مجھے اس بلوچی بتل کی پس پردہ کہا نی معلوم نہیں ”پیر وت بال نہ کنت مریدے بال دئے اَنت “لیکن ڈاکٹر کی کہانی روز سنتا ہوں ‘جی !ڈاکٹر وہی جو پہاڑوں میں ہے ۔اُس نے بلوچ گلزمین کے پہاڑوں سے رشتہ جوڑا توہم بھی اس سے جڑگئے ۔اسے ہماری فکر دامن گیر اور ہم اس کی سلامتی کے خواہاں ہے ۔ماہتاک کلمت گوادر مئی 2010ءکے شمارے میں شاہ ابن شین کا افسانہ ”کوہ ئِ ڈاکٹر ئِ نام ئَ نمدی یے “پڑھا تومحسوس ہواکہ جو میں ڈاکٹر سے کہنا چاہتا ہوں وہی بات مذکورہ افسانہ نگار نے علامتوں کو برت کر مجھ سے زیادہ خوبصورت اندازمیں کہی ہے۔مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر کی بلوچی اچھی ہے لیکن شاید کلمت کا شمارہ اسے دستیاب نہ ہواس لیے اس افسانے کواُردو میں ترجمہ کرنے کی جسارت کی تاکہ ڈاکٹر تک یہ پیغام پہنچا سکوں ۔ڈاکٹر کے پسندیدہ اُسلوب میں لکھے گئے اس افسانے میں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے جوشاید ایک افسانہ

مجھے اس بلوچی بتل کی پس پردہ کہا نی معلوم نہیں ”پیر وت بال نہ کنت مریدے بال دئے اَنت “لیکن ڈاکٹر کی کہانی روز سنتا ہوں ‘جی !ڈاکٹر وہی جو پہاڑوں میں ہے ۔اُس نے بلوچ گلزمین کے پہاڑوں سے رشتہ جوڑا توہم بھی اس سے جڑگئے ۔اسے ہماری فکر دامن گیر اور ہم اس کی سلامتی کے خواہاں ہے ۔ماہتاک کلمت گوادر مئی 2010ءکے شمارے میں شاہ ابن شین کا افسانہ ”کوہ ئِ ڈاکٹر ئِ نام ئَ نمدی یے “پڑھا تومحسوس ہواکہ جو میں ڈاکٹر سے کہنا چاہتا ہوں وہی بات مذکورہ افسانہ نگار نے علامتوں کو برت کر مجھ سے زیادہ خوبصورت اندازمیں کہی ہے۔مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر کی بلوچی اچھی ہے لیکن شاید کلمت کا شمارہ اسے دستیاب نہ ہواس لیے اس افسانے کواُردو میں ترجمہ کرنے کی جسارت کی تاکہ ڈاکٹر تک یہ پیغام پہنچا سکوں ۔ڈاکٹر کے پسندیدہ اُسلوب میں لکھے گئے اس افسانے میں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے جوشاید ایک افسانہ نگار کی اپنے تخلیق کے ساتھ زیادتی لیکن اپنے جذبات کے ساتھ وفاداری کی ایک بلند مثا ل ہے ‘آئیے ہم بھی پڑھیں کہ انہوں نے کیالکھا ہے
مترجم :قاضی داد محمد ریحان

