بی این پی مینگل کی طرف سے بندوبستی الیکشن میں شرکت کے بعد بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے ۔ سردار عطا ء اللہ مینگل کا شمار بلوچستان کے بااثر شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایک قدر آور سیاستدان کی حیثیت سے اُن کا بندوبست کی حمایت میں ڈالا گیا وزن بندوبستی مقتدرہ کے لیے اطمینان بخش ہے ۔ بلوچ قوم دوستوں اور لشکر بلوچستان ( جس کی تشکیل بی این پی ہی کے کارکنان نے کی ہے ) کی طرف سے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے اخترمینگل کی بلوچستان آمد اور یہاں الیکشن کی سرگرمیوں میں شمولیت سے بلوچستان میں بننے والی آئندہ کٹھ پتلی حکومت کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعلی اختر مینگل ہوں گے ۔
اگر پاکستانی فوج کو ذرہ بر ابر بھی شک ہے کہ اخترمینگل کی حکومت اس کے لیے آئندہ رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ اگلی حکومت میں بی این پی نہ تین میں ہوگی نہ تیرہ میں ۔ لیکن یہ بات
ہضم ہونی مشکل ہے کہ عطا ء اللہ جیسے زیرک سیاستدان کے ہوتے ہوئے بلا سوچے سمجھے بی این پی ایسے الیکشن کا حصہ ہو جہاں فوج کی مداخلت سوفیصد یقینی اور الیکشن محض دکھاوا ہوں گے ۔ بی این پی کو نہ قوم کی حمایت حاصل ہے نہ قوم دوستوں کی اور نہ ہی حالات سازگار ہیں ، حتی کہ اختر مینگل کے اپنے بھائی جاوید بھی اُن کے اس فیصلے کے خلاف بیا ن دے چکے ہیں ۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ محض جمہوری جہدوجہد پر یقین کی بدولت نہیں کیوں کہ بلوچستان میں کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ بندوبستی طاقتوں نے گزشتہ چارسالوں میں پرا من آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے سرگرم کارکنان کو بھی چن چن کر قتل کیا ہے ۔ تعاقب اور گھروں میں گھس کر اغواء کرکے تشدد کے ذریعے قتل کے اس وحشیانہ عمل کی وجہ سے آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور لیڈرشپ انڈر گراؤنڈ ہونے پر مجبور ہیں ۔ خود بی این پی کے کارکنان بھی اسی صورتحال سے دوچار تھے کہ اختر نے پاکستانی مقتدرہ کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کا اشارہ دیا اور بالآخر الیکشن لڑرہے ہیں ۔ باور کرنا مشکل ہے کہ یہ صرف جمہوری وجدان کی بدولت ہے بلکہ یہ سب ایک ایسے خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہے جس میں پاکستانی فوج نے بھی کچھ مطالبات رکھے ہوں گے اور مینگل نے بھی ، اس ڈیل میں باہری اور اندری قوت نہ صرف شامل رہے ہیں بلکہ ایسے ضامن بھی ضرور ہوں گے کہ اگر فوج وعدہ خلافی کرئے تو اختر ان کے کندھے پر سر رکھ کر رو سکے۔
بی این پی کی طرف سے نیشنل پارٹی کی خواہش اور کوشش کے باجود سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرنا بھی ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ کسی ایسی قوت کو ساتھ رکھنا نہیں چاہتی جو فوج کو اس کے متبادل کی صورت دستیاب ہو ۔ لیکن نیشنل پارٹی بھی زور لگارہی ہے کہ دکھا سکے ان کا متوسط طبقہ سرداروں سے کئی بہتر فرمانبرداری کرسکتا ہے ، اس کے عوض انہیں چند سیٹیں ضرور ملیں گی ۔جے یو آئی کے ساتھ اُن کی کچھ نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوئی ہے لیکن سلیکشن کے لیے لیے فوج اور آئی ایس آئی کے آخری اجلاس کے فیصلے تک یہ بات صیغہ راز میں رہے گی کہ اُن کی حیثیت اگلی حکومت میں کیا ہے ، لیکن اختر نے مالک سے ہاتھ نہ ملاکر واضح اشارہ دیا ہے کہ اُن کونیشنل پارٹی کو ساتھ ملانا قبول نہیں ۔
شایدفوج بھی مالک کو اختر کے متبادل حیثیت دینے کو تیار نہیں ، اس کی وجہ ماضی میں نیشنل پارٹی کے زیر اثر علاقے بالخصوص مکوران میں آزادی پسندوں کے کامیاب بائیکاٹ کے آثارہیں ۔ آزادی پسند دو فریقی اتحاد بی این ایف کی طرف سے کیچ میں قبل از الیکشن ایک تاریخی ریلی اور آوارن میں جلسہ اس کی پوزیشن واضح کرچکے ہیں ۔ نیشنل پارٹی میں ایسے کارکنان کی کثیر تعداد مقتدرہ کے نظروں سے چھپی ہوئی ہرگز نہیں جو بلوچ قومی تحریک سے اندرون خانہ ہمدردی رکھتے ہیں ۔ جو نیشنل پارٹی کے الیکشن مہم سے رضاکارانہ لاتعلقی اختیار کرکے علاقہ چھوڑ چکے ہیں ۔ مکوران میں کچھ دوسرے اُمیدواروں نے بھی حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے الیکشن سرگرمیاں تقریباً ملتوی کردی ہیں ۔
