بلوچ سیاست کاروں کا موجودہ رویہ حیران کن نہیں ، ایک بے ترتیب ہجوم بغیر مرکز کے اس سے بہتر رویے کا مالک نہیں ہوسکتا۔ ہمارے قوم دوست سیاست کاروں کا دعوی ہے کہ وہ پاکستانی تسلط کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں مگران کے سوچنے کا انداز وہی ہے جو کسی پاکستانی فوج کے جنرل کا ہوسکتا ہے ۔ ان کو ہر وہ شخص سازشی اور غدار نظر آتا ہے جو ان کی پالیسیوں اور طریقہ کار پر عدم اطمینان کا اظہار کرئے۔ ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ شھید کندیل بلوچ ( صبا دشتیاری) پائے کے دانشور بھی نعرہ مستانہ لگانے پر مجبور ہوں، حالات و واقعات کے تجزیہ کے بجائے لفاظی شعار بن چکی ہے رومانس ازم قوم دوست نظریہ کی جگہ لے چکی ہے۔ جس سائنسی تنظیمی ڈھانچے کوپیش نظر رکھ کر بی این ایم جیسی جماعتوں کی بنیادی رکھی گئیں تھیں بارہ سال بعد بھی اس
ڈھانچے میں اینٹیں چننے کی بجائے ڈھانچہ ہی ٹیڑھا کردیا گیاہے۔۔۔۔۔۔۔ خوش گمانیوں کا سیلاب ہے ، مایوس نہ ہونے کی تلقین ، پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ کی صدا ، لیکن یہ شھید واجہ کی سنت نہیں ، آپ اُمید نہیں عمل پر اعتقاد رکھتے تھے ، بے برگ و ثمر شجر سے پیوست رہنے کی بجائے دھرتی کے کونے کونے سے پھوٹنے ، آپ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے ، جنگ کے منتظر رہنے کی بجائے جنگ شروع کرنے پر یقین رکھنے والے۔۔۔۔ دوستو ، انتظار کرﺅ اور دیکھو شاید ہی سیاست کا ایک کارگر اُصول رہا ہو لیکن کیا ہمیں سب کچھ ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہئے یا آج کہ ہمارے پاس موقع ہے ، طاقت ہے خود کو آنے والے خطرات سے بچا کر دشمن کے ہر حملے کو اسی پر پلٹ دینے کی ، ہم خدشات اور ممکنہ خطرات پر خوش گمانیوں کا پردہ پڑا رہنے دیں؟۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں نہیں خاموش کرداروں کوغلطیوں کی نشاندہی اور غلط رستے پر چلنے والوں کو روکنے کے لیے فعال ہونا چاہئے۔
بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہاہے ، بلوچستان جل رہا ہے یعنی جنگ جاری ہے یعنی ہمارے لڑنے کی طاقت باقی ہے لیکن سب کچھ اتنا قابل رشک نہیں۔ یقیناً حالات اس قدر بھی خراب نہیں کہ ہمارے صفوں میں ہلچل مچ جائے مَیں پرسکون طریقے سے کام کرتے ہوئے بہترین کامیابیاں حاصل کرنے کے امکانات پر بات کررہاہوں ظاہر ہے ہمیں سمت میں آئی تبدیلیوں کو بھی درست رکھنا ہوگا ، جس کی نشاندہی کے لیے زیادہ معتبر آواز کی ضرورت ہے ، میں شاید بولتے ہوئے کبھی نہ تھکوں مگر تبدیلی کے لیے ہم سب کا متفق ہونا لازمی ہے ، ہم خیالات کی جھیل میں کنکر پھینک کر بھونچال پیدا نہیں کرسکتے مگر ہم سب مل کر '' رسم خاموشی '' کو توڑ سکتے ہیں ، آواز اور الفاظ ہماری طاقت ہیں ، آئیے آغاز کریں۔
