جیرونیمو اِکیا
Geronimo EKIA
قاضی داد محمد ریحان
دومئی2011 کی سب سے بڑی خبرامریکن فورسز کے ہاتھوں القاعدہ کے بانی رہنما ءاُسامہ بن لادن کی ہلاکت ہے۔خبر کی اہمیت کے پیش نظر امریکن صدر نے خود ٹی وی پر آکر اس کی تصدیق کی ۔یہ دہشت گردی یا اسلامی گروہوں کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ میں دوسری مرتبہ ہواہے،قبل ازیں القاعدہ کے صف اول کے باصلاحیت لیڈر مانے جانے والے شیخ خالد کی پاکستانی شہر روالپنڈی سے گرفتاری کا اعلان اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ”ہم نے نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کر لیا ۔“اسامہ کی ہلاکت بھی ایک تاریخی واقعہ ہے ۔اسامہ گزشتہ ایک دہائی سے دنیا کی سب سے مشہور شخصیت تھے جنہیں مغربی دنیا میں برائی کی علامت سمجھا جاتا تھا جب کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام کی اکثریت اسے مغربی استعماری پالیسیوں کے خلاف ایک مزاحمت کار سمجھتے تھے اور شاید آئندہ بھی اُسامہ کا یہ کردار مسلم ممالک کے عوام کے ذہنوں پر نقش رہے گا باوجود اس کے کہ ایک محدود معتدل طبقہ القاعدہ کے پر تشدد اور سخت گیرنظریات سے خائف ہے ۔ان میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جنہیں ماضی میں عرف عام میں ”سر خے “اورسیاسی زبان میں”کمیونسٹ “کہا جاتا تھا ۔جس کا اسلامی ممالک میں آج بھی یہی مطلب لیا جاتاہے کہ ا یسا گروہ جو خدا کی ذات کا منکر ہے۔
مذہب اور رنگ ونسل کے تعصب سے بالاتر یہ محدود گروہ شاید امریکہ کے ساتھ اپنے اُس بالواسطہ جنگ کے اثرات سے نہیں نکل پارہے جس کے نتیجے اُن کے لیے نظریاتی کعبے کا درجہ رکھنے والی ریاست ”سویت یونین “کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ مگر اس کے اثرات یک طرفہ ہر گز نہیںتھے ۔ ”سر خے “ایک انجانے خوف کی وجہ سے نظریاتی منافقت کی دلدل میں گردن تکپھنس کر اپنی شناخت سے محروم ہوگئے گوکہ اب بھی وہ ہندوستان اور پاکستان میں روشن خیال ، ترقی پسند اور لبرل جیسے نقاب چڑھا کر انسانی حقوق کی دعویدارکے روپ میں وقتاًپہ وقتاًانقلابی گیت غزلوں کے ساتھ نمودار ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی ذہنی عیاشی کااہتمام بھی وہی مغربی این جی اوز کرتےہیں جنہوں نے اُ ن کے نظریاتی جڑوں کو کاٹ کر اُنہیں معلق کردیاہے ۔ان کے ساتھ ماضی میں اپنے قومی مفاد کے لالچ میں شامل ہونے والے قوم دوست گروہ تیل اور پانی کی طرح ایک برتن میں ہونے کے باوجود ماضی میں بھی علیحدہ تھے اورآج بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔امریکہ نے مذکورہ جنگ میں دنیا کی بادشاہت حاصل کر لی لیکن سویت یونین کے مقابلے کے لیے دنیا بھر کےمسلم نوجوانوں کوجو جہادی نظریہ دیا گیا تھا اس کے مطابق اُنہوں نے جلد ہی اپنے نئے دشمن کی شناخت کر لی جو کہ اُن کے ماضی کا اتحادی امریکہ تھا۔القاعدہ کی بنیاد اس نئے اور سپر پاﺅردشمن کو چالاکی ، بہادری اورجدید ٹکنیکل گوریلا جنگ کے ذریعے عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کے لیے رکھی گئی ۔اُسامہ بن لادن اسی القاعدہ کے بانی تھے جومحض ایک مذہبی شدت پسند تنظیم نہیںبلکہ اعلیٰ دماغ افراد کا ایسا گروہ ہے جو اپنے دشمن کی طاقت اور کمزوریوں سے واقف ہے۔
القاعدہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1988 میں رکھی گئی تھی۔القاعدہ کا لفظ عربی کے قاعدہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اساس یا بنیاد کے ہیں اور اس میں ال کا اضافہ عربی قواعد کی رو سے مخصوصیت(اسم خاص) کا اظہار ہے۔ اگر اس تنظیم کی ابتدا تلاش کی جائے تو بات 1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی ایک تنظیم ”مکتب الخدمت“ تک جاتی ہے جس کی تفصیل القاعدہ کی تاریخ اور تعارف میں درج ہے۔ القاعدہ کو مغربی ذرائع ابلاغ کے علاوہ مشرقی میڈیا کی جانب سے ایک بنیاد پرست اسلامی تنظیم الجہاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔القاعدہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مربوط تنظیمی رکنیت رکھنے والی تنظیم ہے جس کے ارکان پوری دنیامیں موجود ہیں جو اس کےسیلز تشکیل دیتے ہیں۔امریکہ اور یورپ کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کے حکمران بھی القاعدہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں اس طرح دنیا میں ہر جگہ اس تنظیم کے خلاف آپریشنز جاری ہیں۔
اسامہ اپنی کئی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے اس تنظیم کی قیادت کے اہل تھے۔جس کا مکمل نام اسامہ بن محمد بن عوض بن لادن ہے۔10 مارچ 1957 کو سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ اس کا تعلق سعودی عرب کے مشہور رئیس خاندان” لادن فیملی“ سے ہے۔ لادن شاہ فیصل کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ لادن فیملی کا کاروبار پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسامہ نے اپنے والد کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے والد نے امام مہدی کی مدد اور ان کے تعاون کے لیے کروڑوں ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا اور وہ ساری زندگی امام مہدی کا انتظار کرتے رہے۔ اس انٹرویو میںاسامہ بن لادن نے اپنے والد کے بارے میںیہ بھی بتایا تھا کہ شاہ فیصل دو ہی شخص کی موت پر روئے تھے، ان دو میں سے ایک میرے والد محمد بن لادن اور دوسرے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔
اسامہ بن لادن نے ابتدائی تعلیم سعودی عرب سے ہی حاصل کی۔بعد ازاں انہوں نے ریاض کی کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ سے شعبہ بزنس منیجمنٹ میں ایم بی اے کیا۔ بعض مغربی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اسامہ نے لندن کی کسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔اسامہ بن لادن کی تعمیراتی کمپنی نے شاہ فیصل اور شاہ فہد کے ادوار میںاسلامی مقدس مقامات کی تعمیر کا کام کیا تھا اور اس نے ذاتی طور پر اس منصوبے میں گہری دلچسپی لی اور مختلف توسیعی منصوبے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے۔
