دنیا میں بلوچی کے دواکیلے اور پہلے ٹی وی چینلز پر بطور قومی فریضہ نظر دوڑانے کے بعد میں مزاج سے مطابقت رکھنے والے کسی پرواگرام کی تلاش میں چینل بدل رہاتھا،بلوچی کے بعدزبان اردو ہے جس کی ہمیں تھوڑی بہت سمجھ آتی ہے ۔اب اسے ہماری بد قسمتی ہی کہہ لیجئے کہ اردو کے تمام نیوز چینلز استاد عبدالمجید گوادری ، بشیر بیدار اور فیض احمد فیض کی شاعری کی طرح فنی، علمی اور پیش کش کے اعتبار سے اعلیٰ پائے کے ہونے کے باوجود کوئی نیا مدعا نہیں بتاتے۔ پاکستانی نیوز چینل کے مباحثے دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ جیسے 2002کی کوئی پرانی ریکارڈنگ دیکھ رہے ہیں ۔ شاید اس میں نیوز چینلز والوں کا قصور نہ ہوبقول اُستاد عبدالمجید ”جب ہمارے دکھ در د، حالات اور مسائل میں یکسانیت اورٹہراﺅ ہو تو شاعری میں نیا خیال کہاں سے لائیں ؟“1۔جس طرح صدیوں کے غلامی کا احساس اُستاد کی شاعری میں آزادی تک عکس پیوند رہے گااسی طرح لگتا ہے کہ پاکستانی نام نہادآزاد میڈیا کے تولد سے لے کر اب تک کے نہ بدلنے والے حالات پاکستانی تجزیہ نگاروں کوالفاظ وخیالات کی جگالی پر مجبور کرتے رہیں گے ..........................شاعری اور حالات حاضرہپر تبصروں کو گڈ مڈ نہ کیجیےاُردو نیوز چینلز کے پروگرامات میں سطحی اور بناوٹی باتیں بھی پاکستانی نصاب میں ”قاعداعظم کے چودہ نکات “ہیں جو جغرافیہ ، انگریزی ،تاریخ ، سیاسیات اور اسلامیات ہر ایک مضمون کی کتاب میں جز لازم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ہمیں 1947سے یہ معلوم ہے کہ ”گورے اور بنیے مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں ‘بنیے ہندوستان پر مسلمانوں کی صدیوں کی حکمرانی کا بدلہ لینےکے آڑ میں ہیں اور گورے مسیحی ہونے کے بناءپرصلیبی جنگوں کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔“تجزیہ نگاروں کی باقی باتیں ہمارے ذہن میں راسخ کیے گئے اسی دونکاتی نظریے کی تشریحات ہیں ۔اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ” امریکہ کے بھاری امداد کے بغیر پاکستان اقتصادی اور فوجی لحاظ سے انتہائی کمزور اور ناکام ریاست ہوتی “پاکستان کے وہ جید حضرات جو چندسال پہلے ملک کے کرتا دھرتا ہواکرتے تھے، میڈیا پر آکر ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ” امریکہ پاکستان کا دشمن ہے ۔“
یہی سوچتے سوچتے سی این این پر نظر یں ٹک کررہ گئیں جس کی حسین نیوز کاسٹروں کی باچھیں ضرور ت سے زیادہ کھلی ہوئی تھیں ۔یہ جاننے ہوئے بھی کہ ان کے منہ سے پھسلتے الفاظ میری سماعت کی فریکوئنسی سے مطابقت نہیں ر کھتے متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔2مئی 2011، خبر بالکل تازہ تھی........... ”امریکہ کے ایک خصوصی آپریشن میں اسامہ بن لاد ن مارے گئے ہیں۔“
یہ سوچے بغیر کہ ”دنیا میں غم اور بھی ہیں “مثلانہانا ، ٹوتھ پیسٹ کرنا، کپڑے پہننا، کھانا کھانا ، بال بنانا ،ایس ایم ایس بازی کرنا ، پیکج پر موبائل پر گپیں لگانا اور فیس بک پر بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں کردار اداکرنا مجھے اس خبرکی تفصیلات وجزئیات میں دلچسپی پیدا ہوئی ،مجبوراً اُردو نیوز چینلز کی طرف رجوع کیا۔چینل بدلنے کی دیری تھی کہ اُسامہ کی تصویر بھی جاری کردی گئی .............پھر پل پل بدلتے خبر۔
جسے خبریں پڑھنے کا چسکا لگے اسے خبر سننے میں مزانہیں آتااسی شوق کی تسکین کے لیے خبر یں دیکھنے کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر براﺅزنگ بھی کرتا رہا ۔یہ دیکھنے کے لیے واقعی اسامہ مر گئے ہیں اس کی میت کی تصویر ڈاﺅن لوڈ کی ۔ میں مردے میں اسامہ کی مماثلت تلا ش کررہاتھا جوکہ الجزیرہ نے اسا مہ کی ایک پرانی تصویر اور مبینہ میت کی تصویرنتھی کرکے آسان کردی تھی۔غور کرنے پر تصویر مشابہہ سے بڑھ کر ہوبہو معلوم ہونے لگی ۔میں تصویر پر غور کررہاتھا اوردماغ کے اسٹوڈیو میں میرے دماغی بقراط مذاکرہ کررہے تھے ۔”اذیت اور زخم سے مرنے والوں کے منہ عموماًکرب و درد کے باعث کھلے رہ جاتے ہیں ............گولی اسامہ کی بائیں آنکھ میں لگی ............دائیں پر بھی زخم ہے ؟...................چہر ے پر خون کپاس سے صاف کیے گئے ہیں........اسامہ کی داڑھی گھنگرایالے تھے .....................بال پہلی مرتبہ نظر آرہے ہیں داڑھی جیسے ہی گھنگرایالے ہیں ................ناک بھی اسامہ والی ................کان بھی اسی کا ........مگر دونوں تصاویر میں اس کا منہ ایک ہی زاویے سے کیوں کھلاہے ؟“
