روزنامہ توار میں ھیربیار کے انٹرویوکے بعد وش ٹی وی نے براھمدگ کا انٹرویو نشر کیا جس میں انہوں نے اپنے سابقہ موقف کو دہرایا ۔براھمدگ کے انٹرویوکے مندرجات کو پڑھتے ہوئے اختلاف رائے کے باجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی باتیں سیاسی اور دلائل پر مبنی ہیں ۔جانے کیوں براھمدگ کی باتیں سن کر میرے کانوں میں ہمیشہ بلوچ بابا کا وہ جملہ گونجتا ہے جو انہوں نے اپنے ایک انٹریومیں براھمدگ کے متعلق کہا تھا : ’’ براھمدگ ابھی بچہ ہے ۔ ‘‘ لیکن ان کے گزشتہ بیان اوربی بی زامرکے شہادت کے بعد غیرجذباتی ردعمل نے ثابت کیا ہے گوکہ براھمدگ نوعمر ہیں لیکن وقت اور حالات نے انہیں بہت کچھ سکھادیا ہے ۔ ہمیں براھمدگ کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کے سیاسی اتالیق ’’ شہید اکبر ‘‘ اور نظریاتی اُستاد ’’ شہید بالاچ ‘‘ تھے ۔ شہید اکبر جیسے اُستاد کے شاگرد سے جن کے کٹر مخالفین بھی اُن کے سیاسی تدبر، علمی مرتبہ اور ادراک کے قائل ہیں ، اس سے زیادہ
سیاسی اہلیت کی توقع ہونی چاہئے۔ براھمدگ نے اپنی سیاست کا آغاز ہی آگ اور خون سے کیا ، شہید اکبر سے وابستگان کو دیکھئے ، پرکھئے اور پھر براھمدگ کے کردار کو زیر بحث لائیں ۔ شہید اکبر کی بگٹی ملیشیاء کو آزادی کے لیے لڑنے والی ایک قومی فورس بنانااورپھر شہید اکبر کی شہادت کے بعد جمہوری وطن پارٹی کو بی آر پی کی صورت پورے بلوچستان میں منظم کرنا ، بچوں کا کھیل اور آسان کام نہیں تھے ۔ براھمدگ نے ایک قبائلی معاشرہ میں اپنی آنکھیں کھولی ہیں جس کے اپنے مشکلات ہیں ، بگٹی جیسے جنگجو قبیلے کو ایک نظریاتی پروگرام کے تحت لانا ہی اُن کاواحد کارنامہ نہیں بلکہ بیشمار ایسے چیلنجز ہیں جودیگر آزادی پسندلیڈران کی نسبت براھمدگ کو درپیش ہیں اور وہ اُن کا جرات مندانہ طریقے سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ ڈیرہ بگٹی کی اہمیت پاکستان کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے جس پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے پاکستان نیشہید اکبر خان جیسے آئی کان لیڈر کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ، جس کی اُنہی کافی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے ۔ شہید اکبر کی شہادت کے بعد وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر براھمدگ کو خریدنے اورقتل کرنے کی کوششکررہے ہیں جس میں اُنہیں تاحال ناکامی کاسامنا ہے۔ ڈیرہ بگٹی پاکستانی معشیت کے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتا ہے جس کے پائپ پر براھمدگ کا پاؤں ہے یقیناً پورا بلوچستان وسائل سے مالامال ہے ، کوہلو کاھان میں بھی شاید تیل اور معدنی ذخائر دفن ہیں ، لیکن اُن کو نکالنے اور قابل استعمال بنانے کے لیے ابھی کافی وقت لگے گا مگر ڈیرہ بگٹی سے روزانہ آگ کاوہ شعلہ بھڑکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستانیوں کی روٹی پکتی ہے ، بلکہ ٹرانسپورٹ اور کارخانے بھی اسی کے مرہون منت ہیں ، پاکستان میں حالیہ توانائی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ بی آر اے کے سپاہیوں کی دشمن تنصیبات پر مسلسل حملے ہیں جس سے پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہاہے ۔ہمارے لیے شاید ڈیرہ بگٹی بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ایک عام زمین کا ٹکڑا ہو لیکن پاکستان کی سانسیں اس ٹکڑے سے وابستہ ہیں ، اسی طرح بلوچ آزادی پسند فورس بی آر اے کی عسکری اہمیت بھی باقی جھتوں سے زیادہ ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ براھمدگ کو توڑنے اور متنازعہ بنانے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے لگاتار سازشیں اور کوششیں کی جارہیہیں ۔ براھمدگ کے پورے خاندان کو ان سے کاٹ کر نہ صرف اُنہیں تنہا ء کردیا گیا ہے بلکہ یہ کوشش بھی جارہی ہے کہ اُن کے خلاف غداروں کی ایک مضبوط ملیشیاء کھڑی کی جائے ۔ نواب اکبرخان کی بین الاقوامی شہرت کو براھمدگ اور اس کے ساتھیوں نے تحریک کے لیے جس طرح ایندھن بنایا اس کے لیے بھی سیاسی و سائنسی تدبر کی ضرورت تھی ۔ اس لیے تحریکی خیرخواہوں کو بھی چاہئے کہ وہ ان مشکلات اور معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے براھمدگ کے خلاف جاری سازشوں کو سمجھیں اور اُن کے کسی سیاسی اختلاف کو جواز بناکر دشمن قوتوں کو حوصلہ فراہم نہ کریں۔ باربار اس بات کو دہراتے ہوئے بھی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے کہ ہم بچکانہ اور طفلانہ حرکتوں کو سیاست اور انقلابی روش کیوں سمجھتے ہیں ۔ ہم بیانیہ جتاتے ہیں کہ ہم تنگ نظر نہیں بلکہ ہمارے ہرکسی سے اختلافات نظریاتی بنیادوں پر ہیں ذاتی نہیں ۔ میری ناقص رائے میں نظریہ کے ابلاغ کے لیے تبلیغ کی ضرورت ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ نظریاتی دوستوں کے داہرے کووسیع کر کے زیادہ سے زیادہ گروہ اور جماعتوں کو حامی بنایا جائے ۔ لیکن ہمارے کچھ دوستوں کے کمنٹس اور خیالات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اخترجان کے پروپاکستانی سیاست کا حصہ بننے سے اُنہیں روحانی تسکین حاصل ہوگی ،اُن کی غلطیوں کی نشاندہی کی بجائے اُن کو براہ راست غدار اور اس جیسی سیاسی گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔ذرا صبر اور مناسب وقت کا انتظار کرنے کی بجائے قبل از وقت ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ،کیا یہی انقلابی روش ہے ،اسی کو برداشت اور وسیع النظری کہاجاتا ہے؟ اگر ہاں تو کس ڈکشنری میں ۔

