بلوچستان کی آبادی قبائلی ‘نیم قبائلی اور غیر قبائلی علاقوں میں منقسم ہونے کے باوجودمجموعی طور پر قوم دوستانہ جذبات رکھتی ہے(یہاں” قبائلی
“سے مراد قبائلی پہچان نہیں بلکہ وہ سماجی ڈھانچہ مراد ہے جس میں قبائل ایک سردار کے تابع ہوتے ہیں ۔ جہاں سردار مطلق طاقتور اور ناقابل چیلنج ہیں وہ علاقے ”قبائلی “ ، جہاںسردار کی گرفت محض اپنے ملازمین تک ہی محدود ہے وہ علاقے ”نیم قبائلی “اور جہاں سردار برائے نام بھی باقی نہیں اُن علاقوں کے لیے غیر قبائلی علاقے کااصطلاح استعمال کیا گیاہے ۔قبائلی علاقے اور غیر قبائلی علاقوں کی خطہ وار تقسیم ہوسکتی ہے لیکن نیم قبائلی وغیر قبائلی علاقے کی خطہ واری تقسیم میں ہونے والی غلطی سے بچنے کے لیے راقم کواس نئے اصطلاح کی ضرورت محسوس ہوئی ‘بحث پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان سے متعلق ہے) لیکن غیر قبائلی علاقے کی آبادی فطرتاًسیاسی طورپربالیدہ سمجھی جاتی ہے۔بلوچستا ن کی تحریک آزادی کے اصلاح کنندگان نے اپنی نئی صف بندی میں جنگ وسیاست کو باہم مربوط رکھنے کے لیے سیاسی وجنگجو عناصرمیں ایک دوسرے کی قبولیت کے لیے شعوری کوششیں کیں ۔سیاستدانوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عسکری جدوجہد کی کھل کر حمایت کی اور اسے ناگزیرقرار دیا اور عسکری تنظیموں نے بلوچستان مسئلے کوسیاسی اور اپنی جدوجہد کو سیاست قرار دے کر یہی حکمت عملی اپنائی کہ یہ جدوجہد بلوچستا ن کی پر امن سیاسی جدوجہد کو پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے بندوق کے زور پر روکنے اور بلوچستان میں بلوچوں کو طاقت کے بل پر اقلیت میں تبدیل کرنے کے استحصالی منصوبوں کے خلافسیاسی جدوجہد کو بے اثر دیکھنے کے بعد شروعکی گئی ۔
شہید واجہ ( غلام محمد‘صدر بلوچ نیشنل موومنٹ)اپنے کارکنان کو اکثر یہ بات ذہین نشین کراتے تھے کہ ”بلوچستان میں لڑی جانے والی جنگ کو سیاست سے جدا نہ کیا جائے بلکہ ان حالات میں کامیاب وحقیقی سیاست عسکری جدوجہد ہے۔“سیاست وعسکری محاذکو ایک ہی سکے کا دورخ بنانے کے مراحل بھی عجلت میں نہیں حکمت میں طے کیے گئے ۔شہید واجہ کی ایک تقریر میں آپ کے الفاظ کہ ”یہ جنگ ہم پر مسلط نہیں کی گئی بلکہ ہم نے شروع کی ہے ‘ کو بلوچ قو م دوست سیاسی تاریخ کے مطالعے کے بعد درست قراردینا مشکل ہے ۔اس سے یہی مراد لینا زیادہ بہتر ہے کہ ”عسکری جدوجہدمحض ایک ردعمل نہیں بلکہ منظم وشعوری جدوجہد ہے ۔“یہاں قارئین یہ بات بھی ذہین نشین کر یں کہ ایک مقرر اسٹیج پر الفاظ کا چناﺅ سامعین کی ذہنی سطح کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے ۔اگر ہم اس بات سے یہی عمومی مطلب اخذ کر لیں تو عالمی سطح پر ہمارا مضبوط موقف کمزور ہوگا ۔میں کئی فورم پر دوستوں سے واضح اختلاف رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیتا رہاہوں کہ ”ہمیں پاکستانی مقتدرہ کے پروپیگنڈوں کی سمجھ ہونی چاہئے کہ وہ پاکستانی عوام سے اپنے جارحانہ اقدام کی حمایت کے لیے بلوچوں کو امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک کا آلہ کار بتاتی ہے‘ جنہیں مسلم ذہنیت رکھنے والے اکثر پاکستانی مسلم اُمہ کا دشمن سمجھتے ہیں۔ پاکستانی حکمران امریکہ کی نوازش اور پاکستان کے تحفظ کے حوالے سے نیٹو ممالک کے مثبت کردار کے باوجودان افواہوں کی سر کاری سطح پر حوصلہ افزائی بلوچ دشمنی کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ہمیں اس بات پر سنجیدہ ہونا ہوگا کہ دنیا باغیوں کی حمایت نہیں کرتی جس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہمیں خود کو مظلوم ثابت کر کے دنیا سے اپنی جدوجہد کی حمایت حاصل کرنی ہوگی ۔“حالیہ وکی لیکس کے انکشافات ‘امریکہ کا براھمدگ بگٹی حوالگی کے لیے کرزئی پر دباﺅ اور سنی بنیاد پر ایران سے بر سر پیکار تنظیم جنداللہ کے سر براہ مالک ریکی کی ایران حوالگی میں امریکی کردار کے افشاءہونے اور بعد ازاں جند اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے بھی تصدیق ہوچکاہے کہ امریکہ اور دنیا کی دوسری طاقتیں کسی ملک سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود بھی وہاں باغی گروپس کی حمایت نہیں کریں گیں حالانکہ جند اللہ کے بارے میں یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ اسے برائے راست اور بالواسطہ امریکی حمایت حاصل ہے ۔ یہی خیال کیاجاتاہے امریکہ کے اشارے پر سعودی عرب جنداللہ کو مالی امداد اور پاکستان اپنے زیر انتظام بلوچستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا رہاہے ۔ان باتوں پر یقین کر لیاجائے تو امریکہ کا محکوم قومیتوں کے حوالے سے وہی بھیانک کردار سامنے آتا ہے جو کسی زمانے میں روس کا تھا” قومیتوں کو آزادی کی لالچ دے کر اپنے پروکسی وار کا حصہ بنانا “۔بھارت اور پاکستان بھی اس طرح کی جنگیں چھیڑ کر ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے آئے ہیں ۔ ہندوستان میں ”خالصتان کی تحریک“( سکھوں کی علیحدگی کی تحریک ) کو پاکستانی حمایت حاصل ہونے کا ایک ثبوت( جس کا میں خود بھی مشاہدہ کر چکاہوں) اُن کا پاکستان میں ”کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کی تحریک “کے لیے جہادی بھرتی کرنے والی تنظیموں سے خطوط اور ایک دوسرے کے مذہبی تہوار کے موقع پر مبارک باد ی پیغام کا تبادلہ تھا ۔گزشتہ برسوں ہی یہ انکشاف کیا گیا تھاکہ خالصتان کی تحریک بے نظیر بھٹو کی مدد سے کچلی گئی تھی ۔ اسی ادوار میں پاکستان میں کشمیر کے جہادی تنظیموں کی فنڈنگ میں کمی اور پاکستان کی سیاست (خاص طور پر سندھ اور کراچی کی سیاست ) میں نمایاں تبدلیاں پید اہوئیں ۔وہاں خالصتان اور کشمیر میں بھارت مخالفت کا زور کم پڑگیا یہاں راکی پشت پناہی میں ایسے عناصر جو کہ پاکستان کے لیے کراچی وسندھ میں مسئلہ پیدا کررہے تھے ‘نے اپنا قبلہ درست کر لیا۔جس طرح سویت یونین کی مدد سے بلوچستان میں سرخ انقلاب کے لیے پرا مید بہت سے برائے نام قوم دوست لیڈر سویت یونین کے خاتمے کے بعد انقلاب سے مایوس ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے پاکستان کی چھتر سایہمیں پناہ لینا بہتر سمجھا ۔افغانستان میں جلا وطنی کے دوران مقیم بلوچ قائدین نے اپنی ناکامیوں کا محاسبہ و مطالعہ کیا جس کے نتیجےمیں یہ مشکل مگر درست فیصلہ سامنے آیا کہ ”بلوچ اپنی جنگ اپنے مفادات ‘استعداد اور وسائل کے مطابق لڑیں گے اور کسی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے ۔“اس فیصلے سے ناخوش کچھ قوم دوستوں جماعتیں یہی سمجھتی ہیں کہ کسی بیرونی طاقت کی مدد کے بغیرآزادی کا حصول ممکن نہیں لہذا بلوچوں کو پاکستان سے چھٹکارہ کے لیے امریکہ واسرائیل سے مدد لیناچاہئے لیکن اول الذکر قوم دوستوں نے اپنی پختگی اور غیر متنزل کردار کی وجہ سے یہ ثابت کردیا کہ وہ بغیر بیرون مدد پر انحصار کیے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں جب کہ موخر الذکر بیک وقت دوکشتی میں سوار مسافر بن کررہ گئے ہیں جو کبھی پاکستان سے چھٹکارہ کے لیے ابلیس سے مدد قبول کر نے کی بات کرتے ہیں ، کبھی نوجوانوں کوخود کش حملوں کی ترغیب دیتے ہیں اور کبھی اُنہیں پاکستان سے نرم خوئی نہ رکھنے پر مہم جو اور خود کشی کی راہ اختیار کرنے والے قرار دیتے ہیں ۔جبل سے پار لیمنٹ ، پارلیمنٹ سے جبل ‘خودارادیت سے آزادی اور آزادی سے خودارادیت کے درمیان سعی کرتی اس جماعت کے قائدین اپنے کارکنان کی بے مثل قربانیوں کے باوجودبلوچ قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں ۔
اس جدوجہد میں ”نظم ‘حکمت عملی اور عمل “وہ بنیادتھا جس نے اس جدوجہد کو مختصر مدت میں عوامی سطح پر کامیابیوں سے ہمکنار کر دیا ۔بلوچستان میں ساٹھ سال سے اس گندی اور مفاداتی سیاست کی جڑیں بڑی تیزی سے صاف ہوئیں جن کی آبیاری میںانہی قوتوں کا ہاتھ تھا جو عسکری جدوجہد میں متحرک ہوچکے تھے ۔کامیابیوں کا یہ سفر گزشتہ سال تک جاری رہا ۔مسلح حریت پسندوں نے اپنے ابتدائی حملوں میں ہی بلوچستان میں آبادکاری کے منصوبوں کوپیچھے دھکیل دیا ۔آبادکاری کی حوصلہ شکنی سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ۔تجارت پر غیر مقامیوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔یہ کامیابیاں غیر قبائلی علاقے کی ہیں جہاں آبادکاری کے میگا استحصالی منصوبے شروع کیے گئے ہیں ۔نیم قبائلی علاقوں میں سر کاری حمایت یافتہ سرداروں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ معاملات اب مزید اُن کے کنٹرول میں نہیں رہے ان علاقوں نے غیر قبائلی علاقوں کی نسبت تحریک کے لیے زیادہ گرم خون بہایا اور قبائلی زنجیروں کو کافی کمزور کردیا ۔قبائلی علاقوں میں مری قبائل میں سیاسی تدبر اور پختگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اس لیے مری نے جنگی محاذ پر مصروف ہونے کے باوجود تنظیمی طور پر اپنے رشتے دوسرے قبائل ‘نیم قبائلی اورغیر قبائلی علاقوں میں قائم کیے جن کے جنگی محاذ پر مثبت نتائج برآمد ہوئے ۔بگٹی قبائل نے جمہوری وطن پارٹی کا نام تبدیل کرکے بلوچ ری پبلکن پارٹی رکھنے کا انقلابی سفر طے کیا ۔بی آرپی نے اپنے قیام کے شروعاتی مہینوں میں ڈیرہ بگٹی کے علاوہ نیم قبائلی اور غیر قبائلی علاقوں میںبھی قابل رشک کامیابیاں حاصل کیں ۔
