اشتعال انگیزکا لفظ اس تناظر میں درست ہے کہ پاکستانی فوج بلوچوں کے خلاف بر سر پیکار ہوتی ہوئی بھی بڑی دیدہ دلیر ی سے بلوچستان کے معدنی وسائل کو استعمال میں لانے کے علاوہ سر مایہ کاری کے نام پر بلوچستان کے زرعی وسائل بھی ہتھیانے کی سازش کا انکشاف کرچکی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اُردو کے ویب سائٹ پر جاری شدہ رپورٹ کے مطابق کور کمانڈر کوئٹہ کے ترجمان کرنل خالد نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچستان کے علاقے مکران میں پیدا ہونے والی ’’ مزاتی ‘‘ نامی کھجور خرید کر اسے پنجگور کے نام سے بیرونی ملک برآمد کر نے کا منصوبہ تیار کر چکی ہے ۔اس منصوبے کے تحت فوج کی ٹرانسپورٹ کمپنی ’’این ایل سی ‘‘کے ذریعے مکران سے کھجور خرید کر کراچی کی ایک نجی کمپنی کی شراکت سے بیرونی ملک بھیجی جائیں گی۔
بلوچستان کے حالات کی گہرائی سے خبر نہ رکھنے والوں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہوگی کہ’’ بلوچستان میں معاشی سر گرمیاں شر وع ہونے کو ہیں‘‘ فوج بھی گزشتہ چند مہینوں سے یہی تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ بلوچستان میں اس کی ’’ اُٹھا ؤ اور قتل کر ؤ کی پالیسی ‘‘ جس کووہ اپنی زبان میں ’’قاتلوں کاقتل‘‘سمجھتی ہے ، کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔ بھوکلاہٹ میں فوج یہ بھی بھول گئی کہ پاکستا ن کی نام نہادآزادی کا مہینہ جولائی نہیں بلکہ اگست ہے اور آزادی کے تقریبات جولائی کے وسط میں ہی نمٹا دیئے گئے۔ یہ سب میڈیا شو دارصل ان کی پروپیگنڈہ پالیسی کا حصہ ہیں ان کے لیے کم ازکم پاکستانی بندوبست کے عوام کو یہ دکھانا لازمی ہے کہ بلوچستان کی تحریک آزادی کو کچل دیا گیاہے ۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو گزشتہ چند مہینوں میں بیسویں مرتبہ سر کاری خرچے پر کوئٹہ بلا کر تواضع کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے ہارون رشید کا بلوچستان کا فوجی خرچے پر کیا جانے والا حالیہ دورہ اور سیرل المیڈ کی ڈان میں چھپنے والی رپورٹ اسی سیریز کا حصہ ہیں۔ جن قارئین نے ہارون رشید کی بلوچستان یاترا کے تفصیلات اور المیڈ کی رپورٹ پڑھی ہے وہ اندازہ لگاسکتے ہیں کس طرح پاکستانی فوج دنیا کو یہ باور کرانے کی سر توڑ کوشش کررہی ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے لیے کوئی سنجیدہ خطرہ اب موجود نہیں رہا۔ المیڈ کی بد دیانتی اورفوج کی دیدہ دلیری نے اس کے رپورٹ میں کئی سوالات پیدا کیے ہیں ۔ رپورٹر نے پاکستانی فوج کی طرف سے بلوچستان میں سیاسی کارکنان کی ماورائے عدالت اغواء نماگرفتاریوں او ر ان کے بہیمانہ قتل کے بارے میں اعتراف سامنے آنے کے باوجوداسے انسانی حقوق کے بحرا ن کے طور پر پیش کرنے کی بجائے پاکستانی فوج کی کامیاب عسکری حکمت عملی سے تعبیر کیا ہے ۔
