محترم ،کشورنائید
اُمید ہے کہ شگفتہ ہوں گی ۔
آپ کا ، کالم ’’ ہم لسانی بنیادوں پر چلنے والوں کے ساتھ نہیں ‘‘ نظر گزار ہوا ۔ کالم کے دیگرمندرجات اور تارپود پر بوجوہ بحث نہیں کرنا چاہتا نہ ہی اخباری کالم کے ساتھ غیر صحافتی رویے سے نمنٹنے کی پاکستان کے نام نہاد صحافتی فیشن پر تنقید کی نیت رکھتا ہوں بلکہ اسی پر عمل پیرا ہوکر آپ کے مذکورہ کالم پر جس میں آپ نے بلوچستان کاذکرکر کے حقائق کو اپنے جذبات کے تابع بنانے کی سعی لاحاصل کی ہے،اپنے ردعمل کا اظہار کرنا چاہتاہوں۔

ہم نوعمری سے جس کشور نائید کوجانتے ہیں،وہ ہمارے لیے ’’ دیس دیس کی کہانیاں ‘‘ سنانے والی کتابی نانی اماں ہیں،مگر آج جس کشور نائید کا کالم پڑھا وہ پتھر دل کی کوئی مورت معلوم ہوئی ، جس کے صحت مند جذبات کو پاکستانی سوچ کی زنگ لگ چکاہے ۔انہیں پاکستانی صحافت کے شیطانی آئینہ میں جو نظر آرہاہے وہ اسی ’’مایا چال‘‘ کو حقیقت مان کر خود کو ذہنی کوفت سے دوچار کررہی ہیں ۔میں ایسے لوگوں کے لیے جو دانشورانہ صلاحیت رکھنے کے باوجود حقائق سے منہ چھپاتے ہیں’’ بیمار ‘‘ کالفظ استعمال کرتا ہوں اور مجھی اپنی پیاری کتابی نانی ا ماں بھی بیمار لگتی ہیں ۔

آپ نے مذکورہ کالم کراچی کی صورتحال پر ذولفقار مرزاکے بیان کے تناظر میں لکھی ہے ، پھر مہاجروں کی ہجرت ا ورقربانیوں کا ذکر کر کے جذباتی انداز میں بلوچستان ، سندھ اور مہاجربلوچوں سب کو گڈ مڈ کر دیا ۔ان سب کاملغوبہ بناتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ یہ سب کہنے کو تو پاکستانی بندوبست میں شامل ہیں مگر ان کے مسائل اور سیاست جداگانہ ہیں ۔ آپ نے مہاجروں کی قربانیوں کا بڑھ چڑھ کر ذکر کیا لیکن یہ لکھنا گوارا نہیں کیا کہ آج جس شہر کو مہاجر اپنا قلعہ سمجھ کر وہاں کی دیواروں پر ’’کراچی تمہار انہیں ہمارا ہے ‘‘ لکھ رہے ہیں ، وہ بلوچوں نے بسایا تھا اور مہاجروں کی آمداور پاکستانی بندوبست کے بننے سے پہلے سے وہاں کی تعمیر وترقی میں پیش پیش تھے ۔ آپ لکھتی ہیں کہ مہاجر اپنی مرضی اور خوشی سے کراچی پاکستانی بندوبست کے دیگرشہروں میں آبادنہیں ہوئے بلکہ انہیں جہاں سر چھپانے کو جگہ ملی ، وہ وہیں جاکر بس گئے ۔آپ یہ بھی دعویٰ کررہی ہیں کہ کسے نے مہاجروں کو پناہ نہیں دی ۔آپ سے متعلق مہیا معلومات کے مطابق آپ 1940میں اترپردیش کے شہر ’’بلند شہر ‘‘میں پیدا ہوئی ہیں۔ جب آپ کے خاندان نے ہجرت کیا تو آپ کی عمرسات سال تھی پھر بھی آپ کو ہجرت کے صعوبتوں اور اس دور کے ظلم وستم کے گواہان میں شمار کیا جاتاہے ۔لیکن اندازہ یہی ہے کہ ایک سات سال کی بچی کی یاداشت میں یہ واقعہ ایک خواب جتنا بھی نہیں سمایا۔ہوسکتا ہے کہ آپ سچ کہہ رہی ہوں کہ آپ کو کسی مکتبہ فکر نے پناہ نہیں دی مگر میں آپ کو ایسی دسویں مثالیں دے سکتا ہوں بلکہ جگہوں اور مکانات کی بھی نشاندہی کرسکتا ہوں جو بلوچوں کی تھیں ، انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے خالی کردیں اور یہ بلوچ کوئی لکھ پتی اور جاگیر دار نہیں تھے بلکہ محنت مزودری کر کے روزی روٹی کمانے والے لوگ تھے ۔انہوں نے پنجاب کی طرح مہاجروں کو یہ نہیں کہا کہ’’ آگے جائیں پاکستان آگے ہے‘‘ یا کراچی میں نہ رہئیں ، گولیمار میں نہ بیٹھیں ، ملیر میں گھر نہ بنائیں بلکہ انہوں نے انہیں چھت بھی دی عزت بھی دی ۔اس لیے مہاجر وں نے کسی صحرا کو آباد کرنے کی بجائے پاکستانی بندوبست کے سب سے ترقی یافتہ شہر کراچی کو مسکن بنالیا ۔

