دنیا میں بلوچوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی شہر میں بستی ہے جوایک محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ یہ تعداد پاکستان کے زیر انتظا م مشرقی بلوچستان کی آبادی کے برابر بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے ۔اس حرماں نصیب شہر نے پاکستان بننے کے بعد شاید ہی کبھی امن دیکھا ہو ۔اگر کبھی اس شہر کا شمار دنیا کے کاروباری اور خوبصور تی کے لحاظ سے چند گنے چنے شہروں میں ہوتا تھا تو وہ زمانہ متحدہ ہندوستان کا تھا جس کے حکمران انگریز تھے کراچی کی ترقی اور اسے دنیا کے صف اول کے شہروں میں لاکھڑ اکرنے میں انگریز سر کار کے بعد کسی حکومت نے اُس جیسی شاندار کارکردگی کا مظاہر ہ نہیں کیا جس کا ثبوت آج بھی انگریز دور کے چند نمایاں تعمیرات کی صورت موجود ہیں ۔ اُس وقت کراچی کی معشیت کا پہیہ چلانا اور اس کی ترقی میں انگریزوں کے شانہ بشانہ جانفشانی اور سیلقے سے کام کرنے والی قوم بلوچ تھی ۔ کراچی میں ریل پٹری کو بچھانے کے لیے بلوچ مزدور مکران کے دوردراز کے علاقے سے آتے تھے( یہ مزدور لیاری ‘ ملیر میں آباد بلوچوں کی بنیادی آبادیوں کے علاوہ تھے جن میں سے اکثریت اس شہر سے دوبارہ ہجرت کرکے مکران لوٹ گئے ) جو آج بھی یہاں کے بلند وبالا عمارتوں اور کشادہ سڑکوں کو اپنی بوڑھی آنکھوں سے ٹتولتے ہیں تو انہیں بے ساختہ ماضی یا د آجاتا ہے۔ اُن کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اُن کے ذہن میں نقش منظر آپ کے ذہن کے پردے پر منتقل ہورہے ہوں یہ شاید اُن کا اس شہر سے ایک روحانی وابستگی کی کیفیت ہے جو الفاظ کے توسط سننے والے کی روح تک اُتر جاتی ہے ..............کراچی ائر پورٹ ‘ ریلوے لائن منصوبہ ‘ کراچی پورٹ اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں کام کرنے والوں میں ایک میر ے نانا مرحوم بھی تھے۔ وہ جب بھی اُس زمانے کی بات کرتے تو اس کے چہرے سے بڑھاپے کے آثار مٹ جاتے وہ اس بات کا زندہ ثبوت تھے کہ ”بلوچ آوارہ بات بات پر مشتعل اور لڑائی جھگرا کرنے والی قوم نہیں بلکہ محنتی اور سخت جان قوم ہے جنہوں نے کراچی کو ایک چھوٹے سی ماہی گیر بستی سے ایک وسیع شہر بنادیا جو اپنے کوکھ میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگ سمائے ہوئے ہے ۔ “میرے والد کا بھی اس شہر کی تعمیر میں حصہ ہے یہاں ایستادہ چند بلند وبالا عمارتوں کے بلاکس میں ضرور وہی مٹی شامل ہوگی جو ملیر ندی سے نکالی گئی تھی جن کے صاف کرنے والے مزدوروں میں ایک میرے والد تھے وہ بھی اُن دنوں کا ذکر فخریہ کرتے ہیں ۔یہ سر مایہ افتخار بظاہر کچھ لوگوں کو عجیب لگے کہ مزدور ی کرنے میںفخر کی کیا بات ہے لیکن جو لذت مزدور کو اپنے محنت کی روٹی کھانے سے ملتی ہے وہ اُن کو کہاں نصیب جو دوسروں کی روٹی چھین کر پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں ۔میرے نانا اور والد ایسی مثالیں ہیں جنہیں میں نے قریب سے سنا دیکھا اور اُن کے احساسات کو محسوس کیا ہے۔ کراچی میں بسنے والے ہر بلوچ کا اس شہر کی تعمیر میں حصہ ہے اور ایک کے احساسات وہی ہیں جن کی ترجمانی میرے مذکورہ بزرگ کرتے ہیں ۔اُس زمانے میں جب بلوچ اس شہر میں اکثریتی آبادی کے طور پر رہتے تھے جس طرح ذکر کیا گیاہے کوئی شاہانہ زندگی کے مالک نہ تھے لیکن اُن کو اپنی محنت کی روٹی کھانے کا موقع میسر تھا ۔اُس وقت تعمیرات کے بڑے بڑے ٹھیکے انہی بلوچوں کے پاس تھے جنہوں نے کراچی سیورج لائن اور کشادہ ترین سڑکوں کی جال بچھانے میں نمایاں خدمات سر انجام دیئے ۔