المیڈ کارپورٹ پاکستانی فو ج کی طرف سے بلوچستان میں اس کی گزشتہ دس سالوں سے شدت سے جاری فوجی جارحیت کی کامیابی کا اعلان ہے۔ جب فوج کسی علاقے پر قبضہ کر نے کی نیت سے داخل ہوتی ہے تو عموماًوہاں تخریب کے بعد تعمیر کے کام بھی اپنے ذمے لیتی ہے۔ پاکستانی فو ج جیسی فوج تعمیر کے کاموں میں اس لیے بھی دلچسپی لیتی ہیں کہ اس طرح کے کاموں میں اُنہیں کمانے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ تخریبی عمل میں کھپانے والی توانائی اورجانی نقصان کے بعد حاصل ہونے والے ان فوائد پر فوج مال غنیمت کی طرح اپنا بلاشر کت غیر حق بھی سمجھتی ہے۔ اپنی کامیابی کا دعوی کرنے کے بعد یکے بعد دیگر فوجی منصوبوں کے اعلانات کے ذریعے فوج باور کرانا چاہتی ہے کہ بلوچستان میں فوج نے اپنے تمام تخریبی یا عسکری اہداف حاصل کر لیے ہیں اس لیے اب تعمیر ی کاموں میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ اسی مہینے ( اگست ) کی تیسری تاریخ کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کوئٹہ کا دور ہ کیا ، اس دورے کے کوریج کے لیے بھی کافی خرچہ کیا گیا ۔ اس دورے میں جنرل کیانی نے کئی نمائشی منصوبوں کا بھی افتتاح کیا جن میں گیریژن اسپورٹس کمپلکیس اور انسٹیوٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزشامل ہیں ۔اس تقریب میں کیانی نے بلوچستان میں ہر سال پاکستانی فو ج کی طر ف سے پانچ منصوبے شروع کر نے کا اعلان کیا( اس سے فلاحی منصوبے نہیں بلکہ فوج کی طر ف سے سر مایہ کاری مقصود ہے ) ۔ اگر پاکستانی فوج نے بلوچستان فتح کرلی ہوتی توان اعلانات کو سنجیدہ قرار دیا جاسکتا تھا مگر بلوچستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ان کومیڈیا پروپیگنڈہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔اپنے تہی فوج یہ جتانے میں لگی ہے کہ بلوچوں میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ کسی ایسے منصوبے میں رکاوٹ پیدا کر یں جسے فوج چلارہی ہولیکن گوریلا جنگی حکمت عملی کی شد وبد رکھنے والے جانتے ہیں کہ گوریلا مسلح فوجی دستوں سے براہ راست اُ لجھنے کی بجائے دشمن کے معاشی مفادا ت پر حملے کرتے ہیں ۔ اس لیے فوجی بیرکوں میں چند درجن لوگوں کو بلاکر کیمرہ سیشن کرنا الگ بات ہے اور معاشی سر گرمیوں کی نگرانی کرنایا ان کو براہ راست چلانا دوسری بات ۔ بلوچستان میں گزشتہ تریسٹھ سالہ اپنی مہم جوئی کے نتائج سے آگاہ ہونے کے بعد اس کے امکان کم ہیں کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں کھجور کی خریداری کے اپنے اعلان پر عمل در آمد کرئے گی لیکن اگر پاکستانی فوج واقعتا ایسا کچھ کر نے کی نیت رکھتی ہے تو اس کا اصل مقصد بلوچستا ن خاص طور پر مکران کی معاشی تباہی کے علاو ہ کچھ نہیں ۔
پاکستانی فوج کو اگر اپنے دعوے کے مطابق بلوچ کاشتکاروں کے مفادات عزیز ہوتے تو وہ کھجور کی خریداری میں مداخلت کی بجائے بلوچستان کی کٹھ حکومت کو یہ مشورہ دیتی کہ وہ مقامی تاجروں کوکھجو رکی بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے وسائل فراہم کر ئے کیوں کہ فوج کی طرف سے کھجور کی براہ راست خریداری بلوچ مسلح حریت پسندوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کے مترادف ہے ۔