟...................................................... فراعین مصر کے زمانے کے کاھنین مصر کی سر پرستی میں چلنے والے کسی درس گاہ کے بارے میں پڑھیں ۔
”غریبوں کے طبیب کا ہونہار بیٹا ’سینوھا“رشوت کھلانے کے بعد جب اپنے زمانے کی دنیا کے سب سے بڑے میڈیکل یونیورسٹی دار الحیات طبس مصر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں سب سے پہلاسبق یہی سکھایا گیا کہ ”کیوں ؟“سوال کو اپنے ذہن سے کھرچ لیں...................چاہئے پانی کو آسمان کی طرف بہتا دیکھ لیں، سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا ہوایافرزند خدا(فراعین) کو عام انسانوں جیسا درد کی تکلیف سے چلاتے دیکھ کر ۔“
سدھانت سوچا......موت کیا ؟..............جب موت ہے تو جینا کیوں ؟.............مگر وہ سوچنے سے پہلے بہترین انسانی ٹیپ ریکارڈ ر کی طرح سماجی قدروں کی پاسداری میں طویل عرصے تک روحانی عذاب سہتا رہا۔ اب کاھنین تو یہ نہ کہیں گے کہ” اس نے سوچا اور اس کی سوچ نےاس کی رہنمائی کی۔“وہ اپنا کاروبار چلانے کے لیے یہی کہیں گے کہ”ہم نے اس کے رگ وپے میں کافی مقدس علوم انڈیلا تھامگر شیطان جانتا تھا کہ اگر وہ خدا کے رستے پر چلتا رہا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گے ۔ شیطان تو ازل سے ہی ایسے خاص لوگوں کو ورغلاتا رہاہے ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے خاصان خدا کے ساتھ یہی کرتا ہے کیوں کہ شیطان بھی کبھی خاصان خدا میں سے تھا۔جس نے اپنا بد لہ لینے کے لیے اسے بھی گمراہ کرلیا۔“
”میرے گھر میں بولنے والی میناہے ؟....................“یہ سن کر بچے نے اپنے دوست کی طرف دیکھا ، ہاتھ میں لیے ”کھلونا طوطے “کو ننھی ہتھیلی پر رکھ کر کچھ سوچا اور پھر اسے اپنے دوست کے ہاتھوں میںدے کر بولنے والی مینا کو دیکھنے اس کے ساتھ چل پڑ ا ۔
فطرت سائنس اور قدرت خوش فہمی ، توقع اور امید کی موجد ہے ۔ میں نہیں مانتا کہ کوئی فطرت سے ایساہنر سیکھ کر آتا ہے جو اس سے پہلے کوئی نہیں جانتا ہو ‘اس کے اپنے تگ و د وکا اس کی زندگی پر عمل دخل فیصدی اعتبار سے فطرت کی نسبت کمتر ہے ۔ فطرت حواس خمسہ اور سماج یکساں مواقع دے تو ایک غلام زادہ بھی شہزادے کی طرح ہنر مند بن سکتا ہے مگر بہت سے لوگ مواقع خود بھی تلاش کرتے ہیں جوخوش فہمی ، توقعات اورامید کی زندگی کو ترک کردیتے ہیں اوراپنی جاہلیت کا اقرار کرکے علم کے مدراج چڑھتےہیں ۔ بغدادی لیاری کی تنگ وتاریک بد بودار گلیوں میں ننگ دھڑنگ بھوکے پیاسی بچے کیا سیکھتے ،کیا بولتے ؟................”شاید یہ ہندوستانی ہم سے اچھے ہیں ان کی بولی ہماری زبان سے زیادہ گہری اور علمی ہے تب ہی تو ہمیں اسے پڑھنا لکھنا سکھا یا جاتاہے ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم بڑا بننے کے لیے اسے سیکھیں اور ان جیسا رویہ اختیار کر یں ۔“وہ اکچادھاری تھاسو جوانہوں نے سوچا وہی روپ دھار لیا ۔
گھنگرایالے بالوں والے لڑکے کو اس زمانے میں ان کے شہر میں نوارد ہندوستانی لکھنو کی زبان میں بات کرتا دیکھ کر ششد ر رہ جاتے تھے :”ارے میاں ذرااس مکرانی لونڈے کو تودیکھیولکھنو کی زبان بولتاہے....... اسی کی بات کر رہیاہوں جو پنواڑ کی کیبن کے سامنے کرتا پائجامہ پہنے کھڑا پان چبا رہاہے ۔“