ماضی کے مدارج ومراحل کا اگر طاہرانہ مشاہدہ کیا جائے تو بلوچ جدوجہداپنے دعوے کے عین مطابق سیاسی خطوط پر استوار معلوم ہوتیہے ۔پارلیمنٹ کا طوق بلوچوں نے حکمت عملی اور پاکستان کے بلوچوں سے متعلق رویے پر راست ردعمل دکھا کراپنے گلے سے اُتارا ۔بلوچستان کی تحریک آزادی کے دوسر خیل شہید کمانڈر شہید بالاچ ( مری ) اور شہید اکبر ( شہید نواب اکبر خان بگٹی) میں سے اول الذکر دم شہادت پارلیمنٹ کا ممبر جب کہ موخرا لذکرایک ایسی جماعت کا سر براہ تھے جس کے ممبران پاکستانی سینٹ وپارلیمان میں موجود تھے ۔شہید بالاچ نے دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ وہ انتخابات اور ووٹ الیکشن کی سیاست کی نفی نہیں کرتے بلکہ پاکستان کی جمہوریت اور قومیتوں کے تشخص کی نفی اور اُن کے وسائل پر قبضہ کو تحفظ فراہم کرنے والے ریاستی آئین وقوانین کو جھٹلاتے ہیں ۔شہید بالاچ نے محض اپنے جذبات کی رومیں بہہ کر پارلیمنٹ سے نکل کر پہاڑوں کا رخ نہیں کیا کیوں کہ اس طرح بلوچ جدوجہد پر بغاوت کا عنصر غالب آجاتا‘دنیا کی نظروں میںوہ ایک غدار ہوتے جنہوں نے اس ملک کے قوانین ودستور کو پامال کیا جس کی پارلیمنٹ کا وہ اور اُن کے بزرگ ممبر تھے ۔اس لیے انہوں نے اپنی جوش کو عقل کے تابع کر کے تحمل وبردباری کے ساتھ شہید اکبرکے ان مطالبات کی حمایت کی جواس نے چوہدری شجاعت کی سر براہی میں ڈیرہ بگٹی آنے والے وفد کو پیش کیے تھے جو بعدازاں جمہوری وطن پارٹی کی طر ف سے بگٹی ڈوزیر کے نام سے کتابچہ کی صورت تقسیم کیے گئے ۔ان مطالبات میں بھی سر فہرست مطالبہ میں بلوچستان میں آبادکاری کے استحصالی منصوبوں میں بلوچوں کے خدشات کو دور کرنے پر زور دیاگیا تھا ”گوادر میں سرمایہ کاری کا یہ اصول وضع کہ سرمایہ کاروں کو زمین فروخت کرنے کی بجائے انچاس ور اکاون فیصد کی تناسب سے ( 51فیصدمقامی افراد کا اور 49فیصد سرمایہ کار کامنافع )شراکت کی بنیاد پر دی جائیں ۔“اب اسے اگرپاکستانی مقتدر طبقہ نے پاکستان دشمن مطالبہ کہہ کر بلوچ کے منہ پر دے مارا تو بلوچ کا ردعمل کیا ہونا چاہئے تھا ؟ شہید اکبر اس پر بھی ناراض ہوکر پہاڑوں پر نہیں گئے بلکہ انہوں نے اپنے قلعے میں قیام کر کے ڈائیلاگ اور گفت وشنید کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے رکھے آپ کی کرشماتی شخصیت اور علمی انداز کی وجہ سے دنیا کی میڈیا آپ کی طرف متوجہ ہوئی جس سے پاکستانی مقتدرہ کومعاملہ بگڑنے کا خدشہ ہوا جس پر انہوں نے شہید اکبر کوقتل کرنے کے لیے اُن پر بلااشتعال جارحانہ حملے کیے یہ حملے بلوچوں کے لیے پاکستان کی طرف سے باعزت مذاکرات کے دروازے بند کرنے کا اعلان تھے جس کے امکانات کو شہید اکبر کے تابوت کوتالے لگاکر 26اگست 2006 کوڈیرہ بگٹی میں ہمیشہ کے لیے دفن کردیا گیا ۔اس کے بعد بقول بابامری (نوا ب خیر بخش) ”مذاکرات اب!؟ تب ہوسکتے تھے جب ہم پارلیمنٹ میں تھے اب ہم جنگ کررہے ہیں ۔“
اس کے بعد بلوچ مسلح حریت پسند تنظیموں نے اعلانیہ گوریلا کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ‘درست حکمت عملی زبر دست تنظیم باہمی احترام کے ماحول نے جنگ کو نہایت مختصر مدت میں بلوچستان کے طول وعرض میں پھیلا دیابجا طور پر بلوچوں نے پاکستانی مقتدرہ کی طرف سے بزور مسلط کردہ جنگ کو اپنی قومی جنگ بناکر ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔پاکستان نے ابتد اہی سے بلوچستان میں سیاسی رہنماﺅں کو ٹارگٹ بناکر قتل کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی شہید اکبر کے ایک سا ل بعد شہید بالاچ کو ٹارگٹ کر کے شہید کردیا گیا یہ پاکستانی فوج کی ایک بڑی کامیابی قرار دی جاتی ہے لیکن اس کے نتائج یک طرفہ ہرگز نہ تھے ۔ بلوچوں نے اپنے اس سفر میں کہیں بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ انہو ں نے مسلح جدوجہدکا راستہ ترجیحاًاختیار کیا تھا بلکہ یہ با ت ثابت کرنے کے بعدکہ ان کے لیے بندوق اُٹھانے کے سواءکوئی راستہ باقی نہیں بچاانہوں نے مسلح تحریک کا آغازکیا۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعدبین الاقوامی طور پر پاکستا ن کے متعلق یہ تاثر پیدا ہو اکہ اب جمہوری حکومت بلوچستان کا مسئلہ کو گفت وشنید سے حل کرنے میں سنجیدہ ہے ‘نومنتخب صدر پاکستان نے ماضی کی زیادتیوں کو تسلیم کیا ‘سیاسی کارکنان کو اغواءکرنے کے ریاستی جراہم تسلیم کرکے اُن کے ازالے کا تاثر پیدا کیا گیا ۔بلوچستا ن کی صوبائی حکومت میں پہلی مرتبہ وزیرا علیٰ اور گورنر کے دونوں کلیدی عہدے بلوچوں کو دیے گئے اوروہ بھی عام بلوچوں کو نہیں بلوچ قومی سپریم کونسل کے دو اہم عہدیداروں(ذولفقار مگسی اور اسلم رئیسانی ) کو جنہوں نے قلات میں منعقد بلوچ سردارو ں اور سیاسی جماعتوں کے مشترکہ تاریخی جرگہ میں بلوچستان کے مسئلے کوعالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا عہد کیا تھا ۔دنیاکوبلوچوں سے بھی اسی طرح کے سیاسی ردعمل کی توقع تھی اس پر پورا اُترتے ہوئے بلوچ حریت پسند جماعتوں نے مشترکہ طور پریک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر کے اپنی دانشمندی ، سیاسی بردباری اور جنگ آزادی میں لچکدار ہونے کا ثبوت دیا۔بی ایل اے( بلوچ لبریشن آرمی ) کا ایک تفصیلی بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے اسلم رئیسانی کو شریف آدمی کہا تھا ۔عسکری تنظیموں کے اس فیصلے کو بی این ایف میں شامل جماعتو ں نے بھی تائید کی ۔لیکن پاکستان مقتدرہ نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی برقرار رکھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام نہاد جمہوری دور حکومت میں بلوچستان کی تاریخ میں مظالم کا ایک بدترین سلسلہ شروع کیا گیا ۔اب اگر اسلم رئیسانی اور ذولفقار مگسی بلوچ مسلح حریت پسندوں کے بارے میں اشتعال انگیزبیانات اور دروغ گوئی سے کا م لے رہے ہیں تو یہ پاکستانی مقتدرہ کے ہی کہنے پر ہوسکتاہے کہ تاکہ بلوچ قبائل کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جائے اور دونوں صاحبان کو قبائل میں سیاسی ہمدردی ملے کہ ”دیکھیں یہ آزادی کی سیاست کرنے والے اب ہماری جان کے بھی دشمن ہوگئے ہیں “ورنہ جو اناپ شناپ اسلم رئیسانی بول رہے ہیں اس پر غصہ آنا فطری عمل ہے مگر ہمیں دوراندیشی کا مظاہرہ کرکے رئیسانی کو یاد دہانی کرانی ہوگی کہ بلوچ مسلح حریت پسندوں نے اُن کی حکومت کے قیام کے بعد خیر سگالی کے جذبے کے تحت اپنی طرف سے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر کے اُن کے لیے گلے شکوے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے ۔اب یہ اُن کی شرافت ہوگی کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر کے دودن کی نوکر ی کی خاطر اپنے قبائلی احترام کو خاک میں نہ ملائے ۔
رئیسانی دور حکومت میں بلوچستان میں شروع کیے جانے والے مظالم کے سلسلے کا بلوچستان کے ایک عظیم قومی ہیرو کے بہیمانہ اغواءاور قتل سے آغاز کیا گیا ۔ جنہوں نے اپنے بے داغ کردار اور اخلاص کی وجہ سے بلوچستان بھر میں ایک غریب شخص ہونے کے باوجود باعزت مقام پیدا کیا ۔ 3اپریل 2009کوشہید واجہ ( غلام محمد بلوچ ) کو تربت میں بوگس مقدمات میں پیشی کے موقع پر عدالت کے احاطے میں کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفترسے دو اور ساتھیوں شہید لالہ منیر اور شہید شیر محمدسمیت اغواءکر کے بہیمانہ طریقے سے قتل کے بعد اُن کی میتیں مرگاپ کی ندی میں پھینک کراس عمل کی ایک طرح سے افتتاح کی گئی ۔اس دن دہاڑے مجرمانہ واردات میں ریاستی جراہم کی پردہ پوشی کی بھی قطعاًضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر کو فورسز کی گاڑیو ں میں سوار مسلح افراد نے گھیرے میں لیاجن کو ایف سی کے باوردی اہلکاروں کی مدد بھی حاصل تھی ۔اُن کی میتوں کوپھینکنے کے بعد جگہ کی نشاندہی بھی خفیہ اداروں نے بالواسطہ رابطوں کے ذریعے کیا یہ بلوچوں کے لیے پاکستان کی طرف سے ایک اور واضح پیغام تھا کہ” اب بلوچوں کی سیاسی قیادت بھی خود کو محفوظ سمجھنے کی غلط فہمی سے نکل آئے ۔“بعض ذرائع کے مطابق بلوچوں کے خلاف اس جارحیت کو فورسزنے ”آپریشن خاموش“کانام دے رکھا ہے جسے پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک بارہا”ٹارگٹڈ آپریشن “کہہ کر تسلیم کرچکے ہیں جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے گزشتہ مہینوں میں اس کی شدت میں اس قدر اضافہ ہواہے کہ صرف پچھلے مہینے چالیس بلوچ سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ میتیں ملی ہیں جن میں بہت سوں کی شناخت آسان بنانے کے لیے فورسز نے پرچیوں پر اُن کے نام ولدیت اور سکونت لکھ کر اُن کی جیب میں ڈالیں تھیں ۔بلوچستان کے طول وعرض میں یکساں اور علامتی ( سمبلک ) انداز قتل اپنایا جارہاہے ۔بیشتر لوگوں کو سر اور دل میں ایک ایک گولی مار کر قتل کے بعد میتیں برساتی نالوں میں پھینکے جارہےہیں ۔واضح پیغام یہی ہوسکتا ہے کہ ” اپنے دل اور دماغ سے بلوچستان کو نکال دوورنہ تمہاری دریائیں خون سے بھر دی جائیں گے ۔“
