نیشنل پارٹی کے رہنماءڈاکٹر یاسین کا احسان شاہ کے خلاف اب کہ انتخابات کو دوسال قریب ہونے کوہیں جعلی ڈگری کا مقدمہ درج کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کے اصل حکمران بلوچستان میں جاری اپنے کھیل کونیا رخ دینے کے لیے مہرے بدلنا چاہتے ہیں ۔نیشنل پارٹی کی موجودہ قیادت قبل ازیں بھی یہی کردار اداکرنے کو تیار تھی لیکن اس وقت پارٹی میں کئی عناصر ایسے موجودتھے جو نیشنل پارٹی کی قیادت کے لیے اندرونی طور پر چیلنج کا باعث تھے جن کے لیے قیادت نے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیا ۔سردار زہری نیشنل پارٹی پارلیمنٹرین بنا کر اس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ انہوں نے حقیقی نیشنل پارٹی کی سیاست کو ناکام کر کے سر کار کے لیے اس کا متبادل انتظا م کرلیاہے لیکن وقت نے دکھا دیا کہ زہری صاحب بہر حا ل قبائلی کے قبائلی ہی رہے اور سیاست کے میدان میں بی ایس او کے ترقی پسند کیڈر کو شکست دینے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اسی طرح سیاسی اُفق پر ڈاکٹر حئی اور کچکول کے سورج بھی مدہم ہوتے ہوتے غروب ہوگئے یا پھر ان کے لیے نیشنل پارٹی کی سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے گئے اب شاید انہیں گوشہ نشین یا پھر بادل نخواستہ کسی دوسری طرف رُخ کرنا پڑے گا کیوں کہ نیشنل پارٹی کے وہ قائدین جو اپنے اس پرانے آرزو کو دل میں دبائے بڑی سست رفتاری اور احتیاط کے ساتھ اس مقام پر پہنچنے میں کا میاب ہوئے ہیں یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ شراکت کا حق اُن لوگوں کو قطعاًحاصل نہیں جن کے بارے میں ذرا بھی شبہ ہے کہ وہ ان کی حیثیت کو چیلنج کر سکتے ہیں ۔یہ لمبا سفر انہوں نے شہید فدا کی شہادت سے شروع کیا تھا اس طویل سفر میں شہید فدا سے لے کر شہید واجہ (شہید غلام محمد )تک بلوچ شہداءکی جو طویل قطار ہے ان کی شہادت میں مذکورہ جماعت کی قیادت اگر خود ملوث نہیں تو ان شہادتوں سے اس کو ضرور سکون ملا ہوگا کیوں کہ اس کارروان میں سبھی وہی لوگ تھے جنہوں نے ان کے ساتھ مل کر سر زمین سے سچی وابستگی کا عہد کیا تھا ۔یہ شہداءان کی غدار ی کے چشم دیدگواہ تھے ،بھلا وہ مجرم کیوں کر کامیاب مجرم کہلائے جو اپنے جرم کا ثبوت بھی نہ مٹائے اور جیتا جاگتا گواہ بھی چھوڑے ۔
بی این پی (عوامی ) کے ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے دور میں نیشنل پارٹی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ ( پوری سچائی یہ کہ ایم آئی کے جنرلز) نے خصوصی رابطے استوار کیے اور اسے بلوچستان میں حقیقی قو م دوستی کے اُبھار کوکم کرنے کے لیےساتھ مل کر کام کرنے کو کہا جس کی نیشنل پارٹی نے اس شرط کے ساتھ حامی بھرلی کہ اسٹبلشمنٹ مکران کی اسمبلی کی نشستیں بلا شر کت غیر اُن کے حوالے کر ئے۔ یہ سو دا تقریبا ًپکا ہوچکا تھا کہ مشرف کے ریفرنڈم نے سارا معاملہ بگاڑ دیا ۔مشرف نے ریفرنڈم میں نیشنل پارٹی کو اعلانیہ حمایت کے لیے زور دیا جس کی قیادت نے حامی بھر لی لیکن پارٹی فورم نے اس فیصلے کو مسترد کر کے قیادت کے مشکلات میں اضافہ کردیا ۔یہی سے بی این پی ( عوامی ) کی قسمت جاگ اُٹھی اور اس معاملے میں اس کی قیادت سے سے رابطہ کیا گیا ۔جن کا جواب بڑا سادہ تھا کہ ”ہم تو پہلے ہی یہی آس لگائے بیٹھےتھے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پر وگورنمنٹ ہونے کی وجہ سے اس پیشکش پر کسی بھی نیشنلسٹ پارٹی سے زیادہ حق ہمارا بنتا ہے ۔“گوکہ اس ریفرنڈم میں نیشنل پارٹی کے ناظمین نے کھل کر مشرف کی کامیابی کے لیے کام کیا پھر بھی جنرل مشرف کا جنرلی غصہ ٹھنڈا نہ ہو ا۔
