”غدار“ میر ے ایک غیر مطبوعہ فسانے کا عنوان بھی ہے جو کہ میرے مرتب کردہ افسانوں کی زیر طبع کتاب ”سرتگیں برنج “میں شامل ہے ۔سر تگیں برنج کا تخلیقی معیار شایداتنابلند نہیں کہ ناقدین کی توجہ حاصل کر پائے لیکن اس میںکئی افسانے ہماری اپنی بپتا ہیں ،افسانوں کے واقعات وکردار سب غیر حقیقی لیکن احساسات سچے اور کھرے ہیں ۔”غدار “دراصل میرے اپنے بارے میں پیشن گوئی تھی جو میرے اغواءکی واردات کی ناکامی کے بعدمیری کہانی نہ بن سکی ‘لیکن میری پیشن گوئی غلط بھی نہیں، نہ ہی غیر حقیقی واقعات وکردار کی وجہ سے احساسات بدلے ہیں ۔کیوں کہ یہی شہید واجہ( شید غلا م محمد ) ، شہید لالہ منیر اور میرے عزیزترین دوست شہید لالہ حمید اور مغوی احمد داد سمیت ہم سب کی مشترک کہانی ہے ۔

آج جب کہ میرے لیے زندگی کا پہیہ رک سا گیاہے اور دنیا چند گزکی چار دیواری میں سمٹ کر رہ گئی ہے، سوچنے سمجھنے کے لیے بہت وقت لیکن عمل کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ۔دَم سادھ کے جب ذہن کے پردے کو چیدتے تصورات ، خیالات وابہا م کے کھربوں بے ہنگم لہروں میں سے کوئی سیکنڈ بھر کو ہاتھ لگے خیالات کا کریدتا ہوں تو گزشتہ سات سالوں کی اپنی زندگی ستر سا ل سے زیادہ لمبی معلوم ہوتی ہے ۔زیست کا ہر ایک افسانہ کھربوں عنوان رکھنے کی وجہ سے بلا عنوان ہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ہمیں بدقسمتی کی وجہ سے غلطی کرنے کا موقع نہیں ملا یہاں بد قسمتی کا لفظ اس لیے کہ ہم اکثر کلیدی معاملات پر پیروکار ہی رہے ہیں اگر ہم اپنے جماعتی اختیارات کا شروع ہی سے استعمال کرنے کی طرہ ڈالتے تو وہ بچھڑا جسے ہمیں بچپن سے گود میں اُٹھا کر سہلانے کی عادت ہوتی ہمارے لیے اس قدر بھاری ثابت نہ ہوتا ۔بہرحال مجھے پیروکار اور دوستی ( کسی حدتک اندھی کہہ لیجئے ) کے اس زمانے پر افتخار بھی محسوس ہوتاہے کیوں کہ جن کے ہم پیروکار یاکراچوی دوستوں کے بقول جیالےتھے وہ اپنی شخصی کمزوریوں کے باوجود ایسے اعلیٰ اوصاف کے مالک ضرور تھے کہ اُن کی پیروی پر فخرکیا جاسکے ۔شہید واجہ ( ایک روزنامہ کے ادارتی صفحہ کے مدیر کو میرے” شہیدواجہ “لکھنے پر شدید اعتراض ہے جواسے سنسر کرکے شائع کرتے ہیں اب مجھے اسے سمجھانے کے لیے کہ شہید واجہ اور شہید چیئر مین میں زمین آسمان کا فرق ہے اُس کا فلسفہ پہلے پڑھنا ہوگا ‘البتہ میرے بلاگ کے قارئین نوٹ فرمالیں) اور شہید لالہ منیر و ہ نمایاں شخصیات ہیں کہ جن کے بارے میں پارٹی جمگھٹوں میں زہر افشانی کا فیشن تھا ‘ہمارے لیے اپنی زندگی میں بھی لیجنڈ تھے ( شہید لالہ منیر کی شخصیت اور اخلاص پر ایک مضمون کا قرض لیے آگے بڑھتا ہوں ) ۔شہید واجہ کو نفسیاتی الجھنوں کا شکار بنانے والوں کی کوشش تھی کہ اُنہیںنفسیاتی مریض ثابت کر یں لیکن آپ ہمارے لیے دنیاکے سب سے معتبرترین شخصیت اپنی زندگی میں بھی رہے ۔