یہ نوارد آج چونسٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی اسی زمانے میں جی رہے ہیں..............لفظ جیسے ان کے زرخرید غلام،وہ جب چاہتا ان کے منہ سے ہیر ے موتی کی طرح جڑتے تھے ۔رواں زبان اس جسمانی طور پر بیمار شخص کا واحد ہتھیار تھی۔اجنبیوں کے ایک جمگھٹے میں بولے اپنے ہنر کی داد کیا لیتے لعن طعن سن کر لوٹ آئے ۔ایک اُردو ادیب نے طنزیہ ان سے کہا کہ :”آپ کے بال مکرانی مگر لہجہ لکھنوئی ہے ۔“
انہوں نے فرمایا :”میرے بال مکرانی نہیں اِن کے(وہاں موجود ڈاکٹر صبور کی طرف اشارہ کیا ) بال مکرانی ہیں میرے بال افریقی ہیں اور مجھے فخر ہے کہ افریقہ نے نیلسن منڈیلا جیسی شخصیت پیداکی ہے ۔“
یہ احمقانہ بات ابھی کل ہی کسی نے کی ہے کہ” وہ پاﺅں میں گھنگروباندھ کر شریمان شوشنکر کو خوش کرنے کے لیے رقص کرتے تھے۔“ان کے کمرے میں سدھانت کی مورتیاں اس لیے نہ تھیں کہ وہ گوتم بدھ کے پجاری تھے ۔ وہ گوتم کی فکر کے عاشق تھے جنہوں نے سماجی غلامی اور طبقاتی اونچ نیچ اور انسان کے خدا بننے کے خلاف بغاوت کی جس کا بدلہ پجاریوں نے انھیں ہی خدا بنا کر برابر کردیا ۔
ان کے مذہب کے بارے میں افکار کوجانے بغیر ا ن کے بار ے میں انا پ شنا پ بولنے سے گریز کرنا چاہئے ‘موسیقی سے عشق فطری ہے ! بس انہوں نے اس کا اظہار کر نے میں بیباکی دکھائی ۔ صوفیوں کو بھی توموسیقی سے بڑا لگاﺅ ہوتا ہے۔۔ وہ ادبی تخلیق کار تھے علامتوں کی اہمیت سے آگاہ اور ان کو برتنا جانتے تھے ،میاں! ان کے گلے کی تسبیح کا بھی کوئی مطلب نکالیں ۔ وہ پاﺅں میں موسیقی بکھیرتی زنجریں ڈال کر چار دیواری میں قید ہوکر اس آزادی کا راستہ کھوجنے کی کوشش کرتے جوانسانی کی اندر سے نکلتا ہے ۔ ہم یہاں ان پر اعتراض کرسکتے ہیں مگر پتھر پر کوئی لکیر نہیں کھینچ سکتے کیوں کہ وہ پتھر کی لکیریں کھرچ کھرچ کر کافی تک چکے ہیں ۔ وہ سدھانت جیسے مہان ہستیوں کا ایک علامتی اوتار تھے کوئی غلط فہمی کا شکار نہ ہو میں پجاریوں کی طرح سدھانت کوبھگوان بناکر پیش نہیں کرنا چاہتا میں لفظ اوتار کو اساتیری معنویت سے علیحدہ کر کے دوکرداروں کی مماثلت بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کررہاہوں ۔
سدھانت کوکون سمجھا؟چند ننگ دھڑنگ۔ان کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو کافی وقت لگا مگر وہ خود وقت کی رفتار پکڑ کر چلتے تھے‘ کہاں ناں وہ اکچادھاری تھے ...........مدرسے میں حافظ بننا پسند نہیں ،میر اور غالب کی چال چلنی ہے دہلی اور لکھنو کی زبان بولنی ہے۔ وہ اپنی سوچ کے مطابق کرداروں میں ڈھلتےگئے دنیا کی مجال کہ اس کے سامنے ٹہر سکے وہ جو چاہا بنتا رہاہے تب تک کہ اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کردار اور روپ نہ ملا ۔ جب بلوچی زبان سے آشناہی ہوئی توعشق کر بیٹھے ، عشق بھی ایسا کہ سب کچھ تیاگ کر اسی کی بناﺅسنگھار میں جت گئے ۔