اس نے3 شادیاں کی ہیں اور اس کے 24 یا 25 اولادیں ہیں۔ اس کے خاندان کے زیادہ تر افراد سعودی عربیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک منحرف بیٹا ہسپانوی دوشیزہ سے شادی کرنے کے بعد اسپین میں سیاسی پناہ حاصل کرچکا ہے اور اپنے والد کی سر گرمیوں کازبردست مخالف سمجھاجاتاہے۔ ایک اور بیٹا افغانستان میں ماراجاچکاہے جوکہ القاعدہ کی کارروائیوں میں حصہ لیا کرتاتھا۔
اس کا خاندان سعودیہ عرب کے عام لوگوں کی طرح امام احمد بن حنبل کا مقلد اور شیخ عبد الوہاب نجدی کے اجتہاد کا حامی تھے۔ شروع میں انہوں نے ایک عرب شہزادے کی سی زندگی گزاری مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے اندر تبدیلیاں آئیں۔ 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کی خبر انہوں نے ریڈیو پر سنی۔ ابتدا میں انہوں نے افغان مجاہدین کی مالی معاونت کی مگر کچھ عرصے بعد وہ خود بھی افغانستان آگیا۔ اس کے اس وقت کے ساتھیوں میں مشہور و معروف عربجنگجو کمانڈر اور عالم دین شیخ عبداللہ عزام اور دیگر عرب شامل تھے جنہوں نے سوویت فوجیوں کے ساتھ جنگ میں کلیدی کردار اداکیا۔
80 کی دہائی میں اسامہ بن لادن شیخ عبد اللہ عزام کی تحریک پر کمیونسٹوں سے لڑنےکے لیے افغانستان پہنچے۔ جب روس کی شکست کے بعدافغان جنگجو گروہ اقتدار کے لیے آپس میں لڑ پڑے تو اسے واپس سعودی عرب لوٹنا پڑا۔ اسی دوران صدام نے کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تو اس موقع پر جہاں دنیا کے اکثر ممالک نے عراق کے اقدام کو کھلی جارحیت قرار دیا وہاں باقی عرب ممالک عراق کے اس قدم کو مستقبل میں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔جس سے نمٹنے کے لیے انہوں نے امریکہ کی مدد طلب کی۔اُسامہ نے پہلی مرتبہ اہل سعودکے کسی فیصلے کی مخالفت کی اور شاہ فہد کو یہ پیشکش کی کہ عراق کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک اسلامی فورس تشکیل دی جائے اور امید دلائی کہ وہ اس کام کے لیے اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کریں گے۔تاہم شاہ فہد نے اس کو نظر انداز کردیا، جس کے نتیجے میں شاہی خاندان اور اسامہ کے مابین تلخی پیدا ہوگئی اوربالاخر 1992میں اسے اپنا ملک چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔
غریب سوڈان اس نئے امریکہ مخالف اسلامی لیڈر کے لیے ایک سازگار ملک ثابت ہوا جہاں بیٹھ کرانہوں نے مسلمانوں کے مقدس سرزمین پرامریکی وجود کو جواز بناکرعرب اور دیگر مسلمان نوجوانوں میں ایک تحریک پیدا کی اور اس کے ساتھ دنیا بھر میں جاری دیگر اسلامی تحریکوں سے رابطے قائم کیے۔ اسی دوران اسامہ بن لادن نے دنیا بھر میں امریکی مفادات پر حملوں کا فتویٰ بھی جاری کردیا، جس کو مسلم دنیا میںکافی شہرت ملی۔مسلم نوجوانوں کو مہمیز کرنے کے لیے اُسامہ نے محض فتوﺅں اور تند وتیز بیانات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پرکافیپیسہ بھی خرچ کیاگیا۔