گوادر (رپورٹ ‘قاضی ریحان ) عید کا چند نظر آیا لیکن بلوچستان سے اغواء ہونے والے ہزاروں سیاسی وسماجی کارکنان گھر نہ لوٹ سکے ۔اپنے پیاروں کی راہ تکتے ہزاروں خاندا ن لگتاہے کہ یہ عید بھی سو گ میں گزاریں گے ۔بلوچستان کے کئی شہروں میں دہشت عید کی خوشیوں کو کھلنے نہ دے گی جو گزشتہ ایک عشرے سے بلوچستان پر سایہ فگن ہے۔گزشتہ رمضان کی پہلی رات کو اگر گوادر کے سیاسی کارکن رمضان مشکے کواُٹھا کر غائب کردیا گیا تو یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ عید قربان کے موقع پر کسی مغوی کی لاش کا تحفہ نہ دیاجائے ۔

یہ اور ان سے ملتی جلتی باتیں اب کسی زمانے میں بلوچستان کا سب سے پرامن شہر سمجھے جانے والے شہر گوادر میں بھی ہر شہری کے منہ سے سننے کو ملتی ہیں ۔شہر میں پے درپے دس کے قریب سیاسی کارکنان کے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اغواء کے بعد شہرمیں بے چینی کی کیفیت میں اضافہ ہوگیاہے ۔شہریوں میں ریاستی فورسز کے خلاف اشتعال انگیزی دن بدن بڑھتی جارہی ہے جب کہ مغویان کی بازیابی کے لیے قوم دوست جماعتوں کی طرف سے احتجاج اور جلسہ جلوس کے علاوہ کل جماعتی اتحاد کے نام پر مقامی سطح پربننے والی ہم خیال جماعتوں کے اتحاد نے بھی مغویان کی بازیابی تک شہری سیاست جسے بلوچستان میں نلکانالی کی سیاست بھی کہا جاتا ہے نہ کرنے کا اعلان کررکھا ہے ۔اس اتحاد میں بی این پی ( مینگل ) او ر بی این پی ( عوامی ) جیسی پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی قوم دوست جماعتوں اور اسلام آباد کے فوجی وسول اسٹیبلشمنٹ میں اثر ورسوخ رکھنے والی جماعتیں مسلم لیگ ( ن ) ، مسلم لیگ ( ق ) اور جماعت اسلامی کے علاوہ گزشتہ دہائی سے اقتدار کے مزے لوٹنے والی جمیعت علماء اسلام کے دونوں دھڑے نظریاتی وفضل الرحمن بھی شامل ہیں۔سابقہ ایم ایم اے ( متحدہ مجلس عمل ) میں شامل ان جماعتوں ، مسلم لیگ ( ق ) اور بی این پی ( عوامی )کومشرف دور میں حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے ایک حلقہ موجودہ حالات ، شہید اکبر کی شہادت اور بلوچستان میں فوجی جارحیت کا ذمہ داربھی سمجھتاہے جب کہ حکومتی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی بھی مغویان کی بازیابی کی تحریک کا اعلان کرنے والے کل جماعتی اتحاد کاحصہ ہیساتھ ہی عوام میں غیرمعروف ومتازعہ شہری ایکشن کمیٹی، بندن ویلفئر سوسائٹی جیسی مقامی تنظیمیں بھی اسی فلیٹ فارم پرتحریک میں ہر قدم ساتھ دینے کی دعویدار ہیں۔دوسری طرف نیشنل پارٹی نے جس کے مقامی رہنماء کل جماعتی اتحاد کی اجزائے ترکیبی یعنی اس میں شامل جماعتوں سے مطمئن نہیں علیحدہ سے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کررکھا ہے ۔مقامی سطح پر قائم کل جماعتی اتحاد کی بار بار دعوت دینے کے باوجود اس میں شمولیت سے انکاری نیشنل پارٹی کے رہنماء جب اسٹیج پر بولتے ہیں توتمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کراتحاد کو وقت کی ضرورت قراردینا نہیں بھولتے ۔الگ الگ فلیٹ فارم پر ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کی طر ف سے ان احتجاجی مظاہروں کو موثر کرنے کے دعوے تو سامنے آرہے ہیں لیکن بے جان احتجاجی مظاہروں میں شر کت کرنے والے عوا م ان اسٹیج ڈراموں سے زیاد ہ مطمئن نظر نہیں آرہے اور ان خدشات کا بر ملااظہار کیا جارہاہے کہ کئی ایسا تو نہیں کہبیک وقت بی این ایم اورحکومت کی زبان بولنے والے مقررین اپنے پیارو ں کے غم کا بوجھ اُٹھائے خاندانوں کا غم ہلکا کرنے اورغصے سے بے قابو عوام کے صبرکو پیمانے میں رکھنے کے لیے کسی سخت اور موثر احتجاجی قدم کو روکنے کے لیے اعتدال پسندی اور جمہوریت کے نعروں کے آڑ روایتی جلسہ جلوسوں کے ذریعے وقت گزاری کررہے ہیں جس میں ہر جماعت اپنے جلسوں کو دوسرے سے زیادہ پر ہجوم کرنے کے لیے بھر پور زور آزمائی کرتی ہے جسے پاکستانی طرز سیاست میں اپنی قیمت بڑھانے کا طریقہ مانا جاتاہے ۔گزشتہ دنوں ایک ریلی سے واپس آتے ہوئے ایک مغوی نوجوان کے قریبی عزیز نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ اس درد کو اس ماں کے سوا ء کوئی دوسرا کیسے جان سکتا ہے جودروازے کے ہردستک پہ بھاگتی ہوئی دروازہ تک پہنچتی ہے جہاں اسے محض جھوٹی تسلی ملتی ہے شاید یہ جماعتیں بھی ہمارے ساتھ یہی کررہی ہیں لیکن ہمیں بھی ہر دستک پردوڑ کر دروازے تک جانے کی عادت ہوگئی ہے ۔ ان گھمبیر صورتحا ل میں بلوچستان میں مغویا ن کی بازیابی او ر اس سلسلے کی روک تھام کے لیے جماعتی سیاست سے بالاتر ہوکر موثر اقدام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے لیکن اس کی کامیابی کیلیے سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی ۔ جہاں تک پارلیمانی جماعتوں کا بی این ایف میں شامل جماعتوں سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ درست ہے تو ان جماعتوں پر بھی لازم ہے کہ غیر موثر اقدامات میں مزید وقت ضائع نہ کریں ۔

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.