سرداروں کو وہ غلامی کی علامت سمجھتے تھے اور ان جیسا شخص جو غلامی کی کئی برے آتماﺅں کو پچھاڑ چکے ہوں سرداروں کو کیا خاطرمیں لاتے ۔ مگر و ہ پتھر پر لکیر کھینچنے والوں میں سے بھی نہ تھے نہ فکر سے بہرے اور اندھے ۔جب ایک بوڑھے سردار کو ننگ دھڑنگوں کی آزادی کے لیے جان کی بازی لگاتے دیکھا تو محسوس کیا کہ اس کی ذمہ داریاں صرف زبان کو زندہ رکھنا نہیں بلکہ اس شیریں زبان کے بولنے والے کو فکری اور جسمانی غلامی سے آزاد کرانا بھی ہے ........................ تب غلام حسین نے سوچا کہ وہ غلام ہے اور اس کے بیباکانہ اظہار کا بیڑا اُٹھا لیا ۔ان کی نظر میں غلامی کی جنگ میں سپاہیوں کے درمیان مساوات ہوناچاہئے، کوئی فرق نہیں۔ اگر بندوق اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تو سب بندوق اُٹھا ئیں گے ۔ لنگڑے ،لولے، کمزور ‘لکھنے بولنے والے ، عورتیں بچے سب لڑیں گے میدان کسی کو نہیں چھوڑنا ۔
میدا ن جنگ میں سب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گئے ۔ جب طبل جنگ بجا دشمن پر رعب جمانے کے لیے شور غوغا مچا تو میر بلوچ کی آوازسب سے بلند تھی وہ بچارہ اسے بھی کوئی انقلابی دیوان سمجھ رہاتھا ......”چکیں بلوچانیں “کے ساتھ کولہے ہلاناجام جام سے جام ٹھکرانا پھر تاشے پٹاخے پھوڑنا ۔ پینتیس سالوں سے میر بلوچ یہی تو کرتا آیا تھا ۔ لیکن اس مرتبہ جنگ، جنگ کی طرح ہوئی پہلے دشمن سمجھا یہ وہی پینتیس سال پرانے بھونکنے والے کتے ہیں۔ جب بھوک لگے گی تود م ہلاتے ہوئے ہمارے پاس ہی آئیں گے۔ لیکن یہ شیر کی طرح حملہ آﺅر ہوئے۔ اُدھر سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی ۔ میر بلوچ میدان چھوڑ کر بھاگ گیامگر غلام کھڑے رہے ....................تب تک کہ دشمن کی گولیوں سے چھلنی ان کے جسم نے ساتھ دینےسے انکار کردیا ۔
اس سچائی پر صرف نظر نہ کیاجائے کہ ”پیدائشی مذہب “کے ساتھ انسان کا رشتہ ماں بولی جیسا ہی ہے ۔ ضرورت ، عادت اور مجبوری میں مخصوص لب ولہجے کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی اور الفاظ کی روح تک اترنے والوں میں فرق ہے وہی فرق جو عام اور خاص میں ہوتا ہے ۔ ایک عام شخص تب خاص بنتا ہے جب وہ ”کیوں ؟“سوچ کوبولنے کی جسارت کرتا ہے ۔ وہ مخصوص سماجی سانچوں میں ڈھلنے سے انکارکرکے اپنی کمیت کے مطابق ہیت کے تعین کی کوشش کرتا ہے ۔سماج کے سانچے عموماًخاصان خاص کے لیے تنگ پڑ جاتے ہیں ۔
”غلامک اب تم بڑ ے ہوگئے ہو سات سال کی عمر میں مسلمانوں پر روزہ اور نماز فرض ہوجاتے ہیں ،مدرسے میں استاد کی ساتھ بد تمیزی نہیں کرنا جو وہ بولے ان کی بات پر عمل کرنا ۔“غلامک کا مدرسہ کیا ؟...................................................... فراعین مصر کے زمانے کے کاھنین مصر کی سر پرستی میں چلنے والے کسی درس گاہ کے بارے میں پڑھیں ۔
”غریبوں کے طبیب کا ہونہار بیٹا ’سینوھا“رشوت کھلانے کے بعد جب اپنے زمانے کی دنیا کے سب سے بڑے میڈیکل یونیورسٹی دار الحیات طبس مصر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں سب سے پہلاسبق یہی سکھایا گیا کہ ”کیوں ؟“سوال کو اپنے ذہن سے کھرچ لیں...................چاہئے پانی کو آسمان کی طرف بہتا دیکھ لیں، سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا ہوایافرزند خدا(فراعین) کو عام انسانوں جیسا درد کی تکلیف سے چلاتے دیکھ کر ۔“
