نوٹ :یہ مضمون میں نے بی این ایم میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے ایک مہینے قبل لکھنا شروع کیا تھا۔ذہنی انتشار کی وجہ سے اسے ایک نشست میں اسے نہ لکھ سکا۔بڑی مشکل سے ’’مختلف عنوانات ‘‘کے تحت لکھے گئے پیراگرف کو جوڑ کراستعفےٰ سے ایک ہفتے پہلے یہ مضمون مکمل ہوا۔شائع کرنے کی ہمت اس لیے نہیں ہوئی کہ میں اپنے خلاف چائے خانوں میں پیش کی جانے والی چارج شیٹ میں ایک اور الزام کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔اب استعفیٰ کے بعد صورتحا ل مختلف اور ’’جھدکاروں کی ذمہ داریاں ‘‘زیادہ ہوگئی ہیں ۔استعفوں پر بھی قارئین ‘دوزواہ اور جھدکاربہت کچھ جاننا چاہتے ہیں ۔گوکہ استعفوں کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس موضوع پر اخبارات میں کسی بیان بازی کا حصہ نہیں بنو ں گا تاکہ جس پارٹی مفاد کو پیش نظر رکھ کر استعفیٰ دیا ہے اسے گزند نہ پہنچے لیکن بانکڑوں ( تلو /چائے خانوں کے بنچ )پر بیٹھکرجوکچھ کہا جارہاہے اس کے ماحول پر مرتب منفی اثرات کو زائل کرنے اور یک چشم بین تجزیہ نگاروں کی دوسر ی آنکھ کھولنے کے لیے کچھ لکھنے کا قصد کیا ہے ۔اس گزارش کے ساتھ کہ میں کسی بیت بازی نما کھیل کا حصہ بننے کو تیار نہیں اس لیے کسی تحریر کے جواب کے بعد یہ توقع نہ رکھی جائے کہ میں اس کا جواب رقم کرؤں گا بیت بازی کی اس روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی کہ آخری شعر کہنے والا ہی کھیل جیتتا ہے چاہئے اس کا شعر عامیانہ ہو یا عالمانہ میں خاموش رہ کر ہارنا پسند کرؤں گا۔آپ جوکچھ پڑھنا چاہتے ہیں وہ اگلے مضمون میں پڑھیں آج زیر نظر موضوع پر بات کرتے ہیں ۔
عموماًلوگ اختلافات سے گریز اور اعتراضات کے اظہار سے گھبراتے ہیں انجانے خوف یا خوداعتمادی نہ ہونے کی وجہ سے۔تنقید کے خوبصورت لفظ کی تخلیق کے بعد اختلافات واعتراضات کوحوصلہ ملاماضی میں جن خیالات کو بغیر پرکھے اعتراضات واختلا فات کہا جاتاتھا آج وہ تنقیدکا لباس فاخرہ پہنے قابل احترام ہیں ۔یہ عالمانہ سوچ ہے لیکن بقول ’’شہید اکبر تضاد توزندگی کاحسن ہے ‘‘عالمانہ سوچ کے متضاد عامیانہ سوچ رکھنے والے بھی ہیں جنہوں نے تنقید کو کراہت انگیز بنانے کے لیے ’’تنقید برائے اصلاح ‘مثبت تنقیداور منفی تنقید ‘‘جیسے اصطلاح تراش کردراصل تنقید کی روح کو قبض کرنے کی کوشش کی ہے ۔میں تو ان اصطلاحات پر بھی نکتہ اعتراض پیش کرتا ہوں ’’سطحی تنقید ‘بے جا تنقید ‘عالمانہ تنقیداور سازشی تنقید‘‘یعنی’’ تنقید ‘‘ کومحض ’’تنقیدکہنا چاہئے البتہ خود ’’تنقید ‘‘کا تعارف ایک الگ موضوع ہے یعنی’’ کون سے اعتراضات واعترافات کس پیراے میں ہوں کہ تنقید کہلائے جاسکتے ہیں ‘‘یہ فیصلہ ناقدین پر چھوڑنا مناسب ہوگا ۔
