بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت نے پارٹی کو بحران سے نکالنے کے لیے ’’قیادت سے رضاکارانہ دست برداری ‘‘کاجرأت مندانہ وتاریخی فیصلہ کیالیکن کچھ عناصر نے اس سے مثبت نتائج حاصل کرنے کی بجائے اس کو منفی سمت میں موڑ دیا۔نجی محافل او ر اخبارات میں اس طر ح کے بیانات دیئے گئے کہ جیسے ایک دھڑے نے پارٹی کوتوڑ کر ایک نئی پارٹی کے قیام کااعلان کر کے قومی غداری کا ارتکاب کیا ہو ۔یہ سر ٹیفکٹ بھی اس وقت جاری کیا جانا چاہئے تھاکہ جب جد اہونے والادھڑا پارٹی کے بنیادی اساس کے برعکس نیا راستہ اختیارکر لیتا( تب ہی تو ہمارے شہید قائد نے واجہ قادر بلوچ کی بلوچ وطن موومنٹ کو نہ صرف قبو ل کیا بلکہ چند دوستوں کی شدید مخالفت کے باوجود بی این ایف میں بھی نمائندگی دی‘جنہوں نے اختلاف کی بنیاد پر بی این ایم سے نکال کر نئی پارٹی بنائی تھی ) لیکن نہ مستعفی اراکین نے کسی نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے نہ نظریہ آزادی سے اپنی وابستگی ختم کیے ہیں بلکہ اس امکان ( پارٹی تقسیم ) کو ختم کرنے کے لیے اپنی کردار کو بھی داؤ پر لگادیا۔مستعفی اراکین کے طرف سے جو تفصیلی پر یس ریلیز اخبارات کو جاری کی گئی اس میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ ’’ہم نے پارٹی کے وسیع تر مفاد میں اپنے عہدوں سے دست برداری فیصلہ کیاہے اور اپنے اختیارات ’’قومی کونسل ‘‘کو منتقل کرنے کا اعلان کرتے ہیں تاکہ وہ ذمہ داریاں نئی قیادت کے سپرد کرسکے ۔‘‘انہوں نے اس سلسلے میں پارٹی آئین کا حوالہ دے کر’’قومی کونسل ‘‘ کااجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیاہے تاکہ کارکنان میں یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوکہ اُن کے استعفوں کے بعد پارٹی کسی پیچیدہ مسئلے سے دوچار ہوگی۔
اس بیان میں کئی بھی یہ تاثر نہیں تھا کہ پارٹی کو ایک نئے بحران میں دھکیلا گیاہو بلکہ بحران کا حل نکال کر بلوچ قوم اور پارٹی جھدکاروں کو ایک مثبت پیغام دیا گیاکہ وہ’’ مایوسی کی ’’علامت ‘‘نہیں بن رہے بلکہ اپنی ذاتی خواہشات ( نیک وبد کو سمجھنے کے ذاتی نکتہ نظر )کو پارٹی مفادات پر قربان کرنے کی نئی روایت کا آغاز کررہے ہیں ۔پارٹی کے سنجیدہ جھدکاروں اور دوزواھان نے اس عمل کونہ صرف سر اہا بلکہ مستعفی قیادت کے موقف کی حمایت بھی کی۔ہمیں یقین تھا کہ بی این ایم کے نظریاتی کارکنان اپنی تاریخی کردار کو ماضی کی طرح دہراتے ہوئے پارٹی کو تازہ دم قیادت فراہم کرنے کے لیے تندہی سے آگے بڑھیں گے ۔شخصیت کے بتوں کو پاش پاش کرنے والے آہنی اعصاب کے مالک پر امید ساتھیوں نے بلاشبہ ہمارے توقعات سے بڑھ کر کردار اداکر کے ثابت کردیا کہ انہوں نے اس میدان کارزار میں سوچ سمجھ کر ہی قدم رکھا ہے یہ شہید واجہ کے فکر وعمل کی فتح ہے کہ پارٹی کاایک یونٹ سیکریٹری بھی پارٹی آئین کے پامالی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑ اہے ۔جہاں مستعفی قیادت کااُن کی غلطیوں پر ’’کڑا اِحتساب ‘‘کیا جارہاہے سخت اور دوٹوک لہجے میں سوالات پوچھے جارہے ہیں وہاں استعفیٰ نہ دینے والوں کو بھی آئین کے دائرے میں رہنے پر مجبور کیا گیاہے۔پارٹی کے تین بانی اراکین’’کامریڈ مولاداد ‘ محمد یوسف اور علی جان قومی ‘‘ نے ان حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے پیراں سالی کے باوجود(واجہ مولاداد اور واجہ علی جان نے) نوجوانوں سی چستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف جھدکاروں کی رہنمائی کی بلکہ اپنی آواز حق کے ساتھملا کر شہید واجہ کے اس یقین کو پختگی عطا کی کہ ’’بی این ایم یلھیں پارٹی یے نہ اِنت ‘‘( بی این ایم بے سہارہ پارٹی نہیں ) ۔شہید واجہ کے یقین کی بنیاد یہی بزرگ جھدکار اور وہ چند دوزواھان تھے جوآج بی این ایم کے بقاء کے لیے بظاہر وپس پردہ بھر پور کردار اداکررہے ہیں ۔
ان دوستوں کے علاوہ تمام ھنکیان میں نظریاتی جھدکاروں کی بڑی تعداد موجود ہے وہ بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشہ نہیں دیکھ رہے بلکہ اپنی ذمہ داریا ں نبھارہے ہیں۔ پسنی کے واجہ نصیر کمالان ‘آوران کے ناکو کے بی ‘‘دالبندین کے صادق جمالد ینی ‘کراچی کے اسحاق ‘فراز، حکیم ، امین ، گوادر کے لالہ حمید ، یونس ، کریم ، حبیب ،حب کے وزیر بلوچ ، مشکے کے حسن ، خاران کے ناز بلوچ،شال کے آغااشر ف ‘پنجگور کے لالہ اقبال، نادر‘عبدالرحمن اور امان قیصرانی، تربت کے واجہ اختر وامداد ، تمپ کے بیت اللہ وجاسم ،مندکے ہارون اسی طرح دیگر ھنکیان کے قائدینبھی اپنے جھدکارساتھیوں کے ساتھ مل کر پارٹی کو اب بھی ایک مضبوط لڑے میں پروئے ہوئے ہیں ۔کئی بھی ایسے آثار نہیں کہ بی این ایم کے مستقبل کے بارے میں ذہن میں منفی خدشات رکھے جائیں ۔لیکن ایسے مواقع کے تاک میں بیٹھے ہوئے شاطر دشمن جو ویسے بھی بی این ایم جیسی جماعتوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتی رہتی ہیں اخبارات اور نجی محافل میں بھر پور کوشش کررہی ہیں کہ بی این ایم کے بارے میں ابہام پیدا کر کے عوام میں مایوسی پید اکی جائے ۔اس کام میں نیشنل پارٹی اپنے پاکٹ آرگنائزیشن کے ساتھ صف اول میں نظر آتی ہے حد تو یہ ہے کہ مستعفی اراکین کے استعفوں کو بھی اپنی کامیا ب پالیسیوں سے جوڑ اجارہاہے ۔خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں کہ ’’ہم سے اختلاف رکھنے والے خود اختلافات شکار ہوگئے ہیں ۔‘‘یہاں نیشنل پارٹی کو یہ سبق آموزکہانی سنانا ضروری ہے ’’ایک منافق قسم کاآدمی تھا، جس کو لوگوں میں نااتفاقی اور ناچاقی پیدا کرنے میں خوشی محسوس ہوتی تھی ‘ہر ایک کے کام میں ٹانگ اڑانااُس کا محبوب مشغلہ تھا ۔ایک دن دو بھائی آپس میں تکرار کررہے تھے موصوف نے اچھا تماشا سمجھ کر دخل اندازی کی ۔اُنہوں نے شروع میں اس کی طرف توجہ دینا مناسب نہ سمجھا لیکن شیطان فطرت ’’کیا مسئلہ ہے؟......کیامسئلہ ہے ‘‘کہہ کر بار بار اُنہیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتے رہا ۔