سیاست ادب کی پیداوار ہے اور بلوچستا ن میں بلوچ قومی سیاست کی داغ بیل ڈالنے والے بھی ھدامرزی واجہ یوسف عزیز مگسی ، ھدامرزی واجہ محمد حسین عنقا اور ھدامرزی واجہ گل خان نصیرجیسے قلم کے دھنی تھے اس لیے سازشوں کے ذریعے بلوچ سیاست کی تقسیم کے نتیجے میں بلوچی ادب بھی دو حصوں میں منقسم رہی ایک بیوروکریٹک ادب دوسرا قومی ادب ۔جس زمانے میں شہیداُستاد نے بلوچی ادب کو اُوڑھنا بچھونا بنایا اس زمانے میںبیوروکریٹک ادب کے مقابلے میں سید ھاشمی کا مکتبہ فکر قومی ادب کی پرورش کا بیڑہ اُٹھائے ہوئے تھا۔اس مکتبہ فکر کو ہمیشہ بلوچ سماج کو پاٹنے والے عناصر کے شدید حملوں کا سامنا رہا۔”سید سٹ “کی اصطلاح اس وقت تک کہ سید سٹ ناقابل شکست ثابت نہ ہوئے ایسے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی جو بقول ان کے مکرانی لہجے کی ترویج کررہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ کہ اس کام کابیڑہ اُٹھانے والے محض بلوچی زبان کوبولنے کی زبان کی حیثیت سے زندہ نہ رکھنا چاہتے تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ ایک متفقہ رسم الخط بنا کر بلوچی زبان کو علمی زبان کارتبہ دیں ۔
تعصب کا بیج بونے والے چوں کہ ادیب ہونے کا صرف ڈرامہ رچ رہے تھے اس لیے ان حقیقی لوگوں کے مقابلے میں ان کا کام بلوچی بتل ”سر کن ءُ پر کن ءُ ھپ کن ءُ ھچ “کے حد تک ہی رہا ہاں ان کی بدنیتی اور اس مکتبہ فکر کے ساتھ نہ جڑنے کی وجہ سے بلوچی ادب کا فروغ متاثر ہوا اور بلوچی ادب مکران کے مقابلے میں ان علاقوں میں جہاں مذکورہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ،ترقی نہ کرسکا۔مکران میں بلوچی زبان کے فروغ کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے درجن بھر گھرﺅں پر مشتمل چھوٹے سے چھوٹے گاﺅں سے بھی باقاعدگی سے بلوچی جرائدشائع کیے جاتے ہیں،سب سے زیادہ گوادر اور کیچ کے اضلاع میں جہاں شاید ہی کوئی گاﺅں ایسا ہو جہاں سے ادبی جرائد شائع نہیں ہوتے۔ان کو گل خان نصیر کو نمونہ بنانا چاہئے تھاجنہوں نے ”سید سیاھگ “ میں اپنا مجموعہ کلام ”گلباگ “شائع کر کے اسے متفقہ رسم الخط کی حیثیت سے قبول کیا جس کے ابتدائی مسودے میں وہ تمام حروف بھی شامل نہیں ہیں جو سید ھاشمی کے تحقیق کے مطابق بلوچی حروف تہجی میں شامل نہیں ۔مکران محض اپنی جغرافیائی انفرادیت کے باعث بلوچی زبان کا مرکزنہیں بلکہ صبادشتیاری جیسے شخصیات کی انتھک محنت اور کوششوں کا بھی اس کی جغرافیائی مرکزیت کو علمی مرکزیت میں بدلنے اور اس کوبرقرار رکھنے میں بڑ اعمل دخل ہے گوکہ آپ کی پیدائش لیاری کی ہے لیکن آپ کا علمی منبع(یہاں علم ادب مراد ہے جو شہید اُستاد کی پہچان ہے ) سید ھاشمی تھے جن کا تعلق مکران کے ساحلی علاقے گوادر سے تھا ۔آ پ نے سید ھاشمی سے براہ راست علم حاصل نہیں کیا ۔آپ کوسید ھاشمی کا چہرہ بس اتنا ہی یاد ہے کہ آپ چھوٹے سے لڑکے تھے جب آپ کو بی بی نازبی بی ( بانل دشتیاری ) نے ایک چابی دے کر اسے سید ھاشمی کو دینے کے لیے کہا ۔