میر امضمون ’’شعور ‘شورش اور شکست ‘‘نے ایک حلقے کو کافی آگ بگولہ کیا ‘کچھ دوستوں نے مضمون کے مندرجات سے اتفاق کے باوجود یہ کہا کہ ’’آپ کو یہ مضمون نہیں لکھنا چاہئے تھا کیوں کہ اس سے آپ متنازعہ ہوچکے ہیں ‘‘۔’تنازعہ ‘‘سے ماخوز ایک غور طلب اصطلاح’’متنازعہ‘‘ یعنی ’’ایک ایسا شخص جس کے بارے میں لوگ ایک جیسی رائے نہیں رکھتے ‘‘تو میں نے خیالوں میں غیر متازعہ شخص کی کھوج شروع کی‘نتیجہ ! ’’تاریخ اور عصر حاضر میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ اسے غیر متنازعہ کہا جاسکے ‘‘میں بھی یہ اعزاز ٹھکراتے ہوئے ’’متنازعہ کردار‘‘ کے طورپر اپنی شناخت قبول کرتا ہوں ۔بلوچ نو خیز سیاست ( جہد آزادی میں شامل نئی نسل‘ یہ حقیقت کوئی تسلیم کرئے گاکہ نوجوان نسل اپنے پیشرؤں کی قیادت کرنا چاہتی ہے ؟ ) کے مطالعے کے بعدمیں اخذ کرچکاہوں کہ ہمیں’’ غیردانشمندانہ رویے ‘‘کی تبدیلی کے لیے اپنے الفاظ بدلنے ہوں گے۔ وہ افکار ونظر جنہوں نے ماحول کو گردآلود کیا ہے ان میں ضروری ترامیم و قطع وبرید کرنی ہوگی ۔ کامیابی کے لیے غلطیوں پر اکڑ کرنے کی بجائے ان سے سیکھنے کی عادت ڈالنی ضروری ہے ۔خیالی تجزیے سے مکمل چھٹکارہ حاصل کر کے حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہوں گے ۔یہاں مثال کی ضرور ت ہے ’’شہید رسول بخش کو بہمیانہ طریقے سے کیوں شہید کیا گیا ؟آپ کی شناخت کس طرح کی گئی ؟کیا آپ کومحض بی این ایم کے مرکزی رہنماء کے طور پر نشانہ بناکراغواء کے بعدٹارچر کر کے قتل کیا گیا ؟ ڈاکٹر دین اور دیگر افراد کو کن وجوہات اور ہماری کن غلطیوں کی وجہ سے پاکستانی فورسز نے اغواء کر کے لاپتہ کیا ہے ؟ سانحہ مرگاپ میں ہماری کتنی مجرمانہ غفلت شامل ہے ؟ دوستوں کو یاد کرنا چاہئے کہ یہ سوال متعلقہ فورم پراُٹھائے گئے ہیں یانہیں؟‘‘.................... ایک پالیسی ساز ادارے کے ممبر کی حیثیت سے میں یہ اعتراف کرتاہوں کہ ہمارے معلومات خیالی تجزیات ، اخباری بیانات اور ایس ایم ایس نیوز پرمشتمل ہیں۔کچھ دوست اس جملے پر بھی بھنویں ملا کر اعتراض کرسکتے ہیں ’’کہ یہ سب یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں ‘‘مجھے یہی رویہ تبدیل کرنا ہے جو باتیں سب کو معلوم ہیں جن پر ہر چائے خانے میں بات ہورہی ہے جس پر سب معترض اور پریشان ہیں ۔ان کو چھپا کرہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں وہ راز جس کا سر بازار چرچا ہو راز نہیں رہتا ہماری’’ سیاست ‘‘ ’’قومی ضرورت ‘‘بن چکی ہے قوم اس میں برابر کا حصہ دار ہے یہیں سے ہمیں ایندھن اور توانائی ملتی ہے۔ یہ تحریک ہے جسے آگے بڑھنا ہے ‘ اس طویل تحریک میں ہم اور آپ تمام تر ذمہ دار یاں اکیلے اُٹھا کرباقی لوگوں کے زبانوں پر تالے نہیں لگاسکتے ہمیں حقائق کو عام کرنا ہوگا ( یہاں اہم رازوں کو افشاں کرنے پر زور نہیں)شہیدواجہ کے فلسفے کے مطابق ’’عوام پر اعتماد ‘‘کااظہارہماری کمز وری کی بجائے ہتھیار بن سکتا ہے بشرط کہ ہم اخلاص کے ساتھ اپنی پوری توانائی ’’حکمت عملیوں ‘‘پرعمل کرنے پر صرف کریں ۔
