انہوں نے اپنے کالم ’’کیا جمہوریت خطرے میں ہے ؟‘ ‘ میں یوں تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے حوالے سے پاکستانی فوج کو زرداری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے دعوت نامہ اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد کے زیر صدارت ہونے والی ایک نشست پر اپنی رائے زنی کی ہے ۔ مگر اس ہمہ پہلو گفتگو میں انہوں نے بلوچ قوم دوست سیاست کے حوالے سے جو اطلاعیہ جملہ تحریر کیا ہے وہ بلوچ قوم دوستوں کے لیے کسی طعنہ سے کم نہیں ‘جناب صافی لکھتے ہیں :’’رہی قوم پرست جماعتیں ان کی سیاست تو خود ان کے وابستگان کو بھی سمجھ نہیں آرہی اور بلوچستان کے قوم پرست ریاست اور حکومت کے خلاف تو یک زبان لیکن آپس میں دست وگریبان ہیں۔اکبر بگٹی کے بیٹے تک ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ۔‘‘
ہمارے تلو( بنچ ) اور چائے خانوں کی سیاست ہو یا اس سے ذرااوپر یا اور’’ اُوپر‘‘ کی سیاست جس میں نسبتاً سنجیدہ ترین اور بااثر سیاستدان بیٹھ کر سیاست بگھارتے ہیں ،’’ریڈیکل ازم ‘‘ کے نام پر ’’شتر مرغ ازم ‘‘کوفروغ دے کر اسی پر عمل پیر اہیں ۔ اس لیے ہم جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو سب کچھ جانتے ہوئے ایک دوسرے سے جھوٹ پر جھوٹ بول کر ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ جیسے سب کچھ ٹھیک چل رہاہے ۔اس سے مراد یہ نہ لیا جائے کہ قومی جنگ میں ہونے والے نقصانات پر میں سر پیٹنے کی ترغیب دے رہا ہو ں ، قربانیوں جس کوجنگی زبان میں نقصان کہتے ہیں کہ بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوتی۔تحریک کا لغوی معنی ہردم متحرک اور حرکت کرنا ہے جب کہ سیاسی وجنگی حکمت عملیوں میں وقتاً پہ وقتاً تبدیلی لانا بھی تحریک کی بنیادی ضرورتیں ہیں جو اسے تازہ دم رکھتی ہیں۔ بلوچ جہد مسلسل اوراس کی کامیابیوں سے انکارنہیں کیا جاسکتالیکن ابتداء سے لے کر اب تک بلوچ سیاست اختلاف رائے کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے جو اختلافات کی صورت اختیار کر کے جماعتوں میں تقسیم درتقسیم کی راہ ہموار کررہے ہیں ۔ہم اس قدر گھامڑاور جاہل قسم کی سیاسی طبیعت رکھتے ہیں کہ جن باتوں کا سر عام چرچاہوتا ہے ہم ان کو راز قرار دے کر ان پر بولنے والوں کی بولتی بند کر دیتے ہیں ۔ہم اصلاح احوال کے لیے کی جانے والی ہر بات کو تحریک کے خلاف سازش قرار دے کرایسے ہی مسترد کردیتے ہیں جیسے شتر مرغ سر ریت میں دبا کرسمجھ لیتا ہے کہ بلاٹل گئی ۔
جو سچی اور کڑوی بات جناب سلیم صافی نے لکھی ہے اسے میں نظریاتی اختلافات کی بنیادپر الگ الگ جماعتوں کے درمیان سیاسی دست وگریبان ہونے والوں کی بجائے محض اصل قوم دوست سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کے حوالے سے دیکھ رہاہوں ۔موصوف صحافی نے جس طرح ’’ اے این پی ‘‘کو قوم دوست جماعتوں کے زمرے میں نہیں رکھا اسی طرح نیشنل پارٹی نہ نام کا قوم دوست ہے نہ کام کا ۔اس کے نظریات اور آئین ومنشورسب قوم دوست جماعتوں کے برعکس ایک پاکستانی وفاق پرست جماعت کے ہیں ، بی این پی(عوامی ) کی سیاست کا محور بھی کھاؤ پیو اور موج اُڑاؤ ہے اورنہ ہی طلا ل اور عالی کی جمہوری وطن پارٹیاں قوم دوست جماعت کہلانے کے حق دار ہیں۔