یہ ملاقات معمولی گوشگوار بھی نہیں تھی کہ نیند سے بیداری کی وجہ سے آپ ( سید ھاشمی ) پر خنک مزاجی کاغلبہ تھا مگر ایک عظیم شخصیت کی دیدار ایک دوسرے عظیم شخصیت کی ذہن میں ایسی پیوست رہ گئی کہ جیسے یہ ان کی زندگی کا یادگار ترین لمحہ ہو ۔اس وقت سید ھاشمی بھی نہیں جانتے ہوں گے یہ لاپرواہ سا نظر آنے والا لڑکا کل اُن کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانے والا ہے ‘یہ وہی لڑکا ہے جو ان کے نامکمل کام کو مکمل کرنے کے لیے زندگی کھپا دے گا اور آپ ہی طرح کے خواب دیکھ کر اُن کی تکمیل کے لیے جت جائے گا۔
سید ھاشمی اور صبا دشتیاری میں رشتہ داری کی ایک نسبت یہ بھی تھی کہ سیدبانل دشتیاری کو رشتے میں اپنی بہن مانتے تھے جن کا تعلق سادات کے اسی خاندان سے تھےجن کا صبا دشتیاری کا خاندان خد مت گزارتھا۔ جب بلوچ سادات کا یہ خاندان دشتیاری سے ہجرت کر کے لیاری کے علاقے کراچی میں آباد ہوا تو صبا کا خاندان بھی ان کے ساتھ آیا۔صبا اور بانل کا رشتہ بیگم اور نوکر کا رشتہ ہرگزنہیں تھابلکہ یہ رشتہ ماں اور بیٹے کے رشتے جیسا تھا ۔بانل دشتیاری ایک روایتی خاتون نہیں بلکہ پڑھے لکھے خاندان کی ایک ہونہار خاتون تھیں جو بلوچی زبان کی فکشن نویس اور مشہور شاعرہ تھیں ۔شہید اُستاد کی تربیت میں بانل دشتیاری کی محبتوں اور مہربانیوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا ۔چوں کہ سادات کا یہ خاندان ”جد گالی “بولی جوکہ براھوی کی طرح بلوچوں کی ایک بولی ہے بولتا ہے اس لیے آپ کے والدین بھی جدگالی بولتے تھے ۔جب عابد آسکانی کے توسط سیدھاشمی سے بحیثیت بلوچی زبان کے عالم آشنا ہوئے ، ان کے کام اور کردار کا مطالعہ کیا تو متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ادب وعلم کا وہ متلاشی تھے سید کے چمگ (چشمہ ) سے خوب سیراب ہوئے ۔آپ نے خوب پڑھنے سیکھنے کے بعد جب بلوچی میں لکھا تو پڑھنے والے ایسی شیرین اور میٹھی زبان سے آشنا ہوئے جس پر خالص بلوچی بولنے والے لکھاریوں نے بھی رشک کیا ۔
سید ھاشمی کی شاہکار ڈکشنری ”سید گنج “کی ترتیب وتدوین میں بھی سید ھاشمی اکیڈمی کے دیگر ممبران کے ساتھ کام کیا ۔بلوچی زبان کی اس واحد ڈکشنری میں آپ کا کام دیگر ہمعصروں سے نمایاں نظر آتا ہے ۔سید ھاشمی کے زمانے میں ان سے جڑے ہوئے لوگوں کے علاوہ بھی کئی ایسی بڑی ہستیاں تھیں جو بلوچی ادب سے وابستہ تھے مگرآپ کے بعد علماءادب کی تعداداور سر گرمیاں سکڑتی گئیں ۔ادبی لحاظ سے شہید اُستاد اپنےزیادہ تر ہم عصروں سے خرد سال ( جونیر) تھے ۔اُنہوں نے جن سے بلوچی زبان کا فیض حاصل کیا اُن میں عابد آسکانی ، جی آ ر ملا ، علی عیسیٰ اور سید ہاشمی اکیڈمی سے وابستہ دیگر ادبی شخصیات شامل ہیں مگر عصر حاضر میں مذکورہ شخصیات اپنی ذات کےخول میں بند ہوچکے ہیں۔