آپ جانتی ہوئی بھی یہ بات چھپارہی ہیں کہ آج کراچی کے بلوچوں یا سندھیوں کو اپنے ماضی کی سخاوت یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مہاجروں کو گلے لگانے پرپچھتاوے کے ذمہ دار خود مہاجر(اُن کی اکثریت یا اُن کی نمائندگی کرنے والے لیڈر) ہیں ۔ آ پ مرزا کے بیان پر بلوچ اور سندھی قوم کی کم ظرفی کارونا رورہی ہیں لیکن اس بیان کے نتیجے میں جسے آپ کتنا ہی غلط ، نازیبا اور اشتعال انگیز قراردیں پھربھی ایک ایسی جماعت کے لیڈر کا ایک خاص پارٹی کے خلاف بیان تھا جس کا دور دور تک نہ سندھی قوم دوستی سے واسطہ ہے ، نہ بلوچ اور پختوتوں سے ، لیکن آپ سمیت جنگ کے کسی کالم نگار کو یہ نظر نہیں آیا کہ اُن کے بیان کے ردعمل میں مہاجروں نے کس طرح سو بے گناہ بلوچ ، پختون اور دیگر قومیت سے تعلق رکھنے والوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس میں آپ جیسے قابل مہاجروں کاذرہ برابر ہاتھ نہیں جو اپنی محنت کے بل بوتے پر اس مقام تک پہنچی ہیں ،ایم کیوایم کا حصہ ہیں نہ کسی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ شراکت داری رکھتی ہیں مگر یہ سب مہاجر رابطہ کونسل کے نام پر تو ہواہے اور یہ اس وقت تک جاری رہا جب الطاف بھائی کا لندن سے حکم نازل ہوا ........................ایک اخباری کالم نویس کی حیثیت سے آپ اس دہشت گردانہ سیاست کے خلاف کیوں خاموش ہیں؟ جن کے بیان کے ردعمل میں سو بے گناہوں کو اپنے تعصب کی بھینٹ چڑھا گیا ان کو پھر سے گلے لگالیا گیاہے ، زرداری الطاف بھائی بھائی کے نعرے لگائے جارہے ہیں، سیاسی منظر بدل چکا ہے کٹی کٹی کھیلنے والے پھر سے دوست بن گئے ہیں اور آپ ابھی تک اسی بیان کے بہانے بلوچ اور سندھیوں کو اپنی لیاقت جتارہی ہیں ؟

لسانی تفریق کے خلاف لکھتے لکھتے آپ کو جانے کہاں سے یہ کشف ہوگیا کہ ’’بلوچستان کے 25فیصد لوگ براہوی زبان بولتے ہیں ان کو اور ان کی زبان کو عزت نہیں دیں گے تو دوسرو ں کو کیسے عزت دے سکتے ہیں۔‘‘آپ کے معلومات کے ذرائع نہیں پوچھتا لیکن آپ نے کس کتاب میں پڑھ رکھی ہے کہ بلوچوں سے اس طرح عزت مانگی جاتی ہے جس طرح آپ مانگ رہی ہیں ؟..............آپ خواتین کے حقوق پر بہت لکھتی آپ کی شاعری کو نسوانی شاعری بھی اس لیے کہا جاتاہے کہ اس میں خواتین کے خواہش اورمسائل کے عکس ہیں ، آپ نے ڈاکٹر شازیہ خالد کا نام سنا ہے ؟یہ جانتی ہیں کہ شہید اکبر ( نواب اکبر خان بگٹی ) نے آپ کے فوجی جوا ن ( کپٹن عاصم ) کے ہاتھوں ان کی عزت کی پامالی پر پورے فوجی اسٹبلشمنٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا؟اور شازیہ خالد نسلاً بلوچ نہیں تھیں البتہ انہوں نے عزت اس طرح نہیں مانگی جس طرح آپ بلوچوں سے عزت مانگ رہی ہیں۔