انفرادی خطوط اور اپنی تحریروں کے ذریعے گزشتہ تین سالوں سے لگاتار کوشش کررہا ہوں کہ دوستوں کو قائل کرسکوں کہ تحریک میں پارٹیوں کی اہمیت اور پارٹیوں میں فرد کی کیا اہمیت ہے۔ تحریک عوامی حمایت حاصل کیے بغیر کامیاب نہیں ہوتے یہ افراد ہیں جو اس حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اسے چند لوگوں کی ذاتی رائے سے قومی سوچ میں بدل دیتے ہیں ، فرد کے عمل کا نام تحریک ہے جسے تنظیمیں اور پارٹیاں منظم کرتی ہیں ، غیر منظم اور منتشر گروہ تحریک کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے ،اس لیے پارٹیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مگر ہم کس طرح خود کو منظم رکھ سکتے ہیں یہ ہم گروہ بندیوں کی وجوہات جانے بغیر نہیں کرسکتے۔ تو ہمت کرﺅ گردن موڑنے کی ضرورت بس اپنے گزشتہ عمل پر غور کرو ، میرا کل کا سنگت کی پیشانی میرے بارے میں بات کرتے ہوئے کیوں شکن آلود ہے ؟۔۔۔ خود کو ہمیشہ سچا ثابت کرنے اور دوسروں کی نیت پر شک کرنے والا آمرانہ روش یہ ہوگا کہ ہم ہر وقت اس دوست کی خامیاں گنوائیں جو ہم سے اختلاف رکھتا ہے ، جسے ہماری باتیں اور طریقے پسند نہیں۔ اپنے اُن دوستوں کے لیے جنہوں نے اسی مقصد کے لیے شہادت کا وہی منزل حاصل کیا جو ہماری آرزور تھی '' رد انقلاب '' کی گالی اسی آمرانہ اور شکی سوچ کی پیداوار ہے جس کا ذکر ابتدائی سطور میں ہوچکا ہے۔
ہم کیا تماشا کررہے ہیں ؟ ہم خود کو دنیا میں تماشا بنارہے ہیں حالات ہماری سیاست کو ایک مرتبہ پھر خارجی حالات کے بھنور میں دھکیل رہے ہیں۔ دنیا سنجیدگی سے ہم سے بات کرنے پر سوچ رہی ہے لیکن ہم کوئی متفقہ قائد منتخب کرنے میں ناکام ہیں جو دنیا میں ہماری نمائندگی کرسکے۔ ہم میں سے بیشتر کی اُمیدیں ھیر بیار سے وابستہ ہیں کہ وہ کوئی انقلابی قدم اُٹھائیں گے انہوں نے اس متعلق کچھ قابل تحسین کام بھی کیے ہیں لیکن یہ مشکل مرحلہ ہے ایک آدھ کوششوں سے کامیابی ممکن نہیں ، اتحاد کو مقصد اور منزل بنائے بغیر ہم متحدہ محاذ قائم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ، بلوچ لبریشن چارٹر کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے ، بی این پی جیسی جماعت درکنار آزادی پسند جماعتوں کا بھی کوئی ایسا ردعمل دیکھنے میں نظر نہیں آرہا ہے کہ ہم کوئی نتیجہ اخذ کرسکیں ، کیا اس چارٹرکا انجام بھی خان کلات کے '' لبریشن کونسل '' جیسا ہوا ؟
عزیز ھیربیار! تحریک کی جڑیں بلوچ سرزمین پر پیوست ہیں آپ کو یہاں کے ذرے ذرے کے حالات سے باخبر ہونا ہے ، آپ نے ہمیشہ خود کو غیر متازعہ رکھنے کی کوشش کی لیکن آپ کو اس سے بڑھ کر ایک فیصلہ ساز قائد کا کردار بھی اداکرنا ہے۔ کچھ لوگ آپ سے قربت کا تاثر دے کر جس طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ، اُن کا زمینی حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں ، دراصل لندن اور دیگر یورپی ممالک میں آپ کے گرد گھیرا ڈالنے والے بیشتر لوگوں کا بلوچستان کی عملی سیاست میں کبھی کوئی کردار نہیں رہاہے ، جنہوں نے اس تحریک کو اپنے خون سے سینچا ہے ان سے زیادہ آپ اُن کی سن رہے ہیں جو بلوچستان کوسوشل نیٹورکس کا ایسا صفحہ سمجھ رہے ہیں جہاں صرف ایک جیسے خیالات رکھنے والے لوگ تصاویر اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی سب ٹھیک ہے کی رپورٹ کرنے والے۔
