احمد داد (بی آرپی کے مغوی رہنما ء) اِنٹر نیٹ پر چیٹنگ کے لیے ”شپ چراگ “کا نک نیم استعمال کرتے ہیں ۔میں نے یہ مضمون 10جون 2007کو لکھا ہے جو روزنامہ توار میں شائع ہوچکاہے ۔ آج اُن کے اغوا کے بعد اُن کی یاد آئی تو دوبارہ پڑھنے کوجی چاہا ‘آپ بھی پڑھیں ۔


میں آپ کو اس کہانی پر بلاچوں وچرا یقین کرنے کانہیں کہہ سکتا لیکن چونکہ یہ کہانی مجھے قلندر نے سنائی ہے اس لئے میر ے لئے اس پریقین کئے بناءکوئی چارہ نہیں ۔میں چاہتاہوں کہ آپ بھی اس کہانی کو سنیں ۔توآیئے کہانی کو دہراتے ہیں ۔”گرمی کے وسط میں موسلادھار بارشوں نے شہر کو جل تھل کیاہواتھا ۔بجلی پانی سمیت تمام معمولات متاثرتھے میں بھی ان متاثرین میں سے ایک اپنے شب وروز مشکلات میں بسر کررہاتھا ۔شب توجیسے تیسے گزرتے لیکن شا م یادگار رہے ۔انہی دنوں میری ملاقات شپ چراگ سے ہوئی ۔اس سے پہلے میری قلندر سے شناسائی تھی لیکن جتنا قلندر کا مرید شپ چراگ تھا ۔اتنا میں قلندر کی باتوں پر دھیان نہیں دیتاتھا۔یہ شپ چراگ ہی تھا جس کی سنگت مجھے قلندر کے حلقہ یاراں تک کھینچ لائی ۔شپ چرا گ نوجوان ہیں ویسے میں بھی کوئی بزرگوار نہیں کہ ان کی جوانی کو قابوکرتا .............“لیکن ذراٹہریئے کہانی یہاں سے شروع نہیں ہوتی بلکہ یہ توکہانی کا وہ حصہ ہے جو قلندر نے نہیں سنائی ہے ۔توآیئے قلندر کی زبانی سنتے ہیں ۔
”بچپن میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ خوابیدہ حالت میں انسان کو گدگداتاہے توانسان سے عجیب وغریب حرکتیں سرزد ہوتی ہیں یہ جذبہ جب پختہ ہوتو نفع بخش لیکن اسے بے لگام چھوڑاجائے تو بدمست ہاتھی کی طرح تباہی پھیلادیتاہے ۔شپ چراگ بھی ایسے ہی تھے ۔اندھیری رات میں منور ہونے کے جذبے نے اسے وقت سے پہلے ہی گہنا دیا ۔ایک وقت تھاکہ اس نے اپنے دوستوں میں ہلچل مچارکھاتھا ۔نوجوان کے سر میں سوداسمایا ہواتھا ۔کبھی خواب دیکھتے کہ وہ صاحب مصحف ہیں توشب وروز قرطاس وقلم لئے افکار وگفتار کو جمع کرتے رہتے ۔لیکن طبیعت میں مستقل مزاجی ذرہ برابر بھی نہیں تھی اس لئے یہ کام نہ سمیٹا جاسکا تو اسے کار زیاںکہہ کر میدان سیاست میں چلے گئے ۔اکثر کہتے تھے کہ قوم کو ایک نڈر ‘بے باک اور بے لوث رہنماءکی ضرورت ہے ۔اپنے من میں خود کوایک ہمہ صفت رہنماءسمجھنے لگے ۔نوجوانوں کاایک چھوٹاساگروہ اس کے ساتھ گھسیٹتا چل رہاتھا ۔بہت سے لوگ ان کے اعلیٰ صلاحیتوں کے معترف تھے مگر میں جانتاتھا کہ وہ قرطاس وقلم سے زیادہ ادائیگی الفاظ پر قابو رکھتے ہیں لیکن شاید اسے یہ خبر نہ تھی ۔سر دشام کوجب لوگ وقت سے پہلے گلیوں کو سنسان کردیتے ہیں اس نے باہر نکلنا شروع کیاجس سے جلد ہی اس کی دیوانگی چاردانگ عالم مشہور ہوئی ۔تخت شاہی کے فسوں گروں نے منتر پڑھا اور نوجوان جلد ہی ایک بڑے جاوگر کے سحر میں آگیا۔طالع آزماجادوگر کے سحر کے زیر اثر اس نے خود کو ہرکولیس کی طرح طاقتورسمجھنا شروع کیا۔میری اس کی نادانیوں پر کڑی نظر تھی اس لئے میں نے اس کے دوستوں کو گوش گزار کیا کہ وہ اس کی اُڑان پر نظر رکھیں ۔نیم کا پتّا شہیدمیں گھولنے سے میٹھا نہیں ہوتا لیکن شہید میں اگر کڑاوہٹ ملایا جائے تواس کی مٹھاس ختم ہوجاتی ہے ۔
وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے گھوم رہاتھا اور شب چراگ اس سے بھی آگے تھا۔اس کا جعلی پیر اس کے دوستوں کو بھی اپنا گرویدہ بنانا چاہتا تھا لیکناس کی سر کشی نے اسے پریشان کردیا ۔وہ اپنی تمام ترخامیوں کے باوجود بحر بلوچ کے صدف سے پیداہونے والا موتی تھا ۔موتی کیسا ہی کیوں نہ ہوہر قطرہ آب کوموتی بننا نصیب نہیں ہوتااور نہ ہر صد ف کی تقدیر میں موتی پیدا کرنا لکھا ہے ۔
اس لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ اس موتی کی چمک دمک زیادہ دیر تک بولان کے جوہریوں کے نظروں سے الجھ رہ سکے جلد ہی اس موتی کے معاملے پر بولالان کے جوہریوں اور لالچی جادوگر کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہوئی ۔جوہری اسے تراش خراش کر نگینہ بنانا چاہتے تھے جب کہ جادوگر اس کو توڑ کر اپنی جادوئی طاقت میں اضافہ کرنا چاہتا تھا ۔شب چراگ اس کشمکش میں شدید الجھاﺅ کا شکار تھا ایک طرف وہ جادوگر تھا جس کو وہ اپنا محسن سمجھتا تھا اور دوسری طرف وہ جوہری جن کی ہنر مندی کا وہ دل سے قدردا ن تھا................“قلندر کہانی سناتے سناتے سانس لینے کے لئے رخ گیا ۔
قلندر کی کہانی حسب معمول استعارات اور تشبیہات سے بھری ہوئی تھی جب قلندر نے طویل وقفہ کیا تواس دوران میں ان تشبیہات کو بوجھنے کی کوشش کرنا لگا .....قلندر کے بقو ل وہ جملوں کی بجائے الفاظ کو متحرک کرکے ان میں روح پھونکنے کا فن کا ر ہے یا کم ازکم ایسا کرنے کی کوشش ضرور کرتاہے لیکن ہم جیسے کور فہم ان کی باتوں کو ناقابل فہم سمجھ کر زندہ لفظوں کی توئین کا مرتکب ہوتے ہیں ۔لیکن یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم نادان او ر کو ر فہم نہیں بلکہ قلندر کہانی سنانے کے فن سے نابلد ہو ۔قلندر سے ہم یہ کہنے کی گستاخی نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے اسلوب پر نظر ثانی کریں لیکن اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ قلندر کسی ماہر افسانہ نگار سے اپنی کہانی کی تصحیح کروایا کریں جن میں کردار جب چاہئے ”اکچا داری ناگ “کی طرح اپنا جسم بدل دیتا ہے ۔کبھی وہ پرندہ بن کر ہواﺅں میں اُڑتا ہے اور کبھی موتی بن کر سیپ میں بند ہوجاتا ہے .....لیکن میں چاہئے کچھ بھی کہوں ان کی کہانی میں کردار نام اور جسم بدل کر بھی نہیں بدلتے ..............