گوادر جو بلوچستان میں پارلیمان پسند پارٹیوں کے لیے کمائی کا ایک اہم ذریعہ ہے وہاں آئی ایس آئی کی حمایت یافتہ اُمیدوارسابق کٹھ پتلی بلوچستان حکومت کے وزیر رؤف عرف ھمل کلمتی ، جو گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ق اور نیشنل پارٹی کے مشترکہ اُمیدوار تھے بی این پی مینگل کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ، جہاں اس کا مقابلہ نیشنل پارٹی کے امیدوار یعقوب بزنجو سے ہے جو مشہور زمانہ ڈرگ ڈیلر امام بھیل کے بیٹے ہیں ، اس نشست پر ھمل کا الیکشن کے وقت بی این پی مینگل کی طرف چھلانگ لگانا ، سیاسی کارکنان کے لیے بی این پی کی موجودہ پوزیشن کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔
بی این پی مینگل نے ریس میں تھگڑے اور جیت کے قابل گھوڑے چھوڑے ہیں ، نظریہ اور پارٹی وابستگی کی بجائے پارلیمانی سیاست کے پاکستانی طریقہ کار سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے ، اُمیدواروں کے چناؤ میں فوج کی مرضی اور کلیرنس کا بھی خیال رکھا گیا ہے ۔
مندرجہ بالا مثال میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں تمام اُمیدوار آئی ایس آئی اور ایم آئی سے قریبی تعلقات کی بناء پر الیکشن میں جیت کے یقین یا وعدہ کے ساتھ الیکشن لڑرہے ہیں ۔ ایسے میں منظرنامے کی شدھ بدھ رکھنے والے ایسے اُمیدوار جن کو مضبوط پشت پناہی حاصل نہیں ، الیکشن کی سرگرمیوں سے دور ہی رہنے کو ترجیع دے رہے ہیں ۔
بی این ایف نے پانچ مئی سے لے کر گیارہ مئی تک بلوچستان بند کا اعلان کر رکھا ہے یعنی بندوبستی الیکشن کے دوران بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں خوف ہی راج کرئے گا اور کم ہی لوگ ووٹ ڈالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
دوسری طرف مسلح قوم دوست تنظیموں نے بیان سے بڑھ کر بلوچستان میں الیکشن کی سرگرمیوں کو بزور طاقت روکنے کے لیے جان لیواحملے کیے ہیں جو گزشتہ بندوبستی الیکشن میں محدود اور بیانات کے حد تک تھے ، ان حملوں کا نشانہ پارلیمانی جماعتیں ہیں ۔مکوران ، خاران ، آوارن سمیت ایسے تمام علاقوں میں جہاں سرداروں کی گرفت کم ہے پولنگ اسٹیشن بغیر کسی پرتشدد کارروائیوں کے ویران ہوں گے لیکن ا یسے علاقے جہاں سردار اور ٹکریاں لوگوں کو ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں پر لے جاتے ہیں وہاں ایسے حملے متوقع ہیں جس سے بلوچستان میں بندوبستی الیکشن مکمل طور پر ناکام ہونے اور بڑے پیمانے پر خون خرابے کا خدشہ ہے ۔
اس الیکشن نے قوم دوستوں کو ایک ایسے امتحان میں ڈالا ہے جس میں کامیابی اُن کی تحریک کو ایک نئے دور میں داخل کردے گی ، ناکامی کے خدشات کم اس لیے ہیں کہ آزادی پسندوں کے تیور بتارہے ہیں کہ اب وہ کسی بھی قیمت پر پاکستانی بندوبست کاحصہ بننے والی کسی بھی جماعت کے ساتھ رعایت نہیں برتیں گے ۔ اُن کا یہ فیصلہ خاص طور پر بی این پی اور نیشنل پارٹی کے لیے چیلنج ہے جو قوم دوستانہ سیاست کا دعوی کرتی ہیں ۔
بلوچستان میں انتخابات نہ ہونے کی صورت باقی بندوبست میں کیا ہوگا ؟ کراچی میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی الیکشن کے ملتوی ہونے کا جواز بن سکتا ہے لیکن فوج اس کی اجازت تب ہی دے گی جب اسے بلوچستان میں الیکشن کے انعقاد میں مکمل ناکامی ہو ، یعنی بلوچستان مسئلہ ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں پاکستانی فوج کی ایک معمولی غلطی پورے پاکستانی بندوسبت کو متاثر کرسکتی ہے ۔ایسے میں محفوظ راستہ یہی رہتا ہے کہ الیکشن کے ڈرامہ بازی کو پولنگ اسٹیشنوں میں لوگوں کے ووٹ ڈالنے سے مشروط کرنے کی بجائے ، آرمی کے سلیکشن بورڈ کے فیصلوں پر اکتفا ء کیا جائے ۔ یہ سوچا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فوج اپنے آپ کو غیرضروری مصیبت میں ڈالنے کی بجائے الیکشن کا دن بیرکوں میں ہی چھپ کر گزارے ، بلوچ سرمچاروں کے حملوں سے بچنے کا ان کے پاس بھی اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ۔
Post a Comment