تنگ کر دونوں بھائیوں نے اُنہیں اپنا مسئلہبتایاکہ ’’ہمارے باپ نے ترکہ میں ایک مکان چھوڑ ا ہے اُسی پر ہماراتنازعہ چل رہاہے ‘‘لالچی شخص نے جب مکان کا نام سنا تواپنی لالچی فطرت کے مطابق مکان کا سستا نرخ باند ھ کراُنہیں پیشکش کی کہ ’’آپس میں لڑنے کی بجائے مکان کو میر ے پاس فروخت کر کے پیسے آپس میں برابر تقسیم کر لینا ‘‘اس کی تجویز سن کر دونوں بھائی طیش میں آگئے اور مل کر اس کی پٹائی کی ۔نتیجہ !’’دانا آدمی وہ ہے جو دوسروں کے معاملات میں بے جامداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی حیثیت سے بڑھ کر بات کرتا ہے ۔‘‘
اس لیے نیشنل پارٹی اور ان کے ہمنواؤں سے گلہ نہیں لیکن یہاں اپنے دوستوں کوتوجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ کسی بھی معاملے میں جذباتی ردعمل دکھانے سے گریز کریں یہاں بدخواہ اسی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو اور وہ اس سے فائدہ اٹھائیں ( ہمیں ماضی میں بھی اپنی غلطیوں سے زیادکسی اور چیز نے نقصان نہیں پہنچایا )یہ بات جگ ہنسائی کے سوا ء کچھ نہیں کہ ’’آپ مستعفی قیادت کوبغیر سوچے سمجھے غداری کا لیبل لگادیں جب کہ وہ آج بھی نہ صرف بی این ایم کا ممبر ہیں بلکہ ا س کے پروگرام کے دفاع اور بقا کے لیے مستعد کردار اداکررہے ہیں ۔‘‘ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ کل تک ہم جن دوستوں کی تعریف میں رطب لسان تھے آج اُن کو محض اس وجہ سے لعن طعن کریں اُنہوں نے ہمارے منشاء اور خواہش پر عمل نہیں کیا ۔ہم کیوں بھو ل جاتے ہیں کہ سیاست ایک رضاکارانہ جدوجہد ہے پارٹی عہدے موروثی جاگیر نہیں کہ’’ ایک مرتبہ عہدے حاصل کرنے کے بعد اپنی تمام تر نااہلیت کے باوجود آدمی اس عہدے کو چھوڑنے پر راضی نہ ہو۔‘‘استعفیٰ ایک آئینی عمل ہے ۔اسے سیاست میں سیاسی اخلاقیات میں بھی شمار کیاجاتاہے ۔ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہمہذب ممالک کے وزراء اپنے محکمے کی غلطیوں پرمستعفی ہوجاتے ہیں کہ اس بات کے باوجود کہ نہ وہ غلطی کے ذمہ دار ہوتے ہیں نہ ہی اُن پر کوئی آئینی شرط عائد ہوتی ہے ۔تو کیا بی این ایم کے صدر کا استعفیٰ ایک معمولی واقعہ تھا؟کہ اُس کے بعد باوجود اس کے کہ پارٹی میں اُن کے بعد کوئی دوسرا صدر بھی موجود نہیں تھاور پارٹی قیادت کے اختلافات کھل کرسامنے آگئے تھے جو نچلی سطح پر دھڑے بندیوں کا باعث بن رہے تھے۔ تب بھی قائدین اپنے ضد پراکڑجاتے کہ’’ نہیں صدر چلے گئے ہیں ‘خدا حافظ ۔ہم اپنا کام کریں گے ‘‘پھر وہ کام بھی کیا ؟آئین کی پامالی ‘غلط طریقوں سے لابنگ ‘ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ؟ اگر پارٹی میں یہسب نہیں ہورہاتھا تو پھر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قائدین کے استعفے معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن یہ حقائق سے چشم پوشی ہوگی ۔اس پر تنقیدکی جاسکتی بہتر تجویزپر بات کی جاسکتی ہے ۔