میری اُمیدوں کا محور تم ہمیشہ سلامت رہو
اسلام علیکم
ڈاکٹر صاحب ایک بادشاہ کو اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت تھی ۔جب اس کا بیٹا بڑا ہوا تواسے پڑھنے لکھنے کے لیے ایک اسکول میں بٹھایاگیا۔بادشاہ نے اسکول کے اُستاد کو ہدایت کی کہ اگرمیرابیٹاپڑھائی میں کوتائی کرئے تو اس کے بدلے میرے غلام کے لڑکے کو سزادیں۔
دن گزرتے گئے بادشاہ کے نالائق بیٹے کی سزا کاٹتے کاٹتے غلام کا لائق بیٹا پڑھ لکھ کرفاضل بن گیا لیکن بادشاہ کا نالائق بیٹا کورفہم رہ گیا یہ دیکھ کر کینہ پروربادشاہ نے غلام کے بیٹے کوقتل کردیا ۔ردعمل میں غلام نے بادشاہ کا دربا ر چھوڑ دیا‘اُستاد کی پٹائی نے بادشاہ کے بیٹے کو پاگل بنادیا اب بادشاہ تنہا ہے ۔
جناب !اب آپ کے خیال میں غلام بادشاہ سے اپنے بیٹے کا بدلہ لے یا نہ لے ؟چار سال قبل میں نے تلار کے قریب واقع مزار کے ساتھ ایک بہت بڑا غار دیکھا تھا، غار کے مالک ”سفید کبوتر “اور کبوتروں کے نوکر چند ”چمگاڈر اور شاہین “تھے ۔کبوتروں کی وجہ سے سب کو معلوم پڑا کہ یہ مزار بلوچستان کے پہلے شہید شئے نوجوان کا ہے کہ ترک لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے۔ہر ایک مسافر اس راستے سے گزرتے ہوئے ”چیونٹی اور چوہوں “کے لیے زادراہ ( توشگ ) رکھ کر آگے بڑ ھا ۔بلوچ ثقافت اس زادہ راہ کو ”جاھین “کہتا ہے ۔
ایک دن موسلادھار بارش ہوئی ”خون کی بارش “۔اس بارش نے مزار کے راکھوالے ”چیونٹی اور چوہوں “کے زادراہ دفنا دیئے ۔مزار کی دیوار گر گئی ‘حضرت کا مبارک قبر بھی ٹوٹ گیا ۔بارش کے بعد مزار ویران ہوگیا۔میں نے چاہا کہ جاکر خبرلوں اسی آن میر ے ہاتھ پاﺅں اور زبان شل ہوگئے ۔میری جبلت کو ایک سائے نے اپنی لپیٹ میں لیا میں نے خود کو توانارکھنے کی بہت کوشش کی ‘ایک دن ایک بھائی نے میر ے ناخن گوشت سے جدا کر لیے ۔ایک ایک کرکے میرے سارے ناخن ختم ہوگئے میں نے چاہا کہ مرﺅں لیکن ایک اُمید نے مجھے ہمت دے کر زندہ رکھا کہ جاکر کبوتروں کو بتا دوں ۔میں گیا دیکھا کہ کبوتروں کے بال وپر ہوامیں اُڑ رہے تھے ،غارمٹی سے بھر چکاتھا۔شاہین چمگاڈروں کو اپنے گردن میں لپیٹے پہاڑوں کی چوٹی پرتھے اورکبوتروں کی لاش مزار کے جھنڈوں میں لپیٹے ہوئے ۔خداجانے کیا ہواتھا ۔جناب من! !آج پھر وہی ہورہاہے لیکن اب کی بارغاروں کے مالک ٹڈی ہیں اور اُن کے نوکر چیونٹے ۔ہر ایک چیونٹا منہ میں دانا لیے قبلہ کی طرف جارہاہے ،میں نے یہ خط تمہیں اس لیے لکھا کہ تم جانتے ہو کہ یہ چیونٹے کہاں سے آرہے ہیں ؟
تمہار اچھوٹا بھائی شاہ ابن شین دشت مکسر
٭٭٭٭ نگار کی اپنے تخلیق کے ساتھ زیادتی لیکن اپنے جذبات کے ساتھ وفاداری کی ایک بلند مثا ل ہے ‘آئیے ہم بھی پڑھیں کہ انہوں نے کیالکھا ہے

