جنگ بہترچناؤ ہے نہ کسی مسئلے کا حل ۔ جنگ آخری فیصلہ اور مسئلے کو اُجاگر کرنے کا محض ذریعہ ہے ۔ محکوم اقوام کی تحریک میں سیاسی حل کی کوششوں کی پے درپی ناکامیاں جنگ کو ناگزیز بنادیتی ہیں ۔ بلوچ تحریک آزادی کی تاریخ اور پاکستانی مقتدر پنجابی فوج کی زیادتیاں مسلح جہد کو جواز فراہم کرتی ہیں ۔ سیاسی تحریک اور دہشت گردی میں فرق یہ ہے کہ دہشت گرد اپنی دہشت پھیلانے کے لیے وقتی اور ایسے مقاصد کو لیے خون ریزی کرتے ہیں جن کا پرامن حل موجود ہو تا ہے ۔ دہشت گردوں کا نشانہ عام افراد ہوتے ہیں جب کے سیاسی تحریکوں میں ریاستی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے  عوامی طاقت واضح اہداف کے خلاف استعمال کی جاتی ہے ۔

سیاسی تحریک عوامی ہمدردی کے بھوکے ہوتے ہیں اس لیے ایسا قدم نہیں اُٹھایا جاتا جن سے ہمدردوں میں مایوسی پیدا ہو۔ ایسا جبری طورپر نہیں بلکہ تحریک عوام کے اندر ہی پنپتی ہے ، ایسے چنیدہ لوگ رضاکارانہ طور پر آگے بڑھتے ہیں جن کا ماننا ہوتا ہے کہ اُن کی قوم ایک فرد ، خاندان ، مخصوص طبقہ یا پھر کسی دوسری قوم کا غلام ہے جو اس کا استحصال کررہی ہے ۔ شہید واجہ کے بقول تحریک مسئلہ نہیں مسائل کے جڑ کے خلاف ہوتی ہے ۔ قوم کے زیرک سیاستدان بے شمار مسائل کی موجودگی میں مسائل کی جڑ کو دریافت کرتے ہیں اور پھر اس کے خلاف بتدریج ایک سیاسی تحریک جنم لیتی ہے ۔ بلاشبہ بلوچ قوم کے گوناگوں مسائل ومصائب کی جڑ قومی غلامی ہے ۔ تحریک بظاہر یک نکاتی ایجنڈ ہ پر ہے لیکن شہید واجہ نے اسے ایک ایسے درخت سے تعبیر کیا ہے جس کی ہرشاخ الگ مسئلہ ہے جڑ کے کٹنے سے وہ تمام مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے ، یہ رویہ تحریکی کارکنان کے ذہنوں میں مقصد کو واضح کرنے کے علاوہ اُن کی قوت کو بھی غیرضروری مسائل پرضائع ہونے سے بچاتا ہے ۔ نکات ذہن میں رکھیں ، عوامی ہمدردی کی بھوکی تحریک ، عوام سے ہمدردی رکھنے والے چنیدہ اور بالغ نظر قیادت ۔

تحریکی رضاکار عوام سے ہمدردی کا ڈھونگ نہیں رچاتے بلکہ وہ بنیادی طور پر عوام کا ہمدرد اور اُن کے وسیع تر مفادات کے لیے اپنے ذاتی مفادات کوپس پشت ڈالتے ہوئے تحریک میں شمولیت اختیار کرتے ہیں ، ان کے جدوجہد کا محور وہ عام افراد ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی کی مصروفیات میں مشغول ہیں ، تحریکی کارکن ایک سرمچار اور جہدکار ہے جو ریاستی جابر فوج کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہورہے ہیں ، بہیمانہ تشدد کا سامنا کررہے ہیں ، زندگی کے معمولات اور عیاشیوں کو چھوڑ کر شب و روز اپنے مقصد کے حصول کے لیے مصروف عمل ہیں ۔ ایک حقیقی سرمچار وہ ہے کہ اگر ہلمند میں کسی بلوچ گڈریے کے ننگے پاؤں میں کانٹا چبھے تو اسے جیمڑی میں اس کا درد محسوس ہو ، یہی  وہ جذبہ ہے جو ایک سرمچار کو جنم دیتا ہے ۔