ڈھانچے میں اینٹیں چننے کی بجائے ڈھانچہ ہی ٹیڑھا کردیا گیاہے۔۔۔۔۔۔۔ خوش گمانیوں کا سیلاب ہے ، مایوس نہ ہونے کی تلقین ، پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ کی صدا ، لیکن یہ شھید واجہ کی سنت نہیں ، آپ اُمید نہیں عمل پر اعتقاد رکھتے تھے ، بے برگ و ثمر شجر سے پیوست رہنے کی بجائے دھرتی کے کونے کونے سے پھوٹنے ، آپ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے ، جنگ کے منتظر رہنے کی بجائے جنگ شروع کرنے پر یقین رکھنے والے۔۔۔۔ دوستو ، انتظار کرﺅ اور دیکھو شاید ہی سیاست کا ایک کارگر اُصول رہا ہو لیکن کیا ہمیں سب کچھ ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہئے یا آج کہ ہمارے پاس موقع ہے ، طاقت ہے خود کو آنے والے خطرات سے بچا کر دشمن کے ہر حملے کو اسی پر پلٹ دینے کی ، ہم خدشات اور ممکنہ خطرات پر خوش گمانیوں کا پردہ پڑا رہنے دیں؟۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں نہیں خاموش کرداروں کوغلطیوں کی نشاندہی اور غلط رستے پر چلنے والوں کو روکنے کے لیے فعال ہونا چاہئے۔
بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہاہے ، بلوچستان جل رہا ہے یعنی جنگ جاری ہے یعنی ہمارے لڑنے کی طاقت باقی ہے لیکن سب کچھ اتنا قابل رشک نہیں۔ یقیناً حالات اس قدر بھی خراب نہیں کہ ہمارے صفوں میں ہلچل مچ جائے مَیں پرسکون طریقے سے کام کرتے ہوئے بہترین کامیابیاں حاصل کرنے کے امکانات پر بات کررہاہوں ظاہر ہے ہمیں سمت میں آئی تبدیلیوں کو بھی درست رکھنا ہوگا ، جس کی نشاندہی کے لیے زیادہ معتبر آواز کی ضرورت ہے ، میں شاید بولتے ہوئے کبھی نہ تھکوں مگر تبدیلی کے لیے ہم سب کا متفق ہونا لازمی ہے ، ہم خیالات کی جھیل میں کنکر پھینک کر بھونچال پیدا نہیں کرسکتے مگر ہم سب مل کر '' رسم خاموشی '' کو توڑ سکتے ہیں ، آواز اور الفاظ ہماری طاقت ہیں ، آئیے آغاز کریں۔
انفرادی خطوط اور اپنی تحریروں کے ذریعے گزشتہ تین سالوں سے لگاتار کوشش کررہا ہوں کہ دوستوں کو قائل کرسکوں کہ تحریک میں پارٹیوں کی اہمیت اور پارٹیوں میں فرد کی کیا اہمیت ہے۔ تحریک عوامی حمایت حاصل کیے بغیر کامیاب نہیں ہوتے یہ افراد ہیں جو اس حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اسے چند لوگوں کی ذاتی رائے سے قومی سوچ میں بدل دیتے ہیں ، فرد کے عمل کا نام تحریک ہے جسے تنظیمیں اور پارٹیاں منظم کرتی ہیں ، غیر منظم اور منتشر گروہ تحریک کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے ،اس لیے پارٹیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مگر ہم کس طرح خود کو منظم رکھ سکتے ہیں یہ ہم گروہ بندیوں کی وجوہات جانے بغیر نہیں کرسکتے۔ تو ہمت کرﺅ گردن موڑنے کی ضرورت بس اپنے گزشتہ عمل پر غور کرو ، میرا کل کا سنگت کی پیشانی میرے بارے میں بات کرتے ہوئے کیوں شکن آلود ہے ؟۔۔۔ خود کو ہمیشہ سچا ثابت کرنے اور دوسروں کی نیت پر شک کرنے والا آمرانہ روش یہ ہوگا کہ ہم ہر وقت اس دوست کی خامیاں گنوائیں جو ہم سے اختلاف رکھتا ہے ، جسے ہماری باتیں اور طریقے پسند نہیں۔ اپنے اُن دوستوں کے لیے جنہوں نے اسی مقصد کے لیے شہادت کا وہی منزل حاصل کیا جو ہماری آرزور تھی '' رد انقلاب '' کی گالی اسی آمرانہ اور شکی سوچ کی پیداوار ہے جس کا ذکر ابتدائی سطور میں ہوچکا ہے۔