اسی طرح براھمدگ کے بیان کو بھی سیاق و سبق سے ہٹ کر سیاسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی بجائے اپنا ہی بھونپو بجایا جارہاہے کہ ہم نے یہ کیا ہے ؟ وہ کیا ہے ؟اور بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ براھمدگ کا موقف اور اخترجان کا موقف ایک ہی ہے۔ کبھی میرے دل میں ذرا سا یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ کہیں جس طرح ماضی میں شہید اکبر کو نیپ کے انقلابی اور اُصولی لیڈر صاحبان نے بھٹو کے کیمپ میں دھکیل دیا اسی طرح براھمدگ کو بھی انہی ضدی اُصولوں کے بھینٹ نہیں چڑھا یا جارہا ؟ لیکن کچھ سوچ کر مجھے تسلی ہوتی ہے کیوں کہ براھمدگ کی سیاست آزادی کی غیر پارلیمانی سیاست ہے جب کہ اُس وقت نیپ کی سیاست نہ قوم ودوستانہ تھی اورنہ غیرپارلیمانی ، پیپلزپارٹی اور نیپ دونوں ہی عوامی حقوق کی بات کررہے تھے ۔شہید اکبر خان اگر پی پی کے ساتھ متحد ہوگیا تو نیپ نے جمیعت علماء اسلام کے ساتھ حکومتی گٹھ جوڑ کیا ۔یہ سیاسی غلطیاں تاریخ کا حصہ ہیں جنہیں براھمدگ کی طرف سے دہرائے جانے کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں کیوں کہ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آزادی کے واضح اور یک نکاتی پروگرام کے ساتھ کیا ہے اور تاحال اس کے موقف میں ایک انچ کا بھی فرق نہیں آیا۔ اور براھمدگ کا یہ دعوی نہیں کہ وہ اقتدار یا کسی گروہ کی خوشنودی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں بلکہ اُن کا مقصد بلوچستان کی آزادی ہے جس کے لیے اگر وہ کسی ذات کی ناراضگی یا ناپسندیدگی کو خاطر میں لاتے تو وہ اپنی خاندان کی بات سننتے ۔ 