یہاں بلوچ نوجوانوں کودادشجاعت دیے بنا نہیں رہاجاسکتا اوراُن تمام شہداءکے گھرانوں کوجو شہادتوں کو خنداں پیشانی سے قبول کررہے ہیں۔ ایسے گھرانے جو شہداءکی میتیں وصول کرنے سے پہلے بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے خائف تھے ان ریاستی وارداتوں کے بعدجدوجہد کے صف اول میں آگئے ہیں۔یہ حالات بظاہر بلوچ قومی تحریک کے لیے ناسازگار ہیں لیکن درحقیت یہ قربانیاں بلوچ قومی تحریک کی یقینی کامیابی کی ضامن ہیں اوراسی میں پاکستان کی قیامت خیزیوں کا راز بھی پوشیدہ ہے انہوں نے بلوچ سیاسی قائدین کو نشانہ بناکر دراصل عسکری اور سیاسی محاذ کو قیادت سے محروم کرنا چاہا ہے ۔ درجہ اول اور درجہ دوم کی قیادت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بعد درجہ سوم کی قیادت کودانستہ نظر انداز کر کے مسقبل کی قیادت( طلباءقیادت ۔بی ایس او(آزاد) ) ، متحرک کارکنان اور درجہ اول ودوم کی محفوظ قیادت کو تلاش کر کے قتل کر نے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے جب کہ بی این پی( مینگل) کے بعض قائدین کے قتل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اپنے طور پر بلوچستان کو سیاسی قیادت سے بانجھ کرناچاہتی ہے اور بی این پی ( مینگل )آزادی کی تحریک میں اثر ورسوخ نہ رکھنے کے باوجودپاکستانی مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہیں !!۔
بلوچ سیاسی قائدین کو نشانہ بنانے سے قیادت( نیم قبائلی وغیر قبائلی علاقے زیادہ متاثر ہوئے ) ایک ایسی نسل کے ہاتھ میں آ گئی جو زیادہ پڑھا لکھا ، ذہین ریڈیکل اور سائنسی اُصولوں سے واقف ہونے کے باوجود میدان عمل میں نوآموزاور اپنی تحریک کے نشیب وفراز کی باریکیوں سے آگاہی نہیں رکھتی۔اس تحریک کو جیسا کہ مندرجہ بالامختصر اشاریوں میں بیان کیا گیا ہے سیاسی بنیادوںپر استوار کیا گیا تھا ‘جنگ کو اولیت حاصل تھی لیکن اہداف کا چناﺅ سیاسی مفادات سے ہم آہنگ رہ کر کیا جاتاتھا ۔ اب قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے کہ جنہیں بنیادی تربیت مکمل کرنےکے لیے زیادہ وقت نہیں ملاہے۔پاکستانی مقتدر ہ کی جنگی حکمت عملی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں ، عسکری وسیاسی تنظیموں میں مخبروں کو داخل کر نے کی کامیابی کے بعد قائدین کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کے حل سے قبل ہی اُنہیں شہید کیا گیایہی غلط فہمیاں موجودہ قیادت میں ذہنی تقسیم کا سبب ہیں لیکن سب سے اہم او ر حوصلہ افزاءبات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود دوسرے ہم عصر یا ماضی کی مسلح حریت پسندتنظیموں کے برعکس تصادم سے بچا گیا۔یہ زیادہ معاملہ فہم اور باصلاحیت افراد کی تنظیمی اختیارات سے دست برداری سے ممکن ہو ا ہے جس کے منفی نتائج موجودہ حالات میں نظر آرہے ہیں ۔لیکن آج حالات گزشتہ چھ مہینوں سے مختلف ہیں نئی قیادت کی گرفت اپنی تنظیموں پر مضبوط ہیں ۔اُنہیں اپنے اصلاح کے لیے غور وفکر اور اپنی حکمت عملیوں پر عمل کرنے سے روکنے والے بظاہر نظر نہیں آتے اس لیےاُنہیں اپنی تحریک کے تسلسل میں پیدا ہونے والی خلیج پاٹنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی ۔غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ روش سے چھٹکارہ حاصل کر کے دوبارہ اُسی رویے کی طرف رجوع کرنا ہوگا جس کی وجہ سے ماضی میں تحریک کو زبردست کامیابیاں نصیب ہوئی تھیں۔
بلوچ عسکری محاذ میں سیاسی تدبر کی وجہ سے قبائلی اورعلاقائی جھگڑوں سے گریز کیا گیا۔میں نے بلوچ نیشنل موومنٹ سے وابستگی کے شروعاتی دنوںمیں شہید واجہ ، شہید لالہ منیر اور دیگر قائدین سے بارہا یہ استفسار کیا وہ اپنے اُن پرانے ساتھیوں کو تحریک آزادی میں غداری کی مروجہ سزاءدینےکے بار ے میں کیوں سنجیدگی سے نہیں سوچتے؟ ان کا جواب اب بھی میرے کانوں میں گونج کر اپنے قائدین کی دانشمندی کی دلالت کرتا ہے ”ہم انہیں سیاسی محاذ پر شکست دے کر اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے کہ وہ اپنی سیاست چمکا سکیں “( یہ جواب ایک کانہیں بہت سو ں کا تھا جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُن کی تنظیمی پالیسی کاحصہ تھا ) اور انہوں نے یہی کردکھایا مجھے شہید واجہ کی اپنی فتح مندی پر نیم خنداں لب اور چمکتی آنکھیں اب بھی یاد ہیں جوشاید یہی کہہ رہے تھے کہ ”میں نہیں کہتا تھا کہ میں اپنے منحرف ساتھیوں کے لیے سیاست کا داہر ہ تنگ کردوں گا‘وہ ہر محفل میں خوفزدہ ہوکر جائیں گے اور شرمندہ ہوکر اُٹھیں گے ۔“شہید لالہ منیر تو جیسے اس دن کے لیے ہی جی رہے تھے جب گوادر میں وہ ہزاروں کے جلسہ عام میں کہہ سکیں”مالک ! تم نے کہا تھا کہ بی این ایم غلام محمد سے شروع لالہ منیر سے ختم ہوتی ہے ‘آﺅ دیکھو یہ کون ہیں ۔“ اور اُنہوں نے غداروں سے بدلہ لے لیا ۔لیکن ان قائدین کی شہادت کے بعد نوجوانوں نے جذبات کو سیاست پر حاوی کر لیا ۔مولابخش کے قتل میں ملوث نہ ہونے کے باوجود اس طرح کے تاثر دیے گئے کہ جیسے مولابخش کو ایک تنظیمی فیصلے کے تحت ہی قتل کیا گیا ہو ۔اس حوالے سے دیے گئے بیانات جذبات کی انتہاﺅں کو چھورہے تھے لیکن ان میں سیاسی بالیدگی نہ ہونے پر ہر سنجیدہ محفل میںان پرناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا تھا ۔وہ نیشنل پارٹی جو پہلے دفاعی پوزیشن میں تھی اپنی بچہ تنظیم کے ساتھ جارحیت پراُتر آئی آزادی پسندوں کے خلاف لکھنے لکھوانے کا سلسلہ شروع ہو ا۔ایک اہم مسلح حریت پسند رہنماءکی طرف سے مولابخش قتل سے لاتعلقی کے واضح اور قابل تعریف سیاسی الفاظپر مشتمل بیان کے بعد بھی نیشنل پارٹی بضد رہی کہ مولابخش دشتی کو بلوچ لبریشن فرنٹ نے ہی قتل کیا ہے ۔اس واقعے نے شہید واجہ اور اس کے دوستوں کے خدشات کو درست ثابت کردیا۔ اُن کی حکمت عملی نے کچکول ایڈوکیٹ جیسی شخصیات کو اپنی پارٹی کے منفی کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیااور ہماری حکمت عملی نے ہمارے اپنے صفوں میں ایک بے چینی پیدا کردی ہے ۔ان حقائق پر شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دینے یا مست ہاتھی کی طرح چنگاڑنے سے بات نہیں بنے گی ان اصلاح طلب پہلوﺅں کی نشاندہی کوئی دشمن آکر نہیں کرئے گا یہ ہماری کمزوریاں ہیں جوہمیں ہی دور کرنی ہیں ۔
بی این ایف میں برائے نام جماعتوں کو اہم ذمہ داریاں دینے سے یہ اتحاد سیاسی طور پر زیادہ تر منتشر ہی رہا ہے ۔بی این ایم جس کا منشور لچکداراور سیاسی ہونے کی وجہ سے دوسری جماعتوں سے اُلجھنے کی ممانعت کرتا ہے کےلیے یقینا بی این ایف کے فلیٹ فارم پر دوسری جماعتوں کے قائدین کے لیے سخت ، نازیبا اور غیر سیاسی الفاظ کا استعمال اس کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ اس لیے وہ اس پر احتجاج کرنے میں حق بجانب تھا کہ” اتحاد محض مشترکہ نکات پر کا م کرئے “ یا بی این ایف کو جنداللہ سے جوڑنے پر جو احتجاج کیا گیا آج اس پربی این ایم کا موقف درست اور احتجاج کی ضرور ت ثابت ہوگئی ہے ( جنداللہ کو عالمی طو ر پر ایک دہشت گردی تنظیم سمجھاجانے لگا ہے ‘ اسی خدشے کے پیش نظربی این ایم نے جنداللہ سے اپنے منشور میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا) باوجود ان اختلاف کے بی این ایف ایک مضبوط اتحاد کے طور پر کام بھی کرتا رہا۔ اس لیے بلوچ قائد ھیر بیار مری کی بحیثیت عالمی نمائندگی کی تقرری کے معاملے پراختلاف کوبھی اس اتحاد کے ختم یا غیر فعال کر نے کے لیے جواز نہیں بننا چاہئے البتہ برائے نام جماعتوں کے کردار کو ختم یا محدود کرنے کی ضرورت ہے ۔بی این ایف کا بنیادی نعرہ” تین نکات ”آزادی ۔غیر پارلیمانی سیاست ۔مسلح حریت پسندوں کی حمایت “کی بنیاد پر بلوچستان کی ہر پارٹی سے اتحاد “ آج بھی اتحاد سے باہر قوم دوست جماعتوں کے نعروں پر بھاری ہے اس کے لیے ماضی کی طرح سیاسی اختلافات کو محض سیاست تک ہی محدود رکھ کر سیاسی شخصیات کو بلا وجہ زیر بحث لانے سے گریز کی پالیسی جاری رکھنے کی ضرورت ہے ‘چاہئے دوسری جماعتیں کتنے ہی مخالفانہ بیانات دیں ہمیں بہرحال اپنی پالیسیوں پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔
دوسروں کے کردار کو زیر بحث لاکر دراصل ہم عوامی قوت کی نفی کرتے ہیں اس کے لیے یہی مثال کافی ہے کہ آج بلوچ قومی شہداء، قائدین اور اغواءشدگانمیں ایسے لوگ قابل ذکرہیں جوماضی میں مخالف جماعتوں کے لیے کام کرتے تھے ‘وہ سیاسی کارکنا ن سے قربت کی پالیسی اور جھدکاروں کے دوستانہ رویے کے بناءہ تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے تھے یہ قربت طے شدہ سیاسی حکمت ودانشمندی کے بغیر موثر نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔
سب سے اہم بات ہمیشہ یہی ہے کہ ہر واقعے اور معروضی تبدیلی کو سیاسی تناظر میں ہی دیکھا جائے حکمت عملی طے کرتے وقت جذبات کو انگیخت کرنے والی گفتگو ( ہمارے ایک دوست تنظیم کے سب سے اعلیٰ اجلاس میں بھی رقت آمیز الفاظ استعمال کرتے تھےجن کے فیصلوں پر منفی اثرات پڑھتے تھے یہ ایک طرح سے اپنی بات منوانے کے لیے ایموشنل بلیک میلنگ ہے )اور اندازے قائم کرنے سے گریز کرنا ہوگا (ایک دوست کے اندازوں سے ایک آدھ دفعہ میں بھی یہی سمجھ بیٹھا کہ بلوچستان بس کل ہی آزاد ہونے والا ہے )۔حکمت عملی ٹھوس حقائق جن کو جھٹلانا تقریبا ًناممکن ہوکی بنیاد پر بنائی جائیں ۔ہر پالیسی کی اجراءکے وقت سب سے پہلے منفی پہلوﺅں کو اُجاگر کرنے سے غلطی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ۔ہمارے یہاں اس سے پہلے کہ سیاسی قیادت پالیسی دے ہم چائے خانوں اور اخباری دانشوران کی شہہ پر ماحول کو اس قدر آلودہ کردیتے ہیں کہ اگر قیادت کا فیصلہ سامنے آئے تو اس کے مختلف ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔طلباءکو قومی سطح کے سیاسی فیصلوں میں اس قدر آزادی ہے کہ وہ اپنی زبردست استعداد کار اور صلاحیتوں کی وجہ سے قومی جماعتوں کے فیصلوں پر بھی حاوی ہیں ۔