سدھانت سوچا......موت کیا ؟..............جب موت ہے تو جینا کیوں ؟.............مگر وہ سوچنے سے پہلے بہترین انسانی ٹیپ ریکارڈ ر کی طرح سماجی قدروں کی پاسداری میں طویل عرصے تک روحانی عذاب سہتا رہا۔ اب کاھنین تو یہ نہ کہیں گے کہ” اس نے سوچا اور اس کی سوچ نےاس کی رہنمائی کی۔“وہ اپنا کاروبار چلانے کے لیے یہی کہیں گے کہ”ہم نے اس کے رگ وپے میں کافی مقدس علوم انڈیلا تھامگر شیطان جانتا تھا کہ اگر وہ خدا کے رستے پر چلتا رہا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گے ۔ شیطان تو ازل سے ہی ایسے خاص لوگوں کو ورغلاتا رہاہے ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے خاصان خدا کے ساتھ یہی کرتا ہے کیوں کہ شیطان بھی کبھی خاصان خدا میں سے تھا۔جس نے اپنا بد لہ لینے کے لیے اسے بھی گمراہ کرلیا۔“
٭
”میرے گھر میں بولنے والی میناہے ؟....................“یہ سن کر بچے نے اپنے دوست کی طرف دیکھا ، ہاتھ میں لیے ”کھلونا طوطے “کو ننھی ہتھیلی پر رکھ کر کچھ سوچا اور پھر اسے اپنے دوست کے ہاتھوں میںدے کر بولنے والی مینا کو دیکھنے اس کے ساتھ چل پڑ ا ۔
بچے نے مینا کی طرف دیکھ کر کہا :” مٹھو بٹ ور ئے ؟“
مینابولی ” مٹھو بٹ ورئے ۔“
بچہ بولا :” مٹھو !چاکلیٹ ورئے؟“
مینا بولی ” مٹھو !بٹ ورئے ................چور چور ۔“بچے کا دوست ان کی حیرت اور مینا کی باتوں پر قہقہ لگانے لگا ۔بچہ حیران ہوا مگر بولتی مینا دیکھ کر نہیں بلکہ اس دریافت پر کہ ان کا دوست عمر کی ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد بھی بولتی مینا پر اعتقاد رکھتا ہے۔٭
انہوں نے ماسی ٹیڈی کی زندگی کا زیر ک بینی سے مشاہدہ کیاتو اس پر اسرار کی ایک دنیا افشاں ہوئیں اوربچہ وقت سے بہت پہلے بوڑھا ہوگیا ۔ انہیں بڑ آدمی بننے کا جنون تو بچپن سے ہی تھا لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس راز کو پا کر بوڑھا ہوجائے گا ۔ بوڑھے روح کے ساتھ زندگی جینے میں بڑ امزا ہے ۔ بھول بھلیوں میں اپنا راستہ کھوجتے کھوجتے اس نے درد سے لذت کشید کرنے کاہنر بھی سیکھ لیا پھر کبھی کسی نے ان کا مسکراہٹ سے خالی چہرہ نہ دیکھا ۔انہوں نے محبت کوجنس اور رشتے سے پیوست کرنے والوں کے فلسفے کو عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر پوچ ثابت کردیا ۔ان کا جنسی قبیلہ ان کی ذات کی طرح اسرار کی دنیا میں رہتاہے۔ ہم جیسے زمینی مخلوق ان کی پاتال نگری میں نفرت سے جھانکنا تک گوارا نہیں کرتے ۔ وہ کاھنین جو ہر بات کو خدا کی ذات سے جوڑکر زمین پر خدائی کرنا چاہتے ہیں ۔ ان سے متعلق پیشانی پر نفرت آمیز شکنیں سجاکر بھول جاتے ہیں کہ اگر ان کا دعویٰ سچا ہے تو ان کی پیدائش اور ان میں عام انسانوں سے مختلف احساسا ت کی ودیت میں بھی انہی کے خدا کا ہاتھ ہے۔ فطرت واحد انقلابی ہے جو ان سماجی سامراجوں سے ہمیشہ سے نبردآزما رہی ہے۔ وہ بھی فطرت کا ہاتھ تھام کر پاتال کی گہرائیوں سے نکل کر آسمان پر روشن تارے کی طرح منور ہوگیا ۔