اخترجان کے آمد و رفت پر بہت کچھ لکھا اوربولا جارہاہے ، بی بی سی اُردو نے بھی اپنے پروگرام ٹاکنگ پوائنٹ میں اُن سے براہ راست پوچھنے کا موقع فراہم کیا ، اُن کے دلائل کس قدر اطمینان بخش ہیں، فرصت ملا تو آئندہ نشست میں اس پر بھی بات کریں گے،پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بلوچ سیاسی کارکنان اور آزادی پسند جھدکاران کے حلقوں میں دلچسپی اور وسوسے کا باعث ہے ، بیشتر تجزیہ نگارتجربات کی روشنی میں بات کرتے ہیں یا ذاتی خواہشات کی ہو بہو تعبیر چاہتے ہیں اس لیے سیاسی پیشن گوئیاں مصدقہ معلومات کے بغیر عموماً پیرپگارومرحوم کی بذلہ گوئی اور لال حویلی کے بانکے شیخو کی گپیں ثابت ہوتی ہیں ۔ان کے علاوہ یہ کہ ’’ سیاستدان کی باتوں کو نہیں اُن کے عمل کو دیکھو ‘‘ یا ’’ تیل دیکھ اور اس کی
دھار دیکھ ‘‘ ۔

یہ سوال چند دن پہلے ایک نوجوان سیاسی سوج بوجھ رکھنے والے دوست نے پوچھا ، میں نے جواباً اس کی رائے پوچھی کہ’’ آپ کا اس متعلق کیا خیال ہے ؟‘‘ اُنہو ں نے فوراً جواب دیا :’’ یہ سیاسی خود کشی ہوگی ۔‘‘ اگر ایک بیس سالہ سیاسی بچہ اتنا ادراک رکھتا ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں بی این پی جسے اپنے مبہم سیاسی مقاصد کے باوجود بلوچ قوم دوست جماعتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے،الیکشن میں حصہ لے اور بدقسمتی سے اس کے اُمیدوار کامیاب ہوکر حکومت میں بھی شریک ہوں تو اس کے نتائج بلوچ قومی سیاست اور تحریک پر منفی ہوں گے ہی لیکن خود بی این پی اور اس کے کرتا دھرتا بھی بلوچ قوم دوست حلقوں میں مجرم ٹہریں گے اور یہی سادہ رائے اس پیچیدہ سوال کاجواب ہے ۔ لیکن کیا بی این پی تحریک کے موجودہ رخ سے مطمئن نہیں ؟ کیا اخترجان اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بندوبست پاکستان میں رہتے ہوئے بلوچ قومی مسٗلے کو حل کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسا کوئی حل بی این پی کے پاس موجود ہے جو بلوچ قو م اور پنجابی کے لیے یکساں قابل قبول ہو ؟ بی این پی کے قائدین اس پر واضح موقف دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں بجز یہ کہ بی این پی ایک سیاسی اور پارلیمانی جماعت ہے ۔اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ بی این پی الیکشن میں حصہ لے گی اس لیے مشکل ہے کہ بی این ایم اور بی آرپی بھی جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں ہیں ، تشدد کے براھمدگ اور ھیربیار بھی قائل نہیں لیکن پاکستانی پارلیمنٹ اور پاکستان کی نام نہاد جمہوریت ان کے لیے قابل قبول نہیں اس لیے یہ اُن قوتوں کی سرپرستی اور ببانگ دہل حمایت کررہے ہیں جو پنجابی کے تشدد کو روکنے کے لیے ’’ مزاحمت ‘‘ کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے مثبت نتائج قوم کے سامنے ہیں نہ صرف بلوچستان میں آبادکاری کو روکا گیا ہے بلکہ کئی استحصالی منصوبے بھی ناکامی سے دوچارہیں۔ اس دہائی کی کامیابیاں بلوچ تحریک کی گزشستہ پچاس سالہ کارکردگی سے زیادہ ہیں جن ادوار میں نیپ ، بی این پی ، بی این ایم اور جمہوری وطن پارٹی پارلیمان پارلیمان کھیلا کرتی تھیں کیا حاصل کیا گیا؟ بلوچستان اوربلوچ قوم کی تقسیم سے بڑھ کر کیا نقصان ہوسکتا ہے جس کا آج تک مداوا نہیں کیاجاسکا‘سقوط ڈیرہ جات او ر کوہ سلیمان کے مجرم کون اور کراچی کے بلوچوں کو قومی سیاسی دھارے سے باہر دھکیلنے والے کون تھے؟پارلیمان پارلیمان ، صوبائی خود مختاری اور حق و حقوق کے پوچ نعروں سے قوم دو بوند پانی بھی نہیں حاصل کرسکا ، یہ بی این ایم ، بی آرپی اور بی ایس او (آزاد)کا سادہ موقف ہے ۔ اس کے رد میں بی این پی کیا پیش کرتی ہے ؟۔۔۔ جواب ندارد ۔