ا بھی میں میت کے اس معجزے پر محوحیر ت تھا کہ ٹیوٹر کی ایک نئی ٹیوٹ بین الاقوامی خبروں کی زینت بن گئی بعدازاں اسی کی بنیادپر گارڈین میں ایک آرٹیکل بھی چھپا ۔جس میں ثابت کیا گیاکہ یہ سب فوٹوشاپ کا کمال تھا ۔اس تصویر کی پیشانی اور آنکھ کسی دوسال پرانے مردے کی تصویر سے لی گئی تھیں جو انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب تھی جس کو کمال فن سے اسامہ کی تصویری چہرے کے ساتھ فوٹوشاپ سر جری کیا گیا ۔یہ دیکھ کراب میرے ذہن میں بھی ہلچل پید اہوئی کہ اتنی جلدی یہ جعلی تصویر کیسے شائع ہوئی اور کون سے معتبر ذرائع نے شائع کی کہ دنیا بھر کی میڈیا کو اس پر بلا چوں وچرا یقین کرنا پڑااور پھر چند ہی گھنٹوں بعد ٹیوٹر پر کیسے اصل تصویر کو تلاش کرکے افشاں کیاجاسکا ؟....................دنیا میں عقل دانوں کی بہتات ہے اور ایک ہم ہیں کہ معجزے کے انتظار میں بال سفید کررہے ہیں ۔خیر سے ہم نہ عقل دانہ ہیں نہ انار دانہ مگر اُوٹ پٹانگ سوچتے بولتے ضرور ہیں مثلا اسی پہلو پر میرے ناقص عقل میں یہ سوال پید اہواکہ اگر تصویر جعلی تھی توامریکہ کے چندسر کاری ویب سائٹس پر یہ کیوں لگائی گئی ؟............اس کی تردید کے لیے ٹیوٹر کے ٹیوٹ کا کیوں انتظار کیا گیا اس کے شائع ہونے کے فوری بعد کیوں تردید نہیں کی گئی ؟................گر ہم اس قدر سیانے ہوتے توامریکن ہیلی کاپٹرز کے بغیر ایندھن بھرے پاکستان کے اندر طویل پروازکی گتھی نہ سلجھا دیتے ؟؟
رواں ہفتہ شاید دنیا کی تاریخ کا واحد ہفتہ ہے جس کی ہر سیکنڈ میں ایک نئی معیاری (خبر کی صحافتی تعریف کے عین مطابق )خبر چل رہی ہے اور مجھ جیسے کسی غم خانہ وروزگار سے آزاد شخص کی سماعت وبصارت سلامت ہوں تو اس میں ممکنہ طورپر ہر لمحہ جینے کا احساس انگڑائی لے سکتاہے ۔ہم ساغرب الوطن ہونے کی واحدخوبی یہ ہے کہ اگر زمین خودہمارے ایک جگہ جم کر بیٹھنے پر اعتراض نہ کرئے تو دوسروں کو بہت کم اعتراض ہوتا ۔دستیاب کتابوں کو چاٹنے اور موٹی موٹی خبروں کو پڑھنے کے بعد بھی کافی وقت بچتاہے جو گوگل پرانٹر نیٹ کے کنگالنے میں بیت جاتے ہیں ۔اب بیالیس کروڑ مضامین پڑھنے کے لیے کم ازکم پانچ کروڑ دن توضرور لگتے اس لیے دل پر پتھ رکھ کر حسب توفیق پر اکتفا کرنا پڑ رہاہے۔خبروں کی بھر مار میں عموماًخبروں کے کونے کھدرے میں چھپے ہونے کا امکان رہتا ہے ۔اصولاًخبروں پر اس وقت تبصرہ کرنا چاہئے جب خبر کا نزول مکمل ہو ۔مگر اسامہ کے معاملے پرکوئی بھی خبری وتجزیہ نگار قطار میں رہنے پر آمادہ نہیںجسے ”صحافتی کشمکش “
(Media scrabbling)
کانام دیا جارہاہے۔ میں تو ویسے ہی ”کمنگ بیک “کے لیے کسی ایسے موضوع کے تلاش میں تھا جو میرے بلوچ دوستوں کے حلقوں میں قابل برداشت حد تک متنازعہ ہو ۔
یوں ہی بے خودی میں گوگل پراِزاسامہ الائیو؟(کیا اسامہ زندہ ہے؟)لکھ کر سر چ کیا۔نتیجہ دیکھ کر تعجب گرفتہ ہوگیاکہ اسامہ سے متعلق انٹر نیٹ پر بیالیس کروڑ سات لاکھ تحریریں موجود ہیں جوانٹر نیٹ پر عربی ، ہندی ، جاپانی اور دیگر رومن اسکرپٹ سے مختلف زبانوں میں لکھی گئی تحریروں ، خبروں اور تبصروں کے علاہ ہیں ۔ سب سے زیادہ انگشت بدندانی کیفیت اس امرپر ہوئی کہ دنیا بھر میں مجھ جیسےبے وقوفوں کی کوئی کمی نہیں جو جناب اوبامہ اور ان کے رفقاءکار کے دعوے پر ہونقوں کی طرح ہکا بکا ہیں ۔
میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں جناب اوبامہ کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی اسے جھوٹا یا ناقابل اعتبار کہنے کی گستاخی کا محتمل ہوسکتا ہوں بلکہ جناب کی پریشانی سمجھتا ہوں کہ بھینس کو بین بجاکر نچوانا چاہتے ہیں۔ اردوزبان سے آشنا جانتے ہیں کہ اس محاورے میں نہ بین قصور وار ہے اور نہ ہی بین بجانے والابلکہ اصل نالائق بھینس ہے جو آج تک نہیں سمجھ پایاکہ اسے بین کی آوازپر سانپ کی طرح گردن ہلاہلاکر دھمال کرنا ہے ۔اور یہ بھی بتاتاچلوں کہ حیاتیات کی کتابوں میں لکھی اس بات پربھی میرا یقین کمزور ہے کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے ، مندرجہ بالا تجربے کے بعد مجھے سوفیصد شک ہے کہ بھینس کے کان ہاتھی دانت کی طرح کسی کام کے نہیں فقط دکھانے کے ہیں ۔