لیکن ہر تجویز ہماری ذاتی رائے ہوگی ایک ایسی رائے جسطرح مستعفی قیادت کا ’’پارٹی مفاد میں مستعفی ہونے کا فیصلہ ‘‘اُن کی ایک رائے تھی تو ہم محض اختلاف رائے کی بنیاد پر اُن کو غدار قرار دیں ؟ بلاشبہ احتسا ب سے کوئی مبرا نہ ہو لیکن اس میں تفریق اور ذاتی پسند ناپسند ‘ آپ ہی مدعی آپ ہی قاضی بن کر فیصلہ صادر کرنا تحریک کے لیے مثبت نہیں۔ کئی سنجیدہ جھدکار جانتے ہیں کہ استعفوں کا فیصلہ آخری آپشن تھا اور میں تمہید میں بھی کہہ چکاہوں کہ استعفوں کے بعد بھی حالات کو سنبھالنے اور کارکنان کو پُرحوصلہ رکھنے میں مستعفی قیادت نے کلیدی کردار اداکیا ۔غلط فہمیوں کی بنیادپر جن چند دوستوں نے استعفے دیئے تھے اُن کو استعفے واپس لینے پر مجبور کیا گیااو ر جو ساتھی استعفیٰ دینا چارہے تھے اُن کو روک کر پارٹی میں مثبت کردار اداکرنے کا مشورہ دیاگیا اوروہ سب آج بھیپارٹی مفادات کے تحفظ اور پارٹی معاملات میں آئین کی بالادستی کے لیے کوشاں ہیں ۔دوزواھان(بلوچ قوم ) کو یہ یقین کرنا چاہئے کہ پارٹی کا مضبو ط ترین قومی کونسل اپنی جگہ موجود ہے اور اس کے بیشترممبران بشمول مستعفی قیادت پارٹی معاملات کے سدھار کے لیے اپنا فرض پورا کررہے ہیں ۔جیسا کہ میں نے نام دے کر مثال دیاہے کہ پارٹی کے جھدکار متحرک اور معاملہ فہم ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی کو اس مرحلے میں کس طرح آگے بڑھانااورغلطیوں کی اصلاح کر کے مزید استحکام بخشنا ہے ۔یہاں دوزواھان کے مزید اطمینان قلب کے لیے پارٹی آئین کے حوالہ جات دیئے جارہے ہیں ۔
*استعفیٰ ایک آئینی حق ہے ،جو ایسے اختلافات کی صورت جوکہ پارٹی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا باعث ہوں یا شخصی کمزوریوں کو وجہ سے دیاجاتاہے ۔بعض صورتوں میں اکثریتی ممبران کے دباؤ پر بھی رضاکارانہ استعفے پیش کیے جاتے ہیں ۔
*بی این ایمکی قیادت کے استعفے سے قبل باہمی اختلافات کوختم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی اور قلات میں منعقد ہ سی سی کے جن فیصلوں پر مستعفی قیادت کو اختلاف تھا اُن کی درستگی کے لیے اجلاس طلب کیا گیا ۔جس کے لیے پارٹی آئین کے دفعہ 8.2کے ذیلی دفعہ (vi)میں درج طریقہ کاراستعمال کی گئی جس کے تحت ’’مرکزی کمیٹی کے کل اراکین کی ایک چوتھائی اکثریت بوقت ضرورت پارٹی کے مرکزی صدر یا سیکریٹری جنرل کو تحریری نوٹس کے ذریعے اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرسکتاہے ۔‘‘24جولائی 2010کو کراچی میں پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اکثریتی اراکین موجود تھے لیکن آئین میں اجلاس کی طلبی کے لیے ’’72گھنٹوں کے نوٹس‘‘ کی شرط عائد ہے اس لیے اجلاس کو یکم اگست تک موخر کیاگیا باوجود اس کے کہ دور دراز سے آنے والے ممبران کو اخراجات اور سفرکے مشکلات برداشت کرنے پڑتے لیکن آئین کی پاسدار ی کے لیے یہ سب قبول کیے گئے ۔
