مکران میں اب تک ہونے والی کارروائیوں کی جو خبریں قوم دوست جماعتوں کے ذرائع سے حاصل ہورہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں ۔ اس متعلق پہلی خبر 30مئی کی اخبارات میں شائع ہوئی جو بی این ایم کراچی دمگ کی طرف سے دیا گیا تھا ۔خبر کے مندرجات کے مطابق ”گوادر کے علاقے میں بلوچ سر مچاروں نے کامیاب کارروائی کر کے کئی ایف سی اہلکاروں کو قتل کیا تھااس کے جواب میں ایف سی اہلکاروں نے گرد نواح کے علاقوںمیں جارحانہ کارروائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔اسی طرح کی ایک جارحانہ کاررائی میں انہوں نے دشت زاران کے علاقے میںواقع ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے تیل ڈپو اور کروڑوں روپے مالیت کے سامان کو بلا وجہ جلا دیااور لوگوں کو سزاءکے طور پر دوڑاتے ہوئے کہا کہ تم لوگ مسلمان نہیں کافر ہواس لیے تم سب کو قتل کرنا جائز ہے ۔“اس خبر میں واضح طور پر سخت الفاظ میں بلوچوں کو خبر دار کیاگیا تھا کہ ”پاکستانی فورسز اس سے بھی زیادہ گری ہوئی حرکت اور اخلاقی پستی کامظاہرہ کرسکتے ہیں جس طرح کوہلو‘ کاہان اور ڈیرہ بگٹی کے دور افتادہ گاﺅں میں لوگوں کو زندہ جلا کر عورتوں کی بے حرمتیاں کی گئیں ان علاقوں میں بھی یہی عمل دہرائے جاسکتے ہیں“ 31مئی کوبی این ایم کے قائمقام صدر عصاظفر نے بھی اپنے بیان میںکہاکہ”پاکستان آرمی مکران میں جارحانہ کارروائیوںکی تیاری کررہی ہے “ بلوچستان میںیکم جون کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں نے مکران میں فوجی کارروائیوں کی تصدیق کی ۔اب تک اطلاعات کے مطابق ”کستان آرمی کے دستے بھاری فوجی سامان کے ساتھ دشت مکران کے علاقے میں جارحانہ کارروائیوں کے لیے پہنچ گئے ہیں ۔علاقے میں غیر معمولی تعداد میں فوجی ٹینک ، ہیلی کاپٹرز اور جنگی جہاز موجود ہیں ۔ کمپشت کے قریب چند گھرانوں پر مشتمل گدانوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری کی اطلاعات ہیں جن میں درجنوں سے زائد لوگوںکے جاں بحق ہونے کا خدشہ ہے ۔زریں بگ ، ملائی نگور ، پلان بازار ، زیارتی ، ھسادیگ ،زھریگ ، ھور،شولی ، چاتیگ ،دوروکنڈگ اور گرد نواح کے تمام علاقے پاکستان آرمی نے گھیرے میں لے کرپانی کے ذخائر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ آبادیوں کودھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوںنے ان ذخائر سے پانی لے جانے کی کوشش کی تو اس کے خطرناک نتائج کا ذمہ دار خود ہوں گے ۔ فوج کی طر ف سے ان علاقوں کو گھیر ے میں لے کر آبادیوں کو محصور کرنے کی وجہ سے گزشتہ دودن سے ان آبادیوں میں پانی کی ترسیل بند ہے جس کی وجہ سے محصورین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان علاقوں میں فوج کی بڑی تعداد کی وجہ سے ان علاقوں تک لوگوں کی رسائی بھی مشکل ہو چکی ہے ۔ ان علاقوں میں پاکستانی فوج کے غیر اعلانیہ حملے کیوجہ سے یہاں کی آبادی محصور ہوکر رہ گئی ہے ۔نوعمر بچوں ‘ بوڑھوں اور مریضوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ اگر ان علاقوں کا محاصر ہ مزید جاری رہا تو ان علاقوں میں شدید قحط اور آبی قلت سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کاخدشہ ہے ۔ بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آزاد میڈیا کی ان علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بلوچستان کے حالات سے لا علم ہے ۔بلوچستان کے حالات غزہ سے زیادہ خراب ہیں بلوچستان کے جن چھوٹے اور دورافتادہ علاقوں میں بمباری کی جارہی ہے وہاں کے لوگوں کی زندگی کا دار ومدار مال مویشی اور بارش کے بعد قدرتی جوہڑوں اور مصنوعی جوہڑوں میں جمع ہونے والے پانی پر ہے ۔ ان گدان نشین بلوچوں کے مال مویشیوں کو پاکستان آرمی اہلکار کرذبح کرکے کھارہے ہیں یا پھر بمباری کر کے قتل کررہے ہیں تاکہ ان کی معاشی حالت کمزور کر کے ا نہیں ان علاقوں سے نکلنے پر مجبور کیا جائے جہاں پاکستا ن آرمی کے مطابق بلوچ سر مچار پناہ لے کر اُن پر حملہ کرتے ہیں ۔جن علاقوں میں پاکستانی فوج جارحانہ اقدامات کررہی ہے ان علاقوں کے لوگ انتہائی پر امن ، لڑائی جھگڑے سے د ور رہنے والے اور غیر مسلح ہیں ۔ماضی میں کبھی ان علاقوں میں پاکستانی فورسز پر نہ حملہ کرنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور نہ ہی یہاں پر کسی حریت پسند تنظیم کے کیمپ ہونے کا کبھی سر کاری دعویٰ یا اطلاعات سامنے آئی ہیں ۔ اس کے باوجود ان علاقوں میں فورسز کی وحشیانہ بمباری محض بلوچ قوم سے نفرت کا اظہار ہے ۔ غزہ پر آنسو بہانے والا پاکستانی میڈیا اسرائیل سے زیادہ شر مناک کارروائیاں کرنے والی اپنی فوج کے کردار کو بھی دنیا کے سامنے لے کر آنے کی جرات کریں ۔“ان علاقوں سے گرفتاریوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جب کہ اس مضمون کی لکھنے تک آخری تشویشانک خبر یہ تھی کہ ”گوادر اور کیچ کے درمیان چھوٹے بڑے ایک درجن سے زائد گا ﺅں گزشتہ تین دن سے فوجی محاصر ے میں ہیں ۔ گاﺅں میں تلاشی اور لوگوں کی بلا وجہ گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے ۔ پانی کے قدرتی تالابوں اورجن چشموں پر آرمینے قبضہ رکھا تھااُن میں زہر ملا دیا گیا ہے ۔“

مکران کوئی دور افتادہ علاقہ نہیں کہ اس کے حالات سے دنیا کو بے خبر رکھا جاسکے یہ بلوچستان کا مواصلاتی رابطوں کے حوالے سے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ علاقہ ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں ہونے والی کسی قسم کی فوجی کارروائی عالمی یا کہ علاقائی میڈیا کی نظروں سے چھپی رہی ۔ پشتونخواہ خیبر کے افغانستان کے سرحدوں سے متصل مواصلاتی رابطوں کے حوالے سے انتہائی پسماندہ پہاڑی علاقوں میںپتہ ہلے تو اس کی خبر مغربی اور پاکستانی میڈیا میں نیوز الرٹ کے طور پر کاروباری اشتہارات روک کر دکھائی جاتی ہے ۔ ہما را یہ مطمع نظر نہیں کہ پشتونخواہ خیبر کے متعلق خبر نہ چلائی جائے لیکن ہمیں اس پر ضرور حیرت ہوگی کہ دونوں علاقوں میں ہونے والی ایک جیسی خبروں پر جب مختلف رویے کا اظہار کیا جائے ۔ آخر پاکستانی میڈیا پراُس کونسی اجتماعی نفیساتی بیماری نے حملہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے بارے میں پر اسرا ر طور پر خاموش ہے نہ مقامی اخبارات میں گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستانی فوج پر نہایت سنگین الزامات لگاتے بلوچ قوم دوست جماعتوں کو جواب دیتے ہیں نا اس پر کوئی رائے زنی سامنے آتی ہے کہ آخر میڈیا کیوں بلوچستان متعلق ”روزہ مریم “سے ہے ۔اس کاجواب اہل بلوچستان نہایت صاف الفاظ میں دیتے ہیں کہ ”پاکستان کے تمام ادارے بشمول عدلیہ اور میڈیا بلوچ مسئلے پر پنجاپی مقتدرہ کے اتحادی ہیں “ان کا اس بارے میں موقف وہی ہے جو پاکستان کے سیاسی لوفر شیخ رشید کا رہاہے کہ ”طالبان کا مسئلہ دوسراہے اور بلوچستان کا دوسرا‘ان دونوں کو آپس میں نہ ملاﺅ میں بلوچستان میں طاقت کے استعمال کے حق میں ہوں ‘وہاں اگر طاقت استعمال نہیں کی گئی تو ان کو سنبھا لنا مشکل ہوگا َ۔“( شیخ رشید ٹی وی انٹرویو )یعنی پاکستانی میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ پشتونخواہ خیبر میں طالبان جو جنگ لڑرہے ہیں ۔