فیس بک پر” اسامہ مرے نہیں “کے نام پر ایک صفحہ بھی بنایا گیاہے،2جسے ایک ہندوستانی بلاگر نے احمقوں کا صفحہ قرار دیاہے۔مگرحکمرانوں کے نزدیک سب سے زیادہ احمق صحافی ہیں جنہیں کوئی بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی ۔ہیرالڈاور نیوز کاسٹ میڈیا 3،وغیرہم سے بھی اوبامہ انتظامیہ کی کچھ باتیں ہضم نہیں ہورہئیں ۔دنیا میں جاری اس تماماشاکی ایک جھلک ذیل میں دی گئی ہے۔
اسامہ تو زندہ ہی نہیں تھےشاید ایبٹ آباد میں اس کے بھوت کو ہلاک کیا گیا ہو ۔حاضرین !آپ یہ ایک تماشا دیکھ رہے ہیں اور کچھ نہیں ۔میری ناک کی سید ھ میں دیکھیں شاباش !اب آئستہ سے پیچھے مڑکر دیکھیں ..............مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ آپ کی گردن 120ڈگری کے زوایے میں نہیں گھوم سکتی مگر میں دیکھ سکتاہوں کہ آپ کی گردن کے پیچھے بن لادن کھڑے ہیں ......پھرتی مت دکھائیں یہ بن لادن کا بھوت ہے سکینڈوں میں رفو چکر ہوجائے گا......................آپ عمر شیخ کو جانتے ہو ؟...............آفرین ! آپ اپ ٹوڈیٹ ہیں آپ کو کوئی پرانی بات یاد نہیں آپ رجعت پسند اور پرانے خیالات کے ہرگز نہیں معلوم ہوتے ......یہ بے نظیر کا شنا ساتھا ،آپ بے نظیر کو تونہیں بھولے ،جوکسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن ہواکرتی تھیں ! ............... وہی جس کے قتل کے الزام میں ایک سابق صدر اشتہاری اور .......... . پرویز الہیٰ بڑے اچھے آدمی ہیں اور اس موضوع سے متعلق ہرگز نہیں اس کا تو بے نظیرسے ہم نے کبھی سلام علیک کابھی نہیں سنا .............چلو ادھر ادھر کی باتیں ختم کر کے آپ کو عمرشیخ کی کہانی سناتاہوں ۔
روایات کے مطابق عمر شیخ برطانیہ میں پیدا ہوئے او ر چودہ سال کی عمر تک وہی پلے بڑے ۔ان کا پورا نام احمدعمر سعید شیخ بتایاجاتاہے۔انہوں نے کسی مذہبی مدرسے سے نہیں بلکہ ایچی سن کالج جیسے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور حصول علم کے لیے امریکہ بھی گئے۔انہوں نے بعد میں لندن اسکول آف کامرس سے معاشیات اور ریاضی کی شد بد بھی حاصل کی ۔موصوف شطرنج کے زبردست کھلاڑی تھے وہ اس میدان میں جونیئر لندن چمپئن شپ کے فاتح کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔القصہ وہ دنیا کے تمام نامی گرامی جہادی ہستیوں کی طرح بوریا بستر باندھ کرپاکستان آگیا ۔اس کے جیش محمد،القاعدہ، حرکت المجاہدین اورطالبان کے ساتھ تعلقات تھے ۔ 1994کو ہندوستان میں اسے تین مغربی سیاحوں کے اغواءکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔پانچ سال وہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ایک صنعتی شہر غازی آباد کے جیل میں قید رہے،4۔
عمر شیخ یا عمروعیار ؟ .....شیخ کے مختلف چہرے
1999میں چنداغواءکار انڈین ائر لائن فلائٹ814کونیپال سے اغواءکرکے اس وقت کے سلامی امارت افغانستان کے شہر کندھار لے گئے انہوں نے مسافروں کی رہائی کے بدلے پاکستانی تنظیم حرکت المجاہدین کے رہنماءمسعود اظہر،مشتاق احمد زرگر سمیتشیخ کی رہائی کا مطالبہ کردیا جسے منظور کر لیاگیا۔اس کا ایک مشہور کارنامہ وال اسٹر یٹ جرنل کے صحافی ڈینئل پر ل کا قتل بھی بتایاجاتاہے،2002اور انہیں انائن الیون میں بھی ملوث قرار دیا جاتارہاہے،5۔
مشرف نے اپنی کہانیوں کی کتاب”ان دا لائن آف فائر “میں لکھا ہے کہ ”سچائی یہ ہے کہ شیخ برطانوی انٹلی جنس ایجنسی ایم 16میں اس وقت بھرتی کیے گئے تھے جب وہ لندن کے اسکول آف کامرس میں زیر تعلیم تھے۔دی ٹائم کے مطابق ”شیخ عام دہشت گرد نہیں بلکہ اس کے پاکستانی انٹلی جنس اداروں کے اہم عہدیداروں ، القاعدہ کے اندرونی حلقوں اور اسامہ بن لادن کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں ۔امریکن براڈ کاسٹنگ کمپنی (اے بی سی )کے مطابق شیخ نے1993میں پاکستان کے انٹر سروسزانٹلی جنس (آئی ایس آئی ) کام شروع کیا ۔1994میں اس نے تربیتی کیمپ چلائے اور اسامہ کے ”فرزندخاص “کا خطاب پایا،6 ۔مئی 2002میں واشنگٹن پوسٹ نے نام بتائے بغیر ایک پاکستانی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ1994میں اغواءکے الزام کے مقدمے میں شیخ کے قانونی فیس آئی ایس آئی نے اداکیے تھے،7۔
