محترم جناب مبشر فاروق
ایڈیٹر روزنامہ مقدمہ کراچی
امید ہے کہ خوش وخرم ہوں گے ۔
مربی جناب ابوبکر بلوچ کاپیغام ملا کہ روزنامہ مقدمہ اپنے قلمی سفر کے دو سال مکمل ہونے کے قریب ہے ۔ادارہ کی خواہش ہے کہ بلوچ سیاسی جماعتیں بھی ادارے کے سالگرہ کے موقع پر اپنا پیغام ارسال کریں تو اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجودچند الفاظ لکھنا ضروری سمجھا ۔
بلوچستان میں روزنامہ مقدمہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس کے باقاعدہ مطالعے سے محروم ہیں ۔لیکن ادارہ مقدمہ نے جدید دور سے ہم آہنگ ہوکر اس کمی کو کافی حد تک پورا کیا ہے ۔جب بھی فرصت ملتی ہے مقدمہ کے ویب سائٹ پر خبروں کی سر خیوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اخبار کے عکس میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بلوچستان کی خبروں کونمایاں کورریج دی جاتی ہے جوکہ بلوچستان سے متعلق پاکستان کے دیگر صحافتی اداروں کے رویے سے مختلف ہے ۔
صحافت کو ایک مقدس پیشے کی حیثیت حاصل ہے اس لیے صحافی کے کردار میں پیغمبرانہ اوصاف ہونے کی توقع کی جاتی ہے ۔لیکن دور حاضر میں صحافت کی یہ شناخت دھندلا چکی ہے ۔اب صحافت کو بھی محض ایک کاروبار سمجھاجاتاہے ۔الیکڑونک میڈیاکی برق رفتاری نے خبروں تک عوام کی رسائی توآسان بنادی ہے لیکن صحافت جیسا شعبہ بھی ناتجربہ کار لوگوں کی دستر س میں آگیاہے ۔اس طوفان بد تمیزی کو روکنے کے لیے کچھ سنجیدہ ادارے خبرنگاری کے شوقین لوگوں کو ''آپ کی صحافت او ر عوامی صحافت ' ' جیسے ناموں سے ویب فورم فراہم کر کے اس عمل کو تجربہ کار صحافیوں کی نگرانی میں دینے کی دانشمندانہ ترکیب استعمال کررہے ہیں لیکن محض چند لوگوں کی کوششوں سے ہم صحافت کے وقار کو نہیں بچاسکتے ۔ جدید دور کی یہ خبری یلغار (شاید یہ درست لفظ نہ ہو) مدبرانہ صحافت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اس کے خلاف بظاہر راست مگر احمقانہ قدم یہ ہوگا کہ اس طرح کے ابلاغ کے ذرائع روکے جائیں( جس طرح چینی حکام اپنے ملک میں گوگل او ر دیگر جدید نشریات اداروں تک عوام کی رسائی مشکل بنائے ہوئے ہیں ) ۔یہ سچائی کو چھپانے کی کوشش اور انسانی حقو ق کے بنیادی اصولوں میں شامل اظہار رائے کی آزادی( جو صحافت کو بھی تحفظ فراہم کرتاہے ) کی بھی خلاف ورزی ہے درست طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے حقیقی مسائل کو صحافیانہ حکمت سے معلوم کر کے انہیں صحافتی اصولوں کے مطابق دنیا کے سامنے پیش کیاجائے اگر صحافی لوگوں کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کریں گے یا انہیں غلط رنگ میں پیش کریں گے تو لوگ متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے اور راستہ نہ پانے کی صورت اپنے درد وکرب کے اظہار کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کریں گے۔ یوں ہم صحافت کو امن کی ضمانت بھی سمجھتے ہیں ۔
بلوچ بھی گزشتہ کئی صدیوں سے جبر کا شکار اوردائمی امن کے تلاش میں جدوجہد کررہے ہیں ۔بلوچ گلزمین بلوچستان کو اس کے شرپسند ہمسایوں ( گجر شاہی اور پنجاب شاہی کا مقتدر طبقہ ۔ واضح رہے کہ بلوچ کسی قوم سے شاؤنسٹوں کی طرح نسلی بنیاد پر نفرت نہیں کرتے بلکہ غلا م رہنا نہیں چاہتے ) نے تختہ مشق بنایا ہواہے ایران کی گجر رجیم بلوچستان کو اپنا پیشگاہ ( برآمدہ) سمجھ کر حق جتاتا ہے اور پاکستان باوجود اس کے کہ خود ایک عمرانی معاہد( سوشل کنٹریکٹ ) کی بنیاد پر وجود میں آیاہے بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔یہی کشمکش خطے میں بے چینی اور بدامنی کا سبب اور مجموعی طور پر امت مسلمہ کی بد بختی کا باعث ہے ۔