دہشت اور وسوسوں کے ساتھ زندگی سے نبر د آزمائی کا کرب ایسا نہیں کہ الفاظ کا پیر ہن پہن کر صفحہ قرطاس پر نمودار ہویاایسی
ہنر مندی کم ازکم مجھ جیسے پابہ جولاں لکھاری کے لیے دکھانا مشکل ہے ۔یہاں بزدلی اور بہادری کے طعنے پیمانے نہیں بن سکتے کیوں کہ ایک لکھاری قلم کی جنگ لڑ سکتا ہے ‘ حرمت تحریر کی خاطر سر بھی کٹا سکتا ہے مگروہ ایسے دشمن کے سامنے یقیناً لرزہ براندام ہوگا جس کی اخلاقیات کا کوئی حدود وقیود نہیں اور نہ ہی دشمنی کا پیمانہ ومعیار ہے ۔ایک باغی جب ظلم کے خلاف سر پہ کفن باندھ کر نکل پڑتاہے تو وہ دہشت اور وسوسوں میں رہنے کی بجائے نوکیلی سینگوں والی ایک ایسے پر جاذب جانور کا روپ دھار لیتا ہے جس کے گوشت کے لیے جنگل کے درندے ہمیشہ اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور وہ ان خطرات سے آگاہ چست ، تیز و چالاک اس قدر ہوتا کہ اگر درندے مل کر حملہ کریں تو وہ اُنہیں اپنے پیچھے دوڑا دوڑا کر تھکا دیتا ہے اور اگر کوئی اکیلے اس کے پیچھے لگنے کی حماقت کر ئے تو اسے اپنی نوکیلی سینگوں میں پرو لیتا ہے ۔باغی‘ ریاستی قانون سے منکر ہونے کے باوجود بھی جنگ کے آفاقی اُصولوں کے احترام میں اپنی طرف سے جنگ کا نقارہ بجانا ضروری سمجھتا ہے بالکل بلوچ گوریلاجنگ کے اولین اُستادوں میں مشہور جنگجو بیر گر بالاچ گورگیج کی طرح جسے دشمن جب تنہا شخص اور رات کے اندھیر ے میں حملہ کر نے کا طعنہ دیتے ہیں تو وہ جواباً فرماتے ہیں کہ’’ ایک کا سوسے لڑنے کی یہی حکمت عملی اور دستور ہے اپنے تیر وتلوار ہمیشہ تیار رکھوکیوں کہ میں کبھی بھی حملہ آؤر ہوسکتا ہوں ‘‘
مگر بزدل دشمن ایسا نہیں کرتا ‘بہادر دشمن بھی اپنے مفادات کی خاطر ظلم میں حد بند ی کا قائل نہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ و ہ تہذیب کا دامن بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا‘وہ ایک عام دشمن کی طرح دشمن سے وہی برتاؤ کرتا ہے جوایک دشمن دوسرے دشمن کے ساتھ کر سکتا ہے لیکن وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتاجوایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ نہیں کرسکتا ۔انگریزوں کا بر صغیر میں خونریز جنگوں کی داستانیں پڑھیں ’’ ہمارے سپاھیوں کی لاشیں لت پت زمین میں پڑی تھیں بہادر ی سے دشمن کا سامناکرنے کی وجہ سے اُن میں بہت سوں کی کلائیوں پر ارغونی دھاگے تھے ‘‘یہ بلوچ قدیم جنگی روایات کی ایک جھلک ہے جو غالبا ایک برطانوی مرثیہ نویس نے بلوچوں کے ساتھ ایک لڑائی میں کام آنے والے اپنے بہادر سپاہیوں کی یاد میں لکھاتھاجس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچ اپنے بہاد ر دشمن کی بھی تعظیم کرتے تھے ۔بلوچی میں مشہور کہاوت ہے کہ’’ھدا اگاں دژمنے بہ دنت گڑا غیرت مندے بہ دنت ‘‘(خدا اگر دشمن دے تو غیرت منددے ) ۔کے جن اچھے پہلوؤں نے اسلامی قوانین کی صورت اختیار کی اُن میں یہ جنگیاُصول نمایاں ہیں جو پیغمبر اسلام کی اپنے پیروکار وں کے لیے ہدایات ہیں ’’جنگ میں بچوں ‘عورتوں، بیماروں، بوڑھوں اور غیر مسلح شخص کوقتل نہ کرنا ‘ لاشوں کو بے حرمت اورمسخ نہ کرنا‘‘یہاں تک کہ سبز درختوں کے کاٹنے کو بھی جنگی اخلاقیات کی خلاف ورزی سمجھاجاتا تھا ۔
