گرمیوں کی سُرمئی شام ،میں ہاسٹل کے کمرہ میں تنہا۔بظاہر کتاب پڑھ رہاہوں لیکن میرے خیالات منتشر ہیں ۔دودن پہلے میرا ایک کلاس فیلوایک حادثہ میں فوت ہوچکا ہے ۔تب سے اسی فکر میں الجھا ہوں کہ زندگی کیا ہے ؟کیوں چند ساعتوں میں بکھر جاتی ہے ؟جس کی متعین منزل موت ہے ۔
میں ایم بی بی ایس فائنل کا طالب علم ہوں ۔انسانی زندگی اوراس کی بیماریوں کے متعلق بہت سی کتابیں پڑھ چکاہوں ۔بہت سے لیکچرزبھی سنے ہیں ۔سوچابھی بہت ہے ۔لیکن پھر بھی زندگی سے متعلق ا س سوال کاکوئی جواب نہیں ۔
میری یہی حالت اکثر میرے لیے پریشانی کا باعث بھی بن جاتی ہے ۔سوچتا ہوں کہ ڈاکٹری چھوڑدوں!تم اُس زندگی کو بیماریوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہو۔جسے ہر حال میں موت آنی ہے ۔ایسی ناپائیدار زندگی کے لیے ایسی کوششیں کیوں ؟چھوڑکتابوں اور دوائیوں کی دنیا۔جنگل اور بیانوں کی طرف نکل پڑ۔باد صرصرمیں جھومتے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر ان کی سائیں سائیں سن ۔زندگی کی ہواچلتی رہے ۔چاندنی راتوں میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کرچاند کو تکنا۔جنگل اورکوہستان کی سیر ۔چاردن کی زندگی غم واندوہ سے آزاد۔


میری آنکھیں الماری پر چسپاں اسٹیکر پر پڑتی ہیں ۔زرداسٹیکرپر سرخ سیاہی سے لکھا ہواہے ۔
Don't take Life too Seriously it isn't' Permanent.'' ''کمرے میں اس اسٹیکر کے سواء کوئی دوسری تصویر ،اسٹیکر یاکلینڈرنہیں جسے میں بازار سے خرید کر لایاتھا ۔یہ قول میر ے پسندیدہ اقوال میں سے ایک ہے جس کی روشنی میں مَیں بے فکر زندگی گزارنا چاہتا ہوں ۔اسٹیکر پر لکھے دلیل میں کافی وزن ہے ۔ا س ناپائیدار زندگی کے لیے پریشانی عبث ہے ۔لیکن میری پریشانی تویہی زندگی کی ناپائیداری ہے ۔گرج دار آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے ۔ایسالگتا ہے جیسے بادل گرج رہے ہوں یا کوئی جہاز گزر رہاہو۔میں کھڑکی کے پردے اٹھاکر باہر دیکھتا ہوں ۔بارش ہورہی ہے۔میراکمرہ ٹاپ فلور پر ہے ۔کھڑکی سے دور دور تک کے خوبصورت نظارے ،ہاسٹل کے قریب دریا،دریا کے پار کھیت کھلیان ،بلند وبالاعمارتیں ،دور بلندپہاڑاور آسمان ۔لیکن اب یہ منظر نامکمل ہے ۔بادلوں نے پہاڑاور آسمان ڈھانپ رکھے ہیں ۔تیزبارش ہورہی ہے ۔دوآدمی بارش میں پھسلے دوڑتے ہوئے درخت کی طرف بھاگے ۔جہاں پہلے سے ایک بکری کھڑی ہے ۔
...............................اگر درخت بھی دوڑ پڑیں! عجب تماشہ ہو!لیکن یہ اپنی جگہ سے نہیں ٹکتے ۔گرمی ہو یا سردی ۔ہوائیں چلیں یا بارش برسے ۔ٹھنڈ کے تپھیڑے ہوں یا لُو، کلہاڑی ہو یا آراہمت سے کھڑے رہتے ہیں ۔مریں یا جیئیں بھاگتے نہیں ۔ان کی بھی زندگی ہے ۔کاش میں ایک درخت ہوتا۔کم ازکم موت کا سامنا کرنے کی ہمت تو ہوتی ۔


کسی نے دروازہ کھٹکٹایااورکمرے میں داخل ہوا۔یہ کینٹن کا بوڑھا ملازم ہے ۔چائے کا پوچھنے آیاہے ۔
''ناکو!چائے لاؤ۔''میں اس سے کہتا ہوں اور وہ کمرے سے چلا جاتاہے ۔یہ بھی آدمی ہے،زندہ آدمی ۔میں نہیں جا نتاکہ اس موسم میں میری طرح وہ بھی زندگی کے متعلق سوچ رہا ہوگا یا درختوں کی طرح موت سے لاپروا ہے ۔چند لمحے بعد وہ چائے کے ساتھ آتا ہے ۔
''یہاں کرسی پر بیٹھ میں تجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔اب کہ بارش برس رہی ہے ۔زمین جل تھل ہے۔بادل گرج رہے ہیں ۔بجلی چمک رہی ہے ۔اس موسم میں آپ کیا محسوس کر رہے ہو؟''
میرے سوال پر وہ حیران ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ میں نے کوئی ایسا سوال پوچھ لیاہوجوصرف پاگل یا بچے ہی پوچھ سکتے ہیں یاوہ میرے سوال کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے ۔اس کی حیران آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی ہیں ۔میں شرمندگی محسوس کررہاہوں ۔کہ میں کیوںیہ سوال پوچھ بیٹھا ۔
''میں کہتا ہوں ۔بارش نہ ہو!''
''کیوں ''اب میں حیران ہوں ۔
''اگر بارش نہ رکی تو میر اکچا مکان گر جائے گا!''
میں ناکو(معمرشخص)کو دیکھتا ہوں ۔پھر آنکھیں اسٹیکر پر پڑتی ہیں ۔میں کچھ نہیں کہتا ۔اس وقت تک کہ چائے ختم نہیں ہوتی ۔
.............................کافی وقت گزراہے ۔ناکو چائے کا خالی پیالہ لے کر کمرے سے نکل چکاہے ۔باہربارش ہورہی ہے ۔بادل گرج رہے ہیں ۔بجلی چمک رہی ہے ۔درخت ابھی تک اپنے سائے میں لوگوں کو پناہ دیے ہوئے کھڑاہے اور اسٹیکر ؟.............اسٹیکر کے ٹکرے ردی کی ٹوکری میں ۔

(مترجم :قاضی دادمحمدریحان)

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.