دورہ تربت میں مجھے ایک معزز دوست نے ’’انقلاب ‘‘کی ایک ایسی تعریف پیش کی کہ جسے میں ہضم نہیں کرسکا۔ اختلافات سے خوفزہ دوست کے خیال میں ’’ہمیں بی این ایم کوجمہوری طریقہ کار کی بجائے انقلابی طریقہ کار کے مطابق چلانا چاہئے ‘‘انقلاب اور جمہوریت کو ضد بنا کر دراصل اس نے کچھ پیچیدگیوں کو نظرانداز کردیا ۔اُن کے خیال میں ’’انقلابی پارٹی آمرانہ سوچ رکھنے والی قیادت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے قیادت کے چناؤ اور بنیادی فیصلوں میں پارٹی کارکنان کی رائے شامل نہیں ہوتی ۔‘‘بی این ایم بھی اندھی جمہوریت کو مسترد کرکے پارٹی اداروں کی تشکیل کے لیے’’ بنیادی جمہوری اُصول ‘‘کا چناؤکرچکی ہے ۔( اس کی تصدیق یا تردیدکے لیے بی این ایم کے آئین کا حرف بہ حرف مطالعہ اور بنیادی جمہوری اُصول کے بارے میں جاننا ضروری ہے )اس اُصول کے مطابق محض اہل کارکنان ہی پارٹی قیادت کے لیے مرکزی پالیسی سازاداروں کی ممبر شپ حاصل کرپاتے ہیں ۔اب اگر پارٹی کے ذیلی ادارے آئین پر لفظ بہ لفظ عمل یقینی بنائیں تو ’’جمہوریت کو چھان کر نقصانات کو کم کیا جاسکتاہے ‘‘گزشتہ سیشن میں پارٹی آئین میں ’’دوزاہ ‘‘کا اضافہ بھی ایک ایسی سوچ تھی ‘راقم نے اسے جامع طور پر پیش کیا تھا جس کے بعض شقوں کومرحلہ وار آئین کا حصہ بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے ابتدائی طور پر تین مہینے تک ’’دوزواھی کی شر ط‘‘ کو آئین میں شامل کیاگیا ۔دوزواہ اور جھدکار کی کئی سر کل اور پارٹی ترجمان میں شائع شدہ مضامین میں تشریح وتعریف بھی کی جاچکی ہے اب چند اور انقلابی اقدام کی ضرورت ہے یعنی ’’ پالیس سازاداروں کی تشکیل کے لیے ( مشاورتی مجلس( کونسل) کے ممبران کے چناؤ کے لیے)ضروری سیاسی وفکری تربیت کی تکمیل کو صوابدیدی اختیارات کی اہلیت قرار دینا‘‘کواگلے سیشن میں ہدف رکھا جائے ۔بعض مشکل حالات میں مجھے اکثر بیرون وطن اور اندرون وطن ایسے دوست فون کر کے حوصلہ دیتے ہیں جن کا بظاہر بی این ایم سے کوئی لینا دینا نہیں اُن کا کہنا ہے کہ بی این ایم بلوچ قوم کی واحد جماعت ہے جو قوم کے اُمیدوں کا مرکز ہے اس کو ایک ایسے خوبصورت ڈھانچے میں ہونا چاہئے کہ بلوچ قوم اس پر فخر کرئے اور مخالفین کو بھی اس پر اُنگلی اُٹھاتے ہوئے شر م آئے........گزشتہ سالوں میں ہم یہ سب نہ کرسکے !...............لیکن ہمیں اگلے سالوں میں ان اُمیدوں پر پورا اُترنے کے لیے کمر کسنا چاہئے ۔جب ہماری پارٹی قومی پارٹی اور قومی تحریک کے بنیادی محرکین میں سے ہے تو اس پر قومی سطح پر بحث ومباحثہ کی اجازت ہونی چاہئے ۔ ہم تنقید کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اس بات کو اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ عمومی سیاست میں قلم اور سیاست کی بالکل بھی نہیں بنتی قلم ’’سچ ‘‘ لکھنے کا فن اور سیاست ’’اچھے ‘‘بول بولنے کا ہنر ہے ۔