بہت علاج معالجے کے بعد بھی اس کا نصیب نہیں جاگا،اس کی بیوی نے بھی بہت تگ ودو کی۔آخر ایک دن اس کے دفتر کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ پہاڑی کے دامن میں ایک ' ' کُنر''(بیر )کا درخت ہے ۔جس کے نیچے اگر تم ایک دن اور رات قیام کر لوتوتجھے لازماًاولاد ہوگا ۔وہ تو کسی ایسے ہی مشورے کا منتظر تھا، وارث نہ ہونے کے غم نے اسے اندر ہی اندر گھلا دیاتھا۔اس نے اسی صبح چھٹی کی درخواست لکھ کر رخصت لی ۔پوچھتے پوچھتے وہ اسی' ' کُنر''کے سائے میں پہنچا۔ایسا لگا کہ اس کے لیے بہشت کا دروازہ کھل گیاہو۔لمحہ بھر کو وہ بھو ل گیا کہ وہ یہا ں کس لئے آیا ہے پھر دن بھر کے سفر سے وہ نڈھال ہوچکا تھا ۔درخت سے ٹیک لگتے ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔رات گئے اس کی آنکھیں کھلیں را ت کی تا ریکی نے اسے خوف زدہ کردیا ۔اس نے یا د کرنے کی کو شش کی کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے ۔ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے وہ سب کچھ فراموش کر چکا ہواپنا علاقہ اپنی زبان تک سے نا آشنا ہو۔وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگا ۔''اس بوڑھے کو شاید میں نے پہلے کہیں دیکھا ہے لیکن مجھے یاد نہیں آرہا،شاید خواب میں!؟'اس نے دل میں سوچااور پتوں سے کھیلنے لگا اسے بھوک لگ رہی تھی جوکھانے کی چیزیں وہ ساتھ لا یا تھا ختم ہوچکے تھے ۔پکے بیروں پر نظر پڑتی ہی اس کی بھو ک بڑھنے لگی اس نے انہیں تو ڑنے کے لیے ہاتھ بڑھا یاہی تھا کہ ایک آواز نے اسے چونکا دیا ''اس تاریکی میں تم یہاں !....کیا چاہتے ہو؟''.....................'واجہ (خواجہ /صاحب )میں بے مرا د بے اولاد ہوں میری جورو مجھے نامردی کا طعنہ دیتی ہے ،میں کہاں کہاں نہیں گیا ہو ں کس کس کادر نہیں کھٹکٹا یا اب یہ خالی جھولی لے کر تیرے درپہ آیاہوں تو اسے بھر دے ۔''..........................
کُنر نے جواب دیا '' مجھ ''حسن سَول ''سے ایک عہد کر لوتمہیں اگر بیٹی ہوئی تومیری دشتار (منگیتر )ہے ، اس کا نام ''نوک مدینہ ''رکھنااگر لڑکا ہواتوتم اور تمہاری بیوی مختا ر ہو۔''....................''نہیں واجہ تم جو بھی دوگے قبول ہے اور کبھی بھی اپنے وعدہ سے مکر نہیں جاؤں گامیرا تعلق وعدہ وفا کرنے والوں کے علاقے سے ہے ۔''
سورج نکل چکا تھا ۔ جنگل کی موسیقی بھری صبح کے ساتھ ہی حسن سول چپ ہوگیا۔اب وہ واپس آچکا تھا۔ہرچارسو دیکھتا،بلند آواز سے باتیں کرتا،جب سامنے رکھے صفحات سے فارغ ہوتاتو ٹیبل پر طبلہ بجاتااس کے ساتھی اس کی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتا انہوں نے ہی اسے درخت کا مشورہ دیاتھا ۔
اب وہ پہلے جیسا نہ تھا کہ صبح دفتر آنا اور چھٹی تک کسی سے بات نہ کرنا اس کے ساتھی ان سے بات کرنے اور ا س کے ساتھ چائے پینے کے لئے بیتا ب رہتے ان کی خواہش تھی کہ یہ بھی اپنی تنخواہ اور شہرکی حالات پر تبصرہ کرئے لیکن و ہ لاپرواہ رہتا تھا ۔
سال پوراہونے کو ہے کہ اس کے دفتر کے ساتھی اس کی بلند آوازاور ٹیبل کے تھاپ سے بیزار تھے لیکن وہ اپنے آپ میں مگن ''نوک مدینہ ''کی پیدائش پر اتنا خوش تھا کہ ا س کے نزدیک نا امیدی کی باتیں بے معنی ہوکر رہ گئیں وہ بس خوشی سے آشنا تھا ۔انہی دنوں اس نے شہر کے ہو ٹلوں میں جانا شروع کیا ۔نئی نئی جگہوں سے ا س کا دل نہیں بھرتا جیسے کوئی مسافر شہرمیں آگیا ہو۔انہی دنوں چند شرابیوں سے اس کی دوستی ہوگئی ۔