آپ کے بیان میں بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی خواہش جھلکتی ہے۔میں اس تاریخ میں نہیں جانا چاہتا کہ کس طرح ماضی میں انگریز سرکار کی کوششوں سے براہوی زبان سے بلوچی الفاظ کو نکال کر اسے بلوچی کی ایک بولی کی جگہ زبان بنا دیا دیاگیا ۔اور براہوی بولی کی تاریخ سے متعلق مقامی روایات کو نظرانداز کر کے اسے داراوڑی زبان کی بگڑی ہوئی شکل ثابت کرنے کے پیچھے کیا مقاصد کافرما تھے ۔انگریزوں کی کوشش تھی براہویوں کو بلوچوں سے علیحدہ قوم بناکر اپنے اس کھوج کو درست ثابت کریں کہ براہوی داراوڑی نسل کے ہیں ۔انہوں نے اس کے لیے بھی بھونڈے انداز سے سائنس کا سہارہ لیا کہ براہویوں کے کاسہ سر دیگر بلوچوں سے مختلف ہیں اور اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی کہ نہ براہوی ماضی میں باقی بلوچوں سے الگ تھلگ تھے نہ اب ہیں اور کسی بھی براہوی بلوچ کا سر لو وہ ایک دوپشت پہلے کسی ایسے بلوچ قبیلے سے ضرور ہوگا جو صرف بلوچی بولتے ہیں ۔محترم آپ کے معلومات کے لیے یہ بھی عرض کیے دیتا ہوں کہ بلوچوں میں صرف براہو ی نہیں جدگالی (لاسی )اور کھیترانی بولیاں بھی بولی جاتی ہیں۔جدگالی بولی بولنے والے بھی تناسب کے لحاظ سے براہوی جتنے ہی ہوں گے ۔ جدگالی بولی براہوی کے برعکس (جس کے نوے فیصد الفاظ خالص بلوچی ہیں )بلوچی سے زیادہ سندھی کے قریب ہے مگر جدگالی بولنے والے خود کو بلوچ کہتے ہیں اور نسلاً اصلاً بلوچ ہیں ۔آپ کے لیے تحقیق کا میدان خالی ہے آپ دور نہ جائیں کراچی نوکیں لین (نیولائن /نوالین لیاری )میں جائیں ، جہاں کی اکثریت جدگال بلوچوں کی ہے اور یہ پوچھیں کہ سندھی سے ملتی جلتی زبان بولنے کے باوجود جدگال خود کو بلوچ کیوں قرارد یتے ہیں ؟ نوکیں لین کے پیچھے براہوی بلوچوں کی آبادی ہے اُن سے بھی پوچھ لیں کہ بلوچوں میں براہوی بلوچوں کا مقام کیاہے؟آپ کووہاں شاید کوئی یہ بھی بتا دے کہ ’’مادر بلوچ ‘‘ کا خطاب پانے والی خاتون شہید بی بی ماھتاب رئیسانی بلوچوں کے کس قبیلے سے تھیں ۔اگر آپ یہ جاننے کا بھی شوق رکھتی ہیں کہ بلوچ شاؤنسٹ ہیں یا قوم دوست، ان کی ڈکشنر ی اور ، روایات میں لفظ ’’بلوچ ‘‘ کا مفہوم کیا ہے اور بلوچ قوم دوستی کاپیمانہ کیا ہے ؟ تو جناب ڈاکٹر بشیر عظیم اور محترم نائلہ قادری سے پوچھ لیں ۔جن کا بلوچ قومی دوستی کی سیاست میں مقام جلال خان ( بلوچوں کا جد امجد) کے خونی رشتہ داروں سے ہرگز کم نہیں۔

