پاکستان میں قدرتی آفات جہاں لوگوں کے لیے مصیبت اور تباہی کا باعث بنتی ہیں وہیں کچھ عناصر ان قدرتی آفات کو اپنے سیاسی اور مذموم مقاصد کے  لیے استعمال کرتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں کشمیر کا زلزلہ سب سے زیادہ تباہ کن تھا جس کے نتیجے میں کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔لاکھوں لوگ بے گھر اور بے سہارہ ہوگئے ۔ جہاں پوری دنیا اس سانحے سے نمٹنے کے لیے امدادی ٹیمیں بھیج رہی تھیں وہاں پاکستانی فوج اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے پوائنٹ اسکورنگ شروع کی ۔ اس کھیل میں بھی جیت طاقتور
کی ہوئی عالمی اور مقامی امدادی اداروں کے اعتراض کے باوجود پاکستانی فوج نے کشمیر میں جاری امدادی سرگرمیوں پر اپنا ٹھپہ لگا دیا ۔ باہر سے آنے والے امدادی سامان اور رقوم فوج کے گوداموں اور کھاتوں میں جمع ہونے لگے ۔ فوج نے پاکستان کی سول سوسائٹی کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ کشمیر پاکستان کی سلامتی اور دفاعی اہمیت کا حامل متنازعہ علاقہ ہے لیکن بدنظمی اور فلاحی کاموں میں پیدا ہونے والے مسائل بڑھتے گئے ۔ چوں کہ مذہبی تنظیمیں بھی فوج ہی کی طرح طاقتور اور بااثر ہیں لہذا دوسری پوزیشن انہوں نے حاصل کی ۔ مذہبی تنظیمیں ایسے مواقع کو اپنے نظریات کی تشہیر اور متاثرہ علاقوں میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے پاکستانی حکومت نے بین الاقوامی تنظیموں کو یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار کردیا کہ نقصان معمولی نوعیت کا ہوا ہے جس میں عالمی تعاون کی ضرورت نہیں ۔ جب کہ بلوچ قوم دوستوں نے اس دعوی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ، امداد کے لیے بین الاقوامی تنظیموں کو اس لیے روکا جارہا ہے تاکہ بلوچستان کے حالات کوبین الاقوامی میڈیا سے چھپایا جائے ۔ سابق پاکستانی فوجی حکمران پرویز مشرف نے بھی بلوچ سیلاب متاثرین کے ساتھ میڈیا شو کی کوشش کی لیکن اسے متاثرین کے شدید نعروں اور غمم و غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس وقت حالات آج کی نسبت بہتر تھے ۔ جو بلوچ سیاسی کارکن آج پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں ،اس وقت گراونڈ پر امدادی کاموں میں مصروف تھے ۔

گزشتہ روز آنے والے زلزلے سے متاثرہ علاقہ بلوچ قومی تحریک کا گڑھ ہے ۔ آواران بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ لبریشن فرنٹ کا سب سے مضبوط علاقہ ہے اسی طرح کیچ میں بھی آزادی پسندوسیع اثر رکھتے ہیں ۔
    
 بی ایل ایف نے زلزلہ کے فوراً بعد میڈیا کو جاری کردہ بیان میں واضح کیا تھا کہ وہ قدرتی آفت کی آڑ میں علاقے میں کسی ایسی سرگرمی کی ہرگز اجازت نہیں دے گی جو بلوچ قومی مفادات کے خلاف ہو تاہم انہوں نے غیر سرکار ی اور بین الاقوامی تنظیموں کی امدادی سرگرمیوں کی حمایت کا یقین دلایا ہے ۔

زلزلے کے فوراً بعد خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ فوج علاقے میں اپنا کنٹرول بڑھانے اور امدادی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرئے گی اور ہوا بھی یہی ۔ کراچی سے جانے والے امدادی قافلوں کو ایف سی نے آواران میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ 