اب تک بی این پی کی جوبات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ بی این پی، بلوچ قومی تحریک کے موجودہ قیادت کے روش سے مطمئن نہیں،اُن کے خیال میں تحریک بین الاقوامی حالات اور بیرونی مددگاروں کے منصوبوں کے مطابق استوار کی جانے چاہئے لیکن عرض یہ ہے کہ بہت سے جزوی معاملات پر خود آزادی پسند جماعتوں میں بھی اختلاف پایا جاتاہے مگراُن کے موقف میں اتنی پیچیدگیاں اور تضاد نہیں کہ اختلافات سمجھ میں نہ آئیں لیکن بی این پی کے روش سے عموماً یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ آزادی پسند حلقوں کے چڑمیں موثر کردار اداکرنے سے کترا رہی ہے یا اس کو کاونٹر کرنے کی آزادی پسند جماعتوں کی جو پالیسیاں ہیں اُن سے وہ نالاں ہیں،جس کی وجہ سے بی این پی کی سیاست معلق ہوچکی ہے۔ کوئٹہ کے ایک صحافی نے      بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلوچ سیاسی جماعتوں کی بالکل درست درجہ بندی کی ہے اُن کی درجہ بندی میں بھی بی این پی ’’ نہ گھر کاہے نہ گھاٹ کا ‘‘ یعنی ’’ نیم معتدل پارٹی ‘‘۔ کھڑکی کھولنے کی پالیسی ہر وقت کامیاب نہیں ہوتی،طوفان باد وباراں میں بی این پی چاہتی ہے کہ ایک کھڑکی کھلی رکھی جائے لیکن ہوا کے تند وتیز تھپیڑے اس کے آڑے ہیں اور اگر ان کی کچھ کوششوں کو جیسا کہ ان کی حالیہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیشی کو اسی تناظر میں دیکھا جائے کہ وہ پنجاب کو سدھرنے کا موقع دینا اور الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ماحول سازگار بنانا چاہتے ہیں ، نتیجہ ’’ سر کن ءُ پرکن ءُ ھپ کن ءُ ھچ!‘‘۔ خود اخترجان کے الفاظ ہیں کہ ’’ میں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نہیں آیاہوں، جب اکبرخان کو شہید کیا گیاہم نے پارلیمان سے استعفیٰ دے دیا ‘‘ اور اب ایک اکبرخان نہیں ہزاروں اکبرخان کی لاشیں پارلیمان کے راستے پرپڑی ہیں ،بی این پی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کیا جوازپیدا کرئے گی ؟۔۔۔۔۔۔ میں ذاتی طور پر یہی سمجھتا ہوں کہ اخترجان اسلم رئیسانی اور ماموں ( جام یوسف ) بننے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوں گے ۔

بی این پی کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے سب سے سازگار حالات وہی تھے جب پرویز مشرف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو برطرف کیا ہوا تھا، ایک انقلابی سا ماحول پیدا ہوگیا تھا ،فوجی ڈکٹیٹر اور فوج کی پالیسیوں کے خلاف پورا پاکستان سراپا احتجاج تھا ، اس انقلابی ماحول کے نتیجے میں اگرپنجابی روش میں کسی مثبت تبدیلی کی توقع ظاہر کی جاتی تو اسے اور کوئی نہیں بلوچستان کے وکلا ضرورقبول کرتے ، پاکستانی فوج داد کے مستحق ہے جس نے ایک انقلاب آفرینندہ تحریک کو دوچیفس(چیف آف آرمی اسٹاف پاکستان جنرل پرویز مشرف اورچیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ چوہدری افتخار احمد)کا ذاتی مسٗلہ بنادیا،پاکستان میں ایک سرکاری ملازم کی نوکرکری کی بحالی کے لیے تاریخ کی سب سے منفرد اور مثالی تحریک چلی ، جو کامیاب ہوکر بھی ناکامی سے دوچار ہوئی ، یہ صرف راقم کی رائے نہیں اسی تحریک کے سرکردہ لیڈران عاصمہ جہانگیر ، اعتزاز احسن اور علی احمد کرد وغیرہ جیسے چیف کے جانثار بھی اپنے چیف کے موجودہ رویے سے دلبرداشتہ ہیں اور اس کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے،اس سپریم کورٹ میں انصاف کی اُمید لے کر پیش ہوناشاید غلطی نہ ہو لیکن ہم جیسوں کی آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات بھی نہیں۔ لیکن وثوق کے ساتھ یہ کہنا کہ اخترجان نے بغیر سوچے سمجھے یہ قدم اُٹھا یا ہے، غلط ہے بلکہ جس طرح ہمارے ایک اخبار نویس دوست کا تبصرہ ہے ’’ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے‘‘ تو ’’ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘‘ لیکن کیا جب یہ پردہ اُٹھے گا اخترجان بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ہوں گے، جس کے لیے آئی ایس آئی کا پروپیگنڈہ کے لیے بنایا گیا ’’سائبر فورس‘‘ سوشل میڈیا پر’’ نیگسٹ براھوی فرائم منسٹر آف بلوچستان ‘‘ کے الفاظ استعمال کررہاہے ؟ ۔ ایسے کوئی شواہد بظاہر نہیں آتے ، ایسے میں کہ بی این پی کی بلوچستان میں مقبولیت صرف چند مینگل گھرانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہونہ بی این پی کسی غیر مقبول فیصلے کو لے کر سیاست کرسکتی ہے نہ پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ وہ اس طرح کا کوئی کارنامہ انجام دے سکے جو نہ صرف پنجابی سوچ کو بدل سکے بلکہ پاکستان میں دیگر اقوام بشمول بلوچ کے لیے باوقار اور پر امن طریقے سے رہنا ممکن ہو ۔ پاکستانی فوجی روش میں تبدیلی کی اُمید صرف ایک قوت سے ہی کی جاسکتی ہے اور وہ ہے ایک ایسا انقلاب جس سے پورے نظام کا کایا کلپ ہو اور فوج شکست سے دوچار ہو ، ابھی تک پاکستان میں کوئی’ ’میدان التحریر ‘‘ بنی ہے اورنہ ہی کوئی ’’ محمد بوعزیزی ‘‘ پیدا ہوئے ہیں جو فوری انقلاب کی چنگاری بن سکیں ۔اور ایسے کسی انقلاب کے بغیر پارلیمانی سیاست کا حصہ بننا محض سیاسی خودکشی نہیں بلکہ ایک مجرمانہ فعل ہے ۔