مندرجہ بالابے ترتیب حوالے اس لیے پیش کررہاہوں کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے زیر نگین ’’بلوچستان ‘‘میں سانس لے رہے ہیں ۔جہاں یقیناً اسلامی وجمہوری اُصول نافذ ہوں گے لیکن اِن اُصول وقوانین کا نہ اسلامی تاریخ میں کہیں ذکر ہے نہ جمہوریتوں سے مثالیں دی جاسکتی ہیں یہ برخود ایک نئی مثال ہے ۔دنیا میں اسرائیل سمیت کوئی ملک ایسانہیں جو اس کے مقابلے میں پیش کی جاسکے ‘تاریخ کے طلباء یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی ایسی بادشاہت و ریاستیں نہیں گزریں جو اس کی تمثیل پر پوری اُتریں۔
بلوچستان پر ظلم وجبر کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں ان کا اندازہ کوئی غیر بلوچ اگر کر سکتا تو اُس کی نفرت اُس ماں جتنی ہوتی جس کے آٹھویں جماعت کے بچے کو گھر سے اُٹھا کرقتل کے بعد لاش ویرانے میں پھینک دی گئی ۔گرم ڈامبر ( تارکول ) میں زندہ اُ بلتے انسان کو درد کی کیسی ٹھیسیں اُٹھتی ہوں گی!!؟8سال میں روز مرنے والے کی کیفیت جاننا چاہتے ہو تو 8سالوں سے پاکستانی فورسز کے عقوبت خانوں میں بند علی اصغر بنگلزئی اور اقبال بلوچ کے خاندان کے ساتھ چند لمحے گزاریں(جن کو معلو م بھی نہیں کہ روز بلوچستان کے ندی نالوں اور ویرانوں سے ملنے والی مسخ شدہ لاشوں میں اُن کے جگر کے ٹکڑوں کی ہڈیاں بھی ہیں کہ نہیں ) ، کتے ، بھیڑے ،کوے ، گدھ اور لومڑیوں کو اپنے گھبرو بھائی بیٹوں کی میتوں کو نوچتے بھنبوڑتے دیکھ کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ یں ‘اور زرینہ مری کی طرح اپنے دو ڈھائی سال کے بچے کو قیمہ بنتے اور اپنی عزت کو غیر مردوں کے ہاتھوں تار تار دیکھ کر زندہ رہئیں اوردل کو راضی کریں کہ وہ ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کی نیک دعا کا وردِ مکررکرتارہے۔
یہ احساسات سے عاری روش ہے کہ ہر پاکستانی حکمران شروع میں آکر معافی مانگتا ہے ساٹھ سالہ جبر کو تسلیم کرتاہے ‘شافی تلافی کے وعدے وعید کیے جاتے ہیں لیکن ................... وہ دل اس کے نیک ارادوں کے سامنے فولادی چٹان بن کر کھڑ اہوجاتا ہے جس سے آنے والا حکمران اپنے اِخلاص کی وجہ سے ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کی دعا نکلنے کا منتظر ہے ۔پرویزمشرف بر ملا کہتے ہیں کہ اسے اگر موقع ملا تو وہ ایک اور بگٹی کو ماریں گے اور پرویز کیانی نام میں لاحقے سابقے کے فرق کے باوجود اُس کی نیابت کا حق اداکردیتے ہیں ۔شہید نواب اکبر خان قتل سے بڑ اکارنامہ3اپریل 2009کو تین نہتے سیاسی کارکنان ( شہید واجہ غلام محمد، شہید لا لہ منیر اور شہید شیر محمد ) کو تربت عدالت کے احاطے میں دن دیہاڑے اغواء کے بعد قتل کر کے لاشیں مرگاپ ندی میں پھینک کر اعلانیہ طور پر اس کو قبول کرنا تھا جس کا وہ پنجاب کاشیر بھی ذکر کرنا گوارا نہیں کرتے جو اپنے ہر پریس کانفرنس میں بگٹی قتل کا راگ الاپتے ہیں ۔