ہم غداروں کے کاروان میں جسے میں”میر غدار“ کہتاہوں( مجھے اُن کی زندگی کے بارے میں بھی تشویش ہے ، اگر اغواءنہیں ہوئے ہیں تو اُنہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے بلاچوں وچرا فوری اقدام کر ئے ) کیکہانی ہم سب میں سب زیادہ دلچسپ اور قابل رحم ہے ۔جب کوئی سر کاری مخبر قتل ہوتو وہی زیر عتاب آتے ہیں اور جب کوئی سر مچار شہید ہوں توبھی الزام اسی کے سر آتاہے ۔ہم پر بظاہر اس طرح کے الزام کسی سنجیدہ حلقے کی طرف سے نہیں لگائے گئے لیکن ہمارے بارے میں بھی رویہ مختلف نہیں تھا ۔شہیدواجہ کی نیابت سنبھالنے کے بعد عصاظفر کے ساتھ کھڑا ہونے والے بلند گو شخص کے طور پر مجھے ایک غدار کا مضبوط سہارہ ہی سمجھا جاتا تھا....................ہم میں سے ہر ایک نے اس کا جواب وقت پر چھوڑ رکھاتھاجو یکے بعد دیگرے سچائی ثابت کررہاہے ۔
مجھے واجہ عصاظفر کے اغواءکی خبر قدرے تاخیر سے چند مزید دلخراش خبروں کے ساتھ ملی ،جنہیںبہر حال ہمیں برداشت کرنا ہے ۔ان میں میرے چھوٹے بھائیوں الیاس نذراور کمبر چاکر کی مسخ شدہ میتوں کا ملنا بھی شامل تھا ۔دونوں نوعمر بلوچ فرزندان وطن ہونہاراور تخلیق و تحریر کا ذوق وشوق رکھنے کی وجہ سے میرے انتہائی قریب تھے ۔کمبر چاکر سے تعارف غائبانہ ہی رہاہے اور الیاس نذر سے بھی کوئی طویل ملاقات ذہن میں نہیں لیکن ہم ایک دوسرے کے اچھے آشنا تھے ۔الیاس نذر میرے انتہائی عزیز دوستوں میں شامل دیدگ نذر کے چھوٹے بھائی ہونے کی وجہ سے بھی مجھ سے روحانیت کا گہرا رشتہ رکھتے تھے ‘شہید میرے ڈیزائن کردہ ان پیج میں استعمال ہونے والے مخصوص بلوچی حروف کے عکس ( فونٹ ) ”ریحان فونٹ “کو بچوں کے اپنے رسالے ”درونت “میں استعمال کے بعد مطبوعہ صورت میں پیش کرنے والے پہلے کمپوزر تھے ‘اپنے فونٹ میں نئے ڈیولپمنٹ کے بعد مجھے آپ سے ایک تفصیلی ملاقات کی اشتیاق تھی چند مختصردوروں میں تربت میں اس سلسلے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن آپ کا اپنے تعلیم کے سلسلے میں کوئٹہ مقیم ہونے کی وجہ سے دیدار نہ ہوسکا اور یہ سانحہ پیش آگیا....................................... ’دھل بلوچانانی دوتاکوئَ نشان اِنت “۔
زمین پر پڑی دونوں معصوم بچوںکی میتوں کے چہرے پر کرب کے تاثرات لوہے کا دل رکھنے والے شخص کا دل بھی پگھلادیں لیکن نامعلوم وہ کس قماش کی مخلوق ہے جو ان معصوم بچوں کو اذیت ناک طریقے سے موت کے آغوش میں سلا رہیہے ؟پنجابی مقتدرہ ان تصویروں کو دیکھ کرکیا ابلیس کی خیالی تصاویر کی طرح قہقہہ لگا رہاہوگا یا اُن حقیقی طالبان کی طرح جوعوامی مقامات کو نشانہ بناکر معصوموں کا خون بہاتے ہیں ،فتح کا جشن منا رہاہوگا ؟میرے پاس اب اس سوال کاکوئی جواب نہیں لیکن شہید واجہ کی شہادت کے بعد عصاظفر کی قیادت میں جب اس طوفان کامحض شور ہی سناہی دے رہاتھا ہم اس طوفان سے نمٹنے کے لیے واضح حکمت عملی رکھتے تھے مگر ہمیں اپنی حکمت عملی پر عملدر آمد کے لیے انتہائی مشکلات کا سامنا تھا پارٹی کی مجلس شوریٰ میں اکثر یت رکھنے کے باوجود ہماری حالت71سے پہلے کی پاکستانی بندوبست میں شامل بنگلہ دیش کی سی تھی ۔