Also read in English Click here
شہید لالا حمید بلوچ نے گوادر کے پہلے روزنامہ
شہید لالا حمید بلوچ نے گوادر پریس کلب کی فعالیت میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ وہ روزنامہ توار کے علاوہ کراچی ، محشر ، گیٹ وے اور رائل ٹی وی کے لیے رپورٹنگ کیا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے انٹرنیٹ پر آئی سما ٹی وی اور فیس بک پر بھی اکاونٹ کھول رکھے تھے جہاں پر وہ بلوچستان کے حوالے خبریں شیئر کرتے تھے ۔ اُن کی شہادت کے بعد گوادر پریس کلب کے بلاگ سمیت اُن کے تمام اکاونٹس بھی بند کردیئے گئے ۔
شہید لالا حمید بلوچ طبیعتاً ایک ملنسار اور ہنسی مذاق کرنے والے زندہ دل انسان تھے۔اُن کا بغیر کسی عمر اور سماجی رتبے کے فرق کے تمام لوگوں سے مذاق اور دوستی کے رشتے تھے ۔ اُن کی یہی عادت اُن کی شناخت بھی تھی جسے اُن کی غیر موجودگی میں ان کے دوست برسوں یاد کرکے آنسو بہاتے رہیں گے ۔ اُن کے دوستوں میں 90 سال کے بوڑھے اور چار سال کے بچے سبھی شامل تھے ۔ وہ سنجیدہ محافل میں بھی مذاق کا نکتہ نکال کر محفل کو کشت زعفران بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ شہید ایک بہترین اسپورٹس مین بھی تھے وہ فٹبال میں گول کیپر کے علاوہ کرکٹ بھی کھیلا کرتے تھے ۔ وہ سیاسی جلسوں کی قیادت انتہائی جرات مندانہ انداز میں کیا کرتے تھے اُن کی شخصیت میں اخلاص ، دوستی ، زندہ دلی ، وابستگی اور بہادری ایسے اوصاف تھے جو بہت کم لوگوں میں اکھٹے ملتے ہیں ۔
شہید لالا حمید بی ایس ا وکے انضام کے بعد 26 اگست 2007 کو بی ایس او سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تاہم انہوں نے اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ روابط رکھے ۔ 2008 میں انہوں نے شہید اکبر کا یوم شہادت منانے کے لیے بلوچ نوجوان اتحاد کے نام سے دیگر قوم دوست جماعتوں کے ساتھ مل کر جلسہ اور شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کیا یہ شہید اکبر بگٹی کے یوم شہادت کے حوالے سے بلوچستان بھر سے پہلا اعلان تھا جس کے بعد باقی معروف قوم دوست تنظیموں نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ۔ 2007 کے اواخر میں انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کی گوادر میں وہ بی این ایم کے بانیان میں شمار ہوتے ہیں ۔ انہوں نے بی این ایم کے فلاحی ادارہ بلوچ کمکار کو منظم اور فعال کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ۔
شہید لالا حمید ایک خالص قوم دوست ہونے کے باوجود سیاسی محاذ پر لڑنے والے غیر مسلح سپاہی تھے ۔ بلوچستان کے لاکھوں دانشور اور لکھاریوں کی طرح وہ بھی برملا بلوچ مسلح حریت پسندوں کی حمایت کے باوجود تقریر و تحریر کے دھنی تھے ۔ اُن پر مختلف سانحات پر تقریر کر نے کی وجہ سے بم دھماکوں اور اشتعال انگیز تقاریر کے جھوٹے الزامات بھی عائد کیے گئے ۔ ایک دو مقدمات اُنہیں عدالت سے بریت بھی مل چکی تھی ۔ان پر ایک سال تک ایک ایسا مقدمہ بھی چلایا گیا جس میں اُن کا جرم محض پولیس اہلکاروں کی تصاویر نکالنا بتایا گیا تھا ۔ بلوچستان میں عدالتوں کے احاطوں سے سیاسی و سماجی کارکنان کے ریاستی فورسز کی طرف سے اغواء کے واقعات کے بعد اُن کا عدالتوں میں پیش ہونا ممکن نہیں رہا تھا باوجود اس کے شہید لالا حمید اپنے خلاف جھوٹے مقدمات سے بھاگنے کی بجائے اُن کے مقابلہ کی راہ تلاش رہے تھے ۔
شہید لالہ حمید اکتوبر کو دشت بیری سے ایک عزیز کی شادی سے واپس آتے ہوئے کارواٹ کے مقام پر پاکستانی ایجنسیوں نے تعاقب کر کے غیر قانونی گرفتاری کے بعد18نومبر 2010تک لاپتہ رکھا۔ 18 نومبر کو اُن کی میت تربت سے 55 کلومیٹر دور ھیرونک نامی واقع گائوں کے قریب سامی کور سے ایک اور مغوی شہید حامد اسماعیل کے ساتھ ملی جنہیں فوری شناخت کرلیا گیا ۔ اُنہیں تربت لے جاکر کفن کے بعد تابوت میں رکھا گیا اُن کی جیب سے ایک پرچی ملی جس پر بلوچ قوم کے لیے عید کا تحفہ لکھا تھا ۔ اسی شام اُن کی میت اُن کے شہر گوادر پہنچی جہاں اُنہیں تاریخی قبرستان میں مشہور نامعلوم تاریخی شخصیت کے قبر [ گنبد ] کے قریب سپرد خاک کیا گیا ۔ شہید لالا حمید کے نمازہ جناہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ شہید لالاحمید کو ساحلی بلوچستان کے پہلے قومی شہید ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اس حوالے سے اُنہیں سر شہید [ پہلے شہید ] کا بھی خطاب دیا گیا ہے۔
Post a Comment