شہید استاد اپنے عہد کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے بلوچی زبان کو معیاری زبان کی حیثیت سے زندہ رکھنے کی تحریک کو جاری رکھا ہواہے ( یقینا اُن کا کام سید ھاشمی ریفرنس لائبریری کے توسط جاری ہے اور رہے گا ) انہوں نے ادبی برف جیسے خیالات اپنے جذبات کی گرمی سے پگھلا دیئے علم وادب کا دائرہ وسیع تر کردیا ۔لیاری سے دہکان گارڈن ملیر تک ، کراچی سے لے کر شال تک ، نوشکے ، مشکے ، جھالاوان ، سراوان ، پنجگور ، خاران ، کیچ اور گوادر یہاں تک کہ بیرون وطن خاص طور پر یورپ اور عرب ممالک میں جہاں بلوچ یا بلوچی زبان سے محبت کرنے والے لوگ آباد ہیں ‘علم کی روشنی پھیلا تا رہا۔انہوں نے بلوچی درس وتدریس کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کے اثرات کی وجہ سے کراچی جہاں دنیا میں سب سے زیادہ بلوچ آباد ہونے کے باوجود وہ اپنی زبان اور قومی احساسات کھورہے تھے ایک مرتبہ پھر سید ھاشمی کے زمانے کا بلوچی زبان کا سر چمگ بن گیا ۔جہاں انہوں نے دنیا میں بلوچی کی پہلی ایسی منفرد لائبریری قائم کی جہاں ڈیڑھ لاکھ کتاب اور دستاویزات موجود ہیں۔
ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ایک آدھ غزل کہہ کر خود کو بڑا ادیب سمجھ کر زندگی کے دیگر جھمیلوں سے علیحدہ ہوکر کتاب چاٹنے تک محدود ہوجاتے ہیں ۔جو دراصل بیوروکریٹک ادب کے پیدوار ہیں جس سے ہمارے ہاں کار پوریٹک ادب جنماہے۔دنیااِدھر سے اُدھر ہوجائے ان کے لبوں پر عشق کے ترانے ‘ذہنوں پر شہرت کاخمار چھایا رہتا ہے۔ ان کی انقلابی لفاظی بھی اسی بھوک کی تسکین کے سوا ءکچھ نہیں جوان کےمزاج اور تربیت کا حصہ ہے۔پاکستان نے بھی انہیں مصروف رکھنے کا کچھ نہ کچھ بندبست کر رکھا ہےیہی وجہ ہے کہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے زیر اہتمام چلنے والے ریڈیو اسٹیشنز اور بولان ٹی وی جیسے اداروں سے جڑے ہوئے ادیب بھی خیالی سر خاب کے پر لگائے گھومتے ہیں ۔ہزاروں مجبوریوں کی بیڑیاں پاﺅں میں ڈال کر یہ ادبی رقاص دامے درمے سخنے اس خیال کی آبیاری کررہے ہیں جس کے خلاف شہید اُستاد کی تحریک ہے۔
وہ این جی اوز کو بلوچ اداروں کے زوال کا ذمہ دار سمجھتے تھے اس لیے کسمپرسی اور تنگدستی کے باوجود سید ھاشمی ریفرنس لائبریری کو این جی اوز کی مداخلت سے بچاتے رہے ۔حالانکہ بہت سے لوگوں نے انہیں این جی اوز سے مستفید ہونے کا مشورہ دیا جسے انہوں نے ہمیشہ مسترد کردیا ۔آپ کو این جی اوز کی چال چلن میں سر مایہ داروں کی سازشوں کا عکس نظر آتا تھا ۔دراصل آپ خالص آزادی پسند تھے اس لیے امدادی بیڑیاں نہیں پہننا چاہتے تھے ۔آپ اپنے ممبران کے سالانہ دوسوروپیوں کو کروڑوں روپیوں سے بھی زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک چراغ ( کندیل /قندیل ) کی ماند تھے اس لیے ان کے گرد ہمیشہ پتنگے منڈلاتے رہتے تھے۔ آ پ سے ایسے لوگ جڑتے گئے جو بلوچی زبان اور اپنی قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ۔