نہ صرف ہماری وفاداریوں پر شک کیا جاتاتھا بلکہ ہمارے اختیارات بھی چیلنج ہورہے تھے................................ان حالات سے نکلنے کے لیے ہم غداروں نے جوفیصلہ کیا وہ بلو چ سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جس کا تجزیہ یہاں مناسب نہیں۔
عصاظفر کو میں نے ہم میں سب سے زیادہ محتاط اور سر د مزاج پایا ہے، وہ خاموشی کو بولنے پر ترجیح دیتے ہیں اس کے بر عکس میں ہمیشہ کھل کر بات کرنے کا قائل رہاہوں میرا موقف ہے کہ ہمیں اپنے کردارکے دفاع اور اپنی سوچ کے ابلاغ کا اُتنا ہی حق ہے جتنا کسے دوسرے دوست کو لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کیے بغیر کہ ایک بند بوتل میں اتنا گیس نہیں بھرناچاہئے کہ وہ بم کی طرح پھٹ جائے۔یہاں سوچنے، سمجھنے اور عصاظفر اغواءکے تناظر میں اپنی غلطیوں کا ادراک کرنے اور اسی تفہیم کی بنیاد پر حکمت عملی پر دعوت فکر دینے کی ضرورت ہے جس پر ہمیں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے ۔
جنگ میں جاسوسی کے ادارے انتہائی اہمیت کاحامل ہیں یہی ادارے دشمن کے طرز فکر تک رسائی حاصل کر کے اس کی طرف سے ممکنہ حملوں کو جانچ لیتے ہیں اور یہی ادارے موثر پروپیگنڈہ کا چناﺅ کر کے دشمن کو گمراہ کر کے اپنے سایے کے پیچھے لگادیتے ہیں۔یہ کام کیسے کیا جاتاہے ؟..............مقولہ درست ہے کہ” جتنا گڑاتنا میٹھا “ یعنی اس ادارے کو چلانے کے لیے راکٹ سائنس کا استعمال آپ کو کم عسکر ی قوت کے ساتھ دشمن کو زیادہ نقصان دینے کے قابل بنادیتا ہے‘امریکن ڈرون ہتھیار کا کمان بھی امریکن انٹلی جنس اداروں کے پاس ہے ۔مگر اس راکٹ سائنس کے بغیر بھی یہ ادارے کام کرسکتے ہیں اور نسبتاًکمتر مگر بہتر نتائج دے سکتے ہیں ۔میں بارہا اپنے مضامین میں اس طرف متوجہ کرتا رہاہوں کہ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے ہمیں دشمن کی ہر جارحیت کے پوشیدہ اور ظاہری مقاصد کو سمجھنا ہوگا اور اس پر ہمیں اپنے دستاویزات مرتب کرنے ہوں گے ۔اس سلسلے میں بی ایس او( آزاد ) کی کارکردگی قابل ستائش ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی اس کاذرائع ابلاغ میں معلومات کی فراہمی جاری ہے اس کی کارکردگی کی وجہ سے بین الاقومی نشریات ادارے میں اسے ہمیشہ بی این ایف کے اتحاد سے علیحدہ بھی ایک موثر قوت کے طور پر دیکھاجاتاہے اور جس کو ہماری پارٹی ( بی این ایم ) او ر بی آرپی کو بغیر کسی جھجک کے تسلیم کرنا چاہئے البتہ اصلاح طلب پہلوﺅں پر بی ایس اوسمیت ہم سب کو غور کرنا ہوگا۔بلوچستان میں اغواءنماگرفتاریاں ہوںیا دیگر جارحانہ وارداتیں ایسے آن کے آن رونما نہیں ہوتیں جس طرح ہمیں نظر آرہی ہیں کہ بغیر نمبر پلیٹ کی چند گاڑیاں آتی ہیں ،دیوار پھلانگ کر درواز ہ توڑ کر یاپیٹ کر چند نامعلوم سادہ لباس میں ملوث افرادگھرکے اندر داخل ہوتے ہیں اور جس کمرے میں اُن کا مطلوبہ شخص بیٹھا یا لیٹا ہوتاہے اسے بغیر کوئی سوال پوچھے رسیوں سے باندھ کر اُٹھا کر لے جاتے ہیں پھر؟.................... ہفتے دوہفتے بعد اس کی مسخ شدہ میت کسی برساتی ندی میں ایسی جگہ پھینک دی جاتی ہے کہ بآسانی ہاتھ لگے ۔