جب تنزانیہ اور نیروبی میں امریکیوں پر حملے کیے گئے تو سوڈانی حکومت کو اسامہ بن لادن کی سوڈان میں موجوگی پر شدید امریکی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا۔ دریں اثناء افغانستان میں طالبان آئی ایس آئی کی مدد سے کابل فتح کر نے کے بعد تقریبا 60 فیصد افغانستان پر قدم جما کر ایک مستحکم حکومت قائم کر چکے تھے۔طالبان کی حکومت اور افغانستان میںخانہ جنگی پرقابو پاتے دیکھ کر 1996 میں اسامہ بن لادن اپنے ایک پرائیویٹ چارٹر جہاز کے ذریعے افغانستان پہنچے جہاں انہیں طالبان کے امیر ملا محمد عمراخوند کی جانب سے امارات اسلامیہ افغانستان میں سرکاری پناہ حاصل ہوگئی۔ اسامہ بن لادن نے افغانستان کے مانوس ماحول میں بیٹھ کر اپنی تنظیم القاعدہ ازسر نو منظم کی اور دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں تیز کردیں۔ اسامہ بن لادن نے افغانستان میں اپنے تربیتی کیمپس زیادہ تر جلال آباد سے قریب تورا بورا میں قائم کئے۔997 1میںامریکی صدر بل کلنٹن نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کے لیے طالبان پر دباﺅ ڈالا مگر طالبان نے حوالگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ مہمانوں کا تحفظ ہمارے اقدار میں سر فہرست ہے۔اسامہ بن لادن امارات اسلامیہ افغانستان کے مہمان ہیں، چاہے کچھ بھی ہو ہم انہیں دشمن کے حوالے نہیں کر سکتے۔ طالبان کے اس موقف کے بعد طالبان اورامریکہ میں تلخی پیدا ہوئی اور فاصلے کافی بڑھ گئے۔ 1998میں امریکہ نے کروز میزائل سے افغانستان اور سوڈان پر حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ حملے میں اسامہ بن لادن کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور حملوں کا مقصد اس کو مارنا تھا۔ اس حملے کے بعد اسامہ بن لادن اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ہیرو کے طور پر اُبھرے ۔اس وقت پاکستان کے دینیمدرسوں میں ایک ترانہ کافی مشہور ہوا جس کے بول ”میرا ہیرو نمبرو ن۔اُسامہ بن لادن “ تھے۔ پوری دنیا میں ان کی شہرت ہوئی اور ہر جگہ انہی کا تذکرہ ہونے لگا۔۔ان حملوں کے بعد القاعدہ کو رضاکار بھرتی کرنے میں بھی آسانی ہو گئی۔ ان حملوں کے بعد اسامہ بن لادن روپوش ہوگئے اور عوامی اجتماعات میں شرکت سے محتاط ہو گئے۔
نائن الیون کے واقعے کا ذمہ دار اُسامہ کوٹہرایا گیا اس کے باوجودکہ القاعدہ اس حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کرچکاہے اُسامہ کے حامیوں کا خیال ہے کہ اُسامہ پر یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں ۔کشمیر عظمی نامی ایک اخبا ر اپنے اداریہ میںاسی حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”11/9کے بعدامریکی حکومت نے امریکہ کے شہروں نیو یارک اورواشنگٹن میں ہونے والی ہلاکت خیز کارروائیوں کا الزام محض ایک گھنٹے کے اندر ہی ہزاروں میل دور بیٹھے اسامہ بن لادن پر لگادیا۔ تاہم اسامہ بن لادن نے11/9 کے واقعے میں ملوث ہونے کا کبھی بھی برملا اعتراف نہیں کیا۔