مساجد اور بازاروں میں خود کش حملے کر کے سیاسی جلسہ جلوس پر آکر بغیر وجہ بتائے خون ریز حملے کرتے ہیں یہ سب جہاد کے زمرے میں آتے ہیں طالبان جتنے بھی برے صحیح لیکن ہیں تو میڈ ان پاکستان لہذا اِن پر اگر فوج کوئی کارروائی کرئے تو یہ فوج اور میڈیا دونوں کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے بارے میں عوام اور دنیا کو بتائیں تاکہ انسانی حقوق کے ادار ے اور جنگ زدہ علاقوں میںسر گرمی کرنے والے بین الاقوامی این جی او زمدد کو پہنچیں ۔لیکن بلوچستان میں نہ فوج کو یہ اخلاقی جرات ہے کہ بتائے وہ مکران پر کیوں بغیر وجہ بتائے چڑھ دوڑی ہے ۔اُن گدان نشینوں نے جن کے پاس ایک تیز دھار چاقو بھی بمشکل ہوگا اُن کا کیا بگاڑ اہے کہ اُن کے گدانوں پر جیٹ طیاروں اور کوبر اہیلی کاپٹرز سے بم برسائے جارہے ہیں ،ہم یہ مطالبہ ہرگز نہیں کررہے کہ یہ حملے روکے جائیں ہمارا سادہ سا اعتراض یہ ہے کہ جن کو مجرم قرار دے کر یہ سخت سزاءدی جارہی ہے اُنہیں کم ازکم یہ تو بتا یا جائے کہ اُنہوںنے آخر پاکستان آرمی کا کیا بگاڑ اہے کہ وہ اس طرح سیخ پا ہوکر آپے سے باہر ہوگئی ہے ۔ میڈیا نے غیر اعلانیہ طور پر بلوچوں کو کافر قرار دیا ہے اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے خلاف فوج کا ہر عمل ان کے اپنے کیے کی سزاءہے ۔ بعض نادان بلوچ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر فوج کا دباﺅ ہے اس لیے وہ بلوچستان سے متعلق خبریں نشر نہیں کرتا لیکن اس میں اتنی سچائی نہیں جتنا ہما را یقین ہے یہی میڈیا جب نام نہاد آزاد عدلیہ کی تحریک کی آواز بنتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روکتی یہ ہر بندش ہر پابندی کو توڑتا ہو داعی حق کا کردار اداکرتا ہے ۔جو بیگانے شادی میں عبداللہ دیوانے” کرد صاحب“ لاٹھی گولی کی سر کار کے سامنے سینہ تان کے میدان میں تھے آج توا س کا اپنا خون بہہ رہاہے وہ کہاں روپو ش ہیں................!!؟وکلا ءبار کی سینہ کوبیاں ‘ نوید انقلاب دیتے بلند آھنگ نعرے صرف چند تنخواہ دار فرعونوں(یہ خطاب کرد صاحب کا دیا ہواہے ) کی واپسی کے لیے تھے ، ذرا ٹہریئے میں یہ بھول گیا ہو ں کہ بلوچ قطعاً یہ نہیں چاہتے کہ ان سے کوئی پاکستانی آکر ہمدردی جتائے جس طرح شہید واجہ ( شہید غلام محمد ) کی شہادت کے بعد کچھ میڈیانمائندگان نے آکر کی تھی اور بعد میں ہر جگہ اپنے اس عمل کی مثال دے کر احسان جتاتے رہے ( و ہ آئے پاکستانیت کی درس دینے تھے لیکن انہوںنے احسا ن پنجاپی بن کر جتایا )۔یہ تو اپنی آنسوکے سوتوں کو مکمل خشک کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے دل میں جلتی آگ کبھی ٹھنڈی نہ ہو جس طرح بلوچی زبان کے نامور شاعر سید ھاشمی نے فرما یا تھا ‘
داں کہ جَل ماں تئی دریائیں دل ءَ آ چ نہ بیت
پہ تئی بانور ءَ گلیں تنگھیں پرداچ نہ بیت
یہی تو ان کی خواہش ہے کہ ان کے سینے میں دفن صبر کی جولامکھی پھٹ جائے اور وہاں سے پھوٹنے والا لاوااپنے ساتھ ان کا تو بہت کچھ بہا لے جائے گا لیکن ان کے خون کی ندیا ں بہانے والے بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔
پاکستانی میڈیا کی خاموشی پر توہمیشہ بات ہوتی رہتی ہے لیکن ”مکران“ میں ہونے والی پاکستان فوج کی حالیہ جارحانہ کارروائیوں سے متعلق بی بی سی جیسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے بھی خاموش ہیں..........!!؟ بی بی سی کی ویب سائٹ پر کوئٹہ میں بی این پی ( مینگل ) کے جلسہ عام پر ایف سی فائرنگ کے واقعے کی خبر بھی شائع نہیں کی گئی جب کہ اس دن نصیر لانگو ‘مطلب اور نوید سمیت تین بلوچ سیاسی کارکنان کو ایف سی نے باقاعدہ دومختلف واقعات میں دوران احتجاج نشانہ بناکر شہید کیا تھا ۔