ہم کیا تماشا کررہے ہیں ؟ ہم خود کو دنیا میں تماشا بنارہے ہیں حالات ہماری سیاست کو ایک مرتبہ پھر خارجی حالات کے بھنور میں دھکیل رہے ہیں۔ دنیا سنجیدگی سے ہم سے بات کرنے پر سوچ رہی ہے لیکن ہم کوئی متفقہ قائد منتخب کرنے میں ناکام ہیں جو دنیا میں ہماری نمائندگی کرسکے۔ ہم میں سے بیشتر کی اُمیدیں ھیر بیار سے وابستہ ہیں کہ وہ کوئی انقلابی قدم اُٹھائیں گے انہوں نے اس متعلق کچھ قابل تحسین کام بھی کیے ہیں لیکن یہ مشکل مرحلہ ہے ایک آدھ کوششوں سے کامیابی ممکن نہیں ، اتحاد کو مقصد اور منزل بنائے بغیر ہم متحدہ محاذ قائم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ، بلوچ لبریشن چارٹر کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے ، بی این پی جیسی جماعت درکنار آزادی پسند جماعتوں کا بھی کوئی ایسا ردعمل دیکھنے میں نظر نہیں آرہا ہے کہ ہم کوئی نتیجہ اخذ کرسکیں ، کیا اس چارٹرکا انجام بھی خان کلات کے '' لبریشن کونسل '' جیسا ہوا ؟
عزیز ھیربیار! تحریک کی جڑیں بلوچ سرزمین پر پیوست ہیں آپ کو یہاں کے ذرے ذرے کے حالات سے باخبر ہونا ہے ، آپ نے ہمیشہ خود کو غیر متازعہ رکھنے کی کوشش کی لیکن آپ کو اس سے بڑھ کر ایک فیصلہ ساز قائد کا کردار بھی اداکرنا ہے۔ کچھ لوگ آپ سے قربت کا تاثر دے کر جس طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ، اُن کا زمینی حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں ، دراصل لندن اور دیگر یورپی ممالک میں آپ کے گرد گھیرا ڈالنے والے بیشتر لوگوں کا بلوچستان کی عملی سیاست میں کبھی کوئی کردار نہیں رہاہے ، جنہوں نے اس تحریک کو اپنے خون سے سینچا ہے ان سے زیادہ آپ اُن کی سن رہے ہیں جو بلوچستان کوسوشل نیٹورکس کا ایسا صفحہ سمجھ رہے ہیں جہاں صرف ایک جیسے خیالات رکھنے والے لوگ تصاویر اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی سب ٹھیک ہے کی رپورٹ کرنے والے۔
paa lahte zaah oh badaan wadarig booo bale baaz wash oh rast nebeshtag Waja Hairbyar wati juhd a kanagaen bale angat baaz kaar loti
اتفاق اتحاد آزادی مایوسی سے نفرت کی بات کرنے والا خود ہی قوم کو ٹکروں اور شہید واجہ کے اصل اور نقل کے بحث میں گرے ہوئے ہیں اور جناب نے تو بی این ایم، ش م غ ف ق ل م ن و بنا لی ہے اور قاضی صاحب خود بھی اِ سے تنظیم کے ہست اور نیست ہیں، جناب عمل کے بات صرٖٖف لکھنے سے نہیں ہوتئ بلکہ عمل سے ہوتی ہیں۔ نمائشی سیاست کو خیر آباد کہنا ہی ہوگا قاضی صاحب ، بس خود کی تعریفیں سُننا بند کرو اور ہر ہفتے گوادر اور اُس کے گرد نواں میں پمفلٹ لکھیں سرکل دیں جب آپ یہ کام سٹارٹ کرینگے تو پھر آپ کو سب کچھ ٹھیک ہی نظر آئے گا۔