پروپیگنڈہ اور حقائق میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث اکثر معاملات میں ہم پروپیگنڈہ کے زیر اثر رہتے ہیں جس سے بلوچ قوم کے متعلق یہ غلط تاثر عا م ہے کہ بلوچ قومی تحریک ”قومی دوست “اور ”لبرل “خیالات کی بجائے ”شاﺅنسٹ“( نسل پرست ) ہے ۔بلوچستان میں آبادکاروں کے قتل کے الزام کا دفاع کرنے کی بجائے اس جھوٹ کو قبول کیاجاتاہے ( جس طرح گزشتہ دنوں ایک انتہائی بزرگ سیاستدان نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی )۔کبھی اس کے سیاسی اثرات پر غور کیا گیاہے ؟؟یا کبھی ہم نے اُن نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت محسوس کی‘ جو غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بلوچ تمام پنجابیوں کو قتل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ؟کبھی آپ نے غور فرمایا کہ بلوچ قائدین براھمدگ اور ھیر بیارکو اس کی تردید کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ کبھی یہ سوچا کہ کہیں یہ ہمارے خلاف دانستہ پروپیگنڈ ہ تو نہیں کیا جارہا ؟ہم اس بات کو کیوں سامنے لانے سے شرمندہ ہیں کہ بلوچستان میں آج تک ایک بھی آباد کار ( پنجابی یا غیر پنجابی ) کو آباد کار ہونے پر قتل نہیں کیا گیا ۔بلوچستان میں زیادہ تر قتل ہونے والے پنجابی آباد کار نہیں بلکہ بہروپیا مخبر تھے ۔ ً پنجابی آباد کاروں کی بلوچستان میں سب سے بڑی تعدادغالباً مچ اور اس کے اطراف میں آباد ہے جن کو مقامی بلوچوں جتنے ہی حقوق حاصل ہیں۔ رہی بات مخبروں کو قتل کرنے کی تواس میں بلوچ عسکری تنظیموں نے نسلی امتیاز نہیں برتا بلکہ پنجابیوں سے زیادہ بلوچ مخبر قتلہوئے ہیں۔ان تنظیموں نے اپنے بیانات میں بھی واضح کیاکہ مخبر کی کوئی نسل نہیںہوتی بلکہ مخبر صرف مخبر ہوتا ہے ۔
کیا کبھی ہم نے بلوچ قومیت کے اجزائے ترکیبی پر غور کیا ؟ یہ نسلی قومیت نہیں بلکہ سیاسی قومیت ہے جو مختلف نسلوں کے اتحاد سے وجود میں آیا ہے۔بلوچ قومی ڈھانچے میں نسل پرستی کی گنجائش ہی نہیں بلکہ ماضی میں بلوچ بننا مذہب تبدیل کرنے جتنا ہی آسان تھا جس طرح ایک نومسلم پر لازم ہے کہ اسلامی اقدار اور اللہ کی وحدانیت کا زبان وقلب سے اقرار کرئے اسی طرح بلوچ کے ”ھڈ پروش “کے رسم میں اپنی وفاداریاں بلوچ قوم سے جوڑنے اور اس کی ثقافت اختیار کرنے کی شر طیں لگائی جاتی تھیں ۔حالیہ بلوچ قومی تحریک کی ایک اہم آزادی پسند سیاسی جماعت کے چیئر مین کے بعد دوسرے اہم لیڈرنسلا ً پنجابی اور ایک خاتون لیڈر مہاجر ہیں لیکن نہ وہ کبھی خود کوغیر بلوچ سمجھتے ہیں نہ کبھی اُنہیں کسی سنجیدہ حلقے نے یہ احساس دلایا ہے کہ وہ بلوچ نہیں ہیں ۔ان دلائل کے ہوتے مجھے نہیں لگتا ہے کہ بلوچ قوم کو دسروں کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر خود کو ”قوم دوست “کی خوبصورت اور فطری شکل میں پیش کرنے کی بجائے ”شاﺅنسٹ “اور دوسری قومیتوں کے لیے عدم برداشت کا جذبہ رکھنے والی قوم کی حیثیت سے متعارف کرنا چاہئے کیوں کہ بلوچ قوم کی بنیاد ہی نسلی اختلاط سے پڑی ہے اور بلوچیت دستور العمل ہے نہ کہ ورثہ ۔بابامری اسی بنیاد پرفرماتے ہیں کہ ”بلوچیت کا اپنا ایک پیمانہ اورمعیار ہے ۔“
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بعض حقائق چھپائے یا تبدیل کیے جانے سے تحریک کو فائدہ ہوتا ہے عسکری تنظیموں کی روایا ت میں بعض ایسی کارروائیاں بھی کی جاتی ہیں جن کو قبول نہیں کیا جاتا۔زیادہ تر کارروائیاں قبول کی جاتی ہیں تاکہ عسکری تنظیموں کے اہداف سے متعلق کسی قسم کا ابہام نہ رہے ۔گزشتہ دنوں پیش آنے والے چند واقعات ایسے تھے جنہیں مسخ کر کے کم وبیش سر کاری موقف کی تائید کی گئی ۔ان میں شہدائے تربت کا المناک واقعہ بھی شامل ہے جس میں ایف سی اہلکاروں نے تربت میں یک دسمبر 2010 کوایک بلوچ معتبر شخصیت ایوب جان گچکی کے گھر پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا ۔بلوچستان میں آئے دن سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لوگوں کے اغواءکے بعد مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی کے بعد یقیناًاُن نوجوانوں میں بھی یہ خوف موجود تھا کہ اُنہیں اغواءکر کے قتل کیا جاسکتا ہے لہذ ا‘انہوں نے اپنی حفاطت کے لیے رکھے گئے ہتھیاروں سے فورسز کو اپنے گھر سے دور رکھنے کی کوشش کی جس پر ایف سی نے مشتعل ہوکر اُ ن کے گھر پر اس قدر گولہ باری کی کہ پوری عمارت ڈھے کر کھنڈر بن گئی جس کے نیچے دبنے سے پانچ نوجوان مراد جان ولد ایوب گچکی،زبیر ولد ایوب گچکی،حاصل ولد جاڑو،ھمل ولد درجان اور ماجد ولد حسن شہید ہوئے۔شہداء میں ایوب جان کے دو شہزادگان (ٹین ایج بیٹے) ، باورچی ، ڈرائیوراور ایک مہمان شامل تھا ۔جس وقت یہ جنگ جاری تھی پوری بلوچستان میں یہ افوائیں گشت کررہی تھیں کہ” تربت میں سر مچاروں اور ایف سی کے درمیان آمنے سامنے جنگ ہورہی ہے جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور سو ایف سی اہلکار کے مارے گئے ہیں“ یہ اطلاعات مکمل غلط ثابت ہوئیں ۔لیکن دوسرے دن اخبارات میںایک مسلح تنظیم کے نام سے بیان شائع ہوا جس میں شہدا ءکو اپنا سر مچار قرار دے کر اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی گئی ( حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ جارحیت ایف سی کی یک طرفہ تھی جس میں پانچ معصوم بلوچ شہید ہوئے ) اس قبولیت پر یقینا ً سوچنا چاہئے تھاکہ اس کے سیاسی فائد ے اور نقصانات کیا ہیں ؟اورایف سی کی غلط بیانی کے پیچھے کیا سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں ۔یقیناً وہ رائے عامہ کو گمراہ کر کے معصوم شہداءکو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہے ( غلط قبولیت سے اُنہی کاہی فائدہ ہواہے ) ۔یہ واقعہ شہید سدومری ، شہید میرجان میرل ، شہید ریاست ، شہید یحییٰ ، شہید نورالحق اور شہید قدیر کی شہادت سے مختلف ہے مذکورہ تمام شہداﺅں کی شہادتیں ایسے مقامات اور ایسی حالت میں ہوئی ہیں کہ ان کو سر مچار کہنے سے تحریک کی شہرت میں اضافہ اور شہداءکی قربانیوں سے آگاہی کا مثبت پہلو نکلتا ہے۔ لیکن شہدائے تربت کے واقعے میں پاکستان کی جارحیت کونمایاں کرنے اور اس کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ اگر یہ لڑائی حقیقی معنوں میں سر مچاروں کے ساتھ بھی ہوتی تو ہم اسے قبول نہیں کرتے کیوں کہ فورسزکسی مجرم کو بھی ماورائے عدالت قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں ۔یہ بیان اُن کے فیملی کے لیے بھی مزید پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے(ان مندرجات کی تصحیح کرتے ہوئے خبرملی کہ ایف سی کی طرف سے ایوب جان گچکی کے خلاف دہشت گردی او ر کارسر کار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا گیاہے ) اور تنظیم کی ساکھ پربھی سوال اُٹھ سکتا ہے کہ آخر ایوب جان کے دونوں شہزادگان ‘ڈرائیور اور باورچی کو اپنے سر مچار کہنے سے تنظیم کے کیا مفادات وابستہ ہوسکتے ہیں؟؟
اسی طرح گزشتہ دنوں گورنر بلوچستان ذولفقار مگسی پرناکام بم حملہ کو ایک بلوچ مسلح حریت پسند کی طرف سے قبول کیا گیاجس پر بیک وقت کئیسوالات جنم لیتے ہیں کہکیاان حملوںکا مقصد گورنر کو محض متوجہ کرنا تھا یا یہ حملہ اُن کو قتل کر نے کے لیے کیا گیا تھا ؟یہ بیان اس لیے بھی مشکوک ہے کہ گوریلا تنظیمیں ناکام کارراوئیاں قبول کرنے سے عموماً گریز کرتی ہیں اور گورنر پر حملے کا واقع ایسا نہیں کہ اس کے سیاسی اثرات پر غور نہیں کیا گیاہو ‘اگر ایسا ہی ہے تو اس کا یہی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بی ایل اے کے علاقائی کمانڈرز آزادانہ کارروائیاں کررہی ہیں جنہیں اپنے طور پر ہی قبول کیاجاتاہے (ان مندرجات کو ترتیب دیتے وقت یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ اسلم رئیسانی پر بھی ناکام خودکش حملہ کیا گیا ہے جس میں وہ محفوظ رہے ہیں اب تک کے اطلاعات کے مطابق یہ ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے )
اسی طرح انٹر نیٹ پر ایک شہید کی لاش برآمدگی کے بعداس کی میت کی تصویر کوایک فرضی کوڈ نام دے کر شائع کیا گیا تاکہ اُن کو گوریلا کمانڈر ثابت کیا جاسکے ۔جو اگر خیر خواہوں کی طر ف سے ہورہے ہیں تو ان کے روک تھام کی ضرورت ہے اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے زیر زمین کام کرنے والی تنظیموں کے راز بہ آسانی دستیاب نہیں ہونے چاہئیں۔شہید رسول بخش کی بہیمانہ شہادت کے پیچھے بھی کئی حماقتوں کی نشاندہی کی جاچکی ہیں اسی طرح ایک مغوی کارکن کی زیر زمین قیادت کے ساتھ تصویر کا منظر عام پر آنا بھی ان حساس سر گرمیوں میں غیر سنجیدہ عناصر کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں ۔شاید یہا ں اس بات کو مزید کریدنامناسب نہیں مگرعسکری وسیاسی قیادت کو یہ بات گرہ میں باندھنا چاہئے کہ بلوچ قوم کے سوچنے والے افراد تحریک میں اصلاح کے خواہاں ہیں ۔