اب یہ بات کہ آخر براھمدگ نے ایسی کونسی غلط اور سمجھ میں نہ آنے والی بات کی ہے کہ ہمارے عالمی سیاست کے درک رکھنے والے’’ آسمانی دانشور ‘‘ ( یہ طنز نہیں اصطلاح ہے ) سیخ پا ہیں ۔ بات چارٹر پر شروع ہوئی تھی جو ابھی تک عوامی سطح پر تقسیم بھی نہیں کی گئی اور نہ ہیجنہیں پڑھنے کے لیے دیا گیا ہے اُنہیں اس پر عوامی سطح پر بحث کی اجازت ہے۔ پھر بھی ایک حلقہ بضد ہے کہ چارٹر بلوچ قوم کے اُمنگوں کی ترجمانی کرتا ہے ، شاید ایسا ہی ہے لیکن یہ دعوی پیشگی ہے بلکہ براھمدگ کی طرف سے خدشات کے بعد یہ دعوی مشوک ہوچکاہے کیوں کہ اگر یہ حلقہ بی آر پی کو ایک بلوچستان گیر عوامی و قومی جماعت تسلیم نہ بھی کرئے ، ڈیرہ بگٹی ( جس کی اہمیت تمہید میں بیان کی گئی ہے ) میں تواس کی قوت مسلمہ ہے یا کم ازکم چند بگٹی تو براھمدگ کے حامی ہیں، یعنی سادہ الفاظ میں چارٹر پر قوم میں مکمل یک جہتی نہیں پائی جاتی اور یہ صورتحال چارٹر کو عام کرنے سے پہلے ہے بعد میں کیا ہوگا ؟ ابھی واضح نہیں ۔

براھمدگ نے اپنا جو موقف پیش کیا ہے اس کو سیاق سباق کے مطابق دیکھیں ، جملوں کوپیراگراف سے اُچک کر اور لفظ کو الفاظ سے نکالنے کی بجائے سب کچھ جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کی جائی تو براھمدگ نے چارٹرجیسے دستاویز کی ضرورت کوکلیتاً رد نہیں کیا ہے بلکہ یہ عرض کیاہے کہ’’چارٹر میں ایسے شق شامل ہیں جو بلوچستان کے آئین کی ترجمانی کرتے ہیں جب کہ کوئی فرد بلوچستان کا آئین تو نہیں بناسکتا بلکہ آزادی کے بعدتما م آزادی پسند جماعتیں اور بلوچ قوم جمہوری طریقے سے اپنے جو نمائندے چنے گی وہی بلوچستان کا آئین ومنشور بنائیں گے ۔‘‘

اب چارٹر کے حامیوں کی جھوٹ دیکھیں یا بد گمانی کہ براھمد گ شاید جمہوری طریقے سے بلوچستان کے نظام کو چلانے کے حق میں نہیں اس لیے چارٹر کی مخالفت کررہے ہیں کیوں کہ چارٹر میں ایک ووٹ ، ایک فرد کی بات کی گئی ہے ۔ اس طرح کے بودے دلیل سے ہنسی بھی آتی اور اپنے آسمانی دانشوروں کے عقل پر ماتم کرنے کو بھی جیچاہتاہے ۔ یہ دوست سب چیزوں کو اتنے آسانی سے کس طرح پیش کررہے ہیں ، چارٹر کوئی معمولی دستاویز نہیں کہ ایک گروہ اُسے بنائے ( چاہئے وہ گروہ کتنا ہی معتبر اور بڑا کیوں نہ ہو، اگر حجم اور ذہنی اپروچ میں بہتری کی بات ہوتی تو بلوچ بابا اور ڈاکٹر عبدالحئی سن اکہتر کے پاکستان کے آئین پر دستخط کرتے تھے جسے بہترین ذہنوں نے ترتیب دیا تھا اوراسے اکثریت کی حمایت حاصل تھی ا ور دونوں لیڈران اس پارلیمان کے ممبر بھی تھے ) اور باقی سب بلاچوں وچرا قبول کریں ، کسی کو بحث اور اختلاف رائے رکھنے کی اجازت نہ ہو ۔ پھر تضاد یہ کہ براھمدگ سے پوچھابھی جاتاہے کہ ’’آپ اپنے پارٹی منشور کو کیوں مقدم جانتے ہیں کیا بلوچستان کی آزادی سے زیادہ آپ کاپارٹی منشور اہمیت رکھتا ہے ؟ ‘‘ یہ سوال آپ کے لیے کیوں درست نہیں؟ ۔ چارٹر کی تیاری میں بھی تو دیگر آزادی پسند جماعتوں کا کردار نہیں تھا تو یہ ایک گروہ گا منشور ہوا کیوں اس کو لاگوکرنے کے لیے غیرضروری جذبات کا مظاہرہ کیا جارہاہے ۔

