روزنامہ توار میں شائع شدہ جناب ھیربیار کے انٹرویو میں سپریم کورٹ میں اغوء کیے گئے بلوچوں کا کیس ، ملالہ پر طالبان حملے سے متعلق پاکستان کے مذہبی جماعتوں کی سوچ سے ملتی خیال آرائی اوراخترجان کی سپریم کورٹ میں پیشی جیسے کچھ تازہ واقعات پر تبصروں کے علاوہ تحریک بلوچستان کے حوالے سے کوئی نئی بات نہیں کی گئی ہے ماسوائے براھمدگ سے اخباری شکوہ کے جس پربلوچ صحافتی ( کالم نویس ) اور قوم دوست حلقے ملے جلے تاثر کا اظہار کررہے ہیں ۔ ھیربیار نے اپنے انٹرویو میں جس طرح کے شکوے شکایتیں کی ہیں وہ
چی مگوئیوں کی صورت گزشتہ تین چار مہینوں سے سنی جارہی تھیں جس پرخیر خواہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور آپس میں سخت رویہ اختیار کرنے کی بجائے تدبر اور دور اندیشی کا مشورہ دیا تھا ۔ ریڈیکل ہونے کا مطلب اگر پختہ انقلابی لیا جائے تو ’’ انقلابی پن ‘‘ ایک اچھی روش ہے لیکن اس کے نام پر ’’ بنیاد پرستی ، ہٹ دھرمی اور خودپسندی ‘‘ وغیرہ شعار بنائے جائیں تو ایسے ساتھیوں کا ساتھ رہنا مشکل ہوجاتاہے جو انقلابی اداروں کے پیداوار اورانقلابی آدرشوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہاں یہ بھی وضاحت کیے دیتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے لفظ ’’انقلابی ‘‘کا مفہوم کسی خاص نظریے کے لیے کام کرنے والا نہیں بلکہ اس کا مطلب وہ فرد ہے جو شخصی اور قبائلی حدبندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو جو خالصتاً یک نکاتی قوم دوستانہ تحریک ہے ، کو سائنسی اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے منظم اور کامیابی سے ہمکنار بنانے کے لیے ’’ تحریک ‘‘ میں حصہ دار ہے ۔ یہ وہی طبقہ ہے جو شخصیات کی بجائے اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے ، جذبات کے بجائے ، عقل اور دلیل کا قائل اور’’ آزادی‘‘ اس کے ایمان کا حصہ ہے جس کے لیے وہ قربانیاں دے رہا ہے ، صرف آزادی کے لیے۔
جس طبقے کی ہم بات کررہے ہیں وہ شروع میں سرداروں سے خائف رہا ہے اس کا خیال تھا کہ سردار خود پسند اور ہٹ دھرم ہیں اس لیے اُن کو ایک فلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا مشکل ہے۔ شہید واجہ ( غلام محمد بلوچ ) کے قیادت میں اس طبقے نے قوم تحریک کے حالیہ احیاء میں پہلی مرتبہ ’’ تحریک آزادی ‘‘ کو طبقاتی درجہ بندیوں میں جھکڑے رکھنے کی بجائے وسعت دینے کا فیصلہ کرکے قوم دوستی کے سادہ اور یک نکاتی پروگرام کے تحت اکھٹے لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ شروع میں اس کو جو قیادت میسر تھی اس کے اخلاص اور سیاسی تدبر کی وجہ سے قوم جیمڑی سے لے کر ہلمند اور کوہ سلیمان کی چوٹیوں تک ایک لڑی میں پروگئی ، شہید بالاچ اور شہید واجہ جیسی ہستیوں کی شہادت کے بعد بڑی آسانی سے اس بنیاد ی سوچ کو مسخ کیا گیا ، نئے قائدین نے اداروں کوفتح کرکے وہاں اپنے بت گاڑھ دیئے، اپنے حلقوں میں مخلص دوستوں کے داخلے پر پابندی لگادی ، چاپلوسوں، خوشامدیوں اور واہ واہ کرنے والوں نے ان سیاسی خانقاہوں میں ڈیرے ڈال دیئے ۔۔۔۔۔۔