شہید واجہ ( غلام محمد‘صدر بلوچ نیشنل موومنٹ)اپنے کارکنان کو اکثر یہ بات ذہین نشین کراتے تھے کہ ”بلوچستان میں لڑی جانے والی جنگ کو سیاست سے جدا نہ کیا جائے بلکہ ان حالات میں کامیاب وحقیقی سیاست عسکری جدوجہد ہے۔“سیاست وعسکری محاذکو ایک ہی سکے کا دورخ بنانے کے مراحل بھی عجلت میں نہیں حکمت میں طے کیے گئے ۔شہید واجہ کی ایک تقریر میں آپ کے الفاظ کہ ”یہ جنگ ہم پر مسلط نہیں کی گئی بلکہ ہم نے شروع کی ہے ‘ کو بلوچ قو م دوست سیاسی تاریخ کے مطالعے کے بعد درست قراردینا مشکل ہے ۔اس سے یہی مراد لینا زیادہ بہتر ہے کہ ”عسکری جدوجہدمحض ایک ردعمل نہیں بلکہ منظم وشعوری جدوجہد ہے ۔“یہاں قارئین یہ بات بھی ذہین نشین کر یں کہ ایک مقرر اسٹیج پر الفاظ کا چناﺅ سامعین کی ذہنی سطح کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے ۔اگر ہم اس بات سے یہی عمومی مطلب اخذ کر لیں تو عالمی سطح پر ہمارا مضبوط موقف کمزور ہوگا ۔میں کئی فورم پر دوستوں سے واضح اختلاف رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیتا رہاہوں کہ ”ہمیں پاکستانی مقتدرہ کے پروپیگنڈوں کی سمجھ ہونی چاہئے کہ وہ پاکستانی عوام سے اپنے جارحانہ اقدام کی حمایت کے لیے بلوچوں کو امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک کا آلہ کار بتاتی ہے‘ جنہیں مسلم ذہنیت رکھنے والے اکثر پاکستانی مسلم اُمہ کا دشمن سمجھتے ہیں۔ پاکستانی حکمران امریکہ کی نوازش اور پاکستان کے تحفظ کے حوالے سے نیٹو ممالک کے مثبت کردار کے باوجودان افواہوں کی سر کاری سطح پر حوصلہ افزائی بلوچ دشمنی کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ہمیں اس بات پر سنجیدہ ہونا ہوگا کہ دنیا باغیوں کی حمایت نہیں کرتی جس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہمیں خود کو مظلوم ثابت کر کے دنیا سے اپنی جدوجہد کی حمایت حاصل کرنی ہوگی ۔“حالیہ وکی لیکس کے انکشافات ‘امریکہ کا براھمدگ بگٹی حوالگی کے لیے کرزئی پر دباﺅ اور سنی بنیاد پر ایران سے بر سر پیکار تنظیم جنداللہ کے سر براہ مالک ریکی کی ایران حوالگی میں امریکی کردار کے افشاءہونے اور بعد ازاں جند اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے بھی تصدیق ہوچکاہے کہ امریکہ اور دنیا کی دوسری طاقتیں کسی ملک سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود بھی وہاں باغی گروپس کی حمایت نہیں کریں گیں حالانکہ جند اللہ کے بارے میں یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ اسے برائے راست اور بالواسطہ امریکی حمایت حاصل ہے ۔ یہی خیال کیاجاتاہے امریکہ کے اشارے پر سعودی عرب جنداللہ کو مالی امداد اور پاکستان اپنے زیر انتظام بلوچستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا رہاہے ۔ان باتوں پر یقین کر لیاجائے تو امریکہ کا محکوم قومیتوں کے حوالے سے وہی بھیانک کردار سامنے آتا ہے جو کسی زمانے میں روس کا تھا” قومیتوں کو آزادی کی لالچ دے کر اپنے پروکسی وار کا حصہ بنانا “۔بھارت اور پاکستان بھی اس طرح کی جنگیں چھیڑ کر ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے آئے ہیں ۔ ہندوستان میں ”خالصتان کی تحریک“( سکھوں کی علیحدگی کی تحریک ) کو پاکستانی حمایت حاصل ہونے کا ایک ثبوت( جس کا میں خود بھی مشاہدہ کر چکاہوں) اُن کا پاکستان میں ”کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کی تحریک “کے لیے جہادی بھرتی کرنے والی تنظیموں سے خطوط اور ایک دوسرے کے مذہبی تہوار کے موقع پر مبارک باد ی پیغام کا تبادلہ تھا ۔گزشتہ برسوں ہی یہ انکشاف کیا گیا تھاکہ خالصتان کی تحریک بے نظیر بھٹو کی مدد سے کچلی گئی تھی ۔ اسی ادوار میں پاکستان میں کشمیر کے جہادی تنظیموں کی فنڈنگ میں کمی اور پاکستان کی سیاست (خاص طور پر سندھ اور کراچی کی سیاست ) میں نمایاں تبدلیاں پید اہوئیں ۔وہاں خالصتان اور کشمیر میں بھارت مخالفت کا زور کم پڑگیا یہاں راکی پشت پناہی میں ایسے عناصر جو کہ پاکستان کے لیے کراچی وسندھ میں مسئلہ پیدا کررہے تھے ‘نے اپنا قبلہ درست کر لیا۔جس طرح سویت یونین کی مدد سے بلوچستان میں سرخ انقلاب کے لیے پرا مید بہت سے برائے نام قوم دوست لیڈر سویت یونین کے خاتمے کے بعد انقلاب سے مایوس ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے پاکستان کی چھتر سایہمیں پناہ لینا بہتر سمجھا ۔افغانستان میں جلا وطنی کے دوران مقیم بلوچ قائدین نے اپنی ناکامیوں کا محاسبہ و مطالعہ کیا جس کے نتیجےمیں یہ مشکل مگر درست فیصلہ سامنے آیا کہ ”بلوچ اپنی جنگ اپنے مفادات ‘استعداد اور وسائل کے مطابق لڑیں گے اور کسی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے ۔“اس فیصلے سے ناخوش کچھ قوم دوستوں جماعتیں یہی سمجھتی ہیں کہ کسی بیرونی طاقت کی مدد کے بغیرآزادی کا حصول ممکن نہیں لہذا بلوچوں کو پاکستان سے چھٹکارہ کے لیے امریکہ واسرائیل سے مدد لیناچاہئے لیکن اول الذکر قوم دوستوں نے اپنی پختگی اور غیر متنزل کردار کی وجہ سے یہ ثابت کردیا کہ وہ بغیر بیرون مدد پر انحصار کیے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں جب کہ موخر الذکر بیک وقت دوکشتی میں سوار مسافر بن کررہ گئے ہیں جو کبھی پاکستان سے چھٹکارہ کے لیے ابلیس سے مدد قبول کر نے کی بات کرتے ہیں ، کبھی نوجوانوں کوخود کش حملوں کی ترغیب دیتے ہیں اور کبھی اُنہیں پاکستان سے نرم خوئی نہ رکھنے پر مہم جو اور خود کشی کی راہ اختیار کرنے والے قرار دیتے ہیں ۔جبل سے پار لیمنٹ ، پارلیمنٹ سے جبل ‘خودارادیت سے آزادی اور آزادی سے خودارادیت کے درمیان سعی کرتی اس جماعت کے قائدین اپنے کارکنان کی بے مثل قربانیوں کے باوجودبلوچ قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں ۔
اس جدوجہد میں ”نظم ‘حکمت عملی اور عمل “وہ بنیادتھا جس نے اس جدوجہد کو مختصر مدت میں عوامی سطح پر کامیابیوں سے ہمکنار کر دیا ۔بلوچستان میں ساٹھ سال سے اس گندی اور مفاداتی سیاست کی جڑیں بڑی تیزی سے صاف ہوئیں جن کی آبیاری میںانہی قوتوں کا ہاتھ تھا جو عسکری جدوجہد میں متحرک ہوچکے تھے ۔کامیابیوں کا یہ سفر گزشتہ سال تک جاری رہا ۔مسلح حریت پسندوں نے اپنے ابتدائی حملوں میں ہی بلوچستان میں آبادکاری کے منصوبوں کوپیچھے دھکیل دیا ۔آبادکاری کی حوصلہ شکنی سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ۔تجارت پر غیر مقامیوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔یہ کامیابیاں غیر قبائلی علاقے کی ہیں جہاں آبادکاری کے میگا استحصالی منصوبے شروع کیے گئے ہیں ۔نیم قبائلی علاقوں میں سر کاری حمایت یافتہ سرداروں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ معاملات اب مزید اُن کے کنٹرول میں نہیں رہے ان علاقوں نے غیر قبائلی علاقوں کی نسبت تحریک کے لیے زیادہ گرم خون بہایا اور قبائلی زنجیروں کو کافی کمزور کردیا ۔قبائلی علاقوں میں مری قبائل میں سیاسی تدبر اور پختگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اس لیے مری نے جنگی محاذ پر مصروف ہونے کے باوجود تنظیمی طور پر اپنے رشتے دوسرے قبائل ‘نیم قبائلی اورغیر قبائلی علاقوں میں قائم کیے جن کے جنگی محاذ پر مثبت نتائج برآمد ہوئے ۔بگٹی قبائل نے جمہوری وطن پارٹی کا نام تبدیل کرکے بلوچ ری پبلکن پارٹی رکھنے کا انقلابی سفر طے کیا ۔بی آرپی نے اپنے قیام کے شروعاتی مہینوں میں ڈیرہ بگٹی کے علاوہ نیم قبائلی اور غیر قبائلی علاقوں میںبھی قابل رشک کامیابیاں حاصل کیں ۔
ماضی کے مدارج ومراحل کا اگر طاہرانہ مشاہدہ کیا جائے تو بلوچ جدوجہداپنے دعوے کے عین مطابق سیاسی خطوط پر استوار معلوم ہوتیہے ۔پارلیمنٹ کا طوق بلوچوں نے حکمت عملی اور پاکستان کے بلوچوں سے متعلق رویے پر راست ردعمل دکھا کراپنے گلے سے اُتارا ۔بلوچستان کی تحریک آزادی کے دوسر خیل شہید کمانڈر شہید بالاچ ( مری ) اور شہید اکبر ( شہید نواب اکبر خان بگٹی) میں سے اول الذکر دم شہادت پارلیمنٹ کا ممبر جب کہ موخرا لذکرایک ایسی جماعت کا سر براہ تھے جس کے ممبران پاکستانی سینٹ وپارلیمان میں موجود تھے ۔شہید بالاچ نے دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ وہ انتخابات اور ووٹ الیکشن کی سیاست کی نفی نہیں کرتے بلکہ پاکستان کی جمہوریت اور قومیتوں کے تشخص کی نفی اور اُن کے وسائل پر قبضہ کو تحفظ فراہم کرنے والے ریاستی آئین وقوانین کو جھٹلاتے ہیں ۔شہید بالاچ نے محض اپنے جذبات کی رومیں بہہ کر پارلیمنٹ سے نکل کر پہاڑوں کا رخ نہیں کیا کیوں کہ اس طرح بلوچ جدوجہد پر بغاوت کا عنصر غالب آجاتا‘دنیا کی نظروں میںوہ ایک غدار ہوتے جنہوں نے اس ملک کے قوانین ودستور کو پامال کیا جس کی پارلیمنٹ کا وہ اور اُن کے بزرگ ممبر تھے ۔اس لیے انہوں نے اپنی جوش کو عقل کے تابع کر کے تحمل وبردباری کے ساتھ شہید اکبرکے ان مطالبات کی حمایت کی جواس نے چوہدری شجاعت کی سر براہی میں ڈیرہ بگٹی آنے والے وفد کو پیش کیے تھے جو بعدازاں جمہوری وطن پارٹی کی طر ف سے بگٹی ڈوزیر کے نام سے کتابچہ کی صورت تقسیم کیے گئے ۔ان مطالبات میں بھی سر فہرست مطالبہ میں بلوچستان میں آبادکاری کے استحصالی منصوبوں میں بلوچوں کے خدشات کو دور کرنے پر زور دیاگیا تھا ”گوادر میں سرمایہ کاری کا یہ اصول وضع کہ سرمایہ کاروں کو زمین فروخت کرنے کی بجائے انچاس ور اکاون فیصد کی تناسب سے ( 51فیصدمقامی افراد کا اور 49فیصد سرمایہ کار کامنافع )شراکت کی بنیاد پر دی جائیں ۔“اب اسے اگرپاکستانی مقتدر طبقہ نے پاکستان دشمن مطالبہ کہہ کر بلوچ کے منہ پر دے مارا تو بلوچ کا ردعمل کیا ہونا چاہئے تھا ؟ شہید اکبر اس پر بھی ناراض ہوکر پہاڑوں پر نہیں گئے بلکہ انہوں نے اپنے قلعے میں قیام کر کے ڈائیلاگ اور گفت وشنید کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے رکھے آپ کی کرشماتی شخصیت اور علمی انداز کی وجہ سے دنیا کی میڈیا آپ کی طرف متوجہ ہوئی جس سے پاکستانی مقتدرہ کومعاملہ بگڑنے کا خدشہ ہوا جس پر انہوں نے شہید اکبر کوقتل کرنے کے لیے اُن پر بلااشتعال جارحانہ حملے کیے یہ حملے بلوچوں کے لیے پاکستان کی طرف سے باعزت مذاکرات کے دروازے بند کرنے کا اعلان تھے جس کے امکانات کو شہید اکبر کے تابوت کوتالے لگاکر 26اگست 2006 کوڈیرہ بگٹی میں ہمیشہ کے لیے دفن کردیا گیا ۔اس کے بعد بقول بابامری (نوا ب خیر بخش) ”مذاکرات اب!؟ تب ہوسکتے تھے جب ہم پارلیمنٹ میں تھے اب ہم جنگ کررہے ہیں ۔“
