پاکستانی بندوبست کے حدود میں سند ھ کے علاوہ بلوچستان نامی ایک اور خطہ زمین بھی ہے جہا ں کے عوام دومارچ کو دنیا بھرمیں اپنے یوم ثقافت کے طور پر مناتے ہیں ۔ یہ بندوبست پاکستان میں قومیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی زند ہ مثال ہےکہ جب بلوچوں نے دومارچ کو عالمی طور پر یوم ثقافت منانے کا اعلان کیا تواسے خنداں پیشانی سےقبول کرنے کی بجائے ریاستی مشینری کو ان سر گرمیوں کے سبوتاژ کرنے پر لگادیا گیا۔
بلوچ عالمی ثقافت کے موقع پر موت کا رقص ...................سندھ میں خوشیاں
٭٭پاکستان میں قومیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نمایاں ہے ٭٭
دنیا بھر میں پیلی مرتبہ بلوچ یوم ثقافت دومارچ 2010کو منایا گیا۔دومارچ کوعالمی یوم ثقافت کے طور پر منانے کااعلان ذرائع معاش کے سلسلے میں بیرون وطن مقیم بلوچ قوم دوستوں کی طر ف سے سامنے آیا۔اُن کے مطابق تمام اقوام عالمی طور پر اپنی ثقافت کا دن مناتے ہیں اس لیے بلوچوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے قومی وجود کے اظہار کے لیے ایک دن مخصوص کریں ۔اس دن کو منانے کا مقصد اپنی نمایاں خصوصیات اور اس طرزبودو باش کااعادہ بھی ہے جو ایک قوم کی پہچان کا سبب ہے ۔جس طرح ایسے سندھیوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو اپنی ثقافتی ٹوپی نہیں پہنتے لیکن کلچرل ڈے اُنہیں اپنی دھرتی کے رنگ میں رنگنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔جد ید دنیا کی مغربی ملمع کاری کی وجہ سے جہا ں ا ب ہمارے اپنے دیس میں بہت سے دفاتر میں نوکری کے لیے ٹائی گلے میں ٹانگناضروری سمجھا جاتا ہے نئی نسل کو اس طرح کہ مواقع فراہم کرنا اور بھی اہمیت اختیار کر گیاہے تاکہ وہ اپنی ثقافت کا دوسروں سے موازنہ کر سکیں۔ اجنبی ماحول میں رہنے والے بلوچو ں نے اس با ت کو شدت سے محسوس کیاکہ دیگر اقوام اپنی ثقافت کوعزیز رکھتے ہیں جب کہ ہم اپنی غربت اور ذہنی پسماندگی کے وجہ سے اُن کے کلچر کو اُن کی خوشحالی اور ترقی کاسبب سمجھتے ہیں ۔حالانکہ بعض عرب ممالک خوشحالی میں یورپی ممالک سے بھی آگے ہیں۔ سلطنت عمان ایک مثال ہے ‘ایک اندازے کے مطابق وہاں بلوچوں کی تعداد ریاست کی مجموعی آباد ی کے 35فیصد کے قریب ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچوںکی خواتین کی لباس کو وہاں کی قومی لباس کا درجہ دیاگیاہے اور مردوں کی لباس عربی چوغہ اور عمانی ٹوپی ہے ‘قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہاں یہ لباس نہ پہننے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔خلیج ودیگر عرب ممالک میں رہنے والے بلوچ اکثر اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ ” وہاں ہم چاہتے ہوئے بھی امتیازی سلو ک سے بچنے کی خاطر اپنی قومی لباس ( شلوار قمیض ) نہیں پہن سکتے ۔وہاں سرکاری اداروں میں قومی لباس کا پہننا قانونی ضرورت ہے۔ وہاں جانے والے مہمان بھی اپنا یہی تجربہ بتاتے ہیں کہ ”ہمیں گھر سے باہر نکلنے سے پہلے میزبان عمانی لباس پہناتے تھے“ جہاں اس کا ایک پہلو دوسرو ں کی ثقافت کو قبول نہ کرنے کا منفی ہے وہاں مثبت پہلواپنی ثقافت کو غیروں کی ثقافت سے آلودہ ہونے سے بچانے کی کوشش ہے ۔
انہی زندہ اقوام کی تقلید میں دومارچ عالمی یوم بلوچ ثقافت کے طور پر منانے کے اعلان کے ساتھ ہی پورے بلوچستان میں ایک جوش خروش کا ماحول پیدا ہوگیا مگر سر کاری سطح پر اسے ”سندھی عالمی یوم ثقافت “کے برعکس ایک سازش کے طور پر ہی دیکھا گیا اور دومارچ کی رات کو ہی یوم ثقافت منانے والوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کا خونی ڈراپ سین خضدار میں ہو اجہاں خضدار انجنیرئنگ یونیورسٹی میں بلوچ طلبا ءکی تقریب پر ہینڈ گرنیڈ حملوں کے نتیجے میں دو نوجوان طلبا ءسکندر اور جنید خون میں نہاگئے جب کہ بہت سارے طلباءزخمی بھی ہوئےجن میں سے بعد میں ایک نوجوان ٹانگ کٹنے کی وجہ سے عمر بھر کے لیے معذور ہوگیا ۔