ان بلوچو ں کی سب سے پرانی آبادی کراچی میں لیاری ہے ۔لیاری جسے آج کراچی کے نئے باسی (جن کے آنے کے بعد یہاں سے امن کی فاختہ ہمیشہ کے لیے اُڑ گئی ) کراچی شہر کا ناسور سمجھتے ہیں اس شہر کے ہونہار معماروںاور انسانیت کے عظیم مثال بن کر پیش آنے والے اُن بلوچوں کی بستی ہے جنہوں نے نہ صرف کلاچی کو کراچی بنایا بلکہ دہلی ‘ لکھنو اور آگرہ سے ننگے پاﺅں اور ننگے بندن آنے والوں کو سہارہ دیا یہ وہ لوگ تھے جنہوںنے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے بوجھ کوخنداں پیشانی سے برداشت کیا۔اس شہر میں کہ جہاں لوگ سائیکل سے ففٹی موٹر سائیکل اور پھر شہر کا مالک بن بیٹھے کراچی شہر کے مالک لیاری کے بلوچ آئستہ آئستہ اپنی دوقت کی روٹی سے بھی محروم ہوگئے ۔بھوک اور بے روزگاری تو جیسے لیاری کے لیے ہی بنے ہیں لیکن یہاں سر کاری پرستی میں ایک اور چیز نے بھی ڈیر ہ جمالیا ...................منشیات او ر جراہم پیشہ لوگوں نے جنہوں نے شروع میں اپنی بھوک مٹانے کے لیے چاقو نکالاجو اب ترقی کرکے کلاشنکوف ، راکٹ لانچراور دیگر جدید ہتھیاروں کی روپ دھار کر خود اُنہی پر آگ برسا رہے ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے وحشی بلوچیت ، عزت اورغیرت کا مفہوم کیا سمجھیں اپنے انسان ہونے کی بھی خبر نہیں رکھتے اب پاکستان پیپلز پارٹی کے مہرے اور ہاتھ کے کھلونے

بن چکے ہیں جو انہیں کبھی اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایم کیوایم کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے کبھی ایندھن بنا کر اقتدار کی سیڑھی چڑھتی ہے ۔جب بھی پاکستان پر پی پی کی حکومت آئی لیاری کے مصائب میں اضافہ ہی ہواہے ۔گزشتہ تین مہینے میں یہ لیاری میں ہونے والی تیسری خون ریز لڑائی ہے ۔اس دفعہ کلری کو ٹارگٹ بناکر حملہ کیا گیاہے ۔کلری علی محمد محلہ غفار کا علاقہ سمجھا جا تاہے خاص نشانہ ہے ۔مقامی ذرائع کے مطابق غفار جو کہ خود کو پیپلز پارٹی کے رہنماءجتاتاہے خود بھی پیپلزامن کمیٹی میں شامل تھا (جس کا بانی عبدالرحمن تھا ۔اسی عبدالرحمن نے کراچی میں بے نظیر کی آمد کے وقت اس کی ریلی کورضاکارانہ طوپر سیکورٹی فراہم کیاتھا اور حملے کے بعد انہیں بحاظت نکال کر لے گیاتھا۔ ذرائع کے مطابق اس حادثے کے بعد تقریبا ًآدھے گھنٹے تک کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ بے نظیر کو وہاں سے نکالنے والے کون لوگ تھے ۔اس کے بعد عبدالرحمن جو کہ بری شہرت کے مالک تھے ،کے کردارمیں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئی ۔شایدبے نظیر کے کہنے پر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ لگے ڈکیت کے لاحقہ کو مٹانے کا فیصلہ کیا اور سیاسی وفلاحی سر گرمیوں میں کھل کر حصہ لینے لگے ۔انہوں نے امن کمیٹی کی داغ بیل ڈالی اور غفار کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی کو دوستی میں بد ل دیا۔ عبدالرحمن کے شدید مخالفین بھی اس بات کونہیں جھٹلاسکتے کہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کایا کلپ عبدالرحمن نے لیاری میں رضاکارانہ طور پر جراہم اور منشیات کے اڈوں کے خاتمے کے لئے نمایاںکردار اداکیا ۔ اُس کے ماورائے عدالت پر اسرار قتل کے بعد ”لیاری “بڑی تیزی سے آگ کی لپیٹ میں آگئی ) چند دن پہلے پیپلز امن کمیٹی سے تنازعے پراس نے پریس کانفرنس کرکے کمیٹی سے لاتعلقی کا اعلان کیااس دوران انہوں نے واضح کیا کہ وہ پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کررہے صرف امن کمیٹی سے علیحدہ ہورہے ہیں۔اس کے چند دن بعد کمیٹی کے ایک ممبر پر حملہ کیا گیا جس کے جواب میں ایک مرتبہ پھر غفار اور عبدالرحمن ( جس کے موجودہ سر براہ عزیرہیں) گروپس میں جنگ چھڑ گئی جو دم تحریر جاری ہے ۔
