گوادر ( رپورٹ ‘قاضی ریحان) انٹر نیٹ پر وکی لیکس کے نام سے ویب سائٹ جاری کرنے والے بے چین روح کے مالک 1971کو آسٹریلیا کے شہر کوینز لینڈ میں پیدا ہونے والے جولین اسانش کو خبطی ‘جنونی اور کچھ افراد سچائی کوسامنے لاکرخود کو مصیبت میںڈالنے والا پاگل قرار دے رہے ہیں ۔جنہوں نے دنیا کے سپر پاﺅر امریکہ کے سفارتی رازوں کو افشاءکر کے امریکہ کی طفیلی ریاستوں کو پریشان کرکے اپنے لیے بھی مصیبتو ں کے دروازے کھول دیئے ہیں ۔
"Could become as important a journalistic tool as the Freedom of Information Act." - Time Magazine
انہوں نے اپنے جرا ت مندانہ اقدام سے مغربی دنیا کے چہرے سے ترقی پسند ‘روشن خیال اور آزادی اظہارکی حامی ہونے کا نقاب نوچ لیاہے وکی لیکس کے سامنے لائے گئے انکشافات کو پاکستا ن ، ایران اور سعودی عر ب جیسے ممالک جھٹلا کر اسے سازش قرار دے رہے ہیں لیکن مغربی دنیا کے ردعمل سے یہ بات صاف ہے کہ وکی لیکس پر جاری کیے جانے والے معلومات درست ہیں ۔ جس کی وجہ سے دنیا کی طاقتیں وکی لیکس کے بانی کے ساتھ وہی روش اختیارکیے ہوئے ہیں جس کا تیسری دنیا اور آمرانہ ممالک میں سیاسی مخالفین کے ساتھ روارکھنامعمول ہے ۔امریکہ میں اُن پر حساس معلوما ت کو منظر عام پر لاکر امریکنز کی زندگیوں کوخطرے میں ڈالنے کے الزام کے تحت مقدمہ چلانے پر غور ہورہاہے جس میں قانونی ماہرین کے مطابق امریکن آئین کے آزادی اظہار کوتحفظ فراہم کرنے والے شق رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔اس لیے اُن پردہرا دباﺅ بڑھانے کے لیے سویڈن حکام نے جنسی بے راہ روی کے بودے الزامات لگاکر انٹر پو ل کے ذریعے دنیا کے 180ممالک کی پولیس کو اُن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں ۔ سویڈن ہی و ہ ملک ہے جہا ں سے2006کو وکی لیکس کا پہلا ویب سائٹ جاری کردیا گیا تھا۔شدید دباﺅ کے تحت وکی لیکس کو ڈومین ( انٹر نیٹ پر ایڈریس او ر جگہ ) فراہم کرنے والی کمپنی ایوری ڈی این ایس ڈاٹ نیٹ نے گزشتہ دن اُن کے ویب سائٹ کوبند کر دیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وکی لیکس کے ویب سائٹ پر لگاتا ر سائبر حملے ہورہے تھے جس کی وجہ سے اس ڈومین پر چلنے والے دیگر ویب سائٹ کو بھی خطرات لاحق تھے ۔وکی لیکس نے جب ایمازون نامی ڈومین فراہم کر نے والی کمپنی سے ڈومین کے لیے رابطہ کیا توانہوںنے بھی انکار کردیا جس پر وکی لیکس کے حامیان نے انٹر نیٹ پر اس کے بائیکاٹ کی کال دے رکھی ہے ۔وکی لیکس کے لیے اتنی مشکلات پیدا کرنے کے بعد مخالفین مطمئن تھے کہ اب وکی لیکسکی انٹر نیٹ تک رسائی مشکل ہے کیوں کہ کوئی معروف کمپنی اسے ڈومین فراہم کرنے کو تیار نہیں لیکن محض 6گھنٹے کے تعطل کے بعد وکی لیکس کو wikiLeaks.ch کے نئے ایڈریس پر جاری کردیا گیا جو جولین اور اس کے ساتھیوں کی مہارت اور اپنے عزم پر قائم رہنے کی مثال ہے۔ ان کے اسی جنون کی وجہ سے دنیا بھر میں اُن کے حامیان کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ ا ان میں سے ایک ڈینئل ایلسبرگ نامی شخص بھی ہیں جنہوں نے ایموزون کے ساتھ بائیکاٹ میں پہل کرتے ہوئے اس کے ساتھ بطور صارف قائماپنا رشتہ ختم کرنے کا اعلا ن کیا ۔ اُن کے بقول وہ ایموزون سے ماہانہ سوڈالر کی خریداری کر تے تھے۔ وکی لیکس کے حامیان اسے بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے سیاسی شخصیات کے آزادی اظہار کے خلاف اقدامات سمجھ رہے ہیں ۔اُن کے خلاف دنیابھر میں عالمی طاقتوں کی اس زبردست مہم میں اس کے ساتھ دینے والے سمجھتے ہیں کہ جولین نے آزادی اظہار کو ذرائع ابلاغ کی بیڑیوں سے آزادی حاصل کرنے کی نئی راہ دکھائی ہے اسی وجہ سے اُن کے خلاف اُٹھائے جانے والے کسی بھی قدم کو اُن کے حامی آزادی اظہار رائے کے خلاف سمجھیں گے ۔وکی لیکس کے بانی بھی اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں اس لیے انہوں نے اپنے مشن کو بہر صورت جاری رکھنے کا گر سیکھ لیا ہے ۔ فیس بک کے علاوہ دیگر سوشل نیٹ ورکس اور مفت بلاگنگ سر وس فراہم کرنے والے ویب سائٹس پر اُن کے پیغامات اور لیکس لگاتارہزاروں کی تعداد میں نشر کیے جارہے ہیں جس سے سائبر ورلڈمیںانقلابی ماحول پید اہو گیاہے ۔ فیس بک پر اُس کے صفحے ( پیج )کو پسند ( لائک ) کر نے والوں کی تعداد گزشتہ شام تک494,396 تک پہنچ چکی تھی جو اگر اسی تیزی بڑھتی رہی تو یہ فیس بک پرسب سے زیادہ پسند کیا جانے والا صفحہ بن سکتاہے ۔اس کے مخالفین انٹر نیٹ پر بھی جولین کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں لیکن اپنے کمزور دلیلوں کے باعث نہیں لگتا کہ سچائی کے ان عاشقوں کے سامنے جھوٹ کاساتھ دینے والے زیادہ دیر ٹک سکیں گے ۔جولین نے وکی لیکس پر ”حکومتوں کی کرتوتو ں کو پردہ پاش کرنے کے لیے وکی لیکس کی مدد کریں “کے مندرجات پر مبنی اپیل میں اپنے حامیان سے مالی معاونت کی بھی درخواست کر رکھی ہے ۔جولین کےپاش کرد ہ سچائیوں کا سامنا کر نے کے لیے گوکہ اُن کی طرف سے اعلان کے ایک ہفتے قبل ہی امریکہ نے اپنے حواریوں سے مل کر بے شرمی کی ڈھال آگے کرنے کا اُصولی فیصلہ کر رکھا ہے اورعوام نے بھی ثابت کردیا کہ وہ طویل غلامانہ زندگی کی وجہ سے جولین کی تحریک کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے ان انکشافات سے مصالحے دار خبرجیسا مزا لے رہے ہیں۔اس کے باوجودمیں جاگتی آنکھوں سے یہ خواب دیکھ رہاہوں کہ”اسانش کی بے چین روح صحافت کو ذرائع ابلاغ کی زنجیروں سے آزاد کردے گی !!“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post a Comment