اب اس طقبے کو احساس ہورہاہے کہ انہوں نے تحریک میں قبائلی سرداروں اور گوریلا کمانڈروں کو ہیرو بناکر غلطی کی ہے، اُنہیں اداروں کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہئے تھا ، لیڈر شپ اسے کہتے ہیں جو ایک تنظیم کے توسط قوم کی نمائندگی کرتی ہے نہ کہ وہ جو اپنے وجود کو قوم کے لیے سرمایہ سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے‘ تحریک اور ادارے جب مقدم ہوں گے تو ’’ ھیر بیار ‘‘ اور ’’ براھندگ ‘‘ کے بیانات میں بھی ’’ مَیں ۔ مَیں ‘‘ کی تکرار نہ ہوگی اور نہ ہی ہم صرف ’’ خیربخش ، ھیربیار ، براھمدگ ، اللہ نذر اور اخترجان وغیرہ‘‘ کا نام لے کر لکھا کریں گے ۔۔۔ اس توتو میں میں نے ایک مرتبہ پھر اس طقبے کو مخمصے میں ڈال دیا ہے جس نے اپنی توانائی انہیں ہیرو بنانے میں صرف کی ہے اور ہیرو ہمیشہ ایک ہیرو کی طرح پیش آتا ہے اور سیاسی ورکر غلام محمد جیسا لے جنڈ ہوکرکر بھی ایک عام آدمی کی طرح ۔
شاید ھیر بیار اور اُن کے دوستوں کو یہ لگتا ہو کہ اُن کا انٹرویوآزادی پسند جھدکاروں کو اُن کے دوٹوک موقف کا شیدائی بنا دے گا لیکن یہاں اس کے اثرات بالکل برعکس ہیں ، میرے اس رائے کے اظہار سے پہلے مجھے اس انٹرویو کے متعلق ایک تحریکی دوست نے معمول کی ملاقات میں تذکرہ کیا تھا ۔ انہوں نے متنازعہ جملوں کی نشاندہی کی اور میری طرف دیکھا۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ ’’ کیا ھیر بیار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس طرح کی باتوں سے ہم اُنہیں داد دیں گے ؟ ‘‘ پھر ایک اور دوست گویا ہوئے : ’’ میں نے موبائل براورز پر زوم کرکے اسے بڑی مشکل سے پڑھا ہے اور لیڈر صاحب کا یہ کہنا ہے !۔۔۔‘‘
براھمدگ اپنے کچھ سیاسی مشکلات کا ذکر کرچکے ہیں، پھر بھی ہم اس پر قطعاً براھمدگ کی حمایت نہیں کریں گے کہ اُنہوں نے آپ کا ٹیلی فون نہ اُٹھا کر قابل تحسین کام کیا ہے یا ای میلز کا جواب نہ دینے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں آتی ہے ( اگر انہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے ) اس پر آپ کی پریشانی بالکل بجا ہے لیکن اس بات کو اخبارات میں اُچھالنا درست نہیں آپ کو زیادہ حوصلے سے اس معاملے کو حل کرنا چاہئے ۔ آپ کے اس عمل سے بدخواہوں کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا ہے اور دوستوں میں خدشات نے جنم لیا ہے ، ایک فون نہ اُٹھانے سے براھمدگ اور آپ کے درمیان بد اعتمادی کی اتنی بڑی دیوار کھڑی نہیں ہونی چاہئے اور عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے آپ سے براھمدگ کی نسبت یہ توقع زیادہ ہے کہ آپ اس بداعتمادی کی دیوار کوپھر سے کھڑا نہیں ہونے دیں گے جسے ڈھانے کے لیے شہید بالاچ اورشہید اکبر نے اپنی زندگیوں کو قربان کردیا ۔
جناب لیڈر صاحب ! آپ کو ہمیشہ یہ بات گرہ میں باندھنی چاہئے کہ آپ کی باتیں پتھر کے لکیر نہیں یا آپ کوئی پیغمبر کہ اُمت آپ کی باتوں پر بلا چوں وچرا عمل کرنے کا پابند ہے، اگر آپ کی ٹیم کے بنائے گئے چارٹر سے براھمدگ یا ہم میں سے کوئی بھی اختلاف کرئے تو یہ اس کا سیاسی حق ہے جسے خنداں پیشانی سے قبول کرنا چاہئے لیکن بجائے اس کے کہ آپ اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کریں آپ تحریک کے ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر ( بدقسمتی سے ، تحریک شروع ہی سے علاقائی ، قبائلی ، شخصی اور سیاسی مفادات کے بنیاد پر تقسیم ہے ) کو اس عمل میں شامل کرنے کی بجائے بچوں کی طرح ضد پکڑ رہے ہیں ۔ یقیناً قوم کو ایک ایسے دستاویز کی ضرورت ہے جوآزاد بلوچستان میں اس کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت دے لیکن اس سے پہلے قومی قیادت کو ایک فلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا چاہئے تاکہ آپ اس دستاویز کو قومی دستاویز یا قومی چارٹر کہہ سکیں ۔ بلوچ قوم کی نمائندہ آزادی پسند جماعتوں ( شخصیات کو نہیں ) کو کسی سیاسی ادارے کے تحت ہی متحد کیا جاسکتا ہے محض نعروں کی بنیاد پر یہ کرشمہ ممکن نہیں ۔