جب مسلم اقوام طاقت کے زور پر ایک دوسرے کے حقوق غضب کرتے رہیں گے دنیا میں امت مسلمہ یوں ہی بے وقعت رہے گی ۔پاکستانی میڈیا بڑے اہتمام اور جذبات کے ساتھ فلسطین 'کشمیر 'عراق اور افغانستان میں ہونے والے ظلم وبربریت کا ذکرکرتاہے لیکن یہ بھول جاتاہے کہ بلوچستان کے بلوچ بھی پاکستان پر بلوچ گلزمین پر قبضہ گیری او ر جارحیت کا الزام عائد کررہے ہیں ۔ شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت تک پاکستانی میڈیاآپ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا۔پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گرو پ اورمذہبی رجحان کی نمائندگی کرنے والے اخبارات ان کی جنگ کے پس منظر سے فراموش کیے ہوئے ان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔ یہ صورتحال اس وقت تک برقرار رہی جب تک پاکستان کے چند اہم سیاسی لیڈران نے اسے قتل کی مذمت کو مشرف کے خلاف سیاسی نعرہ کے طور پر استعمال کرنا شروع نہیں کیا۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی خبروں کا پاکستانی اخبارات کے مدیران نے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیاہوا لیکن بلوچستان سے متعلق پاکستان کے حساس اداروں 'سرکار اور فورسز کے گمراہ کن بیانات کو خصوصی کورریج دیتے ہیں ۔پاکستانی میڈیا کی اسی رویے کی وجہ سے محکوم قوموں میں یہ احساس پختہ ہوگیاہے کہ ان کے مقابل محض ایک طبقہ نہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی بندوبست ہے جس میں صحافت بھی شامل ہے ۔
ہمیں یہ اعتراف بھی ہے کہ چند گنے چنے ادارے بلوچ مسئلے کو بلوچ سوچ کی مطابق پیش کررہے ہیں لیکن یہ خیرخواہ اگر اپنے اس عمل کو رحمدلی یا احسان جیسے احساسات سے پراگندہ کرکے یہ توقع رکھیں کہ بلوچ اپنے موقف میں نرمی اختیار کریں توایسی کوشش ہوگی کہ جیسے کوئی کسی کو حلوہ میں زہر ملاکر کھلائے ۔ہم شاؤنسٹ جذبات (جسے جواز فراہم کرنے کے لیے وطن پرستی اور ملکی مفادات جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو اہل دانش کے نزدیک انسانیت کے دشمن تصورات ہیں )سے پاک ایسی صحافت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کا چشمہ اُتار کر مسائل کومتاثرین کی نکتہ نگاہ سے سمجھنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔تلوار ( اسلحہ) وہ ہتھیار ہے جس نے دنیا کی تاریخ لکھی ہے اور قلم وہ ہتھیا ر ہے جس نے دنیا کی تقد یرلکھنا ہے ۔ سامراجی سوچ رکھنے والے عناصرقلم کی اس طاقت کو اپنے بنائے گئے سحرانگیز الفاظ کے قید میں جھکڑے ہوئے ہیں ۔ہم اہل قلم ان سوداگرو ں کے بنائے گئے بازار میں برائے فروخت کالیبل لگاکر دست بستہ کھڑے ہیں جو زیادہ دام دے اسے کے ہوجاتے ہیں ۔اورپھر اپنے مالکان کو سچا او ر دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں ۔بدلے میں ہمیں شہرت اور دولت ملتی ہے ۔درحقیقت یہ سر مایہ کاری صحافت جیسے شعبے کو ختم کر نے کے لیے کی جارہی ہے ۔ مقدمہ اخبار کی مدیران کو خبروں کی دوڑ میں ہمعصروں کا مقابلہ کرتے ہوئے مذکورہ چیلنجز کو بھی سمجھنا ہوگا ۔امید ہے کہ اخبار مذکور ہ تمام چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے رواں سال بھی صحافت کے مقدس کہکشاں میں ستارے کی طرح چمکتا رہے گا ۔میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائمقام صدر عصا ظفر اور پوری بلوچ قو م کی طرف سے روزنامہ مقدمہ کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
قاضی داد محمد ریحان
مرکزی سیکریٹری اطلاعات بلوچ نیشنل موومنٹ
بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات کا روزنامہ مقدمہ کراچی کے سالگرہ کے موقع پر پیغام
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Powered by Blogger.
Post a Comment