*25جولائی کو صدر کے استعفے کے بعد ( اس استعفے کے وجوہات یہاں زیر بحث نہیں ) صورتحال مختلف ہوگئی کیوں کہ اب آئین میں کوئی ایسا راستہ نہیں رہاکہ استعفیٰ دیئے بغیر اختلافات حل ہوتے ۔سب سے بڑا اِختلاف قبل ازوقت سیشن طلب کرنے اور نئے کونسلران کے چناؤکے غیر آئینی طریقہ کار پرتھا۔اگر صدر کی صدارت میں اجلاس طلب کیا جاتا تو وہاں اکثریت آئین کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرتیلیکن بعد میں ایسی صورت ممکن نظر نہیں آرہی تھی بلکہ ایسی کوششوں سینئے مسائل پیدا ہونے کے خدشات تھے ۔
*اس لیے یہ تجویز پیش کی گئی کہ استعفے دے کر سینٹرل کمیٹی کو جوکہ قدرے متنازعہ ہوچکی تھی تحلیل کر کے اختیارات قومی کونسل کے سپر د کیے جائیں ( یہ تجویز صدر کے استعفے سے پہلے بھی زیر غور تھی کہ کابینہ کے عہدیدار استعفے دے کر کابینہ کوتحلیل کردیں ‘پھر سی سی اپنے اختیارات کونسل کے سپر کردے لیکن اس سے پہلے آئین میں سینٹرل کمیٹی کو طلب کر نے کے اختیار کو استعمال کرنے کے مشورے کو ترجیع دیا گیا )تاکہ مزید اختلافات پیدا ہونے کی گنجائش نہ رہے ،کیوں کہ موجودہ کونسل پارٹی کے بانی ممبران پر مشتمل ہے جن کے بیشتر ممبران کو جھدکاروں میں معتبر سمجھاجاتاہے۔یہاں یہ بات دوزواھان کی معلومات میں اضافہ کے باعث ہوگاکہسانحہ مرگاپ کے بعدپارٹی کے سابقہ تین سینٹرل کمیٹی کے اجلاس ( تربت ،کراچی ، کراچی )میں بھی سیشن کی تجویز کی مخالفت تکنیکی اور آئینی بنیاد پر کی گئی تھی ۔سابق پارٹی صدر عصاظفر بھی شہید واجہ کے پہلے یوم شہادت تکسیشن بلانے کے حق میں تھے لیکن سی سی ممبران نے اُنہیں توجہ دلایا کہ اس سلسلے میں ابھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔شہید واجہ کی شہادت ایک حادثہ ہے جب کہ سیشن کے لیے پیشگی تیاری کرنی پڑتی ہے ۔آئین میں مرکزی کونسلران کے چناؤ کااختیار کسی سی سی ممبرکو حاصل نہیں بلکہ دمگ کونسل کو حاصل ہے (8.1,iv)اس لیے نئے قومی کونسل کی تشکیل سے پہلے تمام ذیلی ادارے مکمل کرنا ضروری ہیں ( سینئر سیاسی کارکنان بخوبی واقف ہوں گے کوئی جماعت سیشن میں جانے سے پہلے اپنے تمام ذیلی اداروں کی تشکیل نوکرتی ہے تاکہ دوسیشن کی درمیانی مدت میں پارٹی میں پیدا ہونے والی نئی قیادت کو اُن کی اہلیت کی بنیادپر ذمہ داریاں سونپی جائیں )‘ممبران کی فہرست مکمل کی جائے تاکہ کونسلران کی تقسیم اندازاًنہیں بلکہ کارکردگی کی بنیادپر کی جاسکے (8.2,iii)پھر موجودہ قومی کونسل کے ممبران کے دستخط حاصل کر کے موجودہ کونسل کی مدت ختم کرنے کے لیے اُن کی رضامندی حاصل کی جائے کیوں کہ قومی کونسل کی مدت تین سال ہیجوکہ سینٹرل کمیٹی سے بالائی ادار ہ ہے (8.1,i.ii)اور ذیلی ادارہ کسی بالائی ادارے کی مدت کم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ۔