پاکستانی پولیس نے 12فروری 2002کو اسے لاہور سے گرفتار کر لیا۔ آخری مرتبہ اس کاذکر ڈان اخبار میں2009کی ایک رپورٹ میں کیا گیا کہ”28نومبر کو ممبئی حملے کے بعدایک دھوکے باز نے خود کو ہندوستانی وزیر خارجہ پرناب مکرجی ظاہر کرکے زرداری کو فون پر حملے کی دھمکی دی جس کے بعداسلام آباد اور روالپنڈی کے فضاﺅں میں بارودسے لیس جنگی جہاز منڈلانے لگے اوردونوں ممالک کے درمیان جنگی صورتحال پیدا ہو گئی ۔اسی نے خود کو زرداری ظاہر کر کے پرناب مکرجی اور امریکن اسٹیٹ سیکریٹری کونڈولیز ارائس سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی جس میں اسے ناکامی ہوئی ۔بعد میں پتا چلایاگیا کہ یہ فون عمر شیخ نے اپنا برطانوی سم استعمال کر کے کیےتھے۔عمر شیخ اب بھی پاکستانی جیل میں قیدہیں،اسے پرل قتل کیس میں موت کی سزاءسنائی گئی ہے جس کے خلاف اس کے وکیل نے اپیل دائر کر کے رکھی ہے۔
اس مضمون میں عمر شیخ کاتفصیلی ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہی وہ عمر شیخ ہیں جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس نے نائن الیون سے پہلے اسامہ بن لادن کو قتل کیا تھا۔اس کا بے نظیر سے تعلق یہ بنتا ہے کہ بے نظیر ہی نے یہ انکشاف نومبر 2007میں الجزیرہ نیوزکے ڈیوڈ فروسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا تھا،8۔محترمہ کے الفاظ تھے:”عمرشیخ :وہ شخص جس نے اسامہ بن لادن کو قتل کیا“
بے نظیر کا الجزیرہ پر نشرہونے والا انٹرویوجس میں وہ اسامہ کے قتل کا انکشاف کررہی ہیں
میڈیا میں اس طرح کی سینکڑوں رپورٹس بھی شائع ہوچکی ہیں کہ یہی انٹر ویوبے نظیر کے قتل کی بنیادی وجہ بنی جس میں بے نظیر نے کہا تھا کہ”وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسے اس شخص کی طرف سے خطرہ ہے جنہوں نے اسامہ بن لادن کا قتل کیا تھا“
میڈیا میں ڈک چینی پر بھی الزام عائد کیا گیا :”امریکہ کے شہرہ آفاق، بے باک اور حق گو دانشور اور صحافی سیمور ہرش جو امریکہ کے مستند جریدے نیو یارک ٹائمز اور دوسرے اخبارات میں لکھتے ہیں، نے بڑے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں، مثلاً پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بش انتظامیہ کے دور میں نائب صدر ڈک چینی نے قتل کرایا، اس کی وجہ یہ تھی کہ محترمہ نے 2نومبر2007ءکو الجزیرہ ٹی وی پر یہ کہا تھا کہ اسامہ بن لادن اب زندہ نہیں ہیں کیونکہ انہیں القاعدہ کے ایک فعال رکن عمر سعید شیخ (جو امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے الزام میں پاکستان میں زیر حراست ہے) نے قتل کیا تھا، لیکن ان کا انٹرویو لینے والی صحافی ڈیوڈ فراسٹ نے اسے حذف کر دیا جس کی وجہ سے یہ نشر نہیں ہو سکا۔ جناب ہرش نے 12مئی2009کو گلف نیوز کو بتایا کہ ڈک چینی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسامہ بن لادن کی موت کی خبر دنیا کو معلوم ہو، کیونکہ اس صورت میں امریکہ کو افغانستان میں طالبان سے جنگ کرنے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہے گا،9۔“
اتنا سب پڑھنے کے بعد مزید پڑھنے کی ہمت باقی نہیں رہی اور اندازہ ہوگیا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہم سب بے وقوف لوگ ایک دوسرے کوبے وقو ف بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔فرعون کےطبیب سینوھا اپنے سوانح کے مقدمے میں لکھتے ہیں :” تاحال میں نے ایسی کوئی کتاب یا تحریر نہیں دیکھی جو حقائق کی بنیاد پر لکھی گئی ہو۔ان کتابوں میں سے بھی جو خدا کے متعلق لکھے گئے ہیں اور ان میں سے بھی جو انسان یعنی اس دنیا میں فرعون کے متعلق لکھے گئے ہیں،تاحال کسی کتاب میں بھی حقیقت بیانی نہیں کی گئی ہے۔مگر تصور کرتا ہوں کہ بعد میں یہ بھی کتابوں میں سچائی کے طور پر باقی نہ رہے گا ۔ممکن ہے کہ آدمی کے لباس ،زبان ، آداب ، رسم اور اعتقاد تبدیل ہوں مگر ان کی حماقت تبدیل نہیں ہوگی اور ہر وقت اپنی باتوں اور تحریروں میں لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔جس طرح مگس ( مدومکھی ) شہد کو پسند کرتاہے اسی طرح آدمی بھی جھوٹ اور پوچ وعدوں کو جو کہ کبھی علمی نہیں ہوتےپسند کرتے ہیں،10۔