مندرجہ بالا پیراگراف کو ایک مرتبہ اور پڑھیں ، جوڑیں اور میرے ساتھ آگے بڑھیں ۔ یہ واضح ہوا کہ سرمچار اپنی قوم کے خلاف طاقت کااستعمال نہیں کرتا لیکن چوں کہ تحریک ایک متوازی حکومت یا ریاست کی جگہ لینے کی کوشش کرتی ہے اس لیے وہ معاشرے میں اصلاحی ذمہ داریا ں بھی نبھاتی ہے ۔ طویل جنگوں میں دشمن ایک دوسرے کے صفوں میں گھس کر حملہ کرنے کے لیے اپنے جاسوسوں کے ذریعے نقب زنی کرتے ہیں ، تاریخ کی بڑی جنگوں میں جاسوسوں کا کردارکلید ی رہا ہے ۔ سندھی سورما مہاراجہ داہر کی عرب حملہ آور بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہو یا ہندی دیوتاؤں کے جنگی داستان مہابھارت میں راون کی ناکامی ، گھر کی بھیدیوں کا ہی لنکاڈھانے میں ہاتھ تھا ۔ ایسے لوگوں کو پہچاننا اور سزا دینا ، جنگ ہی کی طرح ایک تکلیف دہ اور ناگزیر کام ہے ۔

لیکن دہشت گرد اور سرمچار ، یکساں طریقہ استعمال نہیں کرتے ۔ دہشت گرد تشدد کا استعمال محض خوف پھیلانے کے لیے کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح پاکستانی فوج بلوچ جنگی قیدیوں کو گرفتاری کے بعد بہیمانہ اور بلا وجہ تشدد کا نشانہ بناتی ہے ، ڈرل کرنا ، نازک اعضاء پر چوٹ لگانا ،چہرے پرتیزاب پھینکنا، ناخن نکالنا ، طویل عرصے تک عقوبت خانوں میں قید کرنا اور پھر قتل کر کے مسخ لاش پھینکنا ، انسانی حقوق کی وہ پامالیاں ہیں جو پاکستانی فوج کو دہشت گرد ثابت کرتی ہیں ۔

سرمچار اس طرح کی حرکتوں سے اجتناب کرتے ہیں مقامی مخبرو ں کو شناخت کے فوراً بعد قتل کرنے کی بجائے  حتی الوسع تنبیہ کرکے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سیاسی مخالفوں کے خلاف طاقت کا زیرو استعمال کیا جاتا ہے ۔
گزشتہ دنوں بی ایل ایف نے گوادر کے نواحی علاقے سنٹ سرمیں پاکستان کوسٹ گارڈ کے ایک کیمپ پر حملہ کیا ، دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں قابض فورس کے پچیس اہلکار موقع پر ہلاک ہوئے جب کہ دو اہلکاروں نے ہتھیار ڈال کرگرفتاری پیش کی ، بی ایل ایف نے پہلی مرتبہ نہایت واضح طور اپنی جنگی پالیسیوں کا اعلان کیا ہے ۔اپنے قابل تحسین  بیان میں دونوں گرفتار سپاہیوں کوجنگی قیدی قرار دے کرکہا گیا ہے کہ مذکورہ جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق سلوک کیا جائے گا ۔ یہ بیان اس لیے قابل توجہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی پروپیگنڈہ کی وجہ سے بی ایل ایف انتہائی سنگین الزامات کے زد میں ہے ، جن میں تشدد کا غیرضروری استعمال بھی شامل ہے ۔ اس بیان کو اندرونی طور پر مکمل حمایت حاصل ہے جہدکار نہ صرف اس کو سرارہے ہیں بلکہ ماضی کے الزامات کے تناظر میں مزید اقدام اُٹھانے کی بھی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے ۔ ایک ایسے دشمن کے خلاف جوسرمچاروں کو مسلسل اُن کے ساتھیوں کی مسخ شدہ لاشیں تحفے میں دے رہا ہے ، اخلاقی برتری حاصل کرنے کی کوشش ثبوت ہے کہ سرمچارجنگی جنونی نہیں بلکہ سلجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں ۔