اس کے باوجود دنیا کے سب سے طاقت ور ملک امریکہ نے اقوام متحدہ کی منظوری سے یورپ کے کم از کم 42 خوشحال ملکوں کے ساتھ مل کر نیٹو اتحادکے نام پر اکتوبر 2001کے اواخر میں وسائل کے اعتبار سے دنیا کے کمزور ترین اور پسماندہ ترین ملکوں میں سے ایک افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ 10 سال گزر جانے کے باوجود اسے اپنے بنیادی مقصد یعنی اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کو ختم کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی لیکن کل 2مئی 2011 سوموار کوصبح سویرے امریکی صدر اوبامہ نے وائٹ ہاﺅس سے براہ راست میڈیا پر یہ اعلان کر دیا کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایبٹ آباد علاقے میںشب کی تاریکی میں اپنے چار ساتھیوں سمیت جاں بحق کر دےے گئے۔
اسامہ بن لادن پر کنیا کے دارالحکومت نیروبی کے دھماکوں سے لے کرورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون حملوں کے کئی الزامات لگائے گئے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے پہلے جہاز ٹکرائے جانے کہ صرف پندرہ منٹ کے اندرامریکی میڈیا اور حکومت نے اس کا الزام افغانستان کے پہاڑوں میں روپوش اسامہ بن لادن پر عائد کردیا تھا۔امریکہ کا دعویٰ ہے کہ مختلف حملوں کے ذریعہ لگ بھگ 6000افراد کو ہلاک کرنے کا ذمہ دار اسامہ بن لادن ہیں تاہم اب تک امریکہ کی طرف سے دنیا کی کسی بھی عدالت میں ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔“
گزشتہ دس برسوں سے اسامہ بن لادن دنیا کے سب سے مطلوب شخص تھے۔ شک یہ کیا جا رہا تھا کہ اسامہ بن لادن 1998 سے پاک افغان بارڈر کے قریب کہیں روپوش ہے۔یہ بھی کہا جاتارہا کہ 2001 میںامریکی حملوں کے بعد اسامہ کا القاعدہ کی آپریشنل ایکٹیویٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا کیونکہ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ پہاڑوں پر رہتے ہیں اور گھوڑے یا چھڑی کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا اب تک کا آخری انٹرویو کشمیرنژاد پاکستانی صحافی حامد میر نے 2001 میں لیا تھا جبکہ ان کا دنیا سے آخری رابطہ 2004 میں امریکی انتخابات کے دوران ایک ویڈیو ٹیپ کے ذریعے ہوا تھا جو عر بی زبان کے ایک سٹیلائٹ چینل ”الجزیرہ “نے نشر کیا تھا۔
2001 سے امریکی حملے کے بعد سے اسامہ بن لادن کے بارے میں مختلف متضاد اطلاعات ہر وقت گردش میں رہیں۔ کبھی کہا جاتا رہا کہ اسامہ بن لادن امریکی فوجیوں کے گھیرے میں آگئے تو کبھی یہ مشہور کیا گیا کہ اسامہ بن لادن طبعی موت مرگیاہے۔ بعض اُس کی بیماری کی خبریں بھی دیتے رہے اور کچھ کے خیال میں اسامہ 2001 میں تورا بورا پرامریکی حملے کے نتیجے میں مرگیا تھا۔ایسے لوگوں کے خیال کے مطابق ا ±س کے بعد کے تمام پیغامات، ویڈیو اور تصاویرجعلی تھے۔ ان دعوﺅں کی تصدیق آج تک نہ ہوسکی اور غالب گمان یہی تھا کہ اسامہ بن لادن پاک افغان سرحد کے قریب کہیں روپوشہے لیکن یکم اور دو مئی2011 کی درمیانی شب میں پاکستان کے ہزارہ ڈویڑن کے صدر مقام چناروں کے شہر ایبٹ آباد میںایک امریکن فوجی ایکشن کے میں ہلاک ہونے کی خبر سامنی آئی ۔ اس آپریشن میںاس کا ایک بیٹا ، قاصد اور اس کا بھائی کے مارے گئے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایبٹ آباد کے ٹھنڈا چوہا نامی علاقےکے بلال ٹاﺅن میں 40منٹ تک یہ کارروائی جاری رہی جس کے دوران ایک ہیلی کاپٹر بھی گر کر تباہ ہوا۔