آپ کے زمانے میں رونے دھونے ، گلے شکوے کرنے کی روایت اس قدر جڑ پکڑ چکی تھی کہ ہر ایک کو علمی کام نہ کر نے کا بہانہ میسر تھا ۔انہوں نے اس فکر میں دراڑ ڈالا۔ بھڑک باز ی نہیں کی ، گپوں میں وقت ضائع نہ کیا ۔بغیر گلے شکوے رونے دھونے کے کام کرتے رہے ‘کام کرنے والوں سے کام لیتے رہے جو کام نہ کرتا ان سے بھی راضی رہتے اور ان کے حصے کا زیادہ تر کام انجام دے کر ان کی حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے۔
روایتی ادیبوں نے جب انہیں اپنے ڈھنگ سے ہٹ کر پایا تو انہیں جذبات کے ہاتھوں بے قابوشخص قرار دے کر اپنی روایت کی حفاظت کی کوشش کی ۔انہوں نے فلسفے کی دیگر کسی کتاب اور مکتبہ فکر کی طرف رجوع کرنے سے انکار کردیا ۔ماسوائے اس نظریے کے کہ” ادیب کو اپنے سماج سے ایک فاصلہ رکھنا چاہئے تاکہ و ہ اس فاصلے سے ان کو مشاہد ہ کر سکے ۔“اس بات کو شہید استاد نے بھی مکمل رد نہیں کیا بلکہ سماج کاکسی بھی دوسرے بلوچ ادیب کی نسبت زیادہ زیرک بینی سے مشاہدہ کیا۔خلوص سے جب بھی مطالعہ کیاجائے تو کایا کلپ ہوجاتاہے ایک پیراگراف بھی زندگی سے متعلق نظریات بدل دیتا ہے چے جائے کہ انہوں نے سب سے بہترین مطالعہ یعنی انسان کا مطالعہ کیا ۔انہوں نے اپنی قوم کے دردکو محسوس کیا تو اس کی دوا تلاش کی ۔آپ جذباتی طور پرتندرست تھے اس لیے معاملے کی جڑ تک پہنچنے میں آپ کو دیر نہ لگی کہ یہی وہ وقت ہے کہ بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششوں کے خلاف سر بہ کف نوجوانوں کو حوصلہ دیا جائے ، اُن کی رہنمائی کی جائے ۔آپ بر ملا شعوری اقرار کرتے تھے ۔”بلوچ نوجوانوں کی رگوںمیں غلامی اور ان کو غلام بنانے والوں کے خلاف نفرت بھرنی چاہئے ، اتنی نفرت کہ و ہ غلامی کا سایہ تک برداشت نہ کریں اوران کے دشمن کو خس خاشاک کی طرح مٹاڈالے ۔“انہوں نے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے کوجنگ کا صحیح ودرست مفہوم جانا جب کہ دوسرے جوکہ داراصل کاغذی دانشور ہیں ”جنگ “کو جانے کیا سمجھ کر عجیب وغریب اور جنگ مخالف نظریات پھیلا کر خود کو بلوچ قومی تحریک کاخیر خواہ قرار دیتے ہیں۔ جس کی تشریح وہ خود بھی بلوچ قومی آزادی کرتے ہیں جس کا ہم جیسے کم عقلوں کے نزدیک مطلب ”جنگ آزادی “ہی ہے ۔شہید اُستاد اور شہید واجہ(غلام محمد ) ایک ہی فلسفے پرایمان رکھتے تھے یعنی ” کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی ایک انگلی کٹائے بغیر بھی جنگ لڑ سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہاہے ۔“
دراصل روایتی ادیب اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شہید اُستاد اورشہید واجہ کے پیروکاراعلان جنگ کر چکے ہیں جس کا مطلب مرنا یا مارنا کے علاوہ کچھ نہیں ۔اس وضاحت کے بعدا نہیں ”چپ رہنے ،احتیاط کرنے، اپنے کام سے کام رکھنے“ جیسے مشورے دینے والوں کو دراصل اپنی ذہنی صحت کی جانچ کرنی چاہئے تھی کہ و ہ ایک سپاہی کو ایسے موقع پر لڑنے سے روک رہے ہیں جب دشمن ان کے صفوں میں گھس کر ان کے ساتھیوں کو قتل کررہاہو۔