ہمیں 1947سے یہ معلوم ہے کہ ”گورے اور بنیے مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں ‘بنیے ہندوستان پر مسلمانوں کی صدیوں کی حکمرانی کا بدلہ لینےکے آڑ میں ہیں اور گورے مسیحی ہونے کے بناءپرصلیبی جنگوں کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔“تجزیہ نگاروں کی باقی باتیں ہمارے ذہن میں راسخ کیے گئے اسی دونکاتی نظریے کی تشریحات ہیں ۔اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ” امریکہ کے بھاری امداد کے بغیر پاکستان اقتصادی اور فوجی لحاظ سے انتہائی کمزور اور ناکام ریاست ہوتی “پاکستان کے وہ جید حضرات جو چندسال پہلے ملک کے کرتا دھرتا ہواکرتے تھے، میڈیا پر آکر ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ” امریکہ پاکستان کا دشمن ہے ۔“
یہی سوچتے سوچتے سی این این پر نظر یں ٹک کررہ گئیں جس کی حسین نیوز کاسٹروں کی باچھیں ضرور ت سے زیادہ کھلی ہوئی تھیں ۔یہ جاننے ہوئے بھی کہ ان کے منہ سے پھسلتے الفاظ میری سماعت کی فریکوئنسی سے مطابقت نہیں ر کھتے متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔2مئی 2011، خبر بالکل تازہ تھی........... ”امریکہ کے ایک خصوصی آپریشن میں اسامہ بن لاد ن مارے گئے ہیں۔“
یہ سوچے بغیر کہ ”دنیا میں غم اور بھی ہیں “مثلانہانا ، ٹوتھ پیسٹ کرنا، کپڑے پہننا، کھانا کھانا ، بال بنانا ،ایس ایم ایس بازی کرنا ، پیکج پر موبائل پر گپیں لگانا اور فیس بک پر بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں کردار اداکرنا مجھے اس خبرکی تفصیلات وجزئیات میں دلچسپی پیدا ہوئی ،مجبوراً اُردو نیوز چینلز کی طرف رجوع کیا۔چینل بدلنے کی دیری تھی کہ اُسامہ کی تصویر بھی جاری کردی گئی .............پھر پل پل بدلتے خبر۔
جسے خبریں پڑھنے کا چسکا لگے اسے خبر سننے میں مزانہیں آتااسی شوق کی تسکین کے لیے خبر یں دیکھنے کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر براﺅزنگ بھی کرتا رہا ۔یہ دیکھنے کے لیے واقعی اسامہ مر گئے ہیں اس کی میت کی تصویر ڈاﺅن لوڈ کی ۔ میں مردے میں اسامہ کی مماثلت تلا ش کررہاتھا جوکہ الجزیرہ نے اسا مہ کی ایک پرانی تصویر اور مبینہ میت کی تصویرنتھی کرکے آسان کردی تھی۔غور کرنے پر تصویر مشابہہ سے بڑھ کر ہوبہو معلوم ہونے لگی ۔میں تصویر پر غور کررہاتھا اوردماغ کے اسٹوڈیو میں میرے دماغی بقراط مذاکرہ کررہے تھے ۔”اذیت اور زخم سے مرنے والوں کے منہ عموماًکرب و درد کے باعث کھلے رہ جاتے ہیں ............گولی اسامہ کی بائیں آنکھ میں لگی ............دائیں پر بھی زخم ہے ؟...................چہر ے پر خون کپاس سے صاف کیے گئے ہیں........اسامہ کی داڑھی گھنگرایالے تھے .....................بال پہلی مرتبہ نظر آرہے ہیں داڑھی جیسے ہی گھنگرایالے ہیں ................ناک بھی اسامہ والی ................کان بھی اسی کا ........مگر دونوں تصاویر میں اس کا منہ ایک ہی زاویے سے کیوں کھلاہے ؟“
ا بھی میں میت کے اس معجزے پر محوحیر ت تھا کہ ٹیوٹر کی ایک نئی ٹیوٹ بین الاقوامی خبروں کی زینت بن گئی بعدازاں اسی کی بنیادپر گارڈین میں ایک آرٹیکل بھی چھپا ۔جس میں ثابت کیا گیاکہ یہ سب فوٹوشاپ کا کمال تھا ۔اس تصویر کی پیشانی اور آنکھ کسی دوسال پرانے مردے کی تصویر سے لی گئی تھیں جو انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب تھی جس کو کمال فن سے اسامہ کی تصویری چہرے کے ساتھ فوٹوشاپ سر جری کیا گیا ۔یہ دیکھ کراب میرے ذہن میں بھی ہلچل پید اہوئی کہ اتنی جلدی یہ جعلی تصویر کیسے شائع ہوئی اور کون سے معتبر ذرائع نے شائع کی کہ دنیا بھر کی میڈیا کو اس پر بلا چوں وچرا یقین کرنا پڑااور پھر چند ہی گھنٹوں بعد ٹیوٹر پر کیسے اصل تصویر کو تلاش کرکے افشاں کیاجاسکا ؟....................دنیا میں عقل دانوں کی بہتات ہے اور ایک ہم ہیں کہ معجزے کے انتظار میں بال سفید کررہے ہیں ۔خیر سے ہم نہ عقل دانہ ہیں نہ انار دانہ مگر اُوٹ پٹانگ سوچتے بولتے ضرور ہیں مثلا اسی پہلو پر میرے ناقص عقل میں یہ سوال پید اہواکہ اگر تصویر جعلی تھی توامریکہ کے چندسر کاری ویب سائٹس پر یہ کیوں لگائی گئی ؟............اس کی تردید کے لیے ٹیوٹر کے ٹیوٹ کا کیوں انتظار کیا گیا اس کے شائع ہونے کے فوری بعد کیوں تردید نہیں کی گئی ؟................گر ہم اس قدر سیانے ہوتے توامریکن ہیلی کاپٹرز کے بغیر ایندھن بھرے پاکستان کے اندر طویل پروازکی گتھی نہ سلجھا دیتے ؟؟