بعدازاں اس کے اسی آپریشن میں ہلاک ہونے والے بااعتمادقاصد کی شٰیخ ابو احمد الکویتی کے نام سے شناخت کر لی گئی جس کے ذریعے اُسامہ تک رسائی ممکن ہوسکی تھی اور بتایاگیا کہ اُسامہ کی بائیں آنکھپر گولی لگی جو اس کی کھوپڑی اُڑاتی ہوئی پارنکل گئی۔اس کی موت یقینی بنانے کے لیے اس کے سرپر ایک اور گولی داغی گئی اور سینے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اس آپریشن میں اُسامہ کی ایک بیوی سمیت 9عورتوں اور 25بچوں کوتحویل میں لینے کے بعد پاکستانی انتظامیہ کے حوالے کیاگیا جن میں اُسامہ کی ایک بارہ سالہ بیٹی بھی شامل ہے جب کہ ایک عورت ہلاک بھی ہوچکے ہیں جنہیں ابتدائی رپورٹوں میں اُسامہ کی بیوی بتایا گیالیکن بعد میں تردید کی گئی ۔اُسامہ کو زندہ گرفتار نہ کرنے کے حوالے سے بھی متضاد بیانات سامنے آئے شروع میں کہا گیا کہ مخصوص فورس کو اُسے زند ہ پکڑنے کی ہدایت نہیں تھی کچھ ہی گھنٹوں میں میڈیا میں یہ خبر نشر کی کہ اگر اُسامہ مزاحمت نہ کرتے تو اُسے زندہ گرفتار کر لیا جاتا لیکن پھر آخر میں یہی کہا گیا کہ اُسامہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔
اُسامہ کے مداحوں کو شاید اب بھی اُس کی موت کا یقین نہیں خاص طور پر اس کے مردے کی تصویر پر شک کیا گیاجو کہ واقعتا متازعہ اور اس کے ایک سابقہ تصویر سے کافی مشابہہ ہے ۔کشیمرعظمی میں اس حوالے سے لکھا گیاہے :” لیکن تا دم تحریر حتمی طور ر یہ نہیں کہا جا سکتا اسامہ بن لادن کو فی الواقع جاں بحق کر دیا گیا ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور واضح ثبو ت سامنے نہیں آیا۔ اگر چہ امریکی میڈیا نے ایک تصویر سامنے لائی ہے جس کے بارے میں کہا گیاہے کہ یہ اسامہ بن لادن کی موت کے بعد کی تصویر ہے جو خون آلودہ تھی لیکن کئی حلقوں نے اس کی صداقت پر شک کا اظہار کیا۔پاکستان کے کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بش نے بھی اپنے دور اقتدار میں بعینہ ایسی ہی تصویر میڈیا کو فراہم کی تھی اور ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کی یہ جاں بحق ہونے کے بعد کی تصویر ہے۔جو لوگ اسامہ بن لادن کی اس تصویر پر شک کی نگاہ ڈال رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس تصویر میں اسامہ نوجوان لگ رہے ہیں اور ان کی داڑھی مکمل طور پر سیاہ دکھائی گئی ہے جبکہ آج کل وہ نہایت ہی نحیف و نزار تھے اور ان کے سر کے بال اور ان کی داڑھی مکمل طور پر سفید ہو چکی تھے۔ ادھر امریکی میڈیا کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اسامہ بن لادن کی لاش ایبٹ اباد سے پلک جھپکتے ہی افغانستان کے بگرام ائیر بیس پہنچا ئی گئی۔ لمحوں کے اندراندر یہ بھی بتا دیا گیا کہ انہیں بگرام میں ہی سپرد خاک کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے جسد خاکی کو سمندر برد کر دیا گیا۔ ان متضاد بیانات سے ان شکوک و شبہات کو تقویت مل رہی ہے جن میں اسامہ بن لادن کی شہادت کی تکذیب کی جا رہی ہے۔“