اب ہر اتواروہ انہی شرابیوں کے ساتھ پکنک مناتا اور بادہ وساغر سے لطف اندوز ہو تا ۔اس کے ہم پیا لہ تین چار گلا س پینے کے بعدزمانے کی شکایتں شروع کردیتے وہ اٹھ کر تارے دیکھنے لگتا اسے اپنے دوستوں کی شکا یتیں نا پسند تھیں۔پیر کی صبح و ہ معمول کی طرح اٹھا اور نہا کر دفتر کی طرف چل پڑ ا ۔اب اسے گاڑیوں کی شور ، بچوں کا بستہ کندھے پہ لٹکائے اسکول جانا بھانے لگے۔اب ا س کے لیے ہر چیز با معنی تھی ۔دفتر کے فارغ اوقات میں طبلہ بجانے کا وہ اتناعادی تھاکہ جیسے یہ بھی ا س کی ذمہ داریوں میں شامل ہو۔
سولہ سال بعد وہ پھر سے افسردہ ہو گیا ۔ایک صبح کہ جب وہ دفتر کے لیے تیاری کررہا تھا نوک مدینہ اسکول کے لیے تیا ر ہوچکی تھی' نے اپنے باپ سے پوچھا !''ابا میں نے کل رات خواب میں ایککُنردیکھا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہو ۔''اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔''بیٹی یہ خواب ہے ،خواب میں ہر ایک کو ہر چیز نظر آتی ہے ۔جن کا کوئی معنیٰ نہیں ہوتاتم پڑھائی پہ دھیا ن دواور ان خوابوں کو بھول جاؤ...............................وہ جلد ی سے دفتر کی طرف نکل پڑا راستے میں ہر چیز اس کے لیے ایسی تھی جیسے سولہ سال پہلے ۔اسکول کے بچوں کی باتیں ، گاڑیوں کا شور ہر آواز اسے حسن سول سے کیے وعدے کی یاد دلا رہی تھی۔اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تب اسے محسوس ہواکہ یہ اس کاسولہ سال پہلے کا چہر ہ ہے یا گوشت سے عا ری ہڈیوں کا پنجر ۔دفتر میں داخل ہوتے ہی اس کے ایک ساتھی نے اس کی طرف مصحافہ کے لیے ہاتھ بڑھایالیکن وہ خاموش تھا جیسے وہ اس طرح کے کسی بھی آداب سے ناواقف ہو۔وہ اپنی کرسی پر یوں بیٹھ گیاجیسے اسے کسی نے کنویں میں دکھیل دیاہو۔
'' کُنر کا درخت ،حسن سول ،نوک مدینہ،خواب............................''اس نے سوچا۔اس کے ساتھ کام کرنے والے اس کے دفتر کے ساتھی سب حیران تھے کہ اس کو کیا ہواہے ۔نہ آج اس کے قلم میں پہلی سی تیزی تھی نہ کام میں رفتار ۔بلند آواز میں گاتے ہوئے طبلہ بجاناجیسے کبھی اس کامشغلہ ہی نہ رہا ہو وہ کوئی اور تھا جو سو لہ سال تک اسی کی کرسی پر بیٹھا کرتا تھا آج و ہ آدمی تھا نہ اس کے کام کرنے کا انداز۔نہ طبلہ وبلند آوازکے گانے ۔
وہ کُنر کے درخت کے بارے میں پھر سے سوچنے لگااور دفتر سے نکل پڑا '' حسن سو ل ،نوک مدینہ ، خواب کیا ہے ؟''اس کے دل میں آیا کہ نو ک مدینہ کے اسکول میں جاکر اس کے ٹیچر کو بتا دے کہ اپنی طالبہ کو سمجھا دے کہکُنرکے درخت کا خواب دیکھناچھوڑ د ے میں زندہ نہیں رہ سکتا ۔اس کے پیچھے گاڑی کے ہارن نے شور مچایا وہ ایک طرف ہو گیا اور راستہ بدل کر چلنے لگا ۔آوارہ گردی کرتے ہوئے وہ نوک مدینہ کے خواب کے بارے میں سوچنے لگا ، اسی فکر میں وہ رات ایک بجے گھر پہنچاا سکی بیوی جاگ رہی تھی وہ چپ چاپ لیٹ گیا پھریہی فکر ، یہی خواب ،یہی کنر، یہی حسن سول اور نوک مدینہ رات گئے وہ سو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاگتے ہی اس نے سو چا کہ نو ک مد ینہ کو بلا کر پوچھ لے کہ ''آج تونے پھر وہی خواب دیکھا !''