رواں ہفتہ شاید دنیا کی تاریخ کا واحد ہفتہ ہے جس کی ہر سیکنڈ میں ایک نئی معیاری (خبر کی صحافتی تعریف کے عین مطابق )خبر چل رہی ہے اور مجھ جیسے کسی غم خانہ وروزگار سے آزاد شخص کی سماعت وبصارت سلامت ہوں تو اس میں ممکنہ طورپر ہر لمحہ جینے کا احساس انگڑائی لے سکتاہے ۔ہم ساغرب الوطن ہونے کی واحدخوبی یہ ہے کہ اگر زمین خودہمارے ایک جگہ جم کر بیٹھنے پر اعتراض نہ کرئے تو دوسروں کو بہت کم اعتراض ہوتا ۔دستیاب کتابوں کو چاٹنے اور موٹی موٹی خبروں کو پڑھنے کے بعد بھی کافی وقت بچتاہے جو گوگل پرانٹر نیٹ کے کنگالنے میں بیت جاتے ہیں ۔اب بیالیس کروڑ مضامین پڑھنے کے لیے کم ازکم پانچ کروڑ دن توضرور لگتے اس لیے دل پر پتھ رکھ کر حسب توفیق پر اکتفا کرنا پڑ رہاہے۔خبروں کی بھر مار میں عموماًخبروں کے کونے کھدرے میں چھپے ہونے کا امکان رہتا ہے ۔اصولاًخبروں پر اس وقت تبصرہ کرنا چاہئے جب خبر کا نزول مکمل ہو ۔مگر اسامہ کے معاملے پرکوئی بھی خبری وتجزیہ نگار قطار میں رہنے پر آمادہ نہیںجسے ”صحافتی کشمکش “
(Media scrabbling)
کانام دیا جارہاہے۔ میں تو ویسے ہی ”کمنگ بیک “کے لیے کسی ایسے موضوع کے تلاش میں تھا جو میرے بلوچ دوستوں کے حلقوں میں قابل برداشت حد تک متنازعہ ہو ۔
یوں ہی بے خودی میں گوگل پراِزاسامہ الائیو؟(کیا اسامہ زندہ ہے؟)لکھ کر سر چ کیا۔نتیجہ دیکھ کر تعجب گرفتہ ہوگیاکہ اسامہ سے متعلق انٹر نیٹ پر بیالیس کروڑ سات لاکھ تحریریں موجود ہیں جوانٹر نیٹ پر عربی ، ہندی ، جاپانی اور دیگر رومن اسکرپٹ سے مختلف زبانوں میں لکھی گئی تحریروں ، خبروں اور تبصروں کے علاہ ہیں ۔ سب سے زیادہ انگشت بدندانی کیفیت اس امرپر ہوئی کہ دنیا بھر میں مجھ جیسےبے وقوفوں کی کوئی کمی نہیں جو جناب اوبامہ اور ان کے رفقاءکار کے دعوے پر ہونقوں کی طرح ہکا بکا ہیں ۔
میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں جناب اوبامہ کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی اسے جھوٹا یا ناقابل اعتبار کہنے کی گستاخی کا محتمل ہوسکتا ہوں بلکہ جناب کی پریشانی سمجھتا ہوں کہ بھینس کو بین بجاکر نچوانا چاہتے ہیں۔ اردوزبان سے آشنا جانتے ہیں کہ اس محاورے میں نہ بین قصور وار ہے اور نہ ہی بین بجانے والابلکہ اصل نالائق بھینس ہے جو آج تک نہیں سمجھ پایاکہ اسے بین کی آوازپر سانپ کی طرح گردن ہلاہلاکر دھمال کرنا ہے ۔اور یہ بھی بتاتاچلوں کہ حیاتیات کی کتابوں میں لکھی اس بات پربھی میرا یقین کمزور ہے کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے ، مندرجہ بالا تجربے کے بعد مجھے سوفیصد شک ہے کہ بھینس کے کان ہاتھی دانت کی طرح کسی کام کے نہیں فقط دکھانے کے ہیں ۔
فیس بک پر” اسامہ مرے نہیں “کے نام پر ایک صفحہ بھی بنایا گیاہے،2جسے ایک ہندوستانی بلاگر نے احمقوں کا صفحہ قرار دیاہے۔مگرحکمرانوں کے نزدیک سب سے زیادہ احمق صحافی ہیں جنہیں کوئی بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی ۔ہیرالڈاور نیوز کاسٹ میڈیا 3،وغیرہم سے بھی اوبامہ انتظامیہ کی کچھ باتیں ہضم نہیں ہورہئیں ۔دنیا میں جاری اس تماماشاکی ایک جھلک ذیل میں دی گئی ہے۔
اسامہ تو زندہ ہی نہیں تھےشاید ایبٹ آباد میں اس کے بھوت کو ہلاک کیا گیا ہو ۔حاضرین !آپ یہ ایک تماشا دیکھ رہے ہیں اور کچھ نہیں ۔میری ناک کی سید ھ میں دیکھیں شاباش !اب آئستہ سے پیچھے مڑکر دیکھیں ..............مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ آپ کی گردن 120ڈگری کے زوایے میں نہیں گھوم سکتی مگر میں دیکھ سکتاہوں کہ آپ کی گردن کے پیچھے بن لادن کھڑے ہیں ......پھرتی مت دکھائیں یہ بن لادن کا بھوت ہے سکینڈوں میں رفو چکر ہوجائے گا......................آپ عمر شیخ کو جانتے ہو ؟...............آفرین ! آپ اپ ٹوڈیٹ ہیں آپ کو کوئی پرانی بات یاد نہیں آپ رجعت پسند اور پرانے خیالات کے ہرگز نہیں معلوم ہوتے ......یہ بے نظیر کا شنا ساتھا ،آپ بے نظیر کو تونہیں بھولے ،جوکسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن ہواکرتی تھیں ! ............... وہی جس کے قتل کے الزام میں ایک سابق صدر اشتہاری اور .......... . پرویز الہیٰ بڑے اچھے آدمی ہیں اور اس موضوع سے متعلق ہرگز نہیں اس کا تو بے نظیرسے ہم نے کبھی سلام علیک کابھی نہیں سنا .............چلو ادھر ادھر کی باتیں ختم کر کے آپ کو عمرشیخ کی کہانی سناتاہوں ۔