مگر مغربی میڈیا اور امریکن ذرائع مکمل یقین کے ساتھ اپنے دعوے پر قائم ہیں ۔ ایسوسی ایٹڈپریس کے لیے لکھنے والے واشنگٹن سے صحافی کمبرلی ڈوزیر،ایڈم گولڈمین،جولی پیس اور اسلام آباد سے کادی گانن کے فراہم کردہ رپورٹس سے مرتبہ کردہ اسٹوری کے مطابق ” انسداددہشت گردی کے لیے کیے جانے والے امریکہ کے سب سے اہم مہم کے لیے رات کی تاریکی میں ہیلی کاپٹرز نے اُڑان بھرا ۔یہ ایک انتہائی رازدارانہ مہم تھی صرف امریکہ کے چُنیدہ افسرا ن کو معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔جگہ اسلام آبادسے دوگھنٹے کے فاصلے پر واقع پاکستانی قصبہ میں ایک قلعہ نما عمارت تھی اور ہدف اُسامہ بن لادن ۔جس کا پتاجاسوسی کے ادارے سے وابستہ اہلکارو ں نے اگست میں اس وقت لگا لیا تھا جب وہ القاعدہ کے ایک قاصدکی نگرانی کررہے تھے ۔سی آئی اے سالوں سے اس کے تعاقب میں تھا،تب سے جب قیدیوں نے تفشیش کاروں کو بتایا تھا کہبن لادن قاصد پر کافی اعتماد کرتے ہیں عین ممکن ہے کہ یہ القاعدہ کے رہنماءکے ساتھ رہ رہے ہیں۔امراءکے محلے میں آرام سے دبکے ہوئے، اس کے عمارت کے اطراف اٹھارہ فٹ کی اُونچی دیوار کھڑی کی گئی تھی جس پر خار دار تار بچھائے گئے تھے ۔داخلے کے صرف دوراستے تھے جن پر محافظ تعینات تھے ۔ تیسر ی منزل کے بالاخانے کو سات فٹ کی ایک دیوار کے ذریعے محفوظ بنایاگیاتھا۔جس کے رہائشی کوڑاکرکٹ جلانے کے بعد اُٹھوانے کے لیے باہر رکھتے تھے ۔جاسوسی کے افسران کو یقین تھا کہ ملین ڈالر لاگت کی عمارت پانچ سال قبل ایک اہم دہشت گرد کی حفاظت کے لیے تعمیرکی گئی تھی ۔سوال یہ تھا کہ کس کے لیے ؟سی آئی اے نے خود سے بار بار یہ سوال پوچھا کہ ان دیواروں کے پیچھے کون ہوسکتا ہے ۔ایک وقت آیاکہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ یقینی طور پر بن لادن ہے۔
صدراوباما نے اتوار کی رات بڑے پیمانہ پر اس آپریشن کے لیےکہا۔تفصیلات انسداد دہشت گردی اور جاسوسی کے اداروں کے ذمہ داران ،اہم انتظامی اور دیگر امریکی افسران کے ذریعے فراہم کیے گئے ۔ ایک حساس آپریشن کے لیے کیے جانے والی تمام باتیں انتہائی رازداری میں کی گئیں۔
فروری کے وسط میں ایک اہم انتظامی سربرا ہ نے بتایا کہ انٹلی جنس کے مختلف ادارے مزید واضح طور پر جان چکے ہیں کہ اُوباما ”جارحانہ کاروائیوں کی حکمت عملی “ چاہتے ہیں۔ دومہینوں کے درمیان اوباما نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے پانچ اجلاس کی صدارت کی جن کا واحد ایجنڈہ یہی تھا کہ اگر بن لادن اس عمارت میں ہیںتو انہیں کیسےتحویل میں لیا جائے ۔امریکہ نے معمول کے مطابق برطانیہ ،کینیڈا،آسٹریلیا اور دوسری جگہوں میںاپنے اہم اتحادیوں کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے معلومات کا تبادلہ کیااور ظاہر ہے امریکہ پاکستانی انٹلی جنس کے تعاون کے بغیر پاکستان میںزمینی آپریشن نہیں کرسکتالیکن یہ مہم انتہائی اہم او ر رازدارانہ تھا۔
