قدرتی آفات کے بعد اسے روکنے کی کوشش کی بجائے انسان ایسے اقدامات کرتا ہے جس سے آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم حد میں رکھا جاسکے ۔امدادی سرگرمیاں جو عموماً زلزلے سے محفوظ علاقوں کے لوگوں کی انسانی ذمہ داری بنتی ہیں بھی اسی کوشش کا حصہ ہیں ۔ ذمہ دار ریاستوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بھی فوج ہی طرح کے تربیت یافتہ ادارے موجود ہیں جب کہ بیشتر ممالک میں فوج اُن کے متبادل کے طور پر کام کرتی ہے ۔ فوج کی ذمہ داری جائے وقوع پر انسانی زندگیوں کو بچانا اور زخمیوں کو محفوظ مقامات تک
منتقلی ہے یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جو وسائل اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے سول ادارے انجام نہیں دے سکتے ۔
لیکن اس کے بعد بحالی کے کاموں میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ یہ ذمہ داری سو ل ادارے نبھاتے ہیں ۔
فوج اپنی مخصوص تربیت اور ذہنیت کی وجہ سے لوگوں کو ہینڈل کرنے میں ہمیشہ مشکلات کا شکار ہوئی ہے ۔ فوج نے جہاں جہاں سول معاملات میں ٹانگ اڑائی نتائج منفی ہی نکلے اور اگر معاملہ کسی ایسی آبادی کا ہو جو فوج کو اپنی دشمن سمجھتی ہو اور فوج بھی اس سے حالت جنگ میں ہوتو معاملات فوج کے سپرد کرنے کا مطلب مسئلے کو مزید گھمبیر بنانا ہوگا ۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج کاکوئی احترام نہیں اسے ہر بلوچ قابض کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور فوجی اہلکار بھی ہر بلوچ کو مشوک سمجھتے ہیں ایسے میں حکومت پاکستان کا زلزلہ زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کو فوج کے کنٹرول میں دیناعاقبت نا اندیشی کے سواء کچھ نہیں ۔ جس پر بلوچ سول سوسائٹی اور امدادی ادارے اسے جائز طور پر تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔

بلوچستان کی بے کابینہ حکومت جس کی حالت متاثرین سے زیادہ بری ہے جو فوج کو قائل کرنے کی بجائے الزام بلوچ آزادی پسندوں پر لگارہی ہے جب کہ وہاں اسلام آباد میں پاکستان کی اسمبلی فلور پر پاکستان وفاقی وزیر برائے سرحدی امور لیفٹینٹ جنرل (ر ) عبدالقادر بلوچ کا بیان زیادہ قابل مذمت ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ امدادی سرگرمیاں فوج کی نگرانی میں ہوں گی ۔ انہوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ جھوٹا بیان بھی دیا کہ ’’ علاقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ فوج متاثرہ علاقوں میں موجود رہے اور امدادی کاموں کی نگرانی کرئے ۔‘‘ 

جب کہ میڈیا خاص طور پر آن لائن اور سوشل میڈیا میں جوخبریں اور تصاویر شائع ہورہی ہیں وہ جنرل قادر کو جھٹلاتی اوراس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ آواران میں جاری امدادی سرگرمیوں میں فوج رکاوٹ ڈال رہی ہے ۔ غیر سرکاری تنظیمیں کھل کر الزام لگارہی ہیں کہ فوج اور ایف سی اہلکار ان سے امدادی سامان چھین کر اپنے گوداموں میں جمع کررہے ہیں۔تھیٹر سے وابستہ سوشل میڈیا اکٹیوسٹ سلمان حیدر نے اپنے ایک صحافی دوست کے توسط متاثرین کی جو منظر کشی کی وہ دل ہلادینے والی ، بلوچستان کی بے اختیار اور پاکستان کی پنجابی حکومت کے لیے شرمناک ہے ۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’’ جب میں آواران ہسپتال پہنچا تو میں نے بہت سے مریض دیکھے جن کی ہڈیا ں ٹوٹی ہوئی تھیں اور سرجری کے لیے سہولیات موجود نہ تھیں ۔ ڈی سی آفس میں امدادی سامان کا ڈھیر لگا ہواتھا جب کہ لوگ ، بھوک ، پیاس اور گرمی سے مررہے تھے ۔ میں ایک ماں سے ملا جو ایک ملبے پر بیٹھی ہوئی تھی جس کے نیچے اس کی بیٹی دفن ہوچکی تھی ، ماں کا نام سلمہ اور بیٹی کا عائشہ تھا۔ ان کی آنکھیں سوکھی تھیں اور وہ اپنے دو اور بھوکے بچوں کے بارے میں فکرمند تھی ۔

پھر میں بھوکے بچے اکرام سے ملا زلزلے کے بعد اس کی ماں مرچکی تھی اورباپ کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا ۔‘‘