آپ نے یہ لکھ کر بلوچستان کے قوم دوستوں کی کردار کشی کی ہے کہ ’’جولوگ بلوچستان گئے بلکہ کئی خاندان توایسے ہیں کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے وہاں مقیم ہیں ان کو نہ صرف گولیاں ماری جارہی ہیں بلکہ صوبے سے نکل جانے کے لیے کئی عاقبت نااندیش کہہ رہے ہیں ۔‘‘لگتا ہے کہ حاصل خان اور شاہ محمد مری کی دوستی سے آپ کو نقصان ہوا، اگر فائدے کی دوستی چاہتی ہیں توآپ نائلہ قادری او رڈاکٹر بشیرعظیم سے دوستی کر لیں ۔حیرت ہے کہ آپ کا دوست ہونے کے باجود انہوں نے آپ کو یہ سمجھانے کی زحمت نہیں کی کہ آج تک بلوچستان میں نہ کسی عام مہاجر کو قتل کیا گیا ہے نہ پنجابی کو ، نہ 1947سے پہلے آکر بسنے والوں کو نہ اس کے بعد آنے والوں کو ۔مگرچوں کہ بلوچ اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اس جنگ میں بلوچستان کے لوگ بلا تفریق رنگ ونسل شامل ہیں اور جنگ میں دشمن کو پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جاتے۔بلوچستان میں دو واضح متحارب گروہ ہیں ایک پنجاب شاہی جو بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹاکر بلوچستان اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا اور دوسرا بلوچ جو اس کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔جو پنجابی بلوچ نوجوانوں کی مخبری میں ملوث ہیں ان کے قتل کو آپ عام ایک پنجابی کا قتل قرار دے کر غلط ط بیانی کررہی ہیں ، یہ پنجاب شاہی کا ہراول دستہ ہے جس کے پنجابیوں سے زیادہ بلوچ مخبرمارے جاچکے ہیں۔رہی بات مہاجروں کے قتل یا ان کو بلوچستان سے بھگانے کی اس میں رتی بھر سچائی نہیں ، مہاجر وں کی مختصر سی آبادی بلوچستان کے محض دوشہروں میں آپ کو ملے گی ’’حب اور کوئٹہ ‘‘ میں۔ا ن دونوں شہروں میں ،مجھے اس طرح کے کسی واقعے کا علم نہیں کہ مہاجروں کی آبادی یا کسی گھر پر بلوچ بلوائیوں نے حملہ کیا ہو ۔البتہ کوئٹہ میں ایک مذہبی تنظیم شیعہ برادری کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے ۔

اگر میں آپ کو مثالیں دے کر سمجھانے بیٹھوں توہزاروں صفحات بھر سکتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ بلوچستان کے حالات اور تاریخ سے اتنا لاعلم نہیں جتنا آپ کے کالم پڑھنے سے لگتا ہے۔بلوچ مسئلے کو پاکستانی بندوسبت کے قیام کے بعد سے دیکھنے سے بلوچ مسئلے کو درست طور پر سمجھنا مشکل ہے ۔جنوبی سوڈان کے مسئلے کی طرح جس کی جڑیں فراعین مصر کے زمانے کے دور غلامی سے پیوست ہیں بلوچ مسئلے کی جڑیں بھی ساسانی دور کے حکمران نوشیروان کے دور تک جاتی ہیں جنہوں نے بلوچ خانہ بدوشوں کے خلاف لشکر کشی کر کے بلوچوں کوکوہ البرز سے موجودہ بلوچستان کی طرف دھکیلا تب سے بلوچ اپنے جداگانہ شناخت کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں ۔ اسے صوبائی حدبندیوں میں مقید کرنے کی کوشش آزادی کے لیے انسانی تاریخ کی اس طویل ترین جدوجہد سے انکارکے مترادف ہے ۔ آپ نے فیصلہ کن لہجہ کہاہے ’’ ہمیں سندھی شاؤنز م نہیں چاہئے اور نہ ہی بلوچستان میں قتل وغارت گری ۔‘‘اگر آپ نیک نیتی سے بلوچستان میں قتل وغارت گری نہیں چاہتیں تو بلوچوں کے پیدائشی حق آزادی کی حمایت اور ان مسخ شدہ لاشوں پر قلم اُٹھائیں جن کو اپنے بنیادی حق کے مطالبہ کے پاداش میں حق زندگی سے محروم کیا جارہاہے...................پھر دیکھیں جس طرح بلوچوں نے حبیب جالب ، فیض احمد فیض ، احمد فراز، نجم سیٹھی ، راشد رحمان اور محترم زاہدہ حنا وغیرہ کو عزت بخشا ، آپ کو بھی سر آنکھوں پہ بٹھا نے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیں گے، اگر یہ سب لکھنے میں کوئی’’ شاؤنزم ‘‘مانع نہ ہو۔
فقط
آپ کا ایک بلوچ قاری
قاضی داد محمد ریحان
گوادر،مقبوضہ بلوچستان 22جولائی 2011
www.qazirehan.blogspot.com

1 Response

Post a Comment

Powered by Blogger.