29اپریل کو اوباما نے اُسامہ کو مارنے کے لیے ایک کارروائی کی منظوری دی ۔یہ ایک ایسامہم تھا جس کے لیے درست اور کافی اطلاعات کی ضرورت تھی حتی کہ حکومت کے سوپزٹی کیٹڈپریڈیٹر ڈرونز کی فراہم کردہ درست معلومات سے بھی زیادہ۔جس کو ممکن بنانے کے لیے اوباما نے بحریہ کے سیل ٹیم کے ایک چھوٹے سے چُنیدہ دستے کو منتخب کر کے سی آئی کے ڈائریکٹر لیون پانیٹاکے کمان میں دیا ،جس کے نگران کاروں نے دور سے عمارت کی نگرانی کی ۔ایک امریکن انتظامی اہلکار کے مطابق پانیٹااس دستے کے براہ راست انچارج تھے اور اس کا کانفرنس روم کمانڈسینٹر میں تبدیل ہوچکا تھا ۔
”چھاپے کی تفصیلات ابھی تک پوشیدہ رکھے گئے ہیں لیکن القاعدہ کاقاصد،اس کا بھائی اور بن لادن کا بیٹامارے جاچکے ہیں۔کوئی امریکن زخمی نہیں ہوا۔“اہم انتظامی سربراہ محض یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ”بن لاد ن نے ”مزاحمت “کی اورتب امریکہ پر بھیانک دہشت گردانہ حملوں کے پس پردہ براکردارسر پر امریکی گولی لگنے سے مرگیا ۔ “
تیسرے پہر کے وسط میںجب ورجینیامیں پانیٹااور اس کی ٹیم نے یہ الفاظ سنے کہ بن لادن مرچکے ہیں ،جام ٹکرائے اور کانفرنس روم تالیوں سے گونج اُٹھا۔“
وائٹ ہاﺅس کے ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اوباما نے ریل پلیئر کے ذریعے اس ساری کارروائی کو اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر براہ راست دیکھا۔بی بی سی نیوز کی انگریزی ویب سائٹ نے اس رپورٹ کو دلچسپ پیرائے میں شائع کیا:مسٹر برین نان کے مطابق :”ایک منٹ ایک دن کے برابر گزررہاتھا ۔“
سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پانیٹانے واشنگٹن کے ایک علیحدہ آفس میں بیٹھ کراُوباما کی تقلیدمیں یہی کام ویڈیو اسکرین کے ذریعے کیا‘انہوں نے بن لادن کوجیرونیمو کا کوڈ نام دے رکھاتھا۔
مسٹر پانیٹا نے آپریشن کے آخری لمحات میں کہا:”وہ ہدف تک پہنچ گئے ہیں...............ہمیںجیرونیمو نظر آرہاہے ............”جیرونیمو اِکیا“(Geronimo EKIA) (دشمن کارروائی میں ماراگیا۔“
مسٹراوبامانے کہا :”ہم نے اسے ڈھونڈلیا۔“
دنیا اور امریکہ جیرونیمو کی موت کو بڑی کامیابی مانتی ہے ساتھ ہی سب کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ صرف ایک ”جیرونیمو“کی موت تھی جسے دنیا ”اُسامہ بن لادن “کے نام سے جانتی تھی جب کہ امریکہ کا اصل اورنظریاتیجیرونیمواب بھی نہ صرف زندہ بلکہ توانا ہے اسے اگر القاعد ہ نہ بھی کہا جائے تب بھی و ہ کئی دوسرے ناموں کے ساتھ اور شاید ایسے ناموں کے ساتھ بھی جن کوبنیادی پرستی سے جوڑنا ممکن نہیں زندہ ہے ۔جو امریکہ کی بالادستی اور اقتدار کو چیلنج کرتا رہے گاان میں آئندہ کئی سالوں تک القاعدہ ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دشمن نمبر ون کا کردارنبھاتا رہے گا۔
٭٭٭٭
03/05/2011
تحریر کے اہم ماخذ:بی بی سی اُرود، بی بی سی انگلش ،ایسوسی ایٹڈ پریس کی انگریزی ویب سائٹ ،وائس آف امریکہ ،اخبار کشمیر عظمی
Post a Comment