یہ باتیں دہرانے کا کوئی حاصل نہیں کہ کراچی کے بلوچ دنیا کے ایک بڑے شہر میں آباد ہونے کے باوجودجنگلیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ماضی میں بڑے شہر تہذیب کا منبع اور علم کے مرکز ہوتے تھے مگر اب جتنے بڑے شہر ہیں ان کے سماج بھی اتنے ہی پست ہیں۔ بے ہنگم طریقے سے پھیلے ہوئے ان شہروں میں روزانہ ایک آدھ قتل اور چوری ڈکیتی کے لاتعداد واقعات کو بدامنی کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاتا ۔ مذکورہ شہروں میں بسنے والوں کا ماننا ہے کہ یہاں ایسی کسی کمیونٹی کو گھاس تک نہیں ڈالی نہیں جاتی جو خیالوں ، کتابوں کی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے خبط میں مبتلا ہو ، جو سیاست کواُصولوں کے تابع اور شہر کو اپنا گھر سمجھ کر اس میں بسنے والے کے لیے برادرانہ جذبہ رکھتا ہو ، جو اپنے اس ادراک کو من مندر میں بھگوان بنا کرپوجتا ہو کہ اتنے بڑے شہر میں امن و آشتی سے رہنے کا گر یہی ہے کہ دوسروں کا احترام کرؤاور بدلے میں احترام لو اور اسی طرح کے تمام خوبصورت خیالات اس کے بھیجے میں ہوں تو اس کاحال بلوچوں کے حال سے مختلف نہ ہوگا۔
مگر کیا ہم ماضی میں زندہ رہ سکتے ہیں ؟ یا ہم نے جو کھویا اسے پانے کا کوئی راستہ ہے ؟ ہم( بلوچ) جنہوں نے اس شہر کو نام و نقش دیا ، آٹے میں نمک برابر کے درجے پر آنے کے بعد اس شہر کے وارث ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ؟ کیا ہم اتنی طاقت اور بربریت حاصل کرسکتے ہیں کہ چند مہاجر غنڈوں ( اُردو بولنے والوں نے اپنے لیے مہاجر کا لفظ خود چنا ہے اور چھ دہائیاں گزرنے کے باجود اس دھرتی کے تہذیب وثقافت کو قبول کرنے کی بجائے مجموعی طور پر اس کو چیلنج کیے ہوئے ہیں جو ایک الگ موضوع ہے )کی دہشت گردی کے جواب میں لاکھوں بے گناہوں کواپنے اندھے انتقام کا نشان بنائیں گے ؟کیا ہم قصاب کے باڑے میں بندھے کٹنے کے منتظر ، بیل بکروں کی طرح سر جھکائے گھاس چرتے رہیں گے ؟اس طرح کے لاتعداد سوالات ہمارے لیے چیلنج سے بڑھ کر امتحان کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارا مقابلہ کسی برابر کی قوم سے ہرگز نہیں ایک ایسے شیطان صفت گروہ سے ہے جسے جونک کی طرح دوسروں کا خون چوس کر زندہ رہنے کی عادت ہوچکی ہے ۔ اس کے سر غنہ کے ذہن میں یہ خناس بھر اہے کہ اس کی طاقت کا راز اسی میں ہے کہ وہ بلوچ سمیت دیگر اقوام کا خون پیتا رہے ۔
آپ ( بلوچ) کو سب یہی شرعی مشورہ دے رہے ہوں گے کہ خون کا بدلہ خون ۔میں بھی تشدد کو روکنے کے لیے ضروری حد تک تشدد سے جواب دینے کا قائل ہو ں مگر یہ حدود کیا ہوں اس کا تعین کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ایک فلیٹ فارم پر منظم ہونے کی ضرورت ہے اور یہی سب سے مشکل کام ہے کیوں کہ ’’شیطانی گروہ ‘‘ گروہ ہونے کے باوجودایک سرغنہ کے ماتحت ہے ۔ہم میں سے کچھ لوگ اس کے طور طریقے اور عادت واطور کی نقل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں اس گروہ کی طاقت مثالی اور انداز سیاست کامیاب ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ اس شیطانی گروہ کی جگہ اگر مہاجروں کی نمائندگی کوئی خالص سیاسی یا کم ازکم سماجی قدرو ں سے آشنا جماعت کررہی ہوتی تو آج واقعتا مہاجر کراچی کے مثالی لوگ ہوتے۔ کراچی میں بسنے والے اقوام کے لیے ان کے عادت واطور سے متاثر ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ رہتا۔ شیطانی گروہ نے میڈیا پر قبضہ جمانے اور پنجابی مقتدرہ کی آشیر واد حاصل کرنے کے علاوہ کوئی سماجی کامیابی حاصل نہیں کی ہے ، اس سے اس گروہ کو دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی چھوٹ او ر اس کے نامی غنڈوں کو کریکٹر سرٹیفکٹ تو ملے ہیں مگر مہاجروں کی شناخت ا ن کے لیے گالی بن کررہ گئی ہے ۔ میڈیا میں ان کی تعریف کے بھونپوبجانے والے مہاجروں کی ذہن میں یہ راسخ کررہے ہیں کہ وہ باقی لوگوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اوربندوبست پاکستان کی قومی زبان اُردودرست تلفظ کے ساتھ بولنے کی خداداد صلاحیت کی وجہ سے ہجرت کے فوراً بعد سے لے کر اب تک وہ ’’خاص لوگ ‘‘ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا اور اس کی ترقی میں کلیدی کردار اداکیامگر یہ اتنی زیادہ پرانی باتیں تو نہیں ابھی تک ممبئی ، دہلی اور لکھنو سے ہجرت کرکے آنے والی نسل کے کافی لوگ تندرست یاداشت کے ساتھ زندہ ہیں یہ جتانا اُن کاحق ہے کہ اُنہوں نے پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں ، بلوچ ، پختون اور سندھی کو اس کا کریڈٹ لینے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ بلکہ بلوچ تو گزشتہ تریسٹھ سالوں سے یہ یہ ثابت کرنے پر سر بہ کفن ہیں ان کا پاکستان بنانے میں نہ کبھی کردار تھا نہ وہ اب پاکستا ن کے ساتھ نتھی رہنا چاہتے ہیں پس اس بات میں مہاجروں کاکم ازکم کراچی میں کوئی تھگڑا مد مقابل نہیں ۔ اگر ان کے بڑے بزرگ تنہائی میں جاکر سوچیں ، اپنے ضمیر کو ٹٹولیں تو یقیناًانہیں یہ احساس ہوگا کہ ان کی ہجرت کراچی میں نہ صرف ان کے لیے بلکہ کراچی کے پرانے باسیوں کے لیے بھی ایک مصیبت بن چکی ہے ،’’ کراچی میں بدامنی کی جڑیہی ہجرت ہے۔‘‘
مگر کراچی کے باسی ماضی میں کیوں زندہ رہئیں ۔ کراچی کے حالات بلوچستان جیسے نہیں قطعاً نہیں ۔ بلوچستان میں کوئی خانہ جنگی نہیں ہورہی ہے بلکہ یہاں ’’ بلوچ ‘‘اپنی قومی آزادی کے لیے بالادست پنجابی مقتدرہ کے خلا ف جنگ کررہے ہیں جب کہ کراچی میں خانہ جنگی ہے ۔ وہاں اقوام کے درمیان میں کوئی جنگ نہیں ، نسلی فساد بھی نہیں، پارٹیوں کے درمیان کوئی نظریاتی لڑائی بھی نہیں اور نہ ہی انقلابی آدرشوں کے حامل باغی کراچی میں سبوتاژی کارروائیاں کررہی ہیں۔ اس بے مقصد لڑائی میں بلوچ کے ہاتھوں بلوچ بھی مررہے ہیں ، مہاجر بھی ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے ہیں ، پیپلز پارٹی والے بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں ۔ملا بھی ایک دوسرے کے مسلک کی مسجدوں پر قبضہ جمانے کے لیے خون کی ندیاں بہانے سے گریز نہیں کرتے ۔بلوچ اس با ت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’ کراچی ‘‘ کا مسئلہ بلوچستان کا مسئلہ نہیں ، کراچی بلوچستان نہیں بن سکتا باوجود ا س کے کہ تاریخی طور پر یہاں کے حکمران کئی صدیوں تک بلوچ رہے ہیں ، کراچی کا نیا نام ( مگر دیبل کے بعد ) کے بعد بلوچستان کے ایک ساحلی گاؤں ’’کلانچ ‘‘ کی نسبت رکھا گیا ہے ۔ کراچی پر خان کلات نے براہ راست حکمرانی کی ہے یعنی یہ بلوچستان کا حصہ تھا ۔ مگر تاریخی سچائی یہ بھی ہے کہ کراچی سندھو دیش کے دروازے اور برآمدے کی حیثیت رکھتاہے ۔ یہاں سندھ کے ہیرو راجہ ڈاھر(661