عزیزم ! جس طرح ایک حلقہ اپنے پنجوں پہ کھڑا ہوکر زور لگارہاہے کہ ھیربیار اور براھمدگ کے درمیان اختلافات کو اس سطح پر لے جایا جائے کہ پھر نہ ھیربیار براھمدگ کا سامنا کرسکیں نہ براھمدگ کے دل میں ھیربیار اور بلوچ باباکے لیے احترام باقی ہو ۔ مگراس انٹرویو سے پہلے اور بعد کے انٹرویو میں بھی براھمدگ نے ان تمام تاثرات کورد کردیا ہے اور زور دے کر یہ بات کی ہے کہ ’’ اُن کے اور ھیربیار کے درمیان ایک انچ کا اختلاف نہیں ‘‘ اب اس سے بڑھ کر اُن کو آپ کے خیال میں کیا کہنا چاہئے تھا ؟ شاید یہ درست ہو کہ کچھ تکنیکی یا دیگر مشکلات کی وجہ سے اُن کا ھیربیار کے ساتھ رابطہ نہیں ہوسکا ہو لیکن انہوں نے اس بات کو میڈیاکے سامنے لانے سے گریز کیا اور کہا: ’’ میں نے اپنی باتیں ھیربیار کے سامنے رکھ دی ہیں اور کوئی اختلاف نہیں بلوچستان کی آزادی پر ہم متفق ہیں ۔‘‘

تاہم براھمدگ نے اپنا چارٹر کے متعلق بھی نکتہ نظر واضح کیا ہے :’’ چارٹر آ ف لبریشن پر بہت سے شق ایسے ہیں جو کلیئر نہیں ‘‘ ، توا س کا کیا یہ مطلب لیاجائے کہ اُنہوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا ؟ نہیں ایساسوچنا غلط بلکہ انتہائی نامناسب ہے ۔انہوں نے یہ تجویز رکھی ہے کہ چارٹر کی تیاری میں جو کمی رہ گئی ہے اسے پورا کرنے کے لیے اسے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر دوبارہ تحریر کیا جائے اور ایک متفقہ پروگرام ( چارٹر یا ایجنڈہ ) لے قوم کے سامنے جائیں ، اُن کے الفاظ تھے : ’’اگر چارٹر آف لبریشن کو نواب مری تسلیم بھی کرلیتا ہے توتمام آزادی پسند جماعتوں کی رائے لے کر قوم کے سامنے جائیں گے ‘‘ ۔ اس سے قبل کے انٹرویو میں بھی براھمدگ بی این ایف کے تجربات سے سیکھتے ہوئے وسیع تر اتحاد کی بات کرچکے ہیں بلکہ اُنہوں نے انتہائی پُرامید لہجے میں کہا تھا کہ بہت جلد ہم ایک بہتر اتحاد بناکر اپنی جدوجہد کو مزید موثر طریقے سے آگے بڑھائیں گے ۔ 

اب اعتراض کرنے والوں کی ہمت دیکھیں بیک وقت نواب مری کی ترجمانی بھی کررہے ہیں اور براھمدگ کو جھوٹا بھی کہا جارہاہے کہ انہوں نے نواب مری کو متنازعہ بنایا ہے ۔ اس پر کچھ حضرات ہمارے مخلص انقلابی لیڈر قادر بلوچ کے بیان کا حوالہ دے رہے ہیں کہ اُنہوں نے اس جھوٹ کا پول کھول دیا ہے ۔ میں قادر کی ذات پر کوئی بات کرکے ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچا چاہتا لیکن ان اعتراض کرنے والوں کیتضادکی نشاندہی ضرور کروں گا کہ قادر بلوچ نے اپنی پارٹی بلوچ وطنموومنٹ ‘ بی این ایم کے ردعمل میں بنائی تھی جب اسے شہید واجہ نے پارٹی معاملات میں غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے معطل کیا تو انہوں نے پریس کانفرنس کرکے بلوچ وطن موومنٹ کے قیام کا اعلان کیا ۔ اس پارٹی کی ابھی تک بلوچستان میں ایسی کوئی ساکھ بھی نہیں کہ ہم اس کہ نکتہ نظر کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کریں البتہ قادر بلوچ کی نیت پر کوئی شک نہیں ، مگر کیا قومی تحریک کے لیے کامریڈ مولاداد کی خاندانی اور ذاتی قربانیاں کسی سے کمتر ہیں کیا اس کے غداری کے کوئی ٹھوس ثبوت موجودہیں ، اُن کی واحد غلطی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اُنہوں نے شخصی اختلافات کی بنیاد پر الگ پارٹی بنائی ہے مگر اس غلطی کے باوجود قادر بلوچ کو بی این ایف میں نمائندگی دی گئی اور آج اسی کی بات کو جواز بناکر براھمدگ جیسے قومی لیڈر اور بی آر پی جیسی قومی پارٹی کو جھٹلایا جارہاہے ۔ 

