بلوچی میں پڑھیں
گمان کیا جارہا ہے کہ آنے والے زمانے میں ، گوشت پوست کے ایسے انسان بنائے جائیں گے جو بظاہر عام انسانوں جیسے ہوں گے لیکن احساسات اور معاشرتی لحاظ سے اُن کی حیثیت مشین جیسی ہوگی اور وہ اپنے آقاوں کے حکم پر غلام کی طرح خدمات بجا لائیں گے ۔
یہ خیال محض خیال ہی رہے گا یا آنے والے دور میں اس کو حقیقت کا جامہ پہنایا جائے گا ، وثوق سے کہنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اس کے انسانی معاشرے میں کئی منفی اثرات پڑنے کے امکانات ہیں ۔
مگر جیتے جاگتے انسانوں سے ربوٹ کی طرح کام لینا کوئی انہونی بات نہیں تھی ، غلامانہ دور کی بات نہیں کررہا جب افریقہ کے کالے چمڑے والوں کو بالخصوص اور ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو بالعموم غلام بناکر دور دراز کے علاقوں میں فروخت کیا جاتا تھا ۔ یہ خیال محض خیال ہی رہے گا یا آنے والے دور میں اس کو حقیقت کا جامہ پہنایا جائے گا ، وثوق سے کہنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اس کے انسانی معاشرے میں کئی منفی اثرات پڑنے کے امکانات ہیں ۔
اس زمانے میں بردہ فروش انسانوں کو چوپایوں کی طرح اُٹھا کر کسی دوسری جگہ مویشیوں کی طرح منڈی میں سجا کر فروخت کرتے تھے ۔ فروخت ہونے والا بھی اپنی آزادانہ زندگی کو بھول کر غلامانہ قوانین کی تابعداری کرتا ۔ پیغمبر یوسف کا قصہ ، اور پیغمبر اسلام کے صحابی سلمان فارسی کو دوران مسافرت غلام بناکر مکہ لیجا کر فروخت کرنا ، ہمارے سنے ہوئے مشہور واقعات میں سے ہیں۔
گوکہ موجودہ زمانے میں غلام داری نظام ختم ہے مگر سرمایہ داروں اور صنعت کاروں نے انسانوں کو غلام بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے ہیں ۔ درس گاہیں غلام بنانے کے کارخانے ہیں ۔ جہاں علم نہیں محض ہنر سکھایا جاتا ہے ۔اور بچوں کو مختلف شعبوں میں بانٹ کر اُن کو اپنے شعبے سے متعلق کارآمد اوزار بنایا جاتا ہے ۔ یہ اوزار دکھاوے کا ماسٹر اور ڈاکٹر کہلاتے ہیں لیکن ان کو اپنے شعور کے مطابق عقل استعمال کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف حکم بجا لاتے ہیں ۔
مشاہدہ کریں کہ دنیا میں بڑی تیزرفتاری سے نت نئے ایجادات ہورہے ہیں لیکن کسی بڑے سائنس دان کا ذکر سننے میں نہیں آتا ، روزمرہ استعمال کی چییزوں میں حیرت انگیز کمال کے مظاہرے کیے جارہے ہیں لیکن شعور کی دنیا سکڑ رہی ہے ۔
ان کےعقل خرید کر ، ایک ڈبے میں بند کردیے گئے ہیں جسے دفتر کہا جاتا ہے جہاں وہ آٹھ گھنٹے کی مشقت کرکے جب گھرلوٹتے ہیں تو ان کو سونے کے لیے خواب آور دوائیوں اور سکون کے لیے شراب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، ان کے قیمتی وقت کو عقل سمیت خریدنے والے یہیں پر بس نہیں کرتے بلکہ ان کے عقل کو مدہوش و مست رکھنے کے لیے بھی ان کو کلبوں ، ہوٹلوں اور مے خانوں کا ایسا ماحول دیا گیا ہے جہاں زندگی جوکر کی طرح بے ڈھنگے پن سے اُچلتی رہتی ہے ۔ زندگی کے ہر پل سے لذت کشید کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ، اس کے لیے زندگی کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے ، ناچ گانا ، کھانا پینا اور سیر و تفریح اگر زندگی کی رس سے کیف لینے کے شعوری کوشش ہوں تو انسانی ذہن مہکتے پھول کی طرح کھل اُٹھتا ہے لیکن یہ سب تابعداری میں ہوں تو کسے چیز کے محض اُوپری گرد صاف کرنے جیسا ہے ، اندرون خانہ اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ یعنی عقل مفت میں گنوانے والی بات ہوئی کیوں کہ ان عیاشیوں کی جو قیمت ادا کی جاتی ہے وہ پھر گھوم کر اسی صاحب کے جیب میں پہنچتا ہے ، کیوں کہ پینے کی پانی سے لے کر کفن تک سب ایک ہی کمپنی بناتا ہے ، جس کو چلانے والے اعلی انسانی روبوٹ ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے ، انگریزی فرفر بولتے ، اخبار پڑھتے ، ٹی وی دیکھتے اورپروگرامات میں اپنے دانشمندانہ رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں ،مگر اُن کی علمی حیثیت کو جانچا ہے کبھی ؟ وہ اس سرحد سے آگے بڑھنے کی کبھی کوشش کرتے ہیں جہاں اُن کی حد مقرر کی گئی ہے ؟
کون ہے قابل ترین ؟ فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف ، سپریم کورٹ کا جج یا پھر کسی ملک کا صدر ؟
جنرل ، جس کی تربیت یس سر کہنے اور سننے کی ہے ۔
جج ، جس کے آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں میں ترازو ہے ۔
اور
صدر ، جس کے ہاتھ فوج ، پائوں پارلیمنٹ، سر آئین اور سینہ سرمایہ داروں نے دبوچ رکھا ہے ؟
کم و بیش یہی اب تک کی تعریف کے مطابق یہی عناصر ریاست کے اہم ستون کہلاتے ہیں '' عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ '' ، عدلیہ یعنی جج ، فوج یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے ، صدر یعنی انتطامی سربراہ ۔
ہزاروں سال پہلے سینوھا ، جو پیغمبر موسی سے اندازا [ ذاتی ] کے مطابق تین یا چار سو سال پہلے ایک مصری فرعون کے طبیب اور دماغ کے ماہر سرجن تھے ، اُن کی رائے بھی اس زمانے کے مصر کے سب سے بڑے میڈیکل یونیورسٹی کے بارے میں یہی تھی کہ یہاں کیوں اور کیسے کہنے کی گنجائش نہیں۔
”غریبوں کے طبیب کا ہونہار بیٹا ’سینوھا“رشوت کھلانے کے بعد جب اپنے زمانے کی دنیا کے سب سے بڑے میڈیکل یونیورسٹی دار الحیات طبس مصر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں سب سے پہلاسبق یہی سکھایا گیا کہ ”کیوں ؟“سوال کو اپنے ذہن سے کھرچ لیں...................چاہئے پانی کو آسمان کی طرف بہتا دیکھ لیں، سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا ہوایا فرزند خدا(فراعین) کو عام انسانوں جیسا درد کی تکلیف سے چلاتے دیکھ کر۔“
[ میری ، شہید کندیل سے متعلق تحریر پڑھیں، غلام کو جب غلامی کا احساس ہوا ]
یعنی ہزاروں سالوں سے انسان جس غلامی کے خلاف سینوھا ، سقراط اور غلام محمد بن کر جدوجہد کررہے ہیں وہ طوق غلامی ابھی تک آدمی ذات کے گلے میں ہے ۔
ماضی میں یہ غلامی سرعام تھی ، سقراطیوں کی بغاوت سے اس نے چالاکی سے اپنی شکل تبدیل کی ہے اور اب ایڈز کے وائرس کی طرح سقراطی لبادے میں اپنا کام کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ باتیں عالمانہ ۔ سقراطی کتابوں کی مگر کام ، غلامانہ اور غلام داری ۔
بات آسانی سے سمجھنے کے لیے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے سیکریٹریز او دفترداروں کا مشاہدہ کریں ، ان مندرجات سے زیادہ سمجھ سکیں گے ۔
شیخ سعدی بھی صدیوں پہلے فرماچکے ہیں ۔
علم چندانکہ بیشتر خوانی
چون عمل در تو نیست نادانی
نہ محقق بود نہ دانشمند
چارپائی بر اُو کتابی چند
آن تھی مغز را چہ علم وخبر
بر او ھیزم است یا دفتر
ترجمہ :
علم چنداں یہ نہیں کہ زیادہ پڑھو
جب تم میں عمل نہیں ، نادان ہو
نہ محقق ہوئے نہ دانشمند
چوپایا جس پر چاہئے جتنی کتابیں لدھی ہوں
اس عقل کے کورے کو کیا خبر
اس پر لکڑی ہیں یا کتاب
Post a Comment