سیاست اُمید جگاتی ہے ۔شھید غلام محمد ایک اچھے سیاستدان تھے آپ کی تقاریر نے مکران اور کراچی کے بلوچوں کے دل میں آزادی کو راسخ عقیدہ بنادیا۔پھربلوچستان کے طول وعرض میں جہاں کہیں بھی آزادی کی بات ہوئی وہاں آپ کی نقل کی گئی ۔بابامری ( سردارخیر بخش مری ) اس لیے ایک کامیاب عوامی سیاستدان نہیں بن سکے کہ آپ سیاست میں اچھے بول سچائی کی کسوٹی میں پرکھ کر بولتے ہیں ۔رومانس ازم سے لبریز اُمید افزاء باتوں سے گریز کرتے ہیں ۔یہ باتیں جذبات کو انگیخت کرنے کی بجائے فکر وعمل کی گہرائیوں میں دکھیل دیتی ہیں جہاں ذہنی عیاشی در کنار ‘ذہنی استراحت کی بھی گنجائیش نہیں۔آپ کے حلقہ اثر کے کارویہ بھی ایسا ہی بن گیاہے ۔ آج ایک علم دوست آزادی پسند کے لیے’’ مری ‘‘اس لیے قابل اعتماد ہیں کہ وہ رائی کا پہاڑ کھڑ انہیں کرتے۔اُن کے خواہشات زیادہ نہیں مگر سوچ جامع ہیں’’ اپنی زمین کی گہرائی آپ ناپ نہیں سکتے ‘ نہ ہی آسمان کو اپنے بازؤں میں بھر سکتے ہیں لیکن زمین کے اُن حدودمیں جہاں آپ دیکھ سکتے ہیں وہاں اپنے لیے محفوظ راستہ دیکھ لو اور جتنا آپ کی مٹھی کی قدرت ہے اُتنے وسائل اکھٹے کرؤ ۔ہوسکتا ہے کہ آپ آج کامیاب نہ ہوں لیکن آپ کبھی شکست خوردہ اور ناکام بھی نہیں ہوں گے ۔آپ کی یہ استعداداس لیے موثرہے کہ آپ کا دشمن اور دنیا کے دیگر کامیاب اقوام بھی اس سے زیادہ نہیں کرسکتیں ۔‘‘ ( یہ باباکا قول نہیں راقم کی اپنی رائے ہے)’’اس سیاسی نظریہ ‘‘کو دوسرے نظریات کی نسبت کم پذیرائی اس لیے ملی کہ تمام سیاستدان خوف کے مارے سچ کو چھپاتے ہیں یا اپنے خواہشات کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔میں شھید واجہ کے فلسفہ سیاست کا قائل ہوں کیوں کہ اس طرز سیاست نے سماج کو بڑی تیز ی کے ساتھ تبدیل کیا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی جلدی لوگ جوق در جوق آزادی پسند جماعتوں میں شامل ہوں گے لیکن آپ کی آواز اور کردارنے یہ کردکھایا ۔بی این ایم کے سیشن کے بعد آپ کے سامنے یہ بحث ا کثر ہوتی رہتی تھی اب کہ لوگ دیوانہ وار آزادی کے کاروان میں شامل ہونے کے لیے بڑھ رہے ہیں جذبات کی حدت آسمان کی بلند یوں کو چھورہی ہے وقت اس اُبھار پر بغلیں بجانے کا نہیں بلکہ اس کو منظم کرکے قائم رکھنے کا ہے۔بی این ایم کے سیشن میں پارٹی ممبر شپ کے لیے تین مہینے تک دوزواہ رہنے کی شرط ایک ایسے ہی بحث کے بعد راقم نے سیشن میں پیش کیا گوکہ پیش کردہ طریقہ کار میں بی این ایم کے بنیادی ممبر شپ کا حصول کے لیے اور زیادہ مشکل تھااُس کی اکثریت آج بھی حامی ہے لیکن تجرباتی طور پر تین مہینے تک دوزواہ رہنے کی پابندی کو کافی قرار دیا گیا اس پر عملدرآمد کے لیے پہلے سینٹرل کمیٹی اجلاس میں طریقہ کار پیش کی گئی جسے ترمیم کے بعد منظور کیا گیا ۔