ہمیں اختلاف ، دوری یا علیحدگیاں بلوچ مسلح حریت پسندوں اورآزادی پسندسیاسی جماعتوں کے درمیان کھٹکتا ہے ۔یہ غلط رویہ ہے کہ ہم مختلف حیلے بہانوں سے ان اختلافات کو ہوا دیں یا ان کے لیے نظریاتی جواز پیدا کر یں ۔کیا ہمارے سیاسی و عسکری رہنماء سیاسی رضاکاروں کی بجائے ملازم چاہتے ہیں جو محض اپنی تنخواہ سے غرض رکھیں اور ان کا ہر حکم بلا چوں چرا بجا لائیں ؟نہیں تو سیاسی بنیاد پر بننے والی ہر تنظیم میں اختلاف رائے کا ہونا فطری عمل ہے ،اگر اختلاف رائے اختلاف بن کر اُبھر ے تو اسے سادہ داوردو ٹوک الفاظ میں قیادت کی نااہلی کہتے ہیں ۔گوکہ ہم سب باجماعت سائنسی جدوجہد کرنے والے ، روشن فکر اور نظریاتی سیاسی کارکن وغیرہ وغیرہ ہونے کے دعویدارہیں مگر ہم اندر سے ڈھیٹ قبائلیوں او مذہبی بنیاد پرستوں سے بڑھ کر غیر سائنسی ، تنگ نظر اور غیر نظریاتی ہیں ۔ہم میں سے ہر ایک منہ زبانی سردار اور شخصیت پرستی کی مخالفت کرتاہے لیکن ہم نے اپنے حلقوں میں ایسے قدر آؤر بت تراش کرکھڑے کیے ہیں کہ کسی کو ان کے اکڑ پن پر اعتراض کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔جس طرح کہتے ہیں کہ ’’ عشق اور مشک ‘‘ چھپائے نہیں چھپتے اسی طرح سیاسی اختلافات پر بھی پر دہ ڈالنا ممکن نہیں ۔ابھی تک نہ کسی نجی محفل میں یہ شوشا اُٹھا تھا نہ ہی مقامی اخبارات کے کسی کالم یا خبر نگار نے یہ خبر دی مگر ایک غیر مقامی صحافی سیرل المیڈ نے بلوچستان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں عسکری تنظیموں کی دھڑے بندیوں کا نمایاں طور پر ذکر کیاہے۔ اس رپورٹ کے بیشترذرائع پاکستانی فورسز سے تھے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری ہر ایک بات سے باخبر اور ہماری کمزوریوں پرگہری نظر رکھی ہوئی ہیں ۔اسی طرح جناب سلیم صافی کی طعنہ نما اطلاع بھی ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔خاص طور پر محاذ جنگ میں دھڑے بندی فوری توجہ کا متقاضی ہیں ، جن کا نہ صرف موجودہ قومی تحریک پرمنفی اثرات ہیں بلکہ بلوچستان میں اہم سیاسی قوتوں کی دوریاں اور اختلافات مستقبل کے آزاد بلوچستان کے لیے بھی نیک شگون نہیں ۔دیگر جن ممالک میں بھی اہم سیاسی قوتوں کے درمیان اس طرح کے اختلافات موجود تھیں وہاں آزادی کے ثمرات اور قربانیاں ضائع ہوئی ہیں اور آزادی حاصل کر نے کے فوراً بعد قوم غلامی کے ایک نئے دور میں داخل ہوئے ، اختلافات کو حل کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث قیادت نے آمرانہ روش میں پناہ تلاش کیا جس کے نتائج سوڈٖان ،لیبیا ، مصر اور زمبابوے کی صورت ہمارے سامنے ہیں ۔
موجودہ حالات کے سدھار کی ذمہ داری ویسے تمام سیاسی کارکنان اور بلوچ دانشوروں پر ہے کہ وہ تنقید کے نام پر دشنام طرازی کی سیاست کو پروان چڑھانے کی بجائے ، اتفاق اور اُصولی سیاست کے لیے ماحول سازگار بنائیں مگر اصل کردار بلوچ قومی قائدین بابامری ، عطااللہ مینگل ،ڈاکٹر اللہ نذر،براھندگ ، اخترجان مینگل اور ھیر بیارہی کو اداکرنا ہے ۔ہم جیسے صرف اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی اناپرستی کی سیاست کو دفن کرنے کے لیے ضرور آگے بڑھے گا۔بلوچ قوم کی کامیابی کا راز اسی میں ہے اس لیے سر کارپاکستان اور اس کے گماشتہ کردار ان کوششوں کے سامنے سد سکندر ی کی طرح حائل ہوں گے اور یہ کام وہ بہروپ بدل کر سچے انقلابی اور حقیقی بلوچ دوست کے لبادے میں سر انجام دیں گے۔
Post a Comment