جنگ اور کاروبار دو علیحدہ کام ہیں مگر پا کستانی فوج سر مایہ کاری کے نام پر بلوچوں کو ایک ایسی جنگ میں اُلجھانے کی نیت رکھتی ہے جس سے مکران میں کھجور کی صنعت تباہ ہوجائے اور بلوچوں کوجانی نقصان کے ساتھ معاشی طور پر بھی نقصان پہنچے۔ کورکمانڈر کوئٹہ کے ترجمان جنرل خالد نے اپنے بیان میں یہ اعتراف کیا کہ بلوچستان کے حالات سازگار نہیں لیکن اس سے آگے یہ غلط بیانی بھی پیوند کردی کہ’’ ناسازگار حالات کی وجہ سے بلوچستان کی کھجور باغات میں پڑے پڑے سڑ رہے ہیں ۔ ‘‘مکران کی ’’مزاتی ‘‘ کھجورنہ صرف مقامی طور پر سب سے زیادہ فروخت اور پسند کی جانے والی کھجور ہے بلکہ دیگرکھجور بھی اپنے ذائقے میں لاجواب ہیں جن کے خریدار دور دور سے خود چل کر کاشتکاروں کے پاس آتے ہیں اور اُنہیں منتیں کر کے کھجور کی درخت سے ہی اُن کا پھل خرید لیتے ہیں ماضی میں باربرداری کے وسائل کمیاب ہونے کے باوجود بھی مکران کی کھجور اتنی بے وقعت نہیں تھیں کہ باغات میں پڑے پڑے سڑ جائیں البتہ حکومت کی عدم دلچپسی اور بلوچستان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے باعث کاشتکاروں کو مناسب معاوضہ نہیں ملتا ۔ قریباًچار سال پہلے این جی اوز کے تعاون سے مکران کے کچھ علاقوں میں کھجور کی دیسی طریقے سے پیکنگ کو جدید طریقے میں بدلنے اور اس کو باقاعدہ صنعت کے طور پر فروغ دینے کے منصوبے بنائے گئے جو پاکستانی حکومت کی مداخلت اور روٹے اٹکانے کی وجہ سے ناکام ہوگئے ۔ اب پاکستانی فوج کھجور کی مقامی صنعت کو بھی تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان حالات میں کہ بلوچ فوج کو اپنے نوجوانوں کا قاتل اور قابض قرار دے رہی ہے بلوچ کاشتکار اپنی کھجوریں کسی بھی قیمت پر فوجی ٹرانسپورٹ کمپنی کو فروخت کرنے پر راضی نہیں ہوں گے بالفرض زیادہ قیمت کی لالچ میں کاشتکار راضی بھی ہوئے تو بلوچ مسلح حریت پسند ان کی ترسیل میں رکاوٹ پید اکریں گے تب پاکستانی فوج کے لیے دوہی راستے ہوں گے منصوبہ شروع ہوتے ہی لپیٹ دے یا کھجور کے ہر مال بردار ٹرک کی حفاظت کے لیے ایک فوجی ٹرک مامور کر دے ۔فوج نے یہ اعلان کر کے بلوچ مسلح حریت پسندوں کو کھلاچیلنج کیا ہے،کھجور کی پیداوار مکران کے اُن علاقوں میں ہوتی ہے جہاں بلوچ آزادی کی تحریک کی جڑیں کافی مضبوط ہیں جہاں سے بلوچ سر مچارفوجی ٹرانسپورٹ کی مال بردار گاڑیوں کو کسی بھی قیمت پر گزرنے نہیں دیں گے ۔جس سے پاکستانی فوج کی بلوچستا ن کے زرعی وسائل پرقبضے کی سازش تو ناکام ہوگی ہی لیکن پاکستانی فوج کی اس سازش سے بلوچ کاشتکاروں کو بھی نقصان پہنچنے کا امکان ہے کیوں کہ پاکستانی فوج کی کھجور کی خریداری کا یہ منصوبہ شروع ہوتے ہی ’’ آپریشن کھجور ‘‘ میں بدل جائے گا ۔ا س لیے اس سے پہلے کہ پاکستانی فوج مکران میں کھجور کی خریدار ی کے نام پر ڈیرے جمالے بلوچ کاشتکار فوج کو کھجور فروخت نہ کرنے کی پالیسی وضع کردیں ،اسی میں بلوچ کاشتکاروں اور بلوچستان کا فائدہ ہے ۔

******
04-08-2011
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.