لیکن اس کے دور رس ثمرات یوں حاصل نہیں ہوں گے ، محض ایک بیان دینے سے سرمچاروں کا موقف اُجاگر نہیں ہوگا ۔ قابض فوج اپنے دشمن کو آسانی سے اخلاقی برتری حاصل کرنے بھی نہیں دے گا ۔ سرمچاروں نے اس کے خوف کے ہتھیارکو جس تدبر اور حوصلے سے کند کیا ہے اس سے ان کے اندرونی حلقوں میں بے چینی اور احساس شرمندگی ایک فطری عمل ہے جس کو ختم کرنے کے لیے وہ اپنے نفسیاتی اور جاسوسی کے اداروں سے مدد لے گا ۔ جاسوسی کے ادارے روایتی طریقے سے بی ایل ایف کے خلاف پروپیگنڈہ تیز کریں گے پہلے سے متحرک سائبرفورس اور زیادہ زہرافشانی کرئے گی ، نقب زنی کرکے اندرونی حلقوں میں دوست نما دشمنوں کی مدد سے قیادت پر اس فیصلے کے خلاف دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے اور ایسے واقعات جیسے کے گوادر میں ایک درزی کے دکان پر حملہ تاکہ عوامی جذبات بی ایل ایف کے خلاف ہو ۔

اور سب سے اہم میڈیا تک بی ایل ایف کی رسائی روکنا ، بی ایل ایف نے پہلی مرتبہ دشمن سپاہیوں کوجنگی قیدی کے طور پر گرفتار کیا ،اس معاملے کوخوش اسلوبی سے نمٹانا اور فائدہ حاصل کرنا قیادت کے لیے ایک چیلنج ہے ، ذرا سی غلطی سارے کیے کرائے پر پانی پھیرسکتی ہے ۔ بلوچ موومنٹ مجموعی طور پر میڈیا کو استعمال کرنے کے گر سے ناواقف ہے چندغیرتربیت یافتہ افراد منتشر طریقے سے سوشل میڈیا کو استعمال کررہے ہیں جن کا عالمی میڈیا سے کوئی رابطہ نہیں ، جنگی قیدیوں سے متعلق انسانی حقوق کے اداروں کی توجہ حاصل کر کے میڈیا کے ذریعے دنیا اور پاکستانی سول سوسائٹی تک پیغام پہنچانا ہی اس عمل کو نتیجہ خیز بناسکتا ہے ، اگر تمام تنظیمیں مل کر اسی پالیسی پر عمل کریں تو شاید پاکستانی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے بلوچ قیدیوں کی رہائی اور ان کے ساتھ جنگی قیدیوں کا سا برتاؤ کرنے کے مطالبے میں وزن پیدا ہو۔

دہرانا چاہتا ہوں کہ بی ایل ایف نے اپنے لیے ایک نئی آزمائش کا چناؤ کیا ہے کامیابی کے لیے انتہائی حد تک صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا، میڈیاتک رسائی اور پروپیگنڈہ کے لیے پہلے سے موجود ذرائع ناکافی ہیں ، انسانی حقواق کی پاسداری کے اُصولوں پر عمل کے لیے بھی نچھلی سطح سے لے کرمرکز تک چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو زیادہ بہتر اور مربوط بنایا جائے ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.