یقینااس میں اُن مقامی بلوچ مخبروں کا ہاتھ ہے جو ہمارے محض شناسانہیں بلکہ ہمارے صفوں میں گھس کر بیٹھے ہیں ۔میں اپنے اس جملہ معترضہ کو جو بہت سوں کورنجیدہ خاطر کرنے کا سبب بناتھادہراتا ہوں کہ ”ہمارا دشمن نزلہ کا وائرس ہے جو پانچگزکے فاصلے پر بھی کسیکولگے توپانچگزکے داہرے میں سب کو خبر ہوجاتی ہے لیکن ہمارے صفوں کے منافق ایڈز کے وہ وائرس ہیں جو ہمیں شک اور خوف کے جال میں پھانس کر اصل مقاصد سے دور بھٹکادیتے ہیں “۔ایڈز کا وائرس ایک زبردست بہروپیاہے جوجسم میں داخل ہوکر اُن جرثوموں کا روپ دھار لیتاہے جو بیرونی حملہ آﺅروں کے مقابلے کے لیے ہمارے جسم کے محافظ ہیں ۔اس بہروپ کی وجہ سے یہ ہمار ے محافظ کے نظروں سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور یہ خاموشی سے اُن پر وار کر کے اُنہیں ایک ایک کر کے مار کے کھالیتاہے جس سے جسم کی مدافعتی قوت کمزور پڑجاتی ہے اور انسانی جسم بیرونی حملہ آﺅروں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیںرہتا نتیجتاًمعمولی بخار بھی جان لیوا ثابت ہوتاہے ۔یہ ہم میںبظاہر سب سے زیادہ مخلص، سب سے زیادہ متحرک ،سب سے زیادہ خیر خواہ ، سب سے زیادہ سمجھدار اورسب سے زیادہ باعمل ہوتاہے ۔بظاہر اس کی کوئی ایسی نشانی نہیں کہ ہم اسے اپنے سے الگ سمجھ سکیں لیکن وہ نیت میں ہمارے برعکس ہے اور یہی پنجابیفوج کا سب سے خطرناک سپاہی ہے ،اس کاعلاج ؟.......... اتناہی مشکل جتنا بخار کے مقابلے میں ایڈزکا ۔
ایڈزکا مریض محتاط ہوتاہے ‘سانپ کا ڈسا رسی سے ڈرتاہے ۔ہم اتنے لاپرواہ نہیں ہوسکتے کہ اہم اور غیر اہم باتوں کی اصطلاح استعمال کریں۔مختصراًاتناکہ ہم دشمن کی ہر جارحیت کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کر یں ۔کشش ثقل ایک پوشیدہ طاقت ہے جسے نیوٹن کے ایک بظاہر احمقانہ سوال نے آشکار کیا۔ہم بھی یہ سوال کئی مرتبہ دہرائیں کہ عصاظفر کیوں اغواءکیے گئے ہیں، ڈاکٹر عبدالحئی کیوں نہیں ؟کل کیوں نہیں آج کیوں؟ اور اس جیسے سینکڑوں سوالات جس میں سے ہر ایک کا جوا ب ہمارے لیے لازمی ہوں .......................نتائج حیران کن ہوں گے ‘ہمارے لیے یہ کامیابی نیوٹن کی کامیابی کےمساوی ہوگا ۔