نوک مدینہ آکے اس کے سامنے کھڑی ہوگئی ''ابا رات کو میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے لیکن مجھے لگا کہ کنر مجھے آوازدے رہا ہے ........نہ نہ یہ انسان نہیں میری بیٹی ، یہ ایسا ہی خواب ہے ، بے معنی سا ۔'' اسے پتا نہیں وہ کیا کہہ رہا ہے اور منہ دھونے کے لیے اٹھ گیا ۔
اسی صبح نو ک مدینہ سہلیوں کے ساتھ پکنک منانے چلی گئی ۔کھانے کے بعد وہ تصویر کھنچوانے اور بیر توڑنے ہنستے ہنستے ٹیلوں پہ چڑھ گئیں ۔قہقہے لگاتے ہوئے وہ بیر سے لدھے درخت کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔نوک مدینہ نے غور سے دیکھا اسے لگا کہ یہ وہی درخت ہے جو ا س کے خوا ب میں آتا ہے۔''نہیں یہ کنر کا درخت نہیں ہوسکتا سب درخت ایک سے دکھتے ہیں ۔''انہوں نے اپنے پندول (بلوچ عورتوں کی قمیض کا لمبا جیب )اور ہاتھ بھر لیے اور ایک ایک کرکے اتر گئیں ۔نوک مدینہ کا دوپٹہ اترتے وقت لٹکتے شاخ سے لپٹ گیا ، مدینہ نے دوپٹہ چھڑایاتو اس کے قمیض کا دامن الجھ گیا ۔ا س نے دامن چھڑانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو محسوس ہواکہ کسی نے اس کا ہاتھ تھا م لیا ہوا س کے منہ سے نکلا ''وَے کیسا کنر ہے !''اسے ایک آواز سنائی دی ''سن ''نوک مدینہ نے ادھر ادھر دیکھاکوئی نہ تھا ، اتنے میں ا سکی تمام سہلیاں اتر گئیں ۔''میں کنر بھول رہاہوں 'گھر جاکر اپنے باپ سے کہنا اپنا وعدہ نبھائے ، اگر تم بھول جاؤتو تمھارے سرہانے لکڑی کا صندوق رکھا ہے اس کو کھو لنا اس سے ایک بھڑ نکل کر تمھاری انگلی کاٹے گا جو تمہیں میری باتیں یاد دلائے گا۔''اس نے اپنا ہاتھ چھڑا یا اور جلدی سے اتر گئی جیسے کوئی خونخوار درندہ اس کے تعاقب میں ہو۔وہ پسینے سے شرابور تھی ،زبان لرز رہی تھی،وہ جلدی گھر پہنچنا چا ہتی تھی نیچھے ان کی گاڑی جانے کے لئے تیار تھی سب نوک مدینہ کی راہ دیکھ رہے تھے جو ان سے بچھڑ چکی تھی ۔سو رج غروب ہوتے ہی وہ گھر پہنچی ۔چپ رہی جیسے صدیوں سے بے خواب رہی ہو۔صبح جب اس کی آنکھیں کھلیں توا س کا باپ ایک صندوق اٹھائے اس کے سامنے کھڑاتھا ''کیا یہ تم لے کر آئی ہو ؟''نوک مدینہ حیران تھی چاہا کہ یاد کرئے یہ صندوق میں لے کر آئی ہوں یا پہلے سے ہے ۔''دونوں صندوق کے گرد بیٹھ گئے صندوق بہت خوبصورت اور منقش تھا انہوں نے صندوق کھولااس کے اند ر ایک کتاب رکھی تھی جس کے صفحے پرانے اور زرد تھے ۔اس نے پہلا صفحہ کھولالکھا تھا ''مجھے میری نیکیوں کا صلہ یہ ملا کہ کنر کا درخت بن گیا ہوں ۔لیکن تونے اپنا وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا ہے ۔''لفظ کنر کے پڑھتے ہی اسے سب باتیں یاد آنے لگیں سوچا کہ باپ سے سب باتیں کہہ دے لیکن وہ دروازے تک پہنچ چکا تھا اس نے اسے بلاناگوارہ نہیں کی ۔نو ک مدینہ نے چاہا کہ اپنی ماں سے پوچھ لے کہ کنر کے درخت کا ا س کے باپ سے کیا رشتہ ہے ۔ماں کھانسی جیسے اس کے گلے میں کوئی چیزاٹک گئی ہو۔''بیٹی میں نہیں جانتی ۔''اس کے پوچھنے سے پہلے ماں نے اپنا جھوٹاجو اب دے دیا اور باورچی خانے کی طرف چل پڑی.......................