اس کے بعد بلوچ مسلح حریت پسند تنظیموں نے اعلانیہ گوریلا کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ‘درست حکمت عملی زبر دست تنظیم باہمی احترام کے ماحول نے جنگ کو نہایت مختصر مدت میں بلوچستان کے طول وعرض میں پھیلا دیابجا طور پر بلوچوں نے پاکستانی مقتدرہ کی طرف سے بزور مسلط کردہ جنگ کو اپنی قومی جنگ بناکر ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔پاکستان نے ابتد اہی سے بلوچستان میں سیاسی رہنماﺅں کو ٹارگٹ بناکر قتل کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی شہید اکبر کے ایک سا ل بعد شہید بالاچ کو ٹارگٹ کر کے شہید کردیا گیا یہ پاکستانی فوج کی ایک بڑی کامیابی قرار دی جاتی ہے لیکن اس کے نتائج یک طرفہ ہرگز نہ تھے ۔ بلوچوں نے اپنے اس سفر میں کہیں بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ انہو ں نے مسلح جدوجہدکا راستہ ترجیحاًاختیار کیا تھا بلکہ یہ با ت ثابت کرنے کے بعدکہ ان کے لیے بندوق اُٹھانے کے سواءکوئی راستہ باقی نہیں بچاانہوں نے مسلح تحریک کا آغازکیا۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعدبین الاقوامی طور پر پاکستا ن کے متعلق یہ تاثر پیدا ہو اکہ اب جمہوری حکومت بلوچستان کا مسئلہ کو گفت وشنید سے حل کرنے میں سنجیدہ ہے ‘نومنتخب صدر پاکستان نے ماضی کی زیادتیوں کو تسلیم کیا ‘سیاسی کارکنان کو اغواءکرنے کے ریاستی جراہم تسلیم کرکے اُن کے ازالے کا تاثر پیدا کیا گیا ۔بلوچستا ن کی صوبائی حکومت میں پہلی مرتبہ وزیرا علیٰ اور گورنر کے دونوں کلیدی عہدے بلوچوں کو دیے گئے اوروہ بھی عام بلوچوں کو نہیں بلوچ قومی سپریم کونسل کے دو اہم عہدیداروں(ذولفقار مگسی اور اسلم رئیسانی ) کو جنہوں نے قلات میں منعقد بلوچ سردارو ں اور سیاسی جماعتوں کے مشترکہ تاریخی جرگہ میں بلوچستان کے مسئلے کوعالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا عہد کیا تھا ۔دنیاکوبلوچوں سے بھی اسی طرح کے سیاسی ردعمل کی توقع تھی اس پر پورا اُترتے ہوئے بلوچ حریت پسند جماعتوں نے مشترکہ طور پریک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر کے اپنی دانشمندی ، سیاسی بردباری اور جنگ آزادی میں لچکدار ہونے کا ثبوت دیا۔بی ایل اے( بلوچ لبریشن آرمی ) کا ایک تفصیلی بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے اسلم رئیسانی کو شریف آدمی کہا تھا ۔عسکری تنظیموں کے اس فیصلے کو بی این ایف میں شامل جماعتو ں نے بھی تائید کی ۔لیکن پاکستان مقتدرہ نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی برقرار رکھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام نہاد جمہوری دور حکومت میں بلوچستان کی تاریخ میں مظالم کا ایک بدترین سلسلہ شروع کیا گیا ۔اب اگر اسلم رئیسانی اور ذولفقار مگسی بلوچ مسلح حریت پسندوں کے بارے میں اشتعال انگیزبیانات اور دروغ گوئی سے کا م لے رہے ہیں تو یہ پاکستانی مقتدرہ کے ہی کہنے پر ہوسکتاہے کہ تاکہ بلوچ قبائل کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جائے اور دونوں صاحبان کو قبائل میں سیاسی ہمدردی ملے کہ ”دیکھیں یہ آزادی کی سیاست کرنے والے اب ہماری جان کے بھی دشمن ہوگئے ہیں “ورنہ جو اناپ شناپ اسلم رئیسانی بول رہے ہیں اس پر غصہ آنا فطری عمل ہے مگر ہمیں دوراندیشی کا مظاہرہ کرکے رئیسانی کو یاد دہانی کرانی ہوگی کہ بلوچ مسلح حریت پسندوں نے اُن کی حکومت کے قیام کے بعد خیر سگالی کے جذبے کے تحت اپنی طرف سے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر کے اُن کے لیے گلے شکوے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے ۔اب یہ اُن کی شرافت ہوگی کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر کے دودن کی نوکر ی کی خاطر اپنے قبائلی احترام کو خاک میں نہ ملائے ۔
رئیسانی دور حکومت میں بلوچستان میں شروع کیے جانے والے مظالم کے سلسلے کا بلوچستان کے ایک عظیم قومی ہیرو کے بہیمانہ اغواءاور قتل سے آغاز کیا گیا ۔ جنہوں نے اپنے بے داغ کردار اور اخلاص کی وجہ سے بلوچستان بھر میں ایک غریب شخص ہونے کے باوجود باعزت مقام پیدا کیا ۔ 3اپریل 2009کوشہید واجہ ( غلام محمد بلوچ ) کو تربت میں بوگس مقدمات میں پیشی کے موقع پر عدالت کے احاطے میں کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفترسے دو اور ساتھیوں شہید لالہ منیر اور شہید شیر محمدسمیت اغواءکر کے بہیمانہ طریقے سے قتل کے بعد اُن کی میتیں مرگاپ کی ندی میں پھینک کراس عمل کی ایک طرح سے افتتاح کی گئی ۔اس دن دہاڑے مجرمانہ واردات میں ریاستی جراہم کی پردہ پوشی کی بھی قطعاًضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر کو فورسز کی گاڑیو ں میں سوار مسلح افراد نے گھیرے میں لیاجن کو ایف سی کے باوردی اہلکاروں کی مدد بھی حاصل تھی ۔اُن کی میتوں کوپھینکنے کے بعد جگہ کی نشاندہی بھی خفیہ اداروں نے بالواسطہ رابطوں کے ذریعے کیا یہ بلوچوں کے لیے پاکستان کی طرف سے ایک اور واضح پیغام تھا کہ” اب بلوچوں کی سیاسی قیادت بھی خود کو محفوظ سمجھنے کی غلط فہمی سے نکل آئے ۔“بعض ذرائع کے مطابق بلوچوں کے خلاف اس جارحیت کو فورسزنے ”آپریشن خاموش“کانام دے رکھا ہے جسے پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک بارہا”ٹارگٹڈ آپریشن “کہہ کر تسلیم کرچکے ہیں جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے گزشتہ مہینوں میں اس کی شدت میں اس قدر اضافہ ہواہے کہ صرف پچھلے مہینے چالیس بلوچ سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ میتیں ملی ہیں جن میں بہت سوں کی شناخت آسان بنانے کے لیے فورسز نے پرچیوں پر اُن کے نام ولدیت اور سکونت لکھ کر اُن کی جیب میں ڈالیں تھیں ۔بلوچستان کے طول وعرض میں یکساں اور علامتی ( سمبلک ) انداز قتل اپنایا جارہاہے ۔بیشتر لوگوں کو سر اور دل میں ایک ایک گولی مار کر قتل کے بعد میتیں برساتی نالوں میں پھینکے جارہےہیں ۔واضح پیغام یہی ہوسکتا ہے کہ ” اپنے دل اور دماغ سے بلوچستان کو نکال دوورنہ تمہاری دریائیں خون سے بھر دی جائیں گے ۔“
یہاں بلوچ نوجوانوں کودادشجاعت دیے بنا نہیں رہاجاسکتا اوراُن تمام شہداءکے گھرانوں کوجو شہادتوں کو خنداں پیشانی سے قبول کررہے ہیں۔ ایسے گھرانے جو شہداءکی میتیں وصول کرنے سے پہلے بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے خائف تھے ان ریاستی وارداتوں کے بعدجدوجہد کے صف اول میں آگئے ہیں۔یہ حالات بظاہر بلوچ قومی تحریک کے لیے ناسازگار ہیں لیکن درحقیت یہ قربانیاں بلوچ قومی تحریک کی یقینی کامیابی کی ضامن ہیں اوراسی میں پاکستان کی قیامت خیزیوں کا راز بھی پوشیدہ ہے انہوں نے بلوچ سیاسی قائدین کو نشانہ بناکر دراصل عسکری اور سیاسی محاذ کو قیادت سے محروم کرنا چاہا ہے ۔ درجہ اول اور درجہ دوم کی قیادت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بعد درجہ سوم کی قیادت کودانستہ نظر انداز کر کے مسقبل کی قیادت( طلباءقیادت ۔بی ایس او(آزاد) ) ، متحرک کارکنان اور درجہ اول ودوم کی محفوظ قیادت کو تلاش کر کے قتل کر نے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے جب کہ بی این پی( مینگل) کے بعض قائدین کے قتل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اپنے طور پر بلوچستان کو سیاسی قیادت سے بانجھ کرناچاہتی ہے اور بی این پی ( مینگل )آزادی کی تحریک میں اثر ورسوخ نہ رکھنے کے باوجودپاکستانی مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہیں !!۔