عصاظفر نے بی این ایم کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملاًسیاسی جدوجہد سے کنارہ کشی کر لی ہے ۔اپنی سیاسی زندگی اور بی این ایم کے دور صدارت میں بھی معتدل اورغیر روایتی سوچ رکھتے تھے ،اداروں کی بالادستی کے حامی ، رومانس ازم اور جذباتی پن کے کٹر مخالف ۔اپنے دور صدارت میں انہوں نے بی این ایم کی ابتدائی پالیسیوں کے مطابق بی این ایم کی سیاسی شناخت کو مسخ کر نے کی کوششوں کی بھر پو ر مخالفت کی اور بی این ایم کو ایک پر امن سیاسی جماعت کے طور پر پیش کرتے رہے ۔ وہ بی این ایم کے بانی ممبران میں شامل ہیں ۔اُن پر ”بڑے بے آبر وہوکر تیرے کوچے سے نکلے “کا شعر بھی صادرآتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اب جب پاکستانی ایجنسیوں نے اُنہیں اغواءکر کے غائب کیاہے وہ پاکستانی مقتدرہ کے لیے ایک بے ضرر انسان تھے۔ ماضی میں بھی قولاً یا فعلاّ کسی پر تشدد عمل کا حصہ نہیں رہے ہیں ۔نہ ہی اس قدر بااثر تھے کہ مستقبل میں اسے پاکستان کی سلامیت کے لیے کوئی بڑا خطرہ قرار دیاجاسکے۔یہاں ایک اہم پہلو جس کا بالائی سطور میں درج شعر اور دیگر مندرجات میںبھی ذکر ہے کہ عصاظفر بی این ایم کی موجودہ قیادت کے لیے بھی ناپسندیدہ تھے،انہی افراد اور تحریک کے دیگر سرکردہ شخصیات کی مخالفت پر انہوں نے بی این ایم کی صدارت سے استعفیٰ دیا ۔صدارت پر استعفیٰ کے لیے اُن پر شدید دباﺅ جب کہ بنیادی رکنیت سے استعفیٰ اُن کا ادراک تھاکیوں کہ وہ پارٹی میں مزید بحث کا موضوع نہیں رہنا چاہتے تھے............... یہ وہ عام معلومات ہیں جو ہر کسی کو معلوم ہیں ۔
مندرجہ معلومات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے ۔پاکستان میں بالادست پنجابی مقتدرہ نے واضح طور پر یہ فیصلہ کیاہے کہ وہ اُن تمام لوگوں کو جنہوں نے کبھی نہ کبھی اُن کے اقتدار اعلیٰ اور بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش تھی (حبیب جالب اور مولابخش دشتی قتل پرغور کیجئے )، کررہے ہیں (شہداءکی تعدادہزاروں تک پہنچ گئی ہے ) یاکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ( شہید الیاس نذر ، شہید کمبر چاکر اور کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ) کو موت کے گھاٹ اُتاراجائے .........................یہی نظر آرہاہے ۔
اتنا سب ایک نشست کے فیصلے کے بعد نہیں کیا جاتا‘اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دشمن نے کافی تیاریاں کی تھیں ۔اس کے نتائج ٹسٹ ڈوز کے طور پر کیے گئے وارداتوں سے معلوم کیے گئے ہوں گے ، تب جاکر یہ کارروائیاںاتنے بے باکانہ طریقے سے کیے جارہے ہیں ۔ اس کی ترتیب یہی معلوم ہوتی ہے کہ الف :سب سے پہلے فوری خطروں سے نمٹا جائے ،ب :خطروں سے نمٹاجائے ،ج:ممکنہ خطروں سے نمٹاجائے ۔معلومات کی بنیاد پر عصاظفر تیسرے درجے میں ہیں اس کا مطلب ہے کہ دشمن نے کئی مراحل بڑی تیزی سے طے کیے ہیں اب وہ زیادہ بے باک اور ہمارے ردعمل سے لاپرواہ ہوچکاہے اگر اس مرحلے پر اسے نہ روکا گیاہے تو؟.................................... اس کے اگلے اقدا م کے متعلق سوچ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