-712) حکمران رہے ہیں جنہوں نے عرب سامراج کے سامنے سر تسلیم خم کر نے کی بجائے مزاحمت کرکے سندھو دیش کی آزادی کی خاطر اپنی زندگی قربان کردی ہم ان تاریخی سچائیوں کو مسخ کرکے بھی ان کے اثرات سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے ۔ہمیں انہی تاریخی سچائیوں کو پیش نظر رکھ کر نئے عمرانی معاہدوں کرنے ہوں گے۔ ہمیں پنجابی مقتدرہ کی لوگوں کو طاقت کے زور پر فتح کرنے کی گندی سوچ اور سیاست سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا ۔دلوں کو فتح کرنا ناممکن نہیں بلکہ اسی عمل سے نئے اقوا م وجود میں آتی ہیں یاایک نسل ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی قوم بن سکتی ہے ۔افریقہ میں عرب ثقافت کا فروغ تلوار کے زور پر نہیں بلکہ سات سو سال تک قائم رہنے والے ایک معاہدے( معاہدہ بقت /بخت) کے نتیجے میں ہوا جسے دنیا کا سب سے طویل ترین معاہدہ کہا جاتاہے اس کے برعکس ترکی اور ایران وغیرہ میں اسلام تو پھیلا لیکن وہاں کے سماج نے عرب ثقافت کو مذہبی رسومات کے حد تک ہی قبول کیا ۔
بلوچ بھی طاقت کا جواب طاقت ، دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دے کر ’’کراچی ‘‘ پر اپنا دعویٰ ثابت نہیں کرسکتے ۔ اس شیطانی گروہ کا مقابلہ بلوچ کوایک مہذب قوم کی طرح کرنا چاہئے ایک ایسی قوم جو جنگ اور محبت میں بھی اُصول کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ ایک ایسی قوم جو خون دیکھ کر نہ ڈر جاتا ہے نہ حواس باختہ ہوجاتاہے اور ایک ایسی قوم جو پتھر کے پیچھے نہیں جاتا بلکہ پتھرمارنے والے کا پیچھا کرتا ہے ۔ بلوچوں کے لیے ناگزیز ہوچکا ہے کہ وہ پنجاب شاہی کی کٹھ پتلی جماعت پیپلز پارٹی سے اپنے تعلقات پر غور کرئے اور اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت ثابت کرنے کے لیے علمی اور سائنسی بنیادوں پر ایک ایسی تنظیم کی داغ بیل ڈالے جوبلوچ قوم کو اس کا قومی تشخص لوٹا سکے ۔ جس کے تحت لیاری کے غنڈوں کو قومی سپوت بنانے کے لیے سماجی تربیت گاہیں چلائے جائیں جو اس سوچ کی بیخ کنی کرئے کہ بندوق مسئلے کا حل نہیں دنیا میں پر امن طور پر سیاسی اور نظریاتی سوچ کے ساتھ بھی ایک قوم اپنی شناخت براقر ار رکھ سکتی ہے ۔ اس پر ایک سوال کے طورسوچنا چاہئے ’’آخر کیوں پیپلز پارٹی نے بلوچوں کے ایک ہاتھ میں بندوق اوردوسرے ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا تھماکر اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ان میں قوم دوستی کے پاکیزہ ، فلاحی اور پر امن جذبے کو ختم کر کے اس کی جگہ شاؤنزم کو فروغ دیا ؟‘‘
کراچی کے بلوچ غیر شعوری طور پر ’’شیطان ‘‘ کے اختیار کرد ہ روش پر چل پڑے ہیں ، جو خود کو سب سے بڑا محب وطن ، سندھ دوست اور اسلام دوست کہتاہے مگر ببانگ دہل کشت وخون کا بازار بھی گرم رکھا ہواہے ۔ بلوچوں کو اس منافقت سے وہی کچھ ملے گا جو مہاجربھگت رہے ہیں ۔بلوچوں کے دکھوں کا مداوا اور خوشحالی زندگی کاضامن نہ سبز ہلالی پرچم ہے ، نہ کلاشنکوف اور نہ ہی پی پی پی کا ترنگا ۔ کراچی میں ایک خالص قوم دوست اور علم دوست بلوچ قومی جماعت کے قیام کے بغیر جو کراچی کے حالات کوکراچی کے تناظرمیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو ، کراچی میں بلوچ قوم کی خوشحالی اور بقا ممکن نہیں ۔

****
18-08-2011
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.