بلوچ سیاسی قائدین کو نشانہ بنانے سے قیادت( نیم قبائلی وغیر قبائلی علاقے زیادہ متاثر ہوئے ) ایک ایسی نسل کے ہاتھ میں آ گئی جو زیادہ پڑھا لکھا ، ذہین ریڈیکل اور سائنسی اُصولوں سے واقف ہونے کے باوجود میدان عمل میں نوآموزاور اپنی تحریک کے نشیب وفراز کی باریکیوں سے آگاہی نہیں رکھتی۔اس تحریک کو جیسا کہ مندرجہ بالامختصر اشاریوں میں بیان کیا گیا ہے سیاسی بنیادوںپر استوار کیا گیا تھا ‘جنگ کو اولیت حاصل تھی لیکن اہداف کا چناﺅ سیاسی مفادات سے ہم آہنگ رہ کر کیا جاتاتھا ۔ اب قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے کہ جنہیں بنیادی تربیت مکمل کرنےکے لیے زیادہ وقت نہیں ملاہے۔پاکستانی مقتدر ہ کی جنگی حکمت عملی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں ، عسکری وسیاسی تنظیموں میں مخبروں کو داخل کر نے کی کامیابی کے بعد قائدین کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کے حل سے قبل ہی اُنہیں شہید کیا گیایہی غلط فہمیاں موجودہ قیادت میں ذہنی تقسیم کا سبب ہیں لیکن سب سے اہم او ر حوصلہ افزاءبات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود دوسرے ہم عصر یا ماضی کی مسلح حریت پسندتنظیموں کے برعکس تصادم سے بچا گیا۔یہ زیادہ معاملہ فہم اور باصلاحیت افراد کی تنظیمی اختیارات سے دست برداری سے ممکن ہو ا ہے جس کے منفی نتائج موجودہ حالات میں نظر آرہے ہیں ۔لیکن آج حالات گزشتہ چھ مہینوں سے مختلف ہیں نئی قیادت کی گرفت اپنی تنظیموں پر مضبوط ہیں ۔اُنہیں اپنے اصلاح کے لیے غور وفکر اور اپنی حکمت عملیوں پر عمل کرنے سے روکنے والے بظاہر نظر نہیں آتے اس لیےاُنہیں اپنی تحریک کے تسلسل میں پیدا ہونے والی خلیج پاٹنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی ۔غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ روش سے چھٹکارہ حاصل کر کے دوبارہ اُسی رویے کی طرف رجوع کرنا ہوگا جس کی وجہ سے ماضی میں تحریک کو زبردست کامیابیاں نصیب ہوئی تھیں۔
بلوچ عسکری محاذ میں سیاسی تدبر کی وجہ سے قبائلی اورعلاقائی جھگڑوں سے گریز کیا گیا۔میں نے بلوچ نیشنل موومنٹ سے وابستگی کے شروعاتی دنوںمیں شہید واجہ ، شہید لالہ منیر اور دیگر قائدین سے بارہا یہ استفسار کیا وہ اپنے اُن پرانے ساتھیوں کو تحریک آزادی میں غداری کی مروجہ سزاءدینےکے بار ے میں کیوں سنجیدگی سے نہیں سوچتے؟ ان کا جواب اب بھی میرے کانوں میں گونج کر اپنے قائدین کی دانشمندی کی دلالت کرتا ہے ”ہم انہیں سیاسی محاذ پر شکست دے کر اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے کہ وہ اپنی سیاست چمکا سکیں “( یہ جواب ایک کانہیں بہت سو ں کا تھا جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُن کی تنظیمی پالیسی کاحصہ تھا ) اور انہوں نے یہی کردکھایا مجھے شہید واجہ کی اپنی فتح مندی پر نیم خنداں لب اور چمکتی آنکھیں اب بھی یاد ہیں جوشاید یہی کہہ رہے تھے کہ ”میں نہیں کہتا تھا کہ میں اپنے منحرف ساتھیوں کے لیے سیاست کا داہر ہ تنگ کردوں گا‘وہ ہر محفل میں خوفزدہ ہوکر جائیں گے اور شرمندہ ہوکر اُٹھیں گے ۔“شہید لالہ منیر تو جیسے اس دن کے لیے ہی جی رہے تھے جب گوادر میں وہ ہزاروں کے جلسہ عام میں کہہ سکیں”مالک ! تم نے کہا تھا کہ بی این ایم غلام محمد سے شروع لالہ منیر سے ختم ہوتی ہے ‘آﺅ دیکھو یہ کون ہیں ۔“ اور اُنہوں نے غداروں سے بدلہ لے لیا ۔لیکن ان قائدین کی شہادت کے بعد نوجوانوں نے جذبات کو سیاست پر حاوی کر لیا ۔مولابخش کے قتل میں ملوث نہ ہونے کے باوجود اس طرح کے تاثر دیے گئے کہ جیسے مولابخش کو ایک تنظیمی فیصلے کے تحت ہی قتل کیا گیا ہو ۔اس حوالے سے دیے گئے بیانات جذبات کی انتہاﺅں کو چھورہے تھے لیکن ان میں سیاسی بالیدگی نہ ہونے پر ہر سنجیدہ محفل میںان پرناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا تھا ۔وہ نیشنل پارٹی جو پہلے دفاعی پوزیشن میں تھی اپنی بچہ تنظیم کے ساتھ جارحیت پراُتر آئی آزادی پسندوں کے خلاف لکھنے لکھوانے کا سلسلہ شروع ہو ا۔ایک اہم مسلح حریت پسند رہنماءکی طرف سے مولابخش قتل سے لاتعلقی کے واضح اور قابل تعریف سیاسی الفاظپر مشتمل بیان کے بعد بھی نیشنل پارٹی بضد رہی کہ مولابخش دشتی کو بلوچ لبریشن فرنٹ نے ہی قتل کیا ہے ۔اس واقعے نے شہید واجہ اور اس کے دوستوں کے خدشات کو درست ثابت کردیا۔ اُن کی حکمت عملی نے کچکول ایڈوکیٹ جیسی شخصیات کو اپنی پارٹی کے منفی کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیااور ہماری حکمت عملی نے ہمارے اپنے صفوں میں ایک بے چینی پیدا کردی ہے ۔ان حقائق پر شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دینے یا مست ہاتھی کی طرح چنگاڑنے سے بات نہیں بنے گی ان اصلاح طلب پہلوﺅں کی نشاندہی کوئی دشمن آکر نہیں کرئے گا یہ ہماری کمزوریاں ہیں جوہمیں ہی دور کرنی ہیں ۔
بی این ایف میں برائے نام جماعتوں کو اہم ذمہ داریاں دینے سے یہ اتحاد سیاسی طور پر زیادہ تر منتشر ہی رہا ہے ۔بی این ایم جس کا منشور لچکداراور سیاسی ہونے کی وجہ سے دوسری جماعتوں سے اُلجھنے کی ممانعت کرتا ہے کےلیے یقینا بی این ایف کے فلیٹ فارم پر دوسری جماعتوں کے قائدین کے لیے سخت ، نازیبا اور غیر سیاسی الفاظ کا استعمال اس کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ اس لیے وہ اس پر احتجاج کرنے میں حق بجانب تھا کہ” اتحاد محض مشترکہ نکات پر کا م کرئے “ یا بی این ایف کو جنداللہ سے جوڑنے پر جو احتجاج کیا گیا آج اس پربی این ایم کا موقف درست اور احتجاج کی ضرور ت ثابت ہوگئی ہے ( جنداللہ کو عالمی طو ر پر ایک دہشت گردی تنظیم سمجھاجانے لگا ہے ‘ اسی خدشے کے پیش نظربی این ایم نے جنداللہ سے اپنے منشور میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا) باوجود ان اختلاف کے بی این ایف ایک مضبوط اتحاد کے طور پر کام بھی کرتا رہا۔ اس لیے بلوچ قائد ھیر بیار مری کی بحیثیت عالمی نمائندگی کی تقرری کے معاملے پراختلاف کوبھی اس اتحاد کے ختم یا غیر فعال کر نے کے لیے جواز نہیں بننا چاہئے البتہ برائے نام جماعتوں کے کردار کو ختم یا محدود کرنے کی ضرورت ہے ۔بی این ایف کا بنیادی نعرہ” تین نکات ”آزادی ۔غیر پارلیمانی سیاست ۔مسلح حریت پسندوں کی حمایت “کی بنیاد پر بلوچستان کی ہر پارٹی سے اتحاد “ آج بھی اتحاد سے باہر قوم دوست جماعتوں کے نعروں پر بھاری ہے اس کے لیے ماضی کی طرح سیاسی اختلافات کو محض سیاست تک ہی محدود رکھ کر سیاسی شخصیات کو بلا وجہ زیر بحث لانے سے گریز کی پالیسی جاری رکھنے کی ضرورت ہے ‘چاہئے دوسری جماعتیں کتنے ہی مخالفانہ بیانات دیں ہمیں بہرحال اپنی پالیسیوں پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔
دوسروں کے کردار کو زیر بحث لاکر دراصل ہم عوامی قوت کی نفی کرتے ہیں اس کے لیے یہی مثال کافی ہے کہ آج بلوچ قومی شہداء، قائدین اور اغواءشدگانمیں ایسے لوگ قابل ذکرہیں جوماضی میں مخالف جماعتوں کے لیے کام کرتے تھے ‘وہ سیاسی کارکنا ن سے قربت کی پالیسی اور جھدکاروں کے دوستانہ رویے کے بناءہ تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے تھے یہ قربت طے شدہ سیاسی حکمت ودانشمندی کے بغیر موثر نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔
سب سے اہم بات ہمیشہ یہی ہے کہ ہر واقعے اور معروضی تبدیلی کو سیاسی تناظر میں ہی دیکھا جائے حکمت عملی طے کرتے وقت جذبات کو انگیخت کرنے والی گفتگو ( ہمارے ایک دوست تنظیم کے سب سے اعلیٰ اجلاس میں بھی رقت آمیز الفاظ استعمال کرتے تھےجن کے فیصلوں پر منفی اثرات پڑھتے تھے یہ ایک طرح سے اپنی بات منوانے کے لیے ایموشنل بلیک میلنگ ہے )اور اندازے قائم کرنے سے گریز کرنا ہوگا (ایک دوست کے اندازوں سے ایک آدھ دفعہ میں بھی یہی سمجھ بیٹھا کہ بلوچستان بس کل ہی آزاد ہونے والا ہے )۔حکمت عملی ٹھوس حقائق جن کو جھٹلانا تقریبا ًناممکن ہوکی بنیاد پر بنائی جائیں ۔ہر پالیسی کی اجراءکے وقت سب سے پہلے منفی پہلوﺅں کو اُجاگر کرنے سے غلطی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ۔ہمارے یہاں اس سے پہلے کہ سیاسی قیادت پالیسی دے ہم چائے خانوں اور اخباری دانشوران کی شہہ پر ماحول کو اس قدر آلودہ کردیتے ہیں کہ اگر قیادت کا فیصلہ سامنے آئے تو اس کے مختلف ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔طلباءکو قومی سطح کے سیاسی فیصلوں میں اس قدر آزادی ہے کہ وہ اپنی زبردست استعداد کار اور صلاحیتوں کی وجہ سے قومی جماعتوں کے فیصلوں پر بھی حاوی ہیں ۔
پروپیگنڈہ اور حقائق میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث اکثر معاملات میں ہم پروپیگنڈہ کے زیر اثر رہتے ہیں جس سے بلوچ قوم کے متعلق یہ غلط تاثر عا م ہے کہ بلوچ قومی تحریک ”قومی دوست “اور ”لبرل “خیالات کی بجائے ”شاﺅنسٹ“( نسل پرست ) ہے ۔بلوچستان میں آبادکاروں کے قتل کے الزام کا دفاع کرنے کی بجائے اس جھوٹ کو قبول کیاجاتاہے ( جس طرح گزشتہ دنوں ایک انتہائی بزرگ سیاستدان نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی )۔کبھی اس کے سیاسی اثرات پر غور کیا گیاہے ؟؟یا کبھی ہم نے اُن نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت محسوس کی‘ جو غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بلوچ تمام پنجابیوں کو قتل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ؟کبھی آپ نے غور فرمایا کہ بلوچ قائدین براھمدگ اور ھیر بیارکو اس کی تردید کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ کبھی یہ سوچا کہ کہیں یہ ہمارے خلاف دانستہ پروپیگنڈ ہ تو نہیں کیا جارہا ؟ہم اس بات کو کیوں سامنے لانے سے شرمندہ ہیں کہ بلوچستان میں آج تک ایک بھی آباد کار ( پنجابی یا غیر پنجابی ) کو آباد کار ہونے پر قتل نہیں کیا گیا ۔بلوچستان میں زیادہ تر قتل ہونے والے پنجابی آباد کار نہیں بلکہ بہروپیا مخبر تھے ۔ ً پنجابی آباد کاروں کی بلوچستان میں سب سے بڑی تعدادغالباً مچ اور اس کے اطراف میں آباد ہے جن کو مقامی بلوچوں جتنے ہی حقوق حاصل ہیں۔ رہی بات مخبروں کو قتل کرنے کی تواس میں بلوچ عسکری تنظیموں نے نسلی امتیاز نہیں برتا بلکہ پنجابیوں سے زیادہ بلوچ مخبر قتلہوئے ہیں۔ان تنظیموں نے اپنے بیانات میں بھی واضح کیاکہ مخبر کی کوئی نسل نہیںہوتی بلکہ مخبر صرف مخبر ہوتا ہے ۔