روایات کے مطابق عمر شیخ برطانیہ میں پیدا ہوئے او ر چودہ سال کی عمر تک وہی پلے بڑے ۔ان کا پورا نام احمدعمر سعید شیخ بتایاجاتاہے۔انہوں نے کسی مذہبی مدرسے سے نہیں بلکہ ایچی سن کالج جیسے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور حصول علم کے لیے امریکہ بھی گئے۔انہوں نے بعد میں لندن اسکول آف کامرس سے معاشیات اور ریاضی کی شد بد بھی حاصل کی ۔موصوف شطرنج کے زبردست کھلاڑی تھے وہ اس میدان میں جونیئر لندن چمپئن شپ کے فاتح کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔القصہ وہ دنیا کے تمام نامی گرامی جہادی ہستیوں کی طرح بوریا بستر باندھ کرپاکستان آگیا ۔اس کے جیش محمد،القاعدہ، حرکت المجاہدین اورطالبان کے ساتھ تعلقات تھے ۔ 1994کو ہندوستان میں اسے تین مغربی سیاحوں کے اغواءکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔پانچ سال وہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ایک صنعتی شہر غازی آباد کے جیل میں قید رہے،4۔
عمر شیخ یا عمروعیار ؟ .....شیخ کے مختلف چہرے
1999میں چنداغواءکار انڈین ائر لائن فلائٹ814کونیپال سے اغواءکرکے اس وقت کے سلامی امارت افغانستان کے شہر کندھار لے گئے انہوں نے مسافروں کی رہائی کے بدلے پاکستانی تنظیم حرکت المجاہدین کے رہنماءمسعود اظہر،مشتاق احمد زرگر سمیتشیخ کی رہائی کا مطالبہ کردیا جسے منظور کر لیاگیا۔اس کا ایک مشہور کارنامہ وال اسٹر یٹ جرنل کے صحافی ڈینئل پر ل کا قتل بھی بتایاجاتاہے،2002اور انہیں انائن الیون میں بھی ملوث قرار دیا جاتارہاہے،5۔
مشرف نے اپنی کہانیوں کی کتاب”ان دا لائن آف فائر “میں لکھا ہے کہ ”سچائی یہ ہے کہ شیخ برطانوی انٹلی جنس ایجنسی ایم 16میں اس وقت بھرتی کیے گئے تھے جب وہ لندن کے اسکول آف کامرس میں زیر تعلیم تھے۔دی ٹائم کے مطابق ”شیخ عام دہشت گرد نہیں بلکہ اس کے پاکستانی انٹلی جنس اداروں کے اہم عہدیداروں ، القاعدہ کے اندرونی حلقوں اور اسامہ بن لادن کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں ۔امریکن براڈ کاسٹنگ کمپنی (اے بی سی )کے مطابق شیخ نے1993میں پاکستان کے انٹر سروسزانٹلی جنس (آئی ایس آئی ) کام شروع کیا ۔1994میں اس نے تربیتی کیمپ چلائے اور اسامہ کے ”فرزندخاص “کا خطاب پایا،6 ۔مئی 2002میں واشنگٹن پوسٹ نے نام بتائے بغیر ایک پاکستانی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ1994میں اغواءکے الزام کے مقدمے میں شیخ کے قانونی فیس آئی ایس آئی نے اداکیے تھے،7۔
شیخ حراست میں
پاکستانی پولیس نے 12فروری 2002کو اسے لاہور سے گرفتار کر لیا۔ آخری مرتبہ اس کاذکر ڈان اخبار میں2009کی ایک رپورٹ میں کیا گیا کہ”28نومبر کو ممبئی حملے کے بعدایک دھوکے باز نے خود کو ہندوستانی وزیر خارجہ پرناب مکرجی ظاہر کرکے زرداری کو فون پر حملے کی دھمکی دی جس کے بعداسلام آباد اور روالپنڈی کے فضاﺅں میں بارودسے لیس جنگی جہاز منڈلانے لگے اوردونوں ممالک کے درمیان جنگی صورتحال پیدا ہو گئی ۔اسی نے خود کو زرداری ظاہر کر کے پرناب مکرجی اور امریکن اسٹیٹ سیکریٹری کونڈولیز ارائس سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی جس میں اسے ناکامی ہوئی ۔بعد میں پتا چلایاگیا کہ یہ فون عمر شیخ نے اپنا برطانوی سم استعمال کر کے کیےتھے۔عمر شیخ اب بھی پاکستانی جیل میں قیدہیں،اسے پرل قتل کیس میں موت کی سزاءسنائی گئی ہے جس کے خلاف اس کے وکیل نے اپیل دائر کر کے رکھی ہے۔
اس مضمون میں عمر شیخ کاتفصیلی ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہی وہ عمر شیخ ہیں جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس نے نائن الیون سے پہلے اسامہ بن لادن کو قتل کیا تھا۔اس کا بے نظیر سے تعلق یہ بنتا ہے کہ بے نظیر ہی نے یہ انکشاف نومبر 2007میں الجزیرہ نیوزکے ڈیوڈ فروسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا تھا،8۔محترمہ کے الفاظ تھے:”عمرشیخ :وہ شخص جس نے اسامہ بن لادن کو قتل کیا“
بے نظیر کا الجزیرہ پر نشرہونے والا انٹرویوجس میں وہ اسامہ کے قتل کا انکشاف کررہی ہیں