یہی بات آپ کے عقل سے بعید تھی اس لیے آپ ان بزدلانہ و احمقانہ مشور وں پر کان دھرے بغیر اپناکام کرتے رہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ آپ کی شہادت ایک نقصان ہے مگر یہ بات قطعاً درست نہیں کہ آپ کی موت ایک مہم جوئی کا نتیجہ تھی ۔آ پ ایک شعوری عمل کے نتیجے میں شہادت کے درجے پر پہنچے یہ وہ موت ہے جس کا انتخاب آپ جیسے لوگ خود کرتے ہیں اس لیے اسے قتل نہیں بلکہ شہادت کہا جاتا ہے ۔ان حالا ت میں ہر ایک جانتا تھا کہ شہید اُستاد جیسے لوگ دشمن کے نظروں سے چھپے ہوئے نہیں ، وہ دشمن جوکسی جنگی دستور کا تابع نہیں ۔زخم خوردہ اورحواس باختہ دشمن کی نظر میں ہر بلوچ چاہئے وہ سیاست کے ابجد سے ہی واقف نہ ہومسلح ہے جب کہ شہید اُستاد اُن کے واضح دشمن تھے ۔آپ کی شہادت ایک سر خیل رہنماءکی شہادت ہے ، ایک عہد کی شہادت نہیں مگر ایک عہد ساز کی شہادت ہے جسے بلوچ قوم اور آپ کے شاگرد کبھی فراموش نہیں کریں گے اور جب بھی آپ کی خون سے لت پت لاش اُن کے خیال میں آئے گی اُن کے دلوں میں دشمن کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے گی اور قلم قبیلے کے افراد قومی جنگ میں شرکت کرکے اس عہد کو زندہ رکھیں گے جس کا آغاز شہید اُستادہیں۔
Respected Saba Dashtiyari shall be remembered as the
Baloch Martin Luther King in free Balochistan.
Waja Qazi, you have raised a very good point, in political terminology it is called “post-colonial theory “. The basic concept of the theory is when colonial powers occupy a land, and to make their occupation long-lasting they play with the mind of the indigenous people. They go beyond the physical suppression, and distort the history, culture and language of the native people. They make the local people believe, that it is good for them that they (occupier) came, because they (Local) are savages and to be cultured.
Frantz fanon, Edward Said and many more intellectuals like them have been fighting the legacy left behind by the colonial mentality in our literature and other forms of expression.
http://english.emory.edu/Bahri/Intro.html
http://faculty.pittstate.edu/~knichols/colonial2.html
Masood Baloch
Thank you waja Masood, for your scholastic comments. Hope you will guide me also in future.
Respected Qazi sahib. I have gone through your insightful and in depth article regarding Saba Dashtyari who was a great educatinist ,writer ,scholar.He was just my younger brother. My mother Banul Dashtyari was in reality her mother, as Saba,s real mother Mahtab had died earlier. Your article is a nawishta-i- deewar for corporate writers who couldn't fathome the depth of Saba' sagacity and intellect.
With best regards,
Shymay brat,
Nadir shah Adil
Editorial Incharge Express.karachi