اس میں میاں صاحبان کا بھی کوئی قصور نہ ہوگا ‘یہی تو ہیں جنہوں نے پنجاب کے غیر معروف ویران کالجوں کی رونق اور کمائی بڑھانے کے لیے بلوچستا ن کے طلباء پر وہ احسان عظیم کیا کہ جس کی مثال بی بی سی جیسے نشریاتی ادارے کے غیر جانبدار تجزیہ نگار ہر اسٹوری لکھتے ہوئے دینا بے حد ضروری گردانتے ہیں اس سخاوت کے آگے بلوچستان حکومت کے وزارت تعلیم کی طر ف سے سالانہ دی جانے والی اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں جوکالجوں کے انتظامیہ کو دی جاتی ہیں اگرایسی کوئی بات ہوتی تویقیناًاسلم رئیسانی جیسے مدبر اس کا ذکر ضرور کرتے ۔اب اس دریادلی پر سخت دل کے پگلنے کی میاں صاحب توقع نہ رکھیں تو خود اس پر بے حسی کا الزام لگ سکتا ہے ۔آخر یہ مصیبت کے پہاڑ تو سندھ پر توڑے گئے سندھی ضرور گاتے ہیں کہ ’’جیے سندھ ‘اجرک ٹوپی وارن جیے ‘‘لیکن ’’پاکستان کھپے ‘‘بھی کہتے ہیں ۔ظلم تو مہاجروں پہ بھی بہت ہو ا ۔الطاف حسین کہتے ہیں کہ اس ظلم کا بدلہ ٹی وی بیج کر کلاشنکوف خرید کر لیں گے لیکن وہ ’’پاکستان ‘‘کانام تو لیتے ہیں ۔ مانا کہ اُنہوں نے بوری بند لاشوں کی فیشن شروع کی اور جوقائد کاغدار ہے موت کا حقدا ر ہے جیسے نعریلگوائے لیکن مہاجر کا چولا اُتار کر’’متحدہ ‘‘کا چوغہ تو پہنا ہے ۔ دونوں مکے ہوا میں لہرا کر ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ لگانے والے جرنل کے کندھوں سے کندھے ملا کر اُنہوں نے بارہ مئی کو کراچی کو خون سے نہلادیا لیکن پاکستان سے غداری کے مرتکب تو نہیں ہوئے کہ اُن پر جیٹ طیاروں سے بمبار منٹ کی جائے ‘ یا توپوں سے باندھ کر اُڑایا جائے۔ پنجاب کے ہاریوں اور بھٹا مزدوروں پر کوئی کم ظلم ہوا ہے کیا ؟ ارے سنگدل بلوچو!نوسال کی قید تو سرائیکی وسیب کے جاوید ہاشمی بھی کاٹ چکے ہیں اس پر انہوں نے دوموٹی کتابیں بھی لکھی ہیں لیکن کسی میں بھی اُس نے پاکستان کے شان میں کوئی گستاخانہ کلمہ نہیں لکھا ۔جہاد کے نام پر پشتون کی کئی پشتوں کو جنگ کی آگ میں جھونکا گیا لیکن مجال ہے کہ ا سفند یار ولی ’’خیبر ‘‘کی اضافی پگڑ ی پہننے سے انکار کردے ۔پاکستانی دانشور ‘ انسانی حقوق کے دعویدار اور عدلیہ کے جج صاحبان سب کورس میں گاتے ہیں ’’بلوچستان کے ساتھ ظلم او ر زیادتی ہورہی ہے ‘پاکستانی ایجنسیاں بے لگام ہوچکی ہیں ‘بلوچستا ن پسماندہ ہے لیکن !!..................................کچھ ذمہ داری اس دل کی بھی ہے جوسرداروں ‘ہندوستان‘اسرائیل ‘امریکہ ‘نیٹو ‘ مٹھی بھر بھٹکے ہوئے لوگوں‘ کافر مشرکوں کے بہکاوے میں ’’پاکستان زند ہ باد ‘‘کہنے سے انکاری ہے ۔
29/11/2010
2 Responses
  1. bilaal Says:

    may God give u more courage to show the real face and picture of Pakistaani Leaders,justice and THE ARMY



Post a Comment

Powered by Blogger.