بلوچ سیاست کے حوالے سے پارلیمان پسند کی اصطلاح ماضی کے اُن قوم دوستوں کے لیے ہے جو کسی زمانے میں پاکستانی پارلیمنٹ میں جانا کفر سمجھتے تھے جن میں سے ایک کا مقبول نعرہ ’’ ما ووٹ نہ لوٹ اِیں ، ھون لوٹ اِیں ‘‘ ( ہمیں ووٹ نہیں خون چاہئیے)آ ج بھی بھوت بن کراُس کا پیچھا کررہا ہے وہ چاہتی تو ہے کہ اس نعرے کی بھوت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے لیکن ابھی تک وہ خودآدھا تیتراور آدھا بٹیر ہے ، چار ستارے اپنے جھنڈے پر سجانے کے
باوجود وہ اپنے ماضی کے حدود میں قید ہے ، قیادت میں ماضی کی غلطیاں تسلیم کرنے کی جرأ ت ہے نہ وہ کوئی متبادل سیاسی نظریہ دینے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔دوسری جماعت سیاسی لطیفہ گوئی میں ماہر اور اپنی بات کو آپ ہی نفی کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتی ہے ، ان کا ہر جملہ خود ہی ان کے دعووں کے سامنے سینہ تھان کے کھڑا ہے۔ مگر ان کا ماضی بھی’’ جبل ‘‘ اور رشتے توڑنے جیسے ببانگ دہل دعووں پر مشتمل ہے اور کردار چاغی کے پہاڑوں کے قتل میں حصہ داری اور بگھی کھینچنے والے سرداروں کی روایت زندہ رکھنا ہے ، ان کی جماعت کے قائد اور ماضی کے انگریز سرکار کی بگھی کو کندھے پررکھنے والے سرداوں کے کردارمیں فرق محض زمان کا ہے موصوف نے نواز شریف کے چاغی آمد پر ڈرائیور کا فریضہ انجام دے کر سرداروں کی روایت کو تابندگی بخشا۔
بلوچ قوم بھی ہمیشہ سرداروں ہی کی کسی نے کسی شکل میں تابعداری کرتی رہی ہے ۔ اچھے اور برے سرداروں کے بحث میں بلوچ سیاسی جھدکار بھی یہ طے کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ سرداری نظام کلیت درست ہے یا غلط ۔ وہ جماعتیں جنہوں نے بلوچ سیاست کو سرداروں کے چوکھٹ سے نکال کر جھونپڑیوں میں پہنچایا گھوم پھر کر کسی نہ کسی سردار کے سامنے دوزانو ہوگئیں ۔ نیشنل پارٹی نے متوسط طبقے کی سیاست کا نعرہ لگا کر پارلیمانی سیاست میں قدم رکھتے ہی اپنے زیر اثر علاقوں میں مراعاتی سیاست کی ایسی روایت ڈالی کہ نیم جان سیاسی کارکن نظریاتی سیاست کو گھاٹے کا سودا سمجھنے لگے ، نیشنل پارٹی کی قیادت کے لیے یہ سوال اب کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ پارٹی کا سیاسی نظریہ کیا ہے ؟ یہی جماعت ہے جس کی قیادت نے انتہائی ایماندارانہ طریقے سے غریب طقبے کی سیاست کو بلوچستان میں گٹر کی سیاست میں تبدیل کردیااور سرداروں کے پسندیدہ قول ’’ متوسط طقبہ عموماً لالچی ہوتا ہے ‘‘کو درست ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ۔ اب سرداروں کی سیاست کے مقابلے میں یہ سیاست نیچ معلوم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ بندوبستی الیکشن میں سردار نے نیشنل پارٹی کو دھتکار دیا لیکن نیشنل پارٹی وہ جوھر کہاں سے لائے جو اس دھتکارکے جواب میں سرداری سیاست کے خلاف اعلان جنگ کردے ۔
بی این پی مینگل کو مینگل سردار کی ذات سے ہٹ کر دیکھنا ممکن نہیں ، یعنی وڈھ کے سردار کے مفادات اور اُن کے حامیوں کی سیاست ا س لیے بی این پی کے مقابلے میں نیشنل پارٹی کے کارکنان سیاسی معاملات کی زیادہ سمجھ رکھتے ہیں ۔ نیشنل پارٹی میں ایک کیڈر سیاسی بیوروکریٹس کی ہے( یہ بظاہر سیاسی ورکر لیکن حقیقت میں افسران شاہی اور سرکاری نوکر ہیں ۔ ان کے ٹھاٹ بھاٹ بھی افسرانہ قسم کے ہیں) جن کی ڈوریں براہ راست آئی ایس آئی ہلاتی ہے جو واضح طور پر اُن کے کاروباری شریک ہیں ۔ نیست پتی سے کروڑ پتی بننے والے ان چند درجن لوگوں کو ہر کوئی جانتا ہے ۔ زمین پر چلنے والے ان لوگوں کے قدموں کے نشان ان کے کردار کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں ۔ نیشنل پارٹی کی قیادت بھڑک بازی کرنے والے کاغذی شیر کے برعکس نجی محفلوں میں اپنی بے ایمانی اور بے شرمی کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی لیکن یہی کم ظرف جب اپنے آقاؤں کے حکم پر عام لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو تاثر دیتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کی سیاست کررہے ہیں مگر اُن کی شرمندگی اکثر اُن کے چہرے کے تاثرات سے عیاں ہوتی ہے ۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے برے کاموں کے لیے ایسے من گھڑت جواز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے مطمئن کرسکیں ، یہ جواز آئستہ آئستہ اس کے ضمیر پر ایسا پرت چڑھا دیتے ہیں کہ اسے اپنی غلطیاں بھی اچھائیاں معلوم ہونے لگتی ہیں ۔ نیشنل پارٹی میں مفاد پرستوں کا ایک بااثر ٹولہ موجود ہے جو سیاست کو کاروبار سمجھتا ہے ، ان کے قلبی سکون کا سبب محض ان کے ذاتی مفادات کی تکمیل ہے یہ اپنے ذاتی مفادات کے سامنے اجتماعی مفادات کی پرواہ نہیں کرتے ، یہی وہ گروہ ہے جنہوں نے منظم طریقے سے پارٹی کو مفاداتی سیاست کی طرف دھکیل دیا، اب کیا سیاست رہ گئی ہے سب اس آس میں ہیں کہ نیشنل پارٹی کی کامیابی کی صورت اُنہیں مزید مراعات حاصل ہوں گی ، مقامی سطح کے لیڈر سرکاری ٹھیکہ دار ہیں ، یہی دلال پارٹی کے لیے مالی وسایل مہیا کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں ۔
ان جماعتوں کے علاوہ بھی بلوچستان میں کرسی کرسی کھیلنے والی جماعتیں ہیں اُن میں سے ایک گروہ پنجاب کی سیاست کرنے والی جماعتوں کی ہے جن سے اختلاف اپنی جگہ لیکن وہ نظریاتی بنیادی رکھتی ہیں ۔ مذہبی جماعتیں اُمت مسلمہ کی وحدت اور شرعی نظام جیسے دعووں کی بنیاد پر بلوچ قوم دوستوں کی سیاست کو نظریاتی طور پر رد کرتی ہیں ، اسی طرح مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی وغیرہ خود ساختہ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر تمام وحدتوں کومتحد کرنے کی بات کرتی ہیں جو سب سے پہلے پاکستانی ، بعد میں مسلمان ،پھر بلوچستانی اور آخرمیں اگر کچھ بچا تو بلوچ کہلاتے ہیں ۔ اور ایک گروہ دھڑلے سے بے ایمانی کی سیاست کرنے والوں کی ہے ، جوسمجھتا ہے کہ سیاست بے ایمانی ہے اور مانتے ہیں کہ بے ایمانی کے کام میں بھی ایمانداری ہونی چاہئے ۔ اس گروہ میں سرفہرست بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی ہے ۔ جس کی قیادت سیاسی نعروں اور دعووں پر یقین نہیں رکھتی ۔
شہید ناکو نصیر کمالان نے ایک نشست میں اس پارٹی کے بارے میں اپنا ایک دلچسپ ذاتی تجربہ بتایا ۔ شہید ماضی کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے بھی وابستہ تھے ، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بلوچ نیشنل لبریشن آرمی کے لیے اکھٹا کیے گئے فنڈ اپنے ہاتھوں سے ڈاکٹر مالک کو پہنچائے تھے ۔ جب نیشنل پارٹی نے اپنا رخ بدل دیا اور مخلص کارکنان سے بے رخی اختیار کی گئی تو میں نے ردعمل میں بی این پی عوامی میں شمولیت اختیار کی ۔ جب میں نے بی این پی عوامی کی قیادت سے کہا کہ مجھے پسنی میں پارٹی دفتر کھولنے کے لیے فنڈ کی ضرورت ہے تو انہوں نے مجھے کچھ روپیے دیتے ہوئے کہا کہ یہ رکھ لیں لیکن دفتر کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہمیں جب ووٹ کی ضرورت ہوگی تو ہم پیسہ دیں گے ، لوگ ہمیں ووٹ دیں گے ۔
بی این پی عوامی کا عوامی سطح پر کوئی دعوی ایسا نہیں کہ جس کی بنیاد پر اُس سے کوئی اُمید وابستہ کی جائے ۔ ایسے لوگوں کا ٹولہ ہے جنہیں مشرف رجیم میں دونوں ہاتھوں سے کھانے کا موقع ملا اور انہوں نے اس موقع سے بھرپو ر فائدہ اُٹھایا لیکن نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کی طرح لوگوں کوسنہرے خواب نہیں دکھائے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ آزادی پسند اس جماعت پر تنقید کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتے کیوں کہ اس کی کوئی دوغلی پالیسیاں نہیں اس کے برعکس نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل اسلام آباد کے راستے پر چلتے ہوئے بھی بضد ہیں کہ اُن کا ہر قدم بلوچ قوم کے بھلا کے لیے ہے ۔
پاکستان کی سیاست جو از خود گٹر کی سیاست ہے اس میں بی این پی مینگل او ر نیشنل پارٹی کی شمولیت نے بلوچستان قوم دوستانہ سیاست سے اُن کا رشتہ ختم کردیا ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں مجموعی طور پراپنے کردار اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف ڈھٹائی سے استعمال ہونے کی وجہ سے بلوچ آزادی پسندوں کے لیے باقی تمام جماعتوں سے زیادہ ناپسندیدہ رہئیں گی ۔ آنے والے وقتوں میں ان جماعتوں کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ یقینی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان میں گٹر کی سیاست بالآخر اپنے منطقی انجام کوپہنچے گی اور حتمی جیت قوم دوستوں کے صبر واستحکام کی ہوگی ۔
Post a Comment