نیشنل پارٹی کو مراعات کا جو چسکا لگایا گیا تھا اس کا نشہ اتنی آسانی سے اُترنے والا نہیں۔اس نے اسٹبلشمنٹ کو اپنی وفاداری جتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے یقین دلانے میں کامیاب ہوگئی کہ بی این پی ( عوامی ) ، جام جمالی اور رئیسانی مگسی ایسے مہرے نہیں کہ بلوچستان کے پرا ٓشوب حالات میں کام آسکیں ۔ بی این پی ( عوامی ) نے جس سے سادگی سے ووٹ اور نوٹ کی سیاست کی اس سے کام کیا چلنے والا اس نے سر کار کے لیے اور مشکلات میں اضافہ کردیا ۔بی این پی ( عوامی ) پاکستان میں نام نہاد قوم دوستانہ پارلیمانی سیاست کی ننگی مثال بن کر اُبھری انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ بلوچستان کے مسائل کوبلوچ عوام کے حقیقی خواہشات کے مطابق حل کرئے گی ۔اُنہوں نے واضح طور پر یہ محسوس کرایا کہ بلوچستان میں سیاست دو طرح سے کی جاتی ہے ایک قوم کے لیے دوسرا پیٹ کے لیے جو سیاست پیٹ کے لیے ہوتی ہے اس میں جھوٹ کی آمیز ش اولین شرط ہے جب کہ اصل طاقت پنجاب کے ہاتھ میں ہے ۔اسمبلی میں بیٹھ کر بلوچستان اور بلوچ حقوق کی بات کرنا سب سے بڑ اجھوٹ تھا جوعوامی اور ق لیگ والے بھی بااعتماد لہجے میں نہ بول سکے ۔پنجاب شاہی ( پاکستانی اسٹبلشمنٹ یا حقیقی مقتدر) شروع میں اس فرق کو محسوس نہ کر سکا لیکن جلد ہی انہوں نے بھانپ لیا بلکہ یہ نیشنل پارٹی ہی تھی جس نے اسے اپنے گوادر کی شانداز کارکردگی کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے باور کرایا کہ تم جو چاہتے ہو وہ مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں کر سکتی۔ میں لالچی نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار کرسکتی ہوں جن میں سے وقت آنے پر ہر ایک رازق وکہور ثابت ہوگا ________________آج جو نیشنل پارٹی میدان میں موجود ہے گوکہ اس کی قیادت شاطر ترین لوگوں پر مشتمل ہے لیکن اب اس میں وہ دم خم نہیں رہا۔بلوچ سیاست کی جڑیں بلوچ عوام میں پیوست ہیں اورا س بات میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل پارٹی کی جڑیں بھی کبھی عوام میں تھیں لوگ ان کے ووٹرز کے لیے اسی طرح دیوانہ وار ناچتے تھے جس طرح سندھ اور لیاری میں پی پی کے لیے ناچتے ہیں اب شاید انہیں کرایے کے ناچنے والے بھی میسر نہ ہوں۔ پنجاب شاہی شاید اپنے اس انتخاب پر پھولے نہ سمائے کہ بلآخر اس نے بلوچستان کے متوسط طقبے اور انقلاب کی محرک طاقت ”مکران“ کو نکیل ڈال ہی دیا لیکن وہ نہیں جانتا کہ انہوں نےاُن کے کا م کو اور زیادہ آسان کردیا ہے نیشنل پارٹی کااب اپنے ہی دلیل کے انبار میں دم گھٹ کر ہلاک ہونے والا ہے ۔”تعلیم اور شعور “کی بات کرنے والوں نے جو جست لگایا ہے اس سے و ہ بہت اُوپر اُچلے ہیں اور بقول شہید واجہ” جو جتنا اُوپر سے گرتا ہے اُتنا زیادہ نقصان اُٹھاتا ہے ۔“ہمیں بہت جلد ہی نیشنل پارٹی کی قیادت کے منہ سے بھی وہی جملے سننے کو ملیں گے جنہیں عوامی ‘ق لیگ اور پی پی والے کہنے سے نہیں ہچکچاتے ۔کچھ لوگ بے شرمی میں یہ بات کہیں گے کچھ مرد ہ ضمیری کے ساتھ کچھ بیزارہوکر اور کچھ _____________
