شہید واجہ کی شہادت سے پہلے بی این ایم سے میڈیا اور محققین کی میل ملاقوتوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ایک دو میٹنگوں کے بعد ہمیں ان کے مقاصد کے بارے میں شک گزرا ۔ بعید نہیں ہم تک رسائی کے لیے غیر ملکیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہو یا ہماری نسبت اُن کی نگرانی کرنا دشمن کے لیے آسان رہا ہوگا ۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہمیں میڈیا کی ضرورت تھی ، ہماری ضرورت کو انہوں نے ہم تک پہنچنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہوگا ۔
ہمیں جانچنے پرکھنے کے لیے اُن کے پاس واحد ذریعہ میڈیا کی کوئی نام نہاد ٹیم ہی ہوسکتی تھی ، اُن کے لیے پاکستان کی کوئی صحافی چاہئے بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے ہی وابستہ کیوں نہ ہو یہ کام بخوشی انجام دے گا ،بدلے میں مراعات لے کر یا پھر جذبہ حب الوطنی کے تحت ۔ گوادر میں بہت سے صحافی اخبارات کو رپورٹ کرنے سے پہلے ان کو رضاکارانہ رپورٹنگ کیا کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی شرمناک بات نہ تھی ، سب ظاہراًکیاجاتا اس دلیل کی بنیاد پر کہ خبریں تو ویسے ہی اخبارات میں شائع ہوں گی تو کیوں نہ ایجنسی والوں کو بتاکر محفوظ تعلقات استوارکرکے اپنے لیے باخبر ذرائع پید اکیے جائیں ۔ صحافی جن مخصوص اداروں ، افسران یاافراد سے موٹی موٹی خبریں حاصل کرتے ہیں انہیں اپنی زبان میں ذرائع کہتے ہیں ۔ کامیاب صحافت کے لیے زیادہ سے زیادہ ذرائع پیدا کرنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر یہی ذرائع صحافی کے پاؤں کی بیڑی بن جاتے ہیں ، ذرائع عموماً اپنے مقصد کی خبر لیک کرتے ہیں اور میڈیا کو پروپیگنڈہ ٹول کے طور پرا ستعمال کرتے ہیں ۔مرگاپ کے شہدا ء کی شہادت کی اطلاع بھی گوادر ہی کے ایک صحافی کو دی گئی ۔صحافت کے ابتدائی دنوں میں جب ہم روزنامہ گراب کے لیے کام کررہے تھے ، ایجنسی کا ایک دبلا پتا اہلکار ہمارے پاس آیا میں اسے کچھ مہینے پہلے ایک سبزی فروش کی دکان پر کام کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا ، میں نےاس کے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں خفیہ اداروں کے لیے کام کرتا ہوں آپ ہمیں خبر دیں ہم آپ کو ۔ ہماراجواب ظاہرہے نفی میں ہی تھا لیکن وہ نچھلا نہیں بھیٹا اور کافی عرصے تک ہمارے ہی اسٹاف کے ایک صحافی کے ساتھ لگا رہا ہے ، جو اپنی اس دوستی کو معیوب نہیں سمجھتا تھا ۔
صحافی معلومات جمع کرنے اور ذرائع پیدا کرنے کی وجہ سے بھی ایجنسیوں کے لیے ایک باخبرترین ذریعہ ہے اور تما م سیاسی جماعتیں میڈیاکی توجہ چاہتی ہیں ، یہی وجہ ہے خفیہ ادارے ہمیشہ انہیں استعمال کرنے کی تاک میں رہتے ہیں ویسے بھی پاکستانی ایجنسیوں کو سیاسی جماعتوں کی ہی نگرانی کرنی ہے اور صحافی وہ جادو گر ہے جس کے سامنے سیاسی لیڈران اپنا کچا چٹا بلاجھجک بیان کردیتے ہیں ۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ حزب مقاومت مردم ایران ( جنداللہ ) کے سربرا ہ عبدالمالک ریکی کی گرفتاری سے چند ہفتے پہلے ایک پاکستانی ٹی وی پر ان کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا گیا ؟
ہمارے پاس آنے والے میڈیا نمائندگان میں ایک بات مشترک تھی وہ ہماری ہربات کافی تفصیل سے سنتے اور بات مکمل نہ ہونے تک دوسرا سوال نہیں کرتے ، ایک دو ملاقاتی ایسے بھی تھے جنہون نے ہماری باتیں ریکارڈ کرنے کے لیے قلم کا استعمال کیا نہ ریکارڈنگ ڈیوائس کا .