فطرت سائنس اور قدرت خوش فہمی ، توقع اور امید کی موجد ہے ۔ میں نہیں مانتا کہ کوئی فطرت سے ایساہنر سیکھ کر آتا ہے جو اس سے پہلے کوئی نہیں جانتا ہو ‘اس کے اپنے تگ و د وکا اس کی زندگی پر عمل دخل فیصدی اعتبار سے فطرت کی نسبت کمتر ہے ۔ فطرت حواس خمسہ اور سماج یکساں مواقع دے تو ایک غلام زادہ بھی شہزادے کی طرح ہنر مند بن سکتا ہے مگر بہت سے لوگ مواقع خود بھی تلاش کرتے ہیں جوخوش فہمی ، توقعات اورامید کی زندگی کو ترک کردیتے ہیں اوراپنی جاہلیت کا اقرار کرکے علم کے مدراج چڑھتےہیں ۔ بغدادی لیاری کی تنگ وتاریک بد بودار گلیوں میں ننگ دھڑنگ بھوکے پیاسی بچے کیا سیکھتے ،کیا بولتے ؟................”شاید یہ ہندوستانی ہم سے اچھے ہیں ان کی بولی ہماری زبان سے زیادہ گہری اور علمی ہے تب ہی تو ہمیں اسے پڑھنا لکھنا سکھا یا جاتاہے ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم بڑا بننے کے لیے اسے سیکھیں اور ان جیسا رویہ اختیار کر یں ۔“وہ اکچادھاری تھاسو جوانہوں نے سوچا وہی روپ دھار لیا ۔
گھنگرایالے بالوں والے لڑکے کو اس زمانے میں ان کے شہر میں نوارد ہندوستانی لکھنو کی زبان میں بات کرتا دیکھ کر ششد ر رہ جاتے تھے :”ارے میاں ذرااس مکرانی لونڈے کو تودیکھیولکھنو کی زبان بولتاہے....... اسی کی بات کر رہیاہوں جو پنواڑ کی کیبن کے سامنے کرتا پائجامہ پہنے کھڑا پان چبا رہاہے ۔“
یہ نوارد آج چونسٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی اسی زمانے میں جی رہے ہیں..............لفظ جیسے ان کے زرخرید غلام،وہ جب چاہتا ان کے منہ سے ہیر ے موتی کی طرح جڑتے تھے ۔رواں زبان اس جسمانی طور پر بیمار شخص کا واحد ہتھیار تھی۔اجنبیوں کے ایک جمگھٹے میں بولے اپنے ہنر کی داد کیا لیتے لعن طعن سن کر لوٹ آئے ۔ایک اُردو ادیب نے طنزیہ ان سے کہا کہ :”آپ کے بال مکرانی مگر لہجہ لکھنوئی ہے ۔“
انہوں نے فرمایا :”میرے بال مکرانی نہیں اِن کے(وہاں موجود ڈاکٹر صبور کی طرف اشارہ کیا ) بال مکرانی ہیں میرے بال افریقی ہیں اور مجھے فخر ہے کہ افریقہ نے نیلسن منڈیلا جیسی شخصیت پیداکی ہے ۔“
یہ احمقانہ بات ابھی کل ہی کسی نے کی ہے کہ” وہ پاﺅں میں گھنگروباندھ کر شریمان شوشنکر کو خوش کرنے کے لیے رقص کرتے تھے۔“ان کے کمرے میں سدھانت کی مورتیاں اس لیے نہ تھیں کہ وہ گوتم بدھ کے پجاری تھے ۔ وہ گوتم کی فکر کے عاشق تھے جنہوں نے سماجی غلامی اور طبقاتی اونچ نیچ اور انسان کے خدا بننے کے خلاف بغاوت کی جس کا بدلہ پجاریوں نے انھیں ہی خدا بنا کر برابر کردیا ۔
ان کے مذہب کے بارے میں افکار کوجانے بغیر ا ن کے بار ے میں انا پ شنا پ بولنے سے گریز کرنا چاہئے ‘موسیقی سے عشق فطری ہے ! بس انہوں نے اس کا اظہار کر نے میں بیباکی دکھائی ۔ صوفیوں کو بھی توموسیقی سے بڑا لگاﺅ ہوتا ہے۔۔ وہ ادبی تخلیق کار تھے علامتوں کی اہمیت سے آگاہ اور ان کو برتنا جانتے تھے ،میاں! ان کے گلے کی تسبیح کا بھی کوئی مطلب نکالیں ۔ وہ پاﺅں میں موسیقی بکھیرتی زنجریں ڈال کر چار دیواری میں قید ہوکر اس آزادی کا راستہ کھوجنے کی کوشش کرتے جوانسانی کی اندر سے نکلتا ہے ۔ ہم یہاں ان پر اعتراض کرسکتے ہیں مگر پتھر پر کوئی لکیر نہیں کھینچ سکتے کیوں کہ وہ پتھر کی لکیریں کھرچ کھرچ کر کافی تک چکے ہیں ۔ وہ سدھانت جیسے مہان ہستیوں کا ایک علامتی اوتار تھے کوئی غلط فہمی کا شکار نہ ہو میں پجاریوں کی طرح سدھانت کوبھگوان بناکر پیش نہیں کرنا چاہتا میں لفظ اوتار کو اساتیری معنویت سے علیحدہ کر کے دوکرداروں کی مماثلت بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کررہاہوں ۔