بلوچ طلباءاور عینی شاہدین کے مطابق طلباءکے ثقافتی میلے پر ایف سی اہلکارو ں نے ہینڈ گرنیڈ پھینکے تھے جنہیں حملے کے فوراً بعد ایف سی کیمپ میں داخل ہونے کی وجہ سے پہچان لیا گیا ۔اس واقعے بعد بھی خود کو سب سے بڑے قوم دوست کہنے والے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے روایتی طو ر پر بڑبڑانے کے علاوہ ایسا کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کے امکانات نہ ہوں جب کہ سندھ میں اسی پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ کا رویہ سندھی یو م ثقافت کے حوالے سے قوم دوستوں سے کئی زیادہ پرجوش ہے بلکہ سندھی ثقافت کو عالمی سطح پر منانے کے فیصلہ کی وجہ بھی صدر پاکستان کی سندھی ٹوپی بنی ۔
اس دن کومنانے کا اعلان گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب کچھ ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں افغانستان کے دورے کے وقت صدر پاکستان آصف علی زرداری کی سندھی ٹوپی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔سندھی میڈیا نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کاوش کے ٹی این گروپ نے سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا، جس کی بعد میں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی اور قوم دوست جماعتوں نے بھی حمایت کی۔
اس دن پر زبردست جوش نظر آیا جب سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں لوگ سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر سڑکوں پر نکل آئے۔ جس پر سندھ کی صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ ہر سال سندھی ثقافت کا دن منایا جائے گا اس حوالے سے صوبائی اسمبلی نے اس سال ایک قرار داد منطور کی، جس میں چار دسمبر کو یہ دن منانے کا اعلان کیا گیا۔
آج ( چار دسمبر 2010) کودوسری مرتبہ سندھی ثقافت کا عالمی دن منایا جارہاہے اس مرتبہ اس دن کو نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ شریک اقتدار جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی بھی حمایت کررہی ہیں ۔مختلف شہروں کے سر کاری وغیر سرکاری اسکولوں میں ہفتہ بھر سے پروگرامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ بی بی سی کے مطابق” سندھ کے ثقافتی دن کی کراچی میں مقیم امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے، انہوں نے سندھی میڈیا کی ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی حکومت کی جانب سے سندھ عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی امریکی سفارتکار نے اس طرح حمایت کی ہو۔“
پاکستانی ذرائع ابلاغ پر ان سب خبروں کو دیکھتے پڑھتے پاکستانی بندوبست میں قومیتو ں کے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس شدید ہوجاتاہے ۔دومارچ اور چار دسمبر اس حوالے سے محض دوبرادراقوام کے عالمی یوم ثقافت کے ایام نہیں پاکستان میں قومیتوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کی مثال بھی ہیں۔ جواس بات کو مضبوط جواز فراہم کرتے ہیں کہ اس بندوبست میں بلوچوں کی آزادی محدود اور ترقی کے امکانات موجود نہیں اس رویے کی وجہ سے بلوچ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ اُن کے پاس اپنی بقاءکی سخت جنگ لڑنےکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔
انہی زندہ اقوام کی تقلید میں دومارچ عالمی یوم بلوچ ثقافت کے طور پر منانے کے اعلان کے ساتھ ہی پورے بلوچستان میں ایک جوش خروش کا ماحول پیدا ہوگیا مگر سر کاری سطح پر اسے ”سندھی عالمی یوم ثقافت “کے برعکس ایک سازش کے طور پر ہی دیکھا گیا اور دومارچ کی رات کو ہی یوم ثقافت منانے والوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کا خونی ڈراپ سین خضدار میں ہو اجہاں خضدار انجنیرئنگ یونیورسٹی میں بلوچ طلبا ءکی تقریب پر ہینڈ گرنیڈ حملوں کے نتیجے میں دو نوجوان طلبا ءسکندر اور جنید خون میں نہاگئے جب کہ بہت سارے طلباءزخمی بھی ہوئےجن میں سے بعد میں ایک نوجوان ٹانگ کٹنے کی وجہ سے عمر بھر کے لیے معذور ہوگیا ۔بلوچ طلباءاور عینی شاہدین کے مطابق طلباءکے ثقافتی میلے پر ایف سی اہلکارو ں نے ہینڈ گرنیڈ پھینکے تھے جنہیں حملے کے فوراً بعد ایف سی کیمپ میں داخل ہونے کی وجہ سے پہچان لیا گیا ۔اس واقعے بعد بھی خود کو سب سے بڑے قوم دوست کہنے والے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے روایتی طو ر پر بڑبڑانے کے علاوہ ایسا کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کے امکانات نہ ہوں جب کہ سندھ میں اسی پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ کا رویہ سندھی یو م ثقافت کے حوالے سے قوم دوستوں سے کئی زیادہ پرجوش ہے بلکہ سندھی ثقافت کو عالمی سطح پر منانے کے فیصلہ کی وجہ بھی صدر پاکستان کی سندھی ٹوپی بنی ۔
اس دن کومنانے کا اعلان گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب کچھ ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں افغانستان کے دورے کے وقت صدر پاکستان آصف علی زرداری کی سندھی ٹوپی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔سندھی میڈیا نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کاوش کے ٹی این گروپ نے سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا، جس کی بعد میں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی اور قوم دوست جماعتوں نے بھی حمایت کی۔
اس دن پر زبردست جوش نظر آیا جب سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں لوگ سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر سڑکوں پر نکل آئے۔ جس پر سندھ کی صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ ہر سال سندھی ثقافت کا دن منایا جائے گا اس حوالے سے صوبائی اسمبلی نے اس سال ایک قرار داد منطور کی، جس میں چار دسمبر کو یہ دن منانے کا اعلان کیا گیا۔
آج ( چار دسمبر 2010) کودوسری مرتبہ سندھی ثقافت کا عالمی دن منایا جارہاہے اس مرتبہ اس دن کو نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ شریک اقتدار جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی بھی حمایت کررہی ہیں ۔مختلف شہروں کے سر کاری وغیر سرکاری اسکولوں میں ہفتہ بھر سے پروگرامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ بی بی سی کے مطابق” سندھ کے ثقافتی دن کی کراچی میں مقیم امریکی قونصل جنرل ولیم مارٹن نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے، انہوں نے سندھی میڈیا کی ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی حکومت کی جانب سے سندھ عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی امریکی سفارتکار نے اس طرح حمایت کی ہو۔“
پاکستانی ذرائع ابلاغ پر ان سب خبروں کو دیکھتے پڑھتے پاکستانی بندوبست میں قومیتو ں کے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس شدید ہوجاتاہے ۔دومارچ اور چار دسمبر اس حوالے سے محض دوبرادراقوام کے عالمی یوم ثقافت کے ایام نہیں پاکستان میں قومیتوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کی مثال بھی ہیں۔ جواس بات کو مضبوط جواز فراہم کرتے ہیں کہ اس بندوبست میں بلوچوں کی آزادی محدود اور ترقی کے امکانات موجود نہیں اس رویے کی وجہ سے بلوچ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ اُن کے پاس اپنی بقاءکی سخت جنگ لڑنےکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔
٭٭٭
04/12/2010
Post a Comment