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ '' انہوں نے پکڑو مارو اور پھینک دو '' کی پالیسی شروع کرنے سے پہلے ہماری شعوری سطح اور تنظیمی صلاحیتیں ماپنے کی کوشش کی ہوگی ۔ ہماری اصل سیاسی قوت کے پس پردہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے غلط اندازے لگائے لیکن سرفیس کی پوری کیڈرکا صفایا کردیا گیا ۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں میڈیا سے براہ راست رابطوں کو محدود کرنا عقلمندی ہوگی ، موثر اور مسلسل عمل انہیں ہمارے ہی جاری کردہ بیانات کو نشر کرنے پر مجبور کردیں گے ، جس طرح بی بی سی اُردو نے زلزلہ زدگان کے امداد سے متعلق بی ایل ایف کے جاری کردہ بیان کو من وعن شائع کیا ۔ زلزلہ نے عالمی میڈیا پر اس صورتحال کو اجاگر کیا کہ بلوچستان میں فوج کی حیثیت ایک قبضہ گیرکی سی ہے ۔ یقیناً آواران کی بااثر آزادی پسند سیاسی طاقتیں اپنے لوگوں کی بھرپور مدد کرنا چاہتی ہیں وہ کوئی ایسی کمی کوتائیاں نہیں دکھانا چاہتے کہ مخالف قوتیں ان کے صفوں میں نفوذ کرجائیں اور لوگوں کو ورغلایا جائے کہ مشکل گھڑی میں آزادی پسند ان کو بے یار و مددگار چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا چیلنج ریاست کی طرف سے کھڑے کیے جانے والے مشکلات ہیں ، مشکے کے داخلی راستوں پر فوج نے بھاری ہتھیاروں سمیت قبضہ کرلیا ہے ۔ امدادی ٹرکوں کواپنے کیمپوں میں خالی کرواکر امدادی کارکنوں کو حراساں کرکے واپس بھیجا جار ہا ہے ۔قابض فوج دشمنی کی انتہاء سے ایک انچ بھی آگے آنے کو تیار نہیں ، یعنی آزادی پسند وں کو حکمت عملی بدلنی ہوگی ۔
بی این ایم اور بی ایس او آزاد کے اہم رہنماؤں کا زلزلہ زدہ علاقوں میں موجود ہونا لوگوں کا مورال بلند کرنے یا وقتی طور پر کچھ سیاسی شہرت حاصل کرنے کے کام آسکتا ہے لیکن اس کے نقصانات کا بھی جائزہ لینا چاہئے ۔آزادی پسند جماعتوں کی امدادی سرگرمیوں سے بظاہر قطع تعلق ہونے کی پالیسی زیادہ موثر رہتی جس طرح شروع میں میڈیا پر ایسا کوئی تاثر نہیں دیا گیا کہ علاقے میں آزادی پسند جماعتوں کے امدادی کیمپ موجود ہیں ، یعنی ہم خود ہی دعوت دے رہے ہیں '' آ بیل مجھے مار '' ۔
ڈاکٹرمنان اور بلوچ خان کے بی بی سی پر نشر ہونے والے انٹرویو نیشنل پارٹی ٹائپ کی کمزور جماعت کے کمزور پروپیگنڈہ کے ضرورت سے بڑھ کر جواب ہوسکتے ہیں لیکن یہ انتہائی غیرذمہ دارانہ بھی ہیں ۔ بی بی سی کے رپورٹر کی بلوچ خان کے لوکیشن کے متعلق منظر کشی ان کے لیے خطرات بڑھا سکتے ہیں۔
بی این ایم اور بی ایس او اب سرفیس کی جماعتیں نہیں رہئیں بلکہ ان کے کیڈر بی ایل ایف کے کیڈر سے زیادہ غیر محفوظ ہیں ، یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ گوریلا تحفظ کے لیے اپنی پہچان چھپاتے ہیں تو بی این ایم اور بی ایس او کو کسی بھی صورت '' اور ایکٹنگ '' نہیں کرنا چاہئے ۔ متاثرین کی مدد ہر حال میں کرنی ہے لیکن کم ازکم نقصان کی قیمت پر کامیابی ہی کامیاب حکمت عملی کہلاتی ہے ۔ مشکے میں میڈیا سے براہ راست روابط سے گریز کیا جائے بلکہ امدادی کارکنان بھی باہر کی ٹیموں کو اپنا اصل نام نہ بتائیں ، حالت جنگ میں کسی پر کسی بھی حالت میں بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بی ایل ایف کی یہ پالیسی منطقی ہے لیکن بی این ایم اور بی ایس او آزاد کا میڈیا میں آکر شوبازی کرنا سارے کیے کرائے پر پانی پھیر سکتا ہے ، اس سے پہلے کہ اگلا انٹرویو ڈاکٹر اللہ نذر کا نشرہو ، ذمہ داران ساتھیوں کو میڈیا سے کنارہ کشی کی ہدایت جاری کریں ۔
بی این ایف کے ٹاپ لیڈر زکا مشکے کو '' محفوظ پناہ گاہ '' کے طور پر استعمال کرنے کی بات کو یوں اُوپن کرنا ، ایک سیاسی غلطی ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے لیڈرز فوراً سے پیشتر ٹھکانہ بدل دیں ۔ متاثرین کو کسی نئی مصیبت سے بچانا بھی ان کی مدد کے مترادف ہوگا ۔ پاکستانی فوج برملا یہ کہتی ہے کہ وہ اپنا بدلہ نہیں چھوڑے گی ، جس پر ہمیں زیادہ چغد بن کر واویلا کرنے کی بجائے پیشگی حکمت عملی بنانا ہوگی ۔ بی این ایف کے ٹاپ لیڈر کی مشکے میں موجودگی کی جو ثبوت ہم نے خود فراہم کی ہے یہ اُن چی مگوئیوں سے زیادہ بڑی ہے جو اکثر سنائے دیتی ہیں اس پر پاکستانی فوج خاموش بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھےگی ۔ اُمید کرتا ہوں کہ اس بار دوست میڈیا ٹریسنگ کا شکار نہیں ہوں گے اور بچ کر نکلنے کے بعدیہ غلطی نہیں دہرائیں گے
Post a Comment