سدھانت کوکون سمجھا؟چند ننگ دھڑنگ۔ان کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو کافی وقت لگا مگر وہ خود وقت کی رفتار پکڑ کر چلتے تھے‘ کہاں ناں وہ اکچادھاری تھے ...........مدرسے میں حافظ بننا پسند نہیں ،میر اور غالب کی چال چلنی ہے دہلی اور لکھنو کی زبان بولنی ہے۔ وہ اپنی سوچ کے مطابق کرداروں میں ڈھلتےگئے دنیا کی مجال کہ اس کے سامنے ٹہر سکے وہ جو چاہا بنتا رہاہے تب تک کہ اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کردار اور روپ نہ ملا ۔ جب بلوچی زبان سے آشناہی ہوئی توعشق کر بیٹھے ، عشق بھی ایسا کہ سب کچھ تیاگ کر اسی کی بناﺅسنگھار میں جت گئے ۔
سرداروں کو وہ غلامی کی علامت سمجھتے تھے اور ان جیسا شخص جو غلامی کی کئی برے آتماﺅں کو پچھاڑ چکے ہوں سرداروں کو کیا خاطرمیں لاتے ۔ مگر و ہ پتھر پر لکیر کھینچنے والوں میں سے بھی نہ تھے نہ فکر سے بہرے اور اندھے ۔جب ایک بوڑھے سردار کو ننگ دھڑنگوں کی آزادی کے لیے جان کی بازی لگاتے دیکھا تو محسوس کیا کہ اس کی ذمہ داریاں صرف زبان کو زندہ رکھنا نہیں بلکہ اس شیریں زبان کے بولنے والے کو فکری اور جسمانی غلامی سے آزاد کرانا بھی ہے ........................ تب غلام حسین نے سوچا کہ وہ غلام ہے اور اس کے بیباکانہ اظہار کا بیڑا اُٹھا لیا ۔ان کی نظر میں غلامی کی جنگ میں سپاہیوں کے درمیان مساوات ہوناچاہئے، کوئی فرق نہیں۔ اگر بندوق اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تو سب بندوق اُٹھا ئیں گے ۔ لنگڑے ،لولے، کمزور ‘لکھنے بولنے والے ، عورتیں بچے سب لڑیں گے میدان کسی کو نہیں چھوڑنا ۔
٭
ان کی تصویر دیکھ کر ایک میر بلوچ نے کہا :”اے صبا اِنت؟...............اے وَ بلوچے نہ اِنت ۔“میدا ن جنگ میں سب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گئے ۔ جب طبل جنگ بجا دشمن پر رعب جمانے کے لیے شور غوغا مچا تو میر بلوچ کی آوازسب سے بلند تھی وہ بچارہ اسے بھی کوئی انقلابی دیوان سمجھ رہاتھا ......”چکیں بلوچانیں “کے ساتھ کولہے ہلاناجام جام سے جام ٹھکرانا پھر تاشے پٹاخے پھوڑنا ۔ پینتیس سالوں سے میر بلوچ یہی تو کرتا آیا تھا ۔ لیکن اس مرتبہ جنگ، جنگ کی طرح ہوئی پہلے دشمن سمجھا یہ وہی پینتیس سال پرانے بھونکنے والے کتے ہیں۔ جب بھوک لگے گی تود م ہلاتے ہوئے ہمارے پاس ہی آئیں گے۔ لیکن یہ شیر کی طرح حملہ آﺅر ہوئے۔ اُدھر سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی ۔ میر بلوچ میدان چھوڑ کر بھاگ گیامگر غلام کھڑے رہے ....................تب تک کہ دشمن کی گولیوں سے چھلنی ان کے جسم نے ساتھ دینےسے انکار کردیا ۔
٭٭٭
02-06-2011
Post a Comment