جس کے ردعمل میں بلوچستان میں د م تحریر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ مکران میں خونریز آپریشن سے متعلق بلوچ قوم دوست جماعتیں روزانہ سرا پا احتجاج ہیں لیکن بی بی سی جیسے نشریاتی ادارے کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی ‘ اور وہ یہ احساس کیوں کر یں ایک تو بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا کے بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں جو نمائندگان بیٹھے ہیں وہ غیر بلوچ ہیں جو بلوچ سے اسی طرح نفرت کرتے ہیں جس طرح پنجاپی فوج نفرت کرتی ہے اور جو اندرون بلوچستان نمائندگان ہیں اُن میں سے بہت سوں کواس کارروائی سے پہلے ہی
کرنل جنرلز نے فو ن کر کے خبردار کیاہوگا کہ اگر اُن کو دریا میں رہنا ہے تو مگر مچھ سے بیر مول نہ لیں اب بین الاقوامی میڈیا تک بلوچ کی آواز پہنچنے کے جو ذرائع ہیں اُن پر محض لیبل بدیسی لگا ہواہے ورنہ وہ بھی دیسی ہیں یا پاکستانی یا پھر پاکستان سے دہشت زدہ ۔
یہ صورتحال کسی بھی طور پر غزہ کی صورتحال سے بہتر نہیں جس کی مدد کے لیے چالیس ممالک کے لوگ سر پہ کفن باندھ کر اسرائیل جیسی ریاست کی ناراضگی مول لے کر پہنچے ۔اسرائیلکے جارحانہ حملے کے باوجود انہوں نے اعلان کرر کھا ہے کہ وہ اپنی کوشش ترک نہیں کریں گے ۔ میرے گزشتہ مضمون”غزہ لکھوں یا بلوچستان “ پر ایک دوست نے فیس بک پر تبصرہ کیا تھا کہ ”غزہ پر امریکہ کا بیٹا قابض ہے جب کہ بلوچستان پر امریکہ کی .......................کا قبضہ ہے بلوچستان اور غزہ میںاگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ غزہ کے لوگو ں کی تکلیف پر مسلمانوں کے آنسو بہتے ہیں اور بلوچوں کی تکلیف پر نہیں ۔“
بلوچ کو یہ فرق اچھی طرح سمجھانا چاہئے بالکل اسی طرح جس طرح سارتر نے فرانزفینن کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا تھا ”ان کے آباﺅ اجداد اپنی آواز ہم تک پہنچانے کے لیے ترستے تھے اب ان کے اولاد ہماری بات نہیں سننا چاہتے ۔“ گزشتہ اسی طرح کے ایک واقعے میں پاکستانی میڈیا کے کردار کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنی پارٹی کے توسط بی این ایف کی قیادت سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ پاکستانی میڈیا کے بائیکاٹ کا اعلا ن کر ئے اور اُن کو واضح طور پر بتادے کہ اگر جنگ نیوز ‘ ڈان ‘ آج ، اور اے آروائی وغیر ہ کو بلوچستان کے حالات سے لینا دینا نہیں تو بلوچ بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کے اخبارات او ر میڈیا پر بلوچستان میں پابندی لگادیں اور یہ آسان ہے ۔کیبل آپریٹرز کے لیے بھی ہاکر کے لیے ۔ بلوچستان جس کی ساٹھ فیصد زائد آبادی ویسے بھی اس میڈیا سے آزاد ہے باقی مانندہ کو ان کے بغیر بھی گزارہ کرنا سیکھ
جائیں گے ۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس میڈیا پر ہمارے اس عمل سے کچھ اثر نہیں پڑنے والا نہ ان کا کاروبار متاثر ہوگا نہ ان کا ساکھ ( ؟) لیکن ہمیںیہ اطمینان رہے گا کہ ہم بے حس نہیں ۔اور جو بلوچ قوم دوست سیاسی کارکنان بیرون وطن مقیم ہیں وہ بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے رابطہ کر کے اُنہیں بلوچستان کے حالات سے متعلق صحافتی کردار اداکرنے کے لیے دباﺅ ڈالیں اور بین الاقوامی ادارے میں بلوچستان میں ہونے والے واقعات کی کورریج سے معذرت ظاہر کرئے یا بلوچ کو اہمیت دینے سے انکار تو اس کے مقامی دفاتر اور نمائندگان کا بائیکاٹ کیاجائے ۔اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو ہمیں کراچی پریس کلب (کراچی اس لیے کہ بلوچستان کے پریس کلب میں مقامی میڈیا بساط بھر کو رریج کرتی ہے ) کے سامنے احتجاج کرنے کی بجائے میوہ شاہ قبرستان میں جاکر احتجاج کاکرنا چاہئے ۔

٭٭٭
3June 2010
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.