اب اس کے لیے سب سے بڑاعذاب نو ک مدینہ کا سوال تھا کہ ''ابا کنر کیا چاہتا ہے ۔'' وہ سچ کہہ کر ا س کی محبتوں سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا ۔چپ رہنا اس کے لیے عذاب تھا ۔اس کی آوارگی بڑھنے لگی ۔رات کو لیٹ آنا اور نو ک مدینہ کے اٹھنے سے پہلے چلے جانادفتر میں چند گھنٹے بیٹھناور پھر شہر کے بے نام راستوں میں بھٹکنا اور رات ایک دو بجے گھر لوٹنا ۔اب اسے شہر کا کوئی درخت پسند نہیں تھا ۔جب راستوں پر درخت دیکھتا نفرت سے ان پر تھو کتا ۔کوئی مسافر ان کے نیچھے کھڑا نظر آتا اسے نفر ت بھری نظروں سے گھورتا۔حسن سول اگر مجھے اسی طرح راستے میں مل جائے میں اس کا سر قلم کردوں ،ایک دن اس نے سوچااور اپنے پاؤں کے سامنے پڑے ڈبے کو ٹوکر مارا۔راہ چلتے آدمی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ پاگل ہو۔اس رات اس نے اپنے جیب کے سارے پیسے شراب خرید کر پی لیے اور لڑھکتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔نوک مدینہ کو نیند سے جگایا''تم روز مجھ سے پوچھتی ہو کنر کیوں تیرے خواب میں آتا ہے۔کنر کا مجھ سے کیا رشتہ ہے ؟سن تم اسی درخت کی دشتارہو،تم حسن سول کی دشتار ہو۔''اس کی شور وغوغاسے اس کی بیوی جاگ اٹھی آتجھے تیرے دشتارکے پاس لے چلوں ۔اب مجھ سے یہ عذاب نہیں سہا جا تا ۔''اس نے نو ک مدینہ کا ہاتھ پکڑکر چاہا کہ باہر نکلے کہ اس کی بیوی آڑھے آئی ۔
''پہلے مجھے قتل کر پھر اسے لے جا...........آج میں کچھ نہیں سنوں گا موت اور کیا ہے ؟ہم تم پہلے زندہ تھے کہ آج مریں؟''اس نے بیوی کو دھکا دیااور نوک مدینہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا ،نو ک مدینہ چپ حیران سمجھنے سے قاصر تھی ۔کالی رات میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی ۔اس کی آنکھوں میں محبت کے سوتے خشک ہوچکے تھے ۔اپنے بچی کے لیے اس کے دل میں کو ئی ارمان باقی نہ تھا ۔وہ بس یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کل کو پھر سے جی اٹھے گا ۔خوشی خوشی دفترجا کر اپنے ساتھیوں سے ملکی حالات پر تبصرہ کرئے گا ،ٹیبل پر طبلہ بجائے گا۔اونچی آوازسے گانا گائے گا۔سوچتے سوچتے وہ کنر کے درخت تک پہنچ گئے ۔اس نے چلاتے ہوئے کہا!''حسن سول یہ ہے میں نے اپنا وعدہ پورا کرلیا تیری دشتار لے کر آیا ہوں ۔''اس نے نو ک مدینہ کووہی چھوڑ ا اور نشیب میں اترنے لگا ۔جیسے ایک بڑی ذمہ داری اس کے کندھے سے اتر گئی ہو۔وہ اتنا ہلکا تھا کہ اس کے لیے قدم اٹھانا بچوں کا کھیل تھا ۔جیسے وہ گیند سے کھیلتے ہو ئے گھر لوٹ رہا ہو۔سورج نکل کر چڑھا ہواتھا ۔بچے بستہ کندھے پہ اٹھائے اپنے اسکولوں میں جارہے تھے شہر پوری طرح جا گ چکا تھا ہر کوئی اپنے منزل کی طر ف رواں تھا ۔اس نے کسی کی طرف بھی نہیں دیکھا ،ایک حمام میں گھسا ۔داڑھی بنوائی اور سیٹی بجاتاہو ااپنے دفتر کی طرف چل پڑا۔


*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

( مترجم :قاضی داد محمد ریحان)
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.