اس مختصر تحریر کا سب سے زیادہ رونگٹے کھڑے کردینے والا حصہ تھا ’’ فوج متاثرہ علاقوں کے لڑکوں سے باربرداری کے لیے قرون وسطی کے غلاموں کی طرح بغیر معاوضہ کام لے رہی ہے ۔ پانچ سال کے لڑکوں سے شناختی کارڈ طلب کیا جارہا ہے اور نہ دینے پر ان پر تشدد کیا جارہا ہے ۔ سواریوں کے کاغذات طلب کیے جارہے ہیں اور نہ ہونے پر انہیں تحویل میں لیا جارہا ہے ۔ ان کی لڑکیوں کو روزانہ آرمی کے جوان اغواء کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں یا قتل کرکے پھینک رہے ہیں۔ ‘‘
 
 اسی طرح بی بی سی اور دیگر معتبر صحافتی اداروں کے نامہ نگار اپنے اداروں کے لیے جو ڈائریاں لکھ رہیہیں ان سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فوج ان حالات میں بھی علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے رسا کشی کررہی ہے ۔

جبکہ سول انتظامیہ ایف سی کے دباؤ اور خوف کی وجہ سے ان ہی کے آلہ کار کے طور پر عمل کررہی ہے ۔آواران میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ایک دوست نے بتایا کہ امدادی سامان سے لدھے ٹرکوں کو آتے دیکھ کر متاثرین اس اُمید سے جمع ہوگئے کہ شاید امداد بانٹی جائے لیکن لیویز اہلکار بچوں بوڑھوں کی پرواہ کیے بغیر اُن پر لاٹھیوں سے پل پڑے ردعمل میں کچھ لوگوں نے خود ہی ٹرکوں سے سامان اُتارکر لے جانا شروع کیا ۔ میڈیا متاثرین کی لوٹ کا منظر عکس بند کرنے کے لیے آگے بڑھی اور کچھ ٹی وی چینلز نے اس خبر کو بریک بھی کردیا لیکن جب چند نہتے رضاکار لوگوں کے سامنے آئے اور انہوں نے انہیں بتایا کہ یہ امدادی سامان زیادہ پسماندہ اور متاثرہ علاقوں کی طرف بھیجنے کے لیے ہے جب کہ یہاں ان کے لیے امداد کافی مقدار میں جمع ہورہا ہے اس پر وہ پرسکون ہوکر چلے گئے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ لاٹھی ، دھمکی اور گالی کی بجائے پیارکی بولی سمجھتے ہیں ،جو پاکستانی فورسز کو ویسے ہی نہیں آتی لیکن جب معاملہ بلوچ کا ہو تو وہ بغیر دیر کیے بولی کی جگہ گولی کا استعمال کرتے ہیں ۔

ان حالات میں کہ فوج متاثرین کے ساتھ بھی مکمل ہٹ دھرمی اور جارحانہ موڑ میں ہے بلوچستان کی کٹ پتلی حکومت میڈیا پر آکر اپنے ہی لوگوں پر چلانے اور اپنے پاکستانی پارلیمانی سیاست کو موثر دکھانے کے لیے اُن کی غلطیوں کو چھپانے کی تابعدارنہ کردار کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی ۔ جس وقت میں ان مندرجات کو مرتب کررہا تھا ۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومتی پارٹی کے ایم پی اے بلوچی نیوز چینل وش پر بھڑاس نکال کر بے تکے الزام لگارہے تھے کہ وش ٹی وی نیشنل پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے زلزلہ زدگان کو ضرورت سے زیادہ کورریج دے رہی ہے اوریہ بھی کہ مذکورہ ٹی وی یہ سب بی این پی عوامی سے پیسے لے کر کررہی ہے یا بلوچ آزادی پسندوں کے دباؤ میں آکر۔

اس طرح کی ہیجانی کیفیت کا اظہار عموماً نیشنل پارٹی کی جوڑی دار دوسری نام نہاد قوم دوست پارٹی کرتی ہے ، جب اس پر تنقید کی جائے جواب میں آگ بگولہ ہوتی ہے لیکن نیشنل پارٹی جو کہ متوسط طقبے کی نمائندہ اور جمہوریت پسند ہونے کی دعویدار ہے کا یہ رویہ اس کے دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ سیاسی جماعت تنقید سے بگڑتے نہیں سنبھلتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو اپنا ہمنواء بنالیتی ہیں جب عمل نہ ہوتو رئیسانی کی طرح ’’ بھو بھوَ ‘‘ کرکے میڈیا کو انگیج کیا جاسکتا ہے لیکن لوگوں کو مطئن نہیں ۔

اس صورتحال میں فوج کو بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ادارے ہی اپنا اثر ورسوخ ا ستعمال کر کے نکیل ڈال سکتے ہیں ۔ و ہی فوج کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے کیمپوں کومتاثرہ آبادیوں سے دور منتقل کرکے امدادی اداروں کو آزادانہ کام کرنے دیں ۔ ویسے بھی ایک آفت زدہ علاقے میں محفوظ قلعوں میں دراڑیں پڑنے کے بعد فوج کے لیے بھی بہترین انتخاب علاقے سے جان بچاکر نکلنا ہی ہے ۔ جو بندوق فوج کے پاس ہے سرمچار کے پاس بھی ہے اوریہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ گوریلافوجیوں سے زیادہ موقع پرست ہوتے ہیں ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.