غفار کاآبائی محلہ ”علی محمد محلہ “ وہی محلہ ہے جہاں کے رہائشی کبھی شہر کراچی کے معاشی حب کراچی پورٹ اور فشریز کو چلانے میں کلیدی کردار اداکرتے تھے ۔یہاں دوطقبے کے لو گ بستے تھے ایک وہ جوماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے فشریز میں کاروبار کرتے تھے دوسرے وہ جو ٹوکریاںبُن کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ یہ ٹوکریاں ماہی گیری مچھلیاں اُٹھانے کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ان ٹوکریوں میں برف کو بھی ٹکڑے کرنے کے لیے رکھا جاتاتھا جنہیں بعد میں مچھلیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کشتیوں میں بنے سردخانوں میں رکھا جاتا تھا ۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ علی محمد محلہ کے بلوچ تیزرفتار دنیا کا مقابلہ نہ کر سکے اور پیچھے رہ گئے ۔لیکن ذمہ دار ریاستو ں میں ایساہرگز نہیں ہوتا وہاں ایک کاروبار سے منسلک افراد کو ایسے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ وقت کی رفتار کے ساتھ ترقی کرتا ہے اس سلسلے میں جو خاص وزارتیں قائم کی جاتی ہیں اُن کا مقصد وزراءکی عیاشیوں کا سامان مہیاکرنا نہیں بلکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے لیکن نومودپاکستانی سر کار نے لیاری کے ان محنت کشوں پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان کے کاروبار غیر محسوس انداز میں غیر بلوچ اور نو آبادکاروں کو منتقل کیے گئے ۔علی محمد محلہ کے کافی لوگ کراچی پورٹ میں شیئر ز ہولڈر تھے لیکن اب وہ بتاتے ہیں کہ اُنہیں لیاری والا کہہ کر دروازے پر بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا۔ آج لیاری کے حالات کی ذمہ داری ریاست پاکستان اُٹھانے کو تیار نہیں اور نہ ہی دم تحریر لیاری اور خاص طور پر علی محمد محلہ میں سر کاری سر پرستی میں جو خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے سرکار اُس کی ذمہ داری لینے یا اس کے ذمہ دران کو کیفر کردار تک پہنچانے کو آمادہ ہے ۔بلکہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ان واقعات کا ذمہ داربھی بلوچ قوم دوستوں کو قرار دیا جارہاہے ۔یہ بھی عجب سلسلہ ہے کہ ایک طرف حکومتی حلقے یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرررہے ہیں کہ لیاری کے حالات کی خرابی کے ذمہ دار قوم دوست عناصر ہیں جب کہ دوسری طرف لیاری کے عوام کا یہ شکوہ ہے کہ” قوم دوست لیاری کے بلوچوں کے قتل عام پر تماشائی ہیں“ یعنی اُن کے مطابق اُن کا لیاری میں کوئی کردار نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ کردار ہونا چاہئے زیادہ واضح الفاظ میں وہ لیاری کے بلوچوں کو گینگ وار اور پیپلز پارٹی سے چھٹکارہ دلانے کے لیے بلوچ سر مچاروں( بلوچ مسلح حریت پسندوں) سے مدد کی اپیل کررہے ہیں لیکن یہاں پرلیاری کے بلوچ اورامن کمیٹی والے چند موٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ پیپلز امن کمیٹی جس لب ولہجے کے ساتھ قوم دوستوں( خاص طورپر انہوںنے بلوچ مسلح حریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ۔