مترجم :قاضی داد محمد ریحان

میری اُمیدوں کا محور تم ہمیشہ سلامت رہو
اسلام علیکم

ڈاکٹر صاحب ایک بادشاہ کو اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت تھی ۔جب اس کا بیٹا بڑا ہوا تواسے پڑھنے لکھنے کے لیے ایک اسکول میں بٹھایاگیا۔بادشاہ نے اسکول کے اُستاد کو ہدایت کی کہ اگرمیرابیٹاپڑھائی میں کوتائی کرئے تو اس کے بدلے میرے غلام کے لڑکے کو سزادیں۔
دن گزرتے گئے بادشاہ کے نالائق بیٹے کی سزا کاٹتے کاٹتے غلام کا لائق بیٹا پڑھ لکھ کرفاضل بن گیا لیکن بادشاہ کا نالائق بیٹا کورفہم رہ گیا یہ دیکھ کر کینہ پروربادشاہ نے غلام کے بیٹے کوقتل کردیا ۔ردعمل میں غلام نے بادشاہ کا دربا ر چھوڑ دیا‘اُستاد کی پٹائی نے بادشاہ کے بیٹے کو پاگل بنادیا اب بادشاہ تنہا ہے ۔
جناب !اب آپ کے خیال میں غلام بادشاہ سے اپنے بیٹے کا بدلہ لے یا نہ لے ؟چار سال قبل میں نے تلار کے قریب واقع مزار کے ساتھ ایک بہت بڑا غار دیکھا تھا، غار کے مالک ”سفید کبوتر “اور کبوتروں کے نوکر چند ”چمگاڈر اور شاہین “تھے ۔کبوتروں کی وجہ سے سب کو معلوم پڑا کہ یہ مزار بلوچستان کے پہلے شہید شئے نوجوان کا ہے کہ ترک لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے۔ہر ایک مسافر اس راستے سے گزرتے ہوئے ”چیونٹی اور چوہوں “کے لیے زادراہ ( توشگ ) رکھ کر آگے بڑ ھا ۔بلوچ ثقافت اس زادہ راہ کو ”جاھین “کہتا ہے ۔
ایک دن موسلادھار بارش ہوئی ”خون کی بارش “۔اس بارش نے مزار کے راکھوالے ”چیونٹی اور چوہوں “کے زادراہ دفنا دیئے ۔مزار کی دیوار گر گئی ‘حضرت کا مبارک قبر بھی ٹوٹ گیا ۔بارش کے بعد مزار ویران ہوگیا۔میں نے چاہا کہ جاکر خبرلوں اسی آن میر ے ہاتھ پاﺅں اور زبان شل ہوگئے ۔میری جبلت کو ایک سائے نے اپنی لپیٹ میں لیا میں نے خود کو توانارکھنے کی بہت کوشش کی ‘ایک دن ایک بھائی نے میر ے ناخن گوشت سے جدا کر لیے ۔ایک ایک کرکے میرے سارے ناخن ختم ہوگئے میں نے چاہا کہ مرﺅں لیکن ایک اُمید نے مجھے ہمت دے کر زندہ رکھا کہ جاکر کبوتروں کو بتا دوں ۔میں گیا دیکھا کہ کبوتروں کے بال وپر ہوامیں اُڑ رہے تھے ،غارمٹی سے بھر چکاتھا۔شاہین چمگاڈروں کو اپنے گردن میں لپیٹے پہاڑوں کی چوٹی پرتھے اورکبوتروں کی لاش مزار کے جھنڈوں میں لپیٹے ہوئے ۔خداجانے کیا ہواتھا ۔جناب من! !آج پھر وہی ہورہاہے لیکن اب کی بارغاروں کے مالک ٹڈی ہیں اور اُن کے نوکر چیونٹے ۔ہر ایک چیونٹا منہ میں دانا لیے قبلہ کی طرف جارہاہے ،میں نے یہ خط تمہیں اس لیے لکھا کہ تم جانتے ہو کہ یہ چیونٹے کہاں سے آرہے ہیں ؟
تمہار اچھوٹا بھائی

شاہ ابن شین دشت مکسر


٭٭٭٭
3 Responses
  1. Unknown Says:

    qazi tara sharam naet badbakht to watara chiye samje tai hesiyat chiye'n keh to yakk azeeme'n mardumiye pushta propeginda kanagahe....tai o asa e maal party e zarrani warag bita...ni keh waar chote'n degre sara elzaam tarashi kane...shme mesaal hameshe'n keh....wat wa kaar kut nakane'n bale degra ho'n kaara naele'n..shame qazi mafia


  2. Anonymous Says:

    kazi ya kara mah kant panjab kazia zar na dant,ya wajakar zaarea wasta ahr kara kanan.waja kazi dr malik tanige zinda enth,,tow chope kan.dr malike marge randa tai nambar kayet.


  3. Anonymous Says:

    قاضی صاحب،،،،،ہر کس سرفد نبیت


Post a Comment

Powered by Blogger.