میڈیا میں اس طرح کی سینکڑوں رپورٹس بھی شائع ہوچکی ہیں کہ یہی انٹر ویوبے نظیر کے قتل کی بنیادی وجہ بنی جس میں بے نظیر نے کہا تھا کہ”وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسے اس شخص کی طرف سے خطرہ ہے جنہوں نے اسامہ بن لادن کا قتل کیا تھا“
میڈیا میں ڈک چینی پر بھی الزام عائد کیا گیا :”امریکہ کے شہرہ آفاق، بے باک اور حق گو دانشور اور صحافی سیمور ہرش جو امریکہ کے مستند جریدے نیو یارک ٹائمز اور دوسرے اخبارات میں لکھتے ہیں، نے بڑے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں، مثلاً پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بش انتظامیہ کے دور میں نائب صدر ڈک چینی نے قتل کرایا، اس کی وجہ یہ تھی کہ محترمہ نے 2نومبر2007ءکو الجزیرہ ٹی وی پر یہ کہا تھا کہ اسامہ بن لادن اب زندہ نہیں ہیں کیونکہ انہیں القاعدہ کے ایک فعال رکن عمر سعید شیخ (جو امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے الزام میں پاکستان میں زیر حراست ہے) نے قتل کیا تھا، لیکن ان کا انٹرویو لینے والی صحافی ڈیوڈ فراسٹ نے اسے حذف کر دیا جس کی وجہ سے یہ نشر نہیں ہو سکا۔ جناب ہرش نے 12مئی2009کو گلف نیوز کو بتایا کہ ڈک چینی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسامہ بن لادن کی موت کی خبر دنیا کو معلوم ہو، کیونکہ اس صورت میں امریکہ کو افغانستان میں طالبان سے جنگ کرنے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہے گا،9۔“
اتنا سب پڑھنے کے بعد مزید پڑھنے کی ہمت باقی نہیں رہی اور اندازہ ہوگیا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہم سب بے وقوف لوگ ایک دوسرے کوبے وقو ف بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔فرعون کےطبیب سینوھا اپنے سوانح کے مقدمے میں لکھتے ہیں :” تاحال میں نے ایسی کوئی کتاب یا تحریر نہیں دیکھی جو حقائق کی بنیاد پر لکھی گئی ہو۔ان کتابوں میں سے بھی جو خدا کے متعلق لکھے گئے ہیں اور ان میں سے بھی جو انسان یعنی اس دنیا میں فرعون کے متعلق لکھے گئے ہیں،تاحال کسی کتاب میں بھی حقیقت بیانی نہیں کی گئی ہے۔مگر تصور کرتا ہوں کہ بعد میں یہ بھی کتابوں میں سچائی کے طور پر باقی نہ رہے گا ۔ممکن ہے کہ آدمی کے لباس ،زبان ، آداب ، رسم اور اعتقاد تبدیل ہوں مگر ان کی حماقت تبدیل نہیں ہوگی اور ہر وقت اپنی باتوں اور تحریروں میں لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔جس طرح مگس ( مدومکھی ) شہد کو پسند کرتاہے اسی طرح آدمی بھی جھوٹ اور پوچ وعدوں کو جو کہ کبھی علمی نہیں ہوتےپسند کرتے ہیں،10۔
٭٭٭
9/5/2011
9/5/2011
ماخذ:
1:ان خیالات کا اظہار استاد عبدالمجید گوادر ی نے راقم کے ساتھ اپنے ایک انٹرو یومیں کیا جو وش ٹی وی کے لیے ریکارڈ کرائی گئی تھی۔
2:http://www.facebook.com/OsamaNotDead
3:http://newscastmedia.com/blog/2011/05/04/benazir-bhuttoomar-sheikh-killed-osama-bin-laden/
4:http://en.wikipedia.org/wiki/Ghaziabad,_India
5:http://en.wikipedia.org/wiki/Indian_Airlines_Flight_814
6:http://www.cooperativeresearch.org/essay.jsp?article=essaysaeed
7:http://archives.cnn.com/2001/WORLD/asiapcf/south/10/08/india.ressa/
8:http://www.youtube.com/watch?v=UnychOXj9Tg&feature=player_embedded
9:http://www.urduasnaf.com/Nasar/Black%20Water/Page-25.html
10:سینوھا،میکا والٹری ، مترجم ذبیح اللہ منصوری ‘ فارسی ایڈیشن (جاوا موبائل فارمیٹ کتاب www.farsibook4mob.blogfa.com)
2:http://www.facebook.com/OsamaNotDead
3:http://newscastmedia.com/blog/2011/05/04/benazir-bhuttoomar-sheikh-killed-osama-bin-laden/
4:http://en.wikipedia.org/wiki/Ghaziabad,_India
5:http://en.wikipedia.org/wiki/Indian_Airlines_Flight_814
6:http://www.cooperativeresearch.org/essay.jsp?article=essaysaeed
7:http://archives.cnn.com/2001/WORLD/asiapcf/south/10/08/india.ressa/
8:http://www.youtube.com/watch?v=UnychOXj9Tg&feature=player_embedded
9:http://www.urduasnaf.com/Nasar/Black%20Water/Page-25.html
10:سینوھا،میکا والٹری ، مترجم ذبیح اللہ منصوری ‘ فارسی ایڈیشن (جاوا موبائل فارمیٹ کتاب www.farsibook4mob.blogfa.com)
Post a Comment