بی ایل اے کا نام لیا تھا) سے مخاطب ہے یہ واضح طور پر اُن کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جب کہ قوم دوستوں نے کراچی کے معاملے میں ہمیشہ دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اور کوشش کرتے رہے ہیں کہ کراچی میں گینگ وار کے نام پر بلوچوں کا خون نہ بہایا جائے ۔ لیاری کے عوام یہ بھول رہے ہیں کہ اُن کی اکثریت بلوچ قوم دوستوں کا نہیں اسی امن کمیٹی اور پی پی کا حامی ہے جو ان کاخو ن بہار رہے ہیں ۔ کراچی میں بلوچ قوم دوستوں کی سب سے بڑی جماعت بی این ایم ہے جس کی لیاری میں بنیادی ممبران کی تعداد سوسے اُوپر نہیں اگر اس میں تما م قوم دوستوں کے ممبران کی تعداد کو بھی ملایا جائے جن کی ممبر شپ کا حصول بی این ایم کے نسبتا ًآسان ہے تو بھی یہ تعداد بمشکل پانچ سو تک پہنچے گی جونہ حالات کو بگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ سنوارنے کی ۔جوقوم دوست جماعتیں ہیں اُن کا کام پرامن سیاستکے ذریعے بلوچ قوم میں اتحاد واتفاق پیدا کر کے بلوچ قومی تحریک کے لیے ہمدرری میں اضافہ کرنا ہے ۔کراچی جیسے شہر میں جہاں تہجد گزاروں کے پاس بھی اسلحہ موجود ہے ان پارٹیوں کے پا س ایک” کیل“بھی نہیں نہ کہ ان پارٹیوں نے کبھی لیاری یا کراچی کے دیگر علاقے میں کسی پر تشدد کارروائی کاارادہ ظاہر کیا نہ کہ بغیر ارداہ اس طرح کی کارروائی میں شامل رہے ہیں ،نہ ہی چھوٹے موٹے گروہوں کی لڑائی میں دخل اندازی کی بلکہ یہ تعلیم وتربیت پر زور دیتے رہے ہیں ۔اس طرح کی پارٹیاں اگر اس قابل نہیں کہ اس طرح کے گروہوں کا مقابلہ کریں جن کے پاس راکٹ لانچر ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ قوم دوست محض تما شا دیکھتے رہیں گے ۔اتنی کم ممبر شپ کی تعداد کے ہوتے ہوئے بھی لیاری کے عوام کی ہمدردیاں بلوچ قوم دوستوں کے ساتھ ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ امن کمیٹی اور پی پی اُن کے ساتھ کیا کررہی ہیں اب اگر قوم دوست پارٹیاں خاموش رہئیں تو امن کمیٹی اور ان کے کرتادھرتا یہی سمجھیں گے کہ انہوں نے قوم دوستوں کوڈرا کر چپ کرالیا ہے۔ جس طرح کہتے ہیں کہ جب پانی سر سے اُوپر ہوجائے تو بچاﺅ کے لیے آدمی اپنے بچے کو بھی پاﺅں کے نیچے کر لیتا قوم دوستوں کو بھی اپنے لوگوں کے تحفظ کے لیے میدان میں اُتر نا ہوگا اور انہوں نے قربانی اور استقلا ل کی جوروایت بلوچستان کے شہروں میں قائم کی اس سے کراچی کے ”امن پارٹی “کو بھی آشنا کروانا ہوگا ۔لیکن لیاری اور کراچی کے بلوچ اس خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کہ یہ سب پلک جپکتے ہی ہوجائے گا میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ سیاسی پارٹیوں کی رفتار دھیمی اور عوام کی پذیرائی سے بڑھتی ہے ‘ بلوچ قوم دوست اپنی جڑیں عوام تک اُتارنے کے لیے دن رات بلاخوف وخطر کام کرتی رہیں گی ۔ ا ب بی این ایم کراچی اور دیگر قوم دوست جھدکاروں کو ان روایتی بزدل بنانے والے جملوں کے اثر سے خود کوآزاد کرانا ہوگا کہ ”کراچی والے اگراآواز اُٹھائیں گے تو غنڈے اُنہیں قتل کردیں گے گھروں کو جلا دیں گے ۔“اب روزروز مرنے سے ایک بار مرنے کا فیصلہ ہی واحد حل ہے ۔لیاری کے لوگ جتنے زیادہ سنجیدہ ‘ خوف سے عاری ‘ انقلابی آدرش کو سمجھنے والے ‘سیاست اور حالات واقعات کی باریکیوں کو جانچنے والے ہوں گے بلوچ قوم دوست اُتنی جلدی انہیں اس عذاب سے چھٹکارہ دلانے میں کامیاب ہوں گے ۔

٭٭٭٭٭

4-06-2010

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.