بی این پی کے پاس واجہ عطا ء اللہ ( سردار ) کا تجربہ ، اخترجان کی جرات اور ثناء اللہ کی ذہانت ہے ، ان سے کوتاہ ادراکی توقع ہماری طفلانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ جہاں بچہ بچہ یہ جانتا ہوکہ بندوبست پاکستان میں ملک کا سپریم کمانڈر (صدر ) بھی پنجابی شاونسٹ سوچ کے سامنے بے بس ہے ، یعنی بی این پی پورے بندوبست پاکستان میں چاہئے بھاری مینڈیٹ سے الیکشن جیت جائے ثناءاللہ وزیراعلیٰ بلوچستان، اخترجان وزیراعظم پاکستان اور واجہ عطاء اللہ صدر پاکستان کے عہدے پر منتخب ہوں،تب بھی بلوچستان کی قسمت نہیں بدل سکتے ۔ یہ محض اندازہ نہیں تجربہ ہے کیوں کہ ظفراللہ جمالی بھی بلوچ ہیں اور پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، پہلے بھی فاروق لغاری نامی ایک بلوچ صدر پاکستان رہ چکے ہیں اور موجودہ صدر پاکستا ن بھی ،زرداری بلوچ ہیں، یہاں تک کہ پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ دوست محمد کھوسہ اورموجودہ گورنرلطیف کھوسہ بھی بلوچ ہیں ‘ کیا ان کے بلوچ ہونے سے پنجاب شاہی کی سوچ بدل گئی ہے ؟ کیا             بی این پی کے متعلق آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی قیادت بے خبر ہے کہ ایک نام کے بلوچ ،آصف زرداری کو بھی پنجابی اسٹبلشمنٹ ایوان صدر میں برداشت کرنے کو تیار نہیں ؟ ‘ ملک پاکستان کے سپریم کمانڈر جناب زرداری کا یہ واقعہ کیا واجہ عطاءاللہ ( سردار ) اور اخترجان کے علم میں نہیں ؟ :’’ مجھے دسمبر 2011کی وہ سر دراتیں آج بھی یاد ہیں جب صدر آصف علی زرداری ایوان صدر کے پچھلے حصے میں واقع اپنے بیڈروم میں بندوق تھام کر ساری ساری رات کسی کا انتظار کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں سرنڈر نہیں کروں گا ، استعفیٰ بھی نہیں دوں گا، گرفتاری بھی نہیں دوں گا، میں لڑوں گا گولی کا جواب گولی سے دوں گا ، مجھے ہٹانا ہے تو آئینی طریقے سے ہٹاؤ ۔ ایک دن تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے حملہ آور مجھے گولی مار کر کہیں کہ میں نے خود کشی کرلی ہے لیکن گواہ رہنا میں لڑتے ہوئے مروں گا خودکشی نہیں کروں گا ۔ دسمبر کی سرد راتوں میں ان کے بیڈروم میں بکھرے ہوئے بھاری ہتھیار دیکھ کر اور اُن کی باتیں سن کر پسینے چھوٹ جاتے تھے اور جب ان سے پوچھا جاتاتھا کہ ایوان صدر پر کون حملہ کرسکتا ہے ؟ یہ سن کر آصف علی زرداری اپنے مخصوص انداز میں مسکر ا کر کہا کرتے تھے کہ پرویزمشرف کی باقیات میرے ساتھ وہی کرسکتی ہیں جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا گیا ۔ ( حامد میر ، کالم : جناب صدر سے معذرت کے ساتھ ، روزنامہ جنگ )

دوستو! میرا یقین رکھیں اخترجان بھی یہ سب جانتے ہیں اس لیے تو انہو ں نے کہاہے کہ : ’’ اس ملک میں کوئی ایسی قوت ہے جویہاں ظلم ، جبر اور استحصال کرنے والوں کا گریبان پکڑ سکے تو ہم ان سے مذاکرات کریں گے ، ہمیں نظر نہیں آتا۔‘‘
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.