”شپ چراگ .............“قلندر نے چپ کا روزہ توڑ کر کہانی کو پھر سے جوڑ لیا ۔”بدلنے والا نہیں تھا اور نہ ہی اس جادوگر کی گرفت کمزور تھی لیکن وقت بدل گیا ۔جوہریوں کی ہنر مند ی نے موتیوں کو تیغ آبدار میں بدل دیا۔موسم بھی بدل چکاتھا ۔آسمان پانی کی جگہ آگ برسانے لگا اور زمین پر خون کی ندیاں بہنے لگیں اور بولان پر ہر چار سوگدھوں نے حملہ کردیاتب اس پر جادوگر کے پھونکے جانے والے سب منتر بھی بے اثر ہونے لگے اور اس میں خوابیدہ عقاب نے انگڑائی لی ۔
اس نے عقابوں کے ساتھ آگ کے آسمان میں اُڑنا شروع کیا ۔ان پہاڑی عقابوں کے ساتھ جو کہ بولان کی چوٹیوں پر پہرہ دے رہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہ وادی مردار خوروں کا مسکن بنے ۔اس کے آسمان کو چھونے کا خواب تو پوراہوالیکن رفعت چرخ بریں اتنابھی آسان نہ تھا۔وہ شیر تھا لیکن روباہی سے ناواقف ........اسی ناواقفیت کے سبب وہ آخر میں شیر رہا نہ روباہ ۔“داستان گوئی میں یہ بھی قلندر کا امتیاز ہے کہ کہانی کواس طرح طول دیتے ہیں کہ جی
سے کہانی کبھی ختم ہوگی ہی نہیں لیکن کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے ۔قلندر نے شپ چراگ کی کہانی بھی اسی طرح ختم کردی او ر آنکھیں موندھ کر اونگنے لگا لیکن اس سے پہلے کہ قلندر گہری نیند میں چلا جاتا میں نے اس سے پوچھا :”شپ چراگ سے آخر ایسی کیاغلط ہوئی ؟“
”ہاں ! ..............اصل نقطہ یہی ہے ۔سوچناچاہئے کہ ایساکیوں ہوا۔کہانی سنانے کا مقصد یہی ہے کہ واقعہ سناکرخیالات کو جگایاجائے .......اس کی غلطی کی بارے میںتم نے پوچھا یہ سوال اہم ہے......وہ اُڑنا بھی چاہتا تھااور تیرنابھی۔اسے سیاست مدن میں نام بھی کماناتھا اور پربتوںپر جلوہ گر ہونے کی بھی خواہش تھی ۔چیونٹی کی جب پر نکلتی ہے توہ روشنی کو چھونے کی خواہش میں موت کو گلے لگالیتی ہے ۔معتدل مزاجی کامیابی کی شاہراہ ہے ۔اندھے کو کسی دوسرے کے کندھے کے سہارے چلنے کی بجائے بہرحال اپنی لاٹھی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔اس کی غلطی تھی کہ اس نے سیانوں کی باتوں پر بہرہ بن کر خود کو عقل کاسر چشمہ سمجھا۔“
”کیااس نے جو رستہ چنا وہ اتناہی غلط تھا ؟“
”گنجلک ‘کٹھن ‘سخت کوشی کا طالب‘سیدھا رستہ ‘سچے لوگوں کا رستہ لیکن اس رستے پر چلنے کے لئے توکل کی نہیں زادہ راہ کی ضرورت ہے ۔صرف جذبہ نہیں حوصلہ وحکمت کی بھی ضرورت ہے ۔اس منزل کو پانے کی خواہش میں جان دینے والے مرکر بھی نہیں مرتے ان کی نصیب میں سر خ سورج کا اگنا اٹل حقیقت ہے ۔شپ چراگ اس رستے کی دھو ل لگنے سے استعارہ بنا ہے ذرا سوچواس منزل کے مسافروں اور اس منزل کو پانے والوں کی قدر ومنزلت کیاہوگی ؟۔“

٭٭٭٭٭٭

10 June 2007

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.