مندرجہ بالاآئینی نکات استعفوں کے بعد صورتحال کو واضح کرتے ہیں ۔قومی کونسل کے موجودہ ممبران کا اجلاس طلب کیاجائے گا ۔اگر کسی طرف سے اِجلاس کی طلبی میں کوتائی ہو تو قومی کونسل کے ممبران اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے ایک چوتھائی اراکین کے دستخط حاصل کر کے اِجلاس طلب کریں گے۔جس میں مستعفی قائدین اپنے باقاعدہ استعفے پیش کریں جن کی منظوری کے بعد کونسل اپنی مدت(جولائی 2011) تک پارٹی کے نئی قیادت کا انتخاب کرئے گا ۔اس دوران اگر وہ چاہئے توایک سال کے لیے کابینہ منتخب کرئے یا اگلے سیشن کی تیاریوں کے لیے غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دے ۔لیکن قومی کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فرد یاادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ نئے ممبران بنا کر کونسل کااجلاس طلب کر ئے یا آرگنائزنگ باڈی تشکیل دی کیوں کہ آئین میں واضح طوپر لکھا ہے کہ ’’عام حالات ‘‘میں قومی کونسل کے انعقاد کا فیصلہ مرکزی کمیٹی اکثریتی رائے سے کرئے گی (8.1,iii)اور موجودہ حالات کو پارٹی کے حوالے سے عام حالات نہیں کہاجاسکتا کہ کیوں کہ جس کونسل نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے تین سال کے لیے جوکابینہ منتخب کی تھی وہ اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے تحلیل ہوچکی ہے لہذادرمیانی مدت میں رہنمائی کا ذمہ دار ’’قومی کونسل ‘‘ہے (8.1,i)۔
ہمیں اپنے نظریاتی جھدکار ساتھیوں کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھر وسہ ہے کیوں کہ بقول شہید واجہ ’’ بی این ایم لیڈروں کی پارٹی نہیں کارکنان کی پارٹی ہے اس میں لیڈر ہی کارکن اور کارکن ہی لیڈر ہے ‘‘تو یہ لیڈر نظریاتی ہتھیاروں سے لیس میدان میں ہیں اپنی پارٹی کے بقاء کے لیے تحریک آزادی کے راستے کومنزل تک بی این ایم جیسی پارٹی کے انقلابی فکر سے منور کرنے کے لیے ۔ہم ’’کارکن ‘‘اپنے ہی صوابدیدی اختیارات سے چنے گئے ’’قیادت ‘‘کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھنے کے لیے اب بھی اسی جذبات کے ساتھ تیار ہیں جس جذبے کے ساتھ ہم نے شہید واجہ کی پکار پر لبیک کہاتھا ۔جواں عزم کے ساتھ اپنے آئین میں لکھے گئے عہد کو دہراتے ہوئے ’’من ......................بلوچ راج ، بلوچستان ءُُ بلوچ راجی جھد ءِ شھیدانی سوگند ءَ ورآں کہ من پہ’’ بلوچ نیشنل موومنٹ ‘‘ءِ لوٹ ءُُ گزرانی پیلو کنگ ءَ ھروڑیں دیمونی دیگ ءَ چک ءُُ پد نہ بئے آں ءُُ ھچ چوشیں کارے نہ کن آں کہ چہ آئی ءَ بلوچ را ج ءُُ ’’بلوچ نیشنل موومنٹ ‘‘ءِ نپ ءُُ سوتاں تاوان بہ رس اِیت ۔‘‘یہ عہد ہمیں ہمارے پارٹی آئین سے وابستگی کا اِحسا س دلاتاہے جس کے توسط ہم جھدآزادی کے وسیع تحریک کا ایک حصہ ہیں۔اس لیے شہید واجہ نے فرمایاتھا’’میں اکیلا ہی بی این ایم کے منشور کی حفاظت نہیں کرسکتا یہ میر اموقف نہیں قومی نصب العین ہے جس کا تحفظ مجھ سمیت قوم کے ہر فرد پر فرض ہے ۔‘‘( ساتویں مرکزی قومی کونسل 2008ء سے خطاب کرتے ہوئے ) آپ نے اپنی جان نچھاور کر کے اپنا فرض پورا کیا اورہم اس آئین کاتحفظ کر کے اپنا فرض پورا کریں گے ۔

***

5-08-2010

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.