مگر دوستو! میرے لیے براھمدگ معتبر ہیں اور سیاسی مصلحت کی بنیاد پر اس غلط بیانی کی کوئی وجہ بھی میرے سمجھ میں نہیں آرہی اور نہ ہی براھمدگ نے اپنی رائے بلوچ بابا کے رائے سے مشروط کررکھی ہے بلکہ انہوں نے اپنی وابستگی اور یکجہتی کے اظہار کے لیے اس بات کوقوم کو سامنے ظاہر کیا ہے کہ :’’ ہماری باتوں کو ہر کوئی اپنی طریقے سے تشریح کرتا ہے مگر ہم اپنی بات کو واضح طور پر رکھتے ہیں، نواب خیربخش مری کے ساتھ ہر وقت بلوچستان کے مسٗلے پر میری بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ان سے صلاح ومشورے کرتے رہتے ہیں ‘‘ 

اب کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ بلوچ بابا اور ھیربیار کے درمیان کیوں کر اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن جو لوگ بابا کے سرکل میں اُٹھتے بیٹھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بابا سیاسی دوستوں کے ساتھ بالکل دوستانہ ماحول میں گفتگو کرتے ہیں اور صرف اپنی بات ہی نہیں کرتے بلکہ ملاقات کے لیے آنے والوں کی بھی رائے لیتے ہیں اور اکثر بات کا آغاز تازہ حالات، اخباری بیانات یا کسی نئے ایشو پر آپ ہی شروع کرتے ہیں اور تمام پہلووں کوواضح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں اُنہوں نے پہلے بھی ھیربیار اور اس کی ٹیم کی بہت سے باتوں پر اُن پردوستوں کے سامنے تنقید کی ہے بلکہ ھیربیار کے کچھ بیانات پر اس ادارے کی طرف سے بھی ردعمل دیا گیا ہے جس کا ھیربیار کو نمائندہ سمجھا جاتا ہے ۔ بابا ھیربیار کی طرف سے اپنے لیے’’ پیٹریاٹ ‘ ‘ ( جو کچھ عرصے تک ھیربیار کے نام کے ساتھ لاحقے کی طرح جڑا ہوتھا ) کے لفظ سے بھی چڑا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’ یہ ھیربیار خود کو پیڑیاٹ کیوں کہہ رہے ہیں جب کہ قوم دوست پیڑیاٹ سے زیادہ بہتر اور جامع لفظ ہے ‘‘ براھمدگ پرتنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ براھمدگ نے باباکومتنازعہ بنا دیا جب کہ یہ کام باباپر حق ملکیت کا دعوی جتاکروہ خود کررہے ہیں ۔ بابا کبھی بھی یہ نہیں سمجھتے کہ صرف ھیربیار اُن کے فرزند ہیں بلکہ تحریک کا ہر سپاہی ، چاہئے کسی بھی محاذ پر ہو اآپ اسے بچوں کی طرح عزیز رکھتے ہیں اور اس بات پر کافی خوشی محسوس کرتے ہیں کہ قوم انہیں ’’ بابا ‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔ جب ہم جیسے ادنی سے آدمی کے ساتھ جن کے اگلے پچھلے کے بارے میں بابا کو کچھ بھی نہیں معلوم بابا بزرگانہ شقفت سے پیش آتے ہیں اور ہر سیاسی موضوعات پر دوستانہ ماحول میں بات کرتے ہیں تو براھمدگ کے لیے یقیناً ان کے جذبات وہی ہوں گے جو شہید فدا ،شہید بالاچ ، شہید غلام محمداور دوسرے ہونہار فرزندان کے لیے تھے ۔