شھید واجہ اور بی این ایم کی قیادت قائل ہے کہ وقت آگیاہے کہ اب ہم بلوچ عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو بی این ایم کا ممبر بنا ئیں ‘وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق اُن کی تربیت کی جائے اور تربیتی مرحلے میں کامیاب ہونے والے جھدکاروں کو جھد آزادی کے ہر او ل دستے کے طور پرآگے لایاجائے ۔‘‘ بابامری اور شہید واجہ کی طرزسیاست کے اشتراک سے ایک جامع طرزسیاست کی داغ بیل ڈالی جاسکتی ہے جسے ہم ’’علم وسیاست ‘‘کا اشتراک کہہ سکتے ہیں۔
جب پارٹی کے سیشن کا اعلان ہوتا ہے تو وہاں سے قیادت کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں( یہاں محض بی این ایم کا سیشن زیر بحث نہیں) گوکہ چالاک قیادت اپنی کمزوریاں چھپا کر شاطرانہ طریقے سے ا لفاظ کے منتر پھونک کر اپنے لیے دوبارہ قیادت کے حصول کی راہ ہموار کرتاہے۔ بہت سی باتیں کارکنان سے چھپائی جاتی ہیں ۔کونسلران کے چناؤ میں پسند ناپسند کا دخل ہوتاہے کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ بی این ایم سمیت کسی بھی جمہوری پارٹی میں اختلافات نہ ہوں ۔بہت سی چیزیں طے شدہ اجلاس سے پہلے آپسی گٹھ جوڑ سے طے کی جاتی ہیں جنہیں اِجلاس میں رسماً منظور کروایاجاتاہے ۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس تحریر کی بجائے ہم بنفس نفیس کارکنان کو،کونسلران کے چناؤمیں ان کے کردار اور سیشن کے طریقہ کار ‘ پچھلے تمام سیشن ( سابقہ بی این ایم اور بی ایس او کے تجربات سے اخذکردہ)میں مختلف ٹولوں کی تکنیکی چال بازیوں کے بارے میں زبانی وتربیتی کتابچہ کے ذریعے آگاہی دیتے تاکہ کارکنان کواہل مرکزی کونسلران کے چناؤاور بہترین قیادت کے انتخاب میں آسانی ہوتی لیکن شاید ہمیں اتنا وقت میسر نہ ہو گوکہ یہاں جامع بحث نہیں ہوسکتی لیکن ذمہ دار وں کو متوجہ کیاجاسکتاہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔پارٹی کے کسی بھی معاملے کو سننے کے لیے کان کے پردوں کو بندنہ رکھیں نہ ہی آنکھیں موند لیں اس فیصلہ کن مرحلے میں ہر عمل دیکھنے اور بات سن کر مناسب جواب طے کرنا کا وقت ہے ۔’’اے لیبے نہ اِنت مئے مرگ ءُ زند ءِ کسہ اِنت۔‘‘شہید واجہ
(’’یہ (بی این ایم) ایک کھیل نہیں ہماری موت اور زندگی کی کہانی ہے ۔‘‘(شہید واجہ‘ ڈاکٹرامدادکے استعفیٰ سے قبل فون پر اُن کے رویے پرتبصرہ کرتے ہوئے )۔تو اس کہانی کواپنے منطقی انجام کی طرف لے جانے کے لیے ہمیں اس دستاویز کو سامنے رکھنا ہوگا جسے ہم سب نے مل کر تشکیل دیا ہے جو ہمارے درمیان ایک سماجی معاہدے کی طرح ہے ۔یہ سماجی معاہدہ ہمار آئین ہے اگر آئین کے مطابق‘پارٹی ادارے تشکیل دے کر کونسلران کا چناؤ کیاجائے تو’’ پسند ناپسند ‘‘کے چناؤ کے امکانات کم ہوسکتے ہیں اب اگرکوئی کارکنان کے اس آئینی حق کوا پنے خواہش کے بھینٹ چڑھا دے تو کارکنان کو کیا کرنا چاہئے؟............یہ فیصلہ میں اپنی شاطرانہ پوزیشن سے چند قدم پیچھے ہٹ کر کارکنان پر چھوڑ دیتا ہوں ۔
Post a Comment