امام اور یعقوب بزنجو کی نیشنل پارٹی میں شمولیت سے شاید آنے والے بلدیاتی انتخابات میں نیشنل پارٹی کا پلڑا بھاری ہو لیکن نیشنل پارٹی کی قیادت کویہ مت بھولنا چاہئے کہ اس نے ایک واضح انتخاب کیا ہے ۔امام کی شخصیت کا کوئی پہلو بلوچ عوام کے لیے پر اسرار نہیں بلکہ موصوف عالمگیر شہرت کے مالک انسان ہیں ۔یعقوب بزنجو بلوچستان کے و ہ واحد ایم این اے ہیں جن پر پارسل بم کا حملہ ہوچکا ہے اور اس حملے کی ذمہ داری بلوچ حریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف )نے تسلیم کی تھی یعنی نیشنل پارٹی جو قبل ازیں سیاسی طور پر پرو پاکستا ن و پر وگورنمنٹ ہونے کے باوجود بلوچ سر مچاروں کے خلاف بات کر نے سے کتراتی تھی ،بی ایل ایف کی طرف سے دشمن قرار دینے والے شخص سے دوستی کر کے اُن کو واضح طور پر چیلنج کر رہی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ یہ بھی محض اتفاق نہ ہو کہ یہ سب تبدلیاں ایک ایسی وقت میں ہورہی ہیں کہ مکران میں پاکستان آرمی خونریز جارحانہ کارروائیاں کررہی ہے جس میں اب تک کے اطلاعات کے مطابق درجن بھر گاﺅں محاصر ے میں لے کر کئی گھروں کو جیٹ طیاروں سے بمباری کا نشانہ بنا کر مسمار کردیا گیا ہے ہوسکتا یہ تعاقب اُن باقی مانندہ لوگوں کا کیا جارہاہو جنہوں نے کبھی نیشنل پارٹی کی موجودہ قیادت کے کہنے پر ہی پہاڑوں کا رخ کیاتھا تاکہ سیاسی اور عسکری قوت مل کر آزاد بلوچستان کے خواب کوشرمندہ تعبیر کر سکیں _____؟؟ یا پھر لوگو ں کو سرکاری طاقت سے مرعو ب کر کے اس قہر سے بچنے کے لیے ہانک کر اس دروزاے پر لا کھڑا کیا جائے جس کی چوکیداری کی ذمہ داری نیشنل پارٹی پر ہے۔ امام بزنجو کی نیشنل پارٹی میں شمولیت اور اس کا غوث بزنجو کے سیاسی وارث کے طور پر بلوچستان کی سیاست میں تعارف سے پہلے بہت سے واقعات بلوچستان کی آئندہ سیاسی صورتحال کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں اب یہ کوئی نہیں جانتاکہ معروضی حالات کیارخ اختیار کریں گے۔ لیکن پنجاپ شاہی کے ٹیبل پررکھے گئے مہروں کو بڑی سر عت کے ساتھ تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔دیوار پر ٹنگے نقشے پر کئی جگہوں پر واضح طور پر سر خ داہرے کھینچے گئے ہیں ۔گیلانی مینگل ملاقات‘مالک کی سر دار مینگل سے ملاقات ‘ گرینڈ الائنس کا شوشا ‘بلوچستان پیکج کا گرد وغبا ر ‘کوئٹہ میں بی این پی ( مینگل ) کے کارکنان پر پاکستانی فورسز کا قاتلانہ حملہ ‘ نام نہاد بلوچ دفاعی آرمی کے جواب میں بلوچ حریت پسند تنظیموں کے معنیٰ خیز” بیانات!!“ __________________شطرنج کے بساط پر سب نے مہرے بدلے ہیں اب جواس کھیل کو جیتنا چاہتے ہیں جن کے ہارنے کے لیے اتنی زیادہ عرق ریزی اور گٹھ جوڑ کی جارہی ہے اُنہیں بھی مہرے اور چال بدلنے ہوں گے ۔
6 June 2010
Post a Comment