میڈیا میں کراچی سے فوجی ٹرک بھاری ہتھیار سمیت امداد کے بہانے بلوچستان کی طرف جاتے دکھائے گئے ۔ ٹی وی پر دکھائے گئے فوٹیج سے ہی واضح تھا کہ امدادی سرگرمیوں کا محض بہانہ ہے جب کہ فوج کی نیت دوسری ہے۔ کچھ حلقے بی ایل ایف سے یہ احمقانہ توقع رکھتے ہیں کہ بی ایل ایف فوج کو ان حالات سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا موقع دے۔ بی ایل ایف نے امداد ی سرگرمی کے بہانے فضائی جائزہ لینے والے فوجی ہیلی کاپٹر پر حملہ کرکے بے وقوفانہ تعاون سے انکار کا پیغام دیا ہے ۔ اس پر کچھ سطحی قسم کے لوگ بی ایل ایف پر امدادی سرگرمیوں کومتاثر کرنے کا الزام لگارہے ہیں جب کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ کسی ایسے علاقے میں امداد اور بحالی کے کاموں میں فوج کے استعمال کی کیا ضرورت ہے جہاں پاکستانی فوج کو ایک قبضہ گیر فوج سمجھا جاتا ہے ۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ سال پاکستانی فوج نے بی ایل ایف کے رہنماء    اللہ نذر کے تعاقب میں بمبارمنٹ اور شیلنگ کی تھی ، سرمچاروں کی حمایت کے شبے میں درجنوں لوگوں کو ہلاک اور املاک کو جلایا تھا ۔ اب یہی فوج میڈیا کے سامنے انہی لوگوں کے مدد کا تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے ۔ کیا لوگوں کی یاداشت اتنے ہی کمزور ہے کہ وہ چند مہینے پہلے کے قتل عام کو بھول کر اپنے قاتلوں کے ہاتھ چوم کران سے بھیک لینے پر رضامند ہوں؟

بلوچستان کے کٹ پتلی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے کم و بیش لوگوں اور اللہ نذر کو یہی مشورہ دیا ہے ۔ ان کے بیان میں مثبت بات یہ تھی کہ انہوں نے زلزلہ پر ہر قسم کی سیاست کو رد کیا ۔ لیکن عملاً ایسا ہونا مشکل ہے پاکستانی فوج ہمیشہ کی طرح اس کی راہ میں مضبوط دیوار بن کر کھڑی ہے جو بہرحال علاقے میں اپنا مضبوط کنٹرول چاہتی ہے ۔ مالک کی کٹ پتلی حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اسے پاکستانی فوج کوقائل کرنا ہوگا کہ وہ بلوچستان میں آفات کی سیاست سے گریز کرئے اور امدادی اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے متحرک ہونے والی غیر سرکاری تنظیم بلوچ ویلفئر کمیٹی ہے جوکراچی اور بلوچستان کے درد دل رکھنے والے بلوچوں نے اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی مدد کے لیے قائم کی ہے ۔ اس کو علاقے میں رسائی دینے اوررضاکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی مالک حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔

بی ایل ایف پرفوجی نقل و عمل روکنے پر امدادی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کا الزام عائد کرنا ناانصافی ہوگی ۔ پاکستانی بندوبست پر یقین رکھنے والی سول سوسائٹی کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ وہ بی ایل ایف کو چاہئے دہشت گرد ہی سمجھیں مگر وہ ان علاقوں میں پاکستانی فوج کے ساتھ بر سر پیکار ہے ۔ حالت جنگ میں اس کے مطالبے کو ٹھوس جواز حاصل ہے کہ امدادی سرگرمیوں میں فوج کو استعمال نہیں کیا جائے بلکہ اس کی جگہ غیر سرکاری تنظیمیں جو اس کام کا فوج سے بہتر تجربہ رکھتی ہیں آگے آئیں ۔

علاقے میں فوج کے  کیمپوں سے نکلنے سے پہلے ہی امدادی کارروائیاں شروع ہوچکی تھیں ۔ ڈاکٹرز اور امدادی کارکنان علاقے میں پہنچ رہے ہیں اور ان پر کوئی حملہ نہیں ہورہا بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے ۔ جو حملے فوج اور ایف سی پر کیے جارہے ہیں ان کا مقصد فوجی نقل و عمل کو روکنا ہے جو اس علاقے میں آزادی پسند جنگجوؤں اور پاکستانی فوج کے درمیان معمول کے جھڑپوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر اس پیچیدہ صورتحال کے باوجود پاکستانی فو ج آفات کی سیاست کی پالیسی سے دست بردار ہونے سے انکار کرئے تو اس سے متاثرین کے مشکلات میں اضافہ یقینی ہے ۔ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو چاہئے کہ اس معاملے کو زیاد ہ اُجاگر کرنے کی کوشش کریں اور بین الاقوامی اداروں تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ وہ فوج کو امدادی سرگرمیوں میں مداخلت سے روکیں تاکہ متاثرین کی بحالی کا عمل بغیر رکاوٹ مکمل ہو ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.