کیا کبھی ہم نے بلوچ قومیت کے اجزائے ترکیبی پر غور کیا ؟ یہ نسلی قومیت نہیں بلکہ سیاسی قومیت ہے جو مختلف نسلوں کے اتحاد سے وجود میں آیا ہے۔بلوچ قومی ڈھانچے میں نسل پرستی کی گنجائش ہی نہیں بلکہ ماضی میں بلوچ بننا مذہب تبدیل کرنے جتنا ہی آسان تھا جس طرح ایک نومسلم پر لازم ہے کہ اسلامی اقدار اور اللہ کی وحدانیت کا زبان وقلب سے اقرار کرئے اسی طرح بلوچ کے ”ھڈ پروش “کے رسم میں اپنی وفاداریاں بلوچ قوم سے جوڑنے اور اس کی ثقافت اختیار کرنے کی شر طیں لگائی جاتی تھیں ۔حالیہ بلوچ قومی تحریک کی ایک اہم آزادی پسند سیاسی جماعت کے چیئر مین کے بعد دوسرے اہم لیڈرنسلا ً پنجابی اور ایک خاتون لیڈر مہاجر ہیں لیکن نہ وہ کبھی خود کوغیر بلوچ سمجھتے ہیں نہ کبھی اُنہیں کسی سنجیدہ حلقے نے یہ احساس دلایا ہے کہ وہ بلوچ نہیں ہیں ۔ان دلائل کے ہوتے مجھے نہیں لگتا ہے کہ بلوچ قوم کو دسروں کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر خود کو ”قوم دوست “کی خوبصورت اور فطری شکل میں پیش کرنے کی بجائے ”شاﺅنسٹ “اور دوسری قومیتوں کے لیے عدم برداشت کا جذبہ رکھنے والی قوم کی حیثیت سے متعارف کرنا چاہئے کیوں کہ بلوچ قوم کی بنیاد ہی نسلی اختلاط سے پڑی ہے اور بلوچیت دستور العمل ہے نہ کہ ورثہ ۔بابامری اسی بنیاد پرفرماتے ہیں کہ ”بلوچیت کا اپنا ایک پیمانہ اورمعیار ہے ۔“
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بعض حقائق چھپائے یا تبدیل کیے جانے سے تحریک کو فائدہ ہوتا ہے عسکری تنظیموں کی روایا ت میں بعض ایسی کارروائیاں بھی کی جاتی ہیں جن کو قبول نہیں کیا جاتا۔زیادہ تر کارروائیاں قبول کی جاتی ہیں تاکہ عسکری تنظیموں کے اہداف سے متعلق کسی قسم کا ابہام نہ رہے ۔گزشتہ دنوں پیش آنے والے چند واقعات ایسے تھے جنہیں مسخ کر کے کم وبیش سر کاری موقف کی تائید کی گئی ۔ان میں شہدائے تربت کا المناک واقعہ بھی شامل ہے جس میں ایف سی اہلکاروں نے تربت میں یک دسمبر 2010 کوایک بلوچ معتبر شخصیت ایوب جان گچکی کے گھر پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا ۔بلوچستان میں آئے دن سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لوگوں کے اغواءکے بعد مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی کے بعد یقیناًاُن نوجوانوں میں بھی یہ خوف موجود تھا کہ اُنہیں اغواءکر کے قتل کیا جاسکتا ہے لہذ ا‘انہوں نے اپنی حفاطت کے لیے رکھے گئے ہتھیاروں سے فورسز کو اپنے گھر سے دور رکھنے کی کوشش کی جس پر ایف سی نے مشتعل ہوکر اُ ن کے گھر پر اس قدر گولہ باری کی کہ پوری عمارت ڈھے کر کھنڈر بن گئی جس کے نیچے دبنے سے پانچ نوجوان مراد جان ولد ایوب گچکی،زبیر ولد ایوب گچکی،حاصل ولد جاڑو،ھمل ولد درجان اور ماجد ولد حسن شہید ہوئے۔شہداء میں ایوب جان کے دو شہزادگان (ٹین ایج بیٹے) ، باورچی ، ڈرائیوراور ایک مہمان شامل تھا ۔جس وقت یہ جنگ جاری تھی پوری بلوچستان میں یہ افوائیں گشت کررہی تھیں کہ” تربت میں سر مچاروں اور ایف سی کے درمیان آمنے سامنے جنگ ہورہی ہے جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور سو ایف سی اہلکار کے مارے گئے ہیں“ یہ اطلاعات مکمل غلط ثابت ہوئیں ۔لیکن دوسرے دن اخبارات میںایک مسلح تنظیم کے نام سے بیان شائع ہوا جس میں شہدا ءکو اپنا سر مچار قرار دے کر اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی گئی ( حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ جارحیت ایف سی کی یک طرفہ تھی جس میں پانچ معصوم بلوچ شہید ہوئے ) اس قبولیت پر یقینا ً سوچنا چاہئے تھاکہ اس کے سیاسی فائد ے اور نقصانات کیا ہیں ؟اورایف سی کی غلط بیانی کے پیچھے کیا سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں ۔یقیناً وہ رائے عامہ کو گمراہ کر کے معصوم شہداءکو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہے ( غلط قبولیت سے اُنہی کاہی فائدہ ہواہے ) ۔یہ واقعہ شہید سدومری ، شہید میرجان میرل ، شہید ریاست ، شہید یحییٰ ، شہید نورالحق اور شہید قدیر کی شہادت سے مختلف ہے مذکورہ تمام شہداﺅں کی شہادتیں ایسے مقامات اور ایسی حالت میں ہوئی ہیں کہ ان کو سر مچار کہنے سے تحریک کی شہرت میں اضافہ اور شہداءکی قربانیوں سے آگاہی کا مثبت پہلو نکلتا ہے۔ لیکن شہدائے تربت کے واقعے میں پاکستان کی جارحیت کونمایاں کرنے اور اس کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ اگر یہ لڑائی حقیقی معنوں میں سر مچاروں کے ساتھ بھی ہوتی تو ہم اسے قبول نہیں کرتے کیوں کہ فورسزکسی مجرم کو بھی ماورائے عدالت قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں ۔یہ بیان اُن کے فیملی کے لیے بھی مزید پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے(ان مندرجات کی تصحیح کرتے ہوئے خبرملی کہ ایف سی کی طرف سے ایوب جان گچکی کے خلاف دہشت گردی او ر کارسر کار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا گیاہے ) اور تنظیم کی ساکھ پربھی سوال اُٹھ سکتا ہے کہ آخر ایوب جان کے دونوں شہزادگان ‘ڈرائیور اور باورچی کو اپنے سر مچار کہنے سے تنظیم کے کیا مفادات وابستہ ہوسکتے ہیں؟؟
اسی طرح گزشتہ دنوں گورنر بلوچستان ذولفقار مگسی پرناکام بم حملہ کو ایک بلوچ مسلح حریت پسند کی طرف سے قبول کیا گیاجس پر بیک وقت کئیسوالات جنم لیتے ہیں کہکیاان حملوںکا مقصد گورنر کو محض متوجہ کرنا تھا یا یہ حملہ اُن کو قتل کر نے کے لیے کیا گیا تھا ؟یہ بیان اس لیے بھی مشکوک ہے کہ گوریلا تنظیمیں ناکام کارراوئیاں قبول کرنے سے عموماً گریز کرتی ہیں اور گورنر پر حملے کا واقع ایسا نہیں کہ اس کے سیاسی اثرات پر غور نہیں کیا گیاہو ‘اگر ایسا ہی ہے تو اس کا یہی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بی ایل اے کے علاقائی کمانڈرز آزادانہ کارروائیاں کررہی ہیں جنہیں اپنے طور پر ہی قبول کیاجاتاہے (ان مندرجات کو ترتیب دیتے وقت یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ اسلم رئیسانی پر بھی ناکام خودکش حملہ کیا گیا ہے جس میں وہ محفوظ رہے ہیں اب تک کے اطلاعات کے مطابق یہ ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے )
اسی طرح انٹر نیٹ پر ایک شہید کی لاش برآمدگی کے بعداس کی میت کی تصویر کوایک فرضی کوڈ نام دے کر شائع کیا گیا تاکہ اُن کو گوریلا کمانڈر ثابت کیا جاسکے ۔جو اگر خیر خواہوں کی طر ف سے ہورہے ہیں تو ان کے روک تھام کی ضرورت ہے اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے زیر زمین کام کرنے والی تنظیموں کے راز بہ آسانی دستیاب نہیں ہونے چاہئیں۔شہید رسول بخش کی بہیمانہ شہادت کے پیچھے بھی کئی حماقتوں کی نشاندہی کی جاچکی ہیں اسی طرح ایک مغوی کارکن کی زیر زمین قیادت کے ساتھ تصویر کا منظر عام پر آنا بھی ان حساس سر گرمیوں میں غیر سنجیدہ عناصر کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں ۔شاید یہا ں اس بات کو مزید کریدنامناسب نہیں مگرعسکری وسیاسی قیادت کو یہ بات گرہ میں باندھنا چاہئے کہ بلوچ قوم کے سوچنے والے افراد تحریک میں اصلاح کے خواہاں ہیں ۔
٭٭٭
07/12/2010
Jowan Qazi
”ہم انہیں سیاسی محاذ پر شکست دے کر اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے کہ وہ اپنی سیاست چمکا سکیں “
آپ نے مندرجہ بالا معقولہ واجہ غلام محمد بلوچ سے منصوب کیاہے۔ شاید آپکو اس معقولہ کے اصلا مطلب کا درک نہیں ہے۔ لیکن باشعور لوگوں کو آپ یہ بتا رہے ہیں کہ شھید غلام محمد بلوچ کی زندگی کا مقصد صرف نیشنل پارٹی کو زیر کرنا رہا ہے۔
حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ غلام محمد بلوچ عوام کو اپنے انداز میں آزادی کی طرف راغب کررہے تھے۔ اور نیشنل پارٹی کا اپنا طریقہ کار ہے۔
ایک لکھاری کی حیثیت سے آپ پر ذمہ داری عائد ہے کہ آ بلوچ عوام اور سیاسی لوگوں کو مشترکہ گراؤنڈ پیدا کرنے کا درس دیں۔ کیوں کہ نیشنل پارٹی ایک منظم اور مضبوط سیاسی پارٹی ہے۔ جسے ٹکھرانا قوم کے لیے
گرانبہا نقصان ہے۔
ولید گربنی
شہید واجہ کا مفہوم بالکل یہی ہے نہ آپ کبھی اس کے اظہار میں ہچکچائے نہ ہمیں یہ بیان کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی ہے ۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دو الگ الگ پارٹیاں بنانے کا مقصد دو بھائیوں کا باپ کے گھر سے نکل کر الگ الگ مکان تعمیر کر نے جیسا ہے تو معاف کیجئے گا میں ایسا نہیں مانتا شہید واجہ کی بی این ایم غیر پارلیمانی بلوچ قوم دوست سیاست پر یقین رکھتی ہے اس کے کارکنان بلوچستان سے غلیظ نام نہاد قوم دوستانہ سیاست کی بیخ کنی کے لیے سر توڑ کوشش کررہے ہیں اور اس کے لیے اپنا خون تک بہا رہے ہیں ۔گربنی صاحب بی این ایم کے جدوجہد اور نیشنل پارٹی کے مقصد کو ایک قرار دے کر خود کو دھوکا نہ دیں ، اب سادہ لوحی کا زمانہ گزر چکاہے آپ ایک دن بلوچستان میں گزاریں یقیناً آپ کی سوچ تبدیل ہوگی۔
لکھاری راھزن کو رھنماء بنانے کی تبلیغ اپنی جگہ لکھنے تک کے گناہ سے اجتناب کرتے ہیں اور میرے خیال میں آپ کو بھی اس کا پاس رکھنا چاہئے۔