شروع میں عرض کیا تھا کہ جنگ میں سب سے زیادہ انٹلی جنس اہم ہوتی ہے بی بی سی کے گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس ایک عام چور کوبھی بغیر مخبر کے نہیں پکڑ سکتی صاف ظاہر ہے یہاں تک پنجابی فورسز کی مخبروں نے ہی رہنمائی کی ہوگی ۔ا بتدائی مرحلہ اُن کے لیے کافی صبر آزما تھا جس میں انہوںنے کافی نقصان بھی برداشت کیا جن میں سے کچھ اُن کے اپنے مخبروںکے بھی کیے ہوئے ہوں گے۔
۔یہاں دشمن کے سازشوں میں سے صرف ایک کا ذکر کرتاہوںجو اس مضمون کا بنیادی موضوع ہے ۔بی آرپی کی نسبت بی این ایم سے پنجاپی مقتدرہ مختلف طریقے سے نمٹ رہی ہے ۔( بی ایل ، بی آراے اور بی ایل ایف کے ساتھ نمٹنے کے طریقے کار میں بھی فرق نظر آتا ہے ۔عام طور پر دشمن بی ایل ایف اور بی این ایم کو ایک ہی سمجھتا ہے اس لیے دونو ں سے ایک ہی طریقے سے نمٹا جارہاہے لیکن یہاں عسکری تنظیمیں زیر بحث نہیں )بی آرپی کے تمام متحرک قائدین بشمول ڈاکٹر بشیر عظیم کے اغواءکر کے غائب کردیئے گئے جن میں ڈاکٹر بشیر عظیم واحد لیڈر ہیںجنہیں زندہ چھوڑ دیا گیاہے ،باقی طویل عرصے سے لاپتہ ہیں۔ بی ایس او کے ساتھ بھی تقریبا ًیہی کیا گیالیکن بی این ایم کے شہید قائد غلام محمد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کے بعد اس سلسلے کوایک مختصرمدت تک شدت سے جاری نہیں رکھا گیا ۔ شہیدو اجہ کے قتل سے قبل اُن کی کردار کشی کی ایک زبردست مہم چل رہی تھی اور پارٹی میں اختلافات زوروں پرتھے،عصاظفر کے استعفیٰ تک پارٹی عملا ًدوحصوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔آج عصاظفر کے اغواءکے بعد کم ازکم یہبات گرہ میں باندھ لینا چاہئے کہ دشمن کےنظر میں عصاظفر بھی اس قدر خطرناک تھے جتنا شہید غلام محمد ،تو اُن کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کو جن کی جڑیں شہید غلام محمد اور شہید لالہ منیرکے خلاف پروپیگنڈوں تک جاتی ہیں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔عصاظفر کے ساتھ دشمن نے جوسلوک کیا ہے اُس کا ہمیں کوئی گلہ نہیں نہ ہی ہم اپنے ایک عظیم دوست کی قربانی کوماتم کرکے گھٹاناچاہتے ہیں مگر اُن دوستوں کو جنہوںنے عصاظفر اوراُن کے ہمنواﺅںکے ساتھ غداروں جیسا سلوک کیا تھا ضرور سوچنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ سوچیں یہ سب کیوں ہوا ؟............................. ہمیں اپنے غدار ہونے پر کوئی اعتراض نہیں مگر اس سوال کا جواب ضرور چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے غدار ہیں یا بی این ایم کے؟
اگر جواب وہی ہے جو دشمن نے واضح کردیا ہے توکیا ان باصلاحیت او ر مخلص دیرینہ دوستوں کے ساتھ ٹشو پیپر کا سا سلوک کرنے والے قصور وار نہیں ؟..................قبل اس کے کہ وقت ہمارا اِحتساب کر ئے ہمیں اپنا اِحتساب خود کرنا ہوگا‘ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدلنے کا یہی رستہ ہے۔

٭٭٭٭٭
12-01-2010


0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.