اس بات کا ایشو بننے سے پہلے ھیربیار کی ٹیم کی طرف سے چی مگوئیوں کی صورت یہ باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں کہبراھمدگ اخترجان کے ساتھ اتحاد بنانے چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے بی این ایف کو چھوڑ اہے لیکن اخترجان کے دورے پر سب سے زیادہ سخت بیان دے کر انہوں نے بدخواہوں کی بولتی بند کردی ۔
خلاصہ یہ کہ مجموعی طور پر براھمدگ نے نہ چارٹر پر بات کرنے سے انکا ر کیا ہے نہ ہی انہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ آزادی پسندوں سے مختلف موقف کے حامی ہیں اگر جزوی اختلافات ہیں تو انہیں ہم حل کرسکتے ہیں اور حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ا نہوں نے اسعزم کو بھی دہرایا ہے کہ بلوچ قوم کے مستقبل کا فیصلہ پورے قوم کے اعتماد کے ساتھ کیا جائے گا، انہوں نے پیغام دیا ہے کہ :’’ ہمارا مقصد آزادی ہے ، پیسہ اور عہدے کی سیاست پاکستانی ریاست کی سیاست ہے اس وقت بلوچ قوم آزادی چاہتی ہے اب قربانی دینے کاوقت ہے اور ہم سب کو مستقبل کے لیے قربانی دینے پر تیا ر رہنا ہوگا ۔‘‘

یہ بات بھی ذہن نشین ہو کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چارٹر پر متفق ہونا کوئی آسان بات ہے کیوں کہ چارٹر بلوچ قوم کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے لیکن سیاسی اور سیاسیات کے اُصولوں کے تحت ایسا ہونا ممکن نہیں بلکہ جس طرح کے شق چارٹر میں پیش کیے گئے ہیں اُن کے ایک ایک جملہ اور اصطلاح کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے جو ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے اسے کسی غیر نمائندہ عوامی فورم میں بحث کے لیے پیش کرنے کی تجویز دینے والے وہی آسمانی دانشوروں کے علاوہ کوئی نہیں ہوں گے جنہوں نے اسے خوامخواہ کا رائی کا پہاڑ بنا دیا ہے اگراُن کی نیتیں صاف ہیں تو براھمدگ کے بیان کو متنازعہ بنانے کی بجائے وہ ھیربیار کو درست مشور ہ دیں اور ایسے راستے تلاش کیے جائیں کہ تمام اسٹاک ہولڈر تمام پروسز میں ایک ساتھ ہوں تاکہ اگر کوئی ، چارٹر ، ایجنڈہ یا پروگرام ان قوم دوست جماعتوں کی طرف سے پیش کیا جائے تووہ قوم میں اتفاق اور یکجہتی کا سبب بنے نہ کہ مزید تقسیم اور تناؤ کا ۔اب جب کہ براھمد گ واضح کرچکے ہیں اُن کے اورھیربیار کے درمیان انچ بھر کا بھی فاصلہ نہیں تو ہمیں بھی ایسی باتیں پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے ۔موجودہ حالات میں قوم کے لیے براھمدگ اور ھیربیار اس کی دو آنکھوں کی ماند ہیں اور کوئی نہیں چاہئے گا کہ اس کی ایک آنکھ محض اس لیے پھوڑ دی جائے چاہئے کہ اس کی بینائی کم ہوگئی ہے ۔ ، ذاتی طور پر مجھے یہ پختہ یقین ہے کہ نہ ھیربیار ان تنقیدکی وجہ سے کسی ڈپریشن کا شکار ہوں گے اور نہ ہی براھمدگ پر دل گرفتہ ۔بلکہ پوری قوم کو اس بات پر خوشی ہونی چاہئے قومی شعور ماضی کی نسبت پختہ ہوئی ہے اب نہ صرف لیڈروں پر تنقید کی جاتی ہے بلکہ لیڈرز بھی خنداں پیشانی سے انہیں قبول کرتے ہیں ۔

آج( 25اکتوبر ) کو براھمدگ کا یوم پیدائش ہے جس پرمیں اُنہیں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس نیک خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ وہ زندگی کے آنے والے سالوں میں بھی اسی طرح قومی مفادات کے حصول لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے ، یقیناًً ھیربیار اور اس کی ٹیم بھی اس موقع پر انہیں خیرسگالی کا پیغام ارسال کرکے بدخواہوں کو ایک مرتبہ پھر غلط ثابت کریں گے جو ان دونوں رہنماؤں کے درمیان پیدا ہونے والے معمولی اختلاف رائے کو لے کر اپنی بدنیتی پر مبنی پیشن گوئیوں کے سچ ثابت ہونے کا دعوی کررہے ہیں ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.