اسی طرح آپ کا یہ فرما نا کہ آپ اس چارٹر کو قوم کے سامنے لائیں گے تاکہ قومی اتفاق رائے حاصل کی جاسکے بھی سیاسی حوالے سے قابل عمل خیال نہیں ، کیا آپ اس پر کوئی ریفرنڈم کرنے کا ارادہ ر کھتے ہیں ؟ انگریزی میں لکھے گئے اس دستاویز کو کتنی فیصد قوم سمجھ سکے گی ؟ آپ اسے بلوچی یا اپنی میڈیا کی زبان اُردو میں شائع بھی کردیں کیا آپ کے پاس ایسا کوئی نظام ہے جس کے تحت آپ اس پر پوری قوم کی رائے لے سکیں ؟ میرے خیال میں چارٹر یا آئین ایسے دستاویز نہیں کہ ان پر انتخابی یا ریفرنڈم کے طرز پرعمومی رائے لی جاسکے ۔ قوم اس پر محض اس وقت رائے دینے کے قابل ہوگی جب یہ کسے آزادریاست کے قوانین کا حصہ ہو ۔ بلوچستان ماضی کی کوئی چھوٹی شہری ریاست بھی نہیں کہ آپ ایک جگہ تمام سفید ریشوں کو اکھٹا کرکے کسی بلوچی دیوان میں رائے لیں گے ۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بلوچ قوم اور بلوچستان کے عوام کی رائے لینے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام بلوچ قوم دوست جماعتوں کو ایک فلیٹ فارم لایا جائے جس طرح آپ ( ھیربیار) کی تجویز پر جان سولکی کی رہائی معاملے پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لیے تمام چھوٹی بڑی آزاد پسند جماعتوں کی ایک کمیٹی بنائے گئی تھی ۔ ہمیشہ یاد رکھیں کسی بھی ایسے ادارے کے قیام سے پہلے قوم ’’ براھمدگ ، ھیر بیار اور بی ایل ایف ‘‘ کو اکھٹا دیکھنا چاہتی ہے ان تینوں قوتوں میں سے اگر کوئی بھی اکیلے یا کسی ایک کے بغیر کوئی بھی قدم اُٹھایا جائے اس کی حمایت ایک حلقے تک ہی محدود ہوگی۔ میرے خیال میں آپ کو اپنے ہی تجربات سے سیکھنا چاہئے یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ آپ اور آپ کی ٹیم ناکام ہوئے ہیں اس سے قبل آ پ نے خان کلات کے ’’ بلوچ فریڈم کونسل ‘‘ کی حمایت کی تھی جو محض ایک اخباری شوشہ ثابت ہوا ‘ پھر آپ کے دوستوں نے بی آر پی اوردیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر آپ کو بلوچوں کا واحد اور متفقہ عالمی نمائندہ بنانے کا اعلان کیا اوراب آپ کا فریڈم چارٹر غلط حکمت عملی کے بھینٹ چڑھ گیا ۔
آپ کے انٹرویو کا دوسرا حیران کن بلکہ پریشان کن انکشاف یہ ہے کہ ’’ آپ نے ورلڈ سندھی گانگریس میں جانے سے اس لیے انکار کردیا کہ ’’وہاں اخترجان بھی مدعو تھے ‘‘ ۔ شہید واجہ اور بی این ایم کے دوستوں کا بی این پی اور اختر جان سے ہمیشہ یہی کہنا رہا ہے کہ ’’اخترجان! سیاسی اختلافات اور قبائلی دشمنی میں فرق کو سمجھیں ۔‘‘ شہید واجہ تنقید کو سیاست کی روح سمجھتے تھے ، آپ فرماتے تھے کہ اگر ہم اسٹیج پر کھڑے ہوکر دوسری سیاسی جماعتوں پر تنقید نہ کریں تواس کامطلب ہے ہم ان کی حکمت عملیوں کی خاموش حمایت کررہے ہیں ۔ آپ نیشنل پارٹی کے سب سے بڑے ناقد تھے اور یہی حقیقت ہے کہ بی این ایم نیشنل پارٹی کے رد میں بنائی گئی ہے تاکہ اسے بلوچ معاشرے میں سیاسی گندگیاں پھیلانے سے روک کر بلوچ قوم میں قوم دوستانہ سوچ کو مضبوط کیا جاسکے‘ لیکن ذاتی تعلقات میں آپ نے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ کبھی بھی اس قدر سخت رویے کا مظاہرہ نہیں کیا کہ نیشنل پارٹی کے کارکنان آپ سے متنفر ہوں ، آپ جہاں جاتے اپنے پرانے دوستوں سے جن کا نیشنل پارٹی سے تعلق تھا ضرور ملاقات کرتے دارصل ایک سیاسی رہنماء میں اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کی سکت ہونی چاہئے ، نہ صرف تنقید کرنے کا جوھر بلکہ سہنے کا ظرف بھی ۔ آپ کے اس جواب سے یقیناً سندھی قوم دوست بھی حیران ہوں گے ، آپ کس طرح کمزور سیاستدان ہیں کہ اپنے مخالفین کے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔چار جماعتی اتحاد کے غیر فعال ہونے کے بعد سیاسی محاذ پر بی این ایم اور بی ایس او نے یہی پالیسی اپنائی کہ پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ کوئی مشترکہ پروگرام نہیں کریں گے لیکن دوسرے اداروں کے پروگرام اور سمینار میں نہ صرف شرکت کیا جاتا بلکہ بی این ایم اور بی ایس او کے جھدکار اپنے مضبوط موقف اور دلائل کی وجہ سے شرکاء کو اپنی باتوں سے قائل کرلیا کرتے تھے ۔ شہید اُستاد صبا دشتیاری تو اس طرح کے پروگرامات میں بن بلائے چلے جاتے اور اپنا موقف کھرے جذبات اور بہادری کے ساتھ بیان فرماتے ۔
آپ کی نئی حکمت عملی سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ بھی ’ اخترجان ‘‘ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جس کی قبائلی ناک ہمیشہ سے بلوچ قوم کی تقسیم کا سبب ہے ۔ یہ وہ رویہ ہرگز نہیں جس کی بنیاد پرعام لوگوں نے تحریک اور آپ جیسے لیڈروں کا بوجھ اپنے کاندھے پر اُٹھایا اور خاندان کے خاندان قربان ہوگئے ۔ کسے زمانے میں شہید واجہ بھی اپنی ہر سیاسی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’دوستوں کی رائے ہے ۔‘ ‘ گوکہ آپ کی پارٹی کے اپنے بھی ادارے موجود تھے اور اس طرح کی حکمت عملیاں جو شاید آسمان میں بنتی تھیں ہمیشہ ناکام ہوتی تھیں ، بلوچستان میں قوم دوست نظریات کی اتنی تیزی سے مقبول ہونے کی وجہ بی این ایم ، بی آرپی اور بی ایس او کو وہ سیاسی ادارے تھے جوعلاقائی حالات کو پیش نظر رکھ کرکام کرتے تھے ۔ آپ کے مطابق ورلڈ سندھی گانگریس میں آپ کے عدم شرکت کی وجہ بھی آپ کے دوستوں کا مشور ہے،آپ سے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ’’ کتابی اور آسمانی سیاست ‘‘ کرنے کی بجائے زمین پر آئیں اور محض ایک مخصوص طبقے کے مشورے پر عمل کرنے کی بجائے اپنے حلقے کو وسیع کریں ۔ قبائلی اور علاقائی سیاست کرنا شاید آسان ہو اور اس کا آپ کو تجربہ بھی ہے لیکن قومی اور عوامی سیاست سے جس کی جڑیں زمین میں پیوست ہے آپ اور آپ کی ٹیم نابلد ہے یہاں لوگوں کے رویے بدلنے کے لیے اُنہیں جیتنا پڑتا ہے ۔ ہر وقت صرف قائل کرنے کی ضد نہیں کبھی قائل ہوکر بھی بات منوانے کاگر سیکھئے ۔ جس دن آپ ایک بادشاہ اور آمرکی بجائے شہید واجہ اورشہید بالاچ کی طرح سوچنا شروع کریں گے اسی دن سے آپ کے قومی قائد بننے کا آغاز ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم آپ کوقیادت کے اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن آپ یا ہماری خواہش کی بنیاد پر ایسا ممکن نہیں ،یہ منحصرہے آپ کے ادراک اورعمل پر ۔
Post a Comment