حکمران انسانوں کے ایسے طبقے سے متعلق ہیں جوجدےددور میں بھی طاقت ہی کو ریاست کامنبع تصور کرتے ہیں ۔ جنگ وجدل ہی دنےاکی تاریخ ہے مشہور کہاوت ہے کہ" جنگ نے بادشاہ جنی ہے ۔"جن کی سرگزشت دنےاکی تاریخ ہے ۔ا س نظریہ کوجبروقوت

(Theory of force)


کہاجاتاہے ۔گوکہ آج کے دور مےں انسانیت کی فلاح وبہبود ریاست کااوّلین مقصد قراردیاگیاہے ۔دنیابھر کے ممالک خود کوانسانی حقوق کا چمپئن سمجھتے ہیں۔کسی ملک کا دوسری ملک کے بارے میں یہی کہنا ہی سب سے بڑی گالی ہے کہ "وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔



دنیاکے بیان وعمل میں تضاد نمایاں ہے آج پوری دنیاکے حکمران جبراًاپنی ریاستوں کوقائم ودائم رکھناچاہتے ہیں بلکہ دنیاکی سپرطاقت امریکہ اپنی طاقت کے بل پردنیاپر بلاشرکت غیر حکمرانی کرنے کاخواہش مند ہے ۔دنیانے نسلی اختلافات ختم کرنے کے لئے طویل تحریک چلائی ہی لیکن آج کی دنیا میں نسل پرستی پھراپنی نئی شکل میں عروج پرہے جس میں ہر کوئی اپنی بقاءو نشونماکے لئے دوسری قوم کو نقصان دینے کے درپے ہے ۔حیوان کی اسی فطرت کو نظریہ ارتقاءکے حوالے سے مشہورسائنسدان سر چارلس ڈارون نے بقاءکے لئے جدوجہد


(STRUGGLE FOR EXISTANCE)


کے نام سے متعارف کروایاجس کے مطابق آبادی کی زیادتی سے جانوروں میں بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لئے مقابلہ شروع ہوجاتاہے ۔پانی ، ہوا،جگہ اور روشنی کے لئے ان کے درمیان جدوجہد کاآغاز ہوتاہے اور ا س جنگ میں طاقتور کی جیت ہوتی ہے ۔



یہ نظریہ نہ حتمی قانون کا درجہ رکھتاہے نہ ہی دیگر حیوان کی طرح حیوان ناطق پر صادق آتاہے کیوں کہ آدمی نے خود کو



تہذیبی وتمدنی ارتقاءکے ذریعے دوسرے جا نداروں سے ممتاز بنایاہے ۔اس نے اپنی بودوباش اور خوراک کاایک معیار مقرر کیاہے آج کاانسان ماضی کی اپنی ان بری عادتوں کوسختی سے ردکرچکاہے جوکسی زمانے میں اس کے معاشرے کے لازمی اجزاءتھے ۔آج کی دنیانسلی برتری اور مذہبی تفرقات کوچنداں اہمیت نہیں دیتی ۔لیکن حکمرانوں نے آج بھی زمانہ جہالت کے اصولوں کوپال رکھاہے جن کے مطابق ریاست کی استبدادی مشینری فوج اور پولیس ہے جوافراد کو جبر سے اطاعت پر مجبور کرتی ہے ۔آج کادانشور انہی جبرپسندحکمرانوں سے نبردآزماہے جنہوں نے بھوک ،پیاس ،غربت اور افلا س کوفروغ دیاہے ۔


پاکستان 1947 ءمیں انگریزوں کی ہندوستان سے واپسی کے بعد اسلام کے نام پر وجود میں آیالیکن اسلام کی نام پر حاصل کئی گئی اس ریاست پر قبضہ کرنی کی بعد حکمرانوں نی اسلام کی ذرین اصولوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے جبروقوت کے نظام کو نافذ کےاجس کی وجہ سے 1970 ءکو پاکستان ٹوٹ گےالیکن حکمرانوں نے اپنی غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھابلکہ بچے ہوئے پاکستان کوچار یونٹوں میں تقسیم کرکے اپنی جابرانہ پالیسیاں جاری رکھیں جس کے نتیجے میں آج ملک بھر میں ہرکوئی چیخ چیخ کر ان مظالم پر سراپااحتجاج ہے پھربھی حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی وہ اب بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں ان کے نزدیک پاکستا ن پر اس حکمران طبقے کے سواءکسی کاحق نہیں جس کی بالادستی دیگر اقوام کو بلاچوںو چراقبول کرنی چاہئیے۔اسی جبری وحدانیت پر تصور پاکستان کے خالق سر علامہ محمداقبال کے فرزند ارجمند جاویداقبال نے تبصر ہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ" پاکستان کے چاروں صوبے چاربلےوں کی ماند ہیں جن کی دُمیں آپس میں باندھی گئیں لیکن منہ مختلف سمتوں میں ہیں اور جب بھی یہ گرہ کھول دی جائے گی چاروں مختلف سمتوں میںدوڑ پڑیں گی۔"

بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ ظلم سہنے والاصوبہ ہے اوّل تو اس پر پاکستان کا قبضہ رضاکارانہ کے بجائے جابرانہ ہے جس قبضہ گیری کے بعد ہردن بلوچوں پر مظالم کی ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے ۔پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے کہاتھاکہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں سب کوآزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگالیکن اس کے برعکس بلوچستان میں انسانی آزادی بری طرح پائمال ہیں ۔جہاں لاٹھی کی زور پر اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جاتی ہے جس کا کسی بھی معاملے پر کوئی اختیار نہیں اس جبر وقوت کے بے دریغ استعمال کے ردعمل میں بلوچ مزاحمت کاپےداہونااصولی ہے ۔فزکس کے قانون کے مطابق ہرعمل کاردعمل ہوتاہے اور سائنسی قوانین کی خاصیت یہ ہے کہ پوری کائنات میں ان کااطلاق یکساں ہوتاہے ۔جب کہ پاکستان طبقاتی اصول و قوانیں پر عمل پیراہے ۔بلوچوں کی سر پر ننگی تلوار لٹکاکرجب حکومت پاکستان امن قائم کرنا کا دعویٰ کرتی ہے تو ایک کمزور بلوچ پیچ وتاب کھاتارہ جاتاہے ۔لیکن بلوچ اس سے زیادہ کرئے توکےا؟۔۔۔۔بلوچ آج احتجاج کے تمام دستیاب وسائل استعمال کررہاہے ۔ہزاروں سر مچار سر ہتھیلی پر رکھ کر پہاڑوں میں بر سرِ پیکار ہیں تو لاکھوں سڑکوں پرچلارہے ہیں لیکن حکومت بلوچ کی سیاسی مزاحمت کی تمام راہیں مسدود کرنے پر تلی ہوئی ہے جب بھی کوئی بولتاہے ،ہلتاہے یااپنی قومی احساسات کابرملا اظہار کرتاہے حکومت کی خفیہ ایجنسیاں اسے راتوں رات غائب کردیتی ہیں ۔کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ مغویوں کی بازیابی کے لئے کافی عرصے سے لگا ہوا علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ فوٹوگرافی کی دکان لگتی ہے جہاں لواحقین اپنے گمشدہ عزیزوں کے تصاویر سجاکر بیٹھے ہیں ۔ان کی فریاد نہ حکومت سنتی ہے نہ آزادی اظہاروانسانیت کے علمبردار روشن خیال پاکستانی صحافیوں کو ان کی حالت پررحم آتا ہے ۔الیکڑانک میڈیانہ ان کو مناسب کوریج دیتاہے نہ پاکستان کی پرنٹ میڈیامیں ان کے داستان الم چھپتے ہیں ۔بلوچ رہنماﺅں کے اغواءکا یہ سلسلہ اﷲ نذر سے شروع ہوا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہمارے ایک دوست کے بقول "ہم خو د کو ایک ڈبے میں بند کبوتروں کی طرح محسوس کرتے ہیں جہاں روزانہ ایک غیر مرئی طاقتورہاتھ گھس کر ہم میں سے کسی کو لے جاتاہے ۔"

گزشتہ ہفتے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے شایددنیا کا سب سے طویل ترین علامتی بھوک ہڑتال بلانتیجہ ختم ہوا ۔علی اصغربنگلزئی اور حافظ سعید الرحمان بنگلزئی کے لواحقین نے اپنافیصلہ قرآن پر چھوڑتے ہوئے بھوک ہڑتال ختم کی ہے ۔کیمپ میں صوبائی وزیر داخلہ شعیب نوشیروانی نے گورنر بلوچستان اویس احمد غنی کے نمائندے کی حیثیت سے لواحقین سے کہا کہ" انہوں نے گمشدگان کے بارے میں تمام سرکاری ایجنسیوں سے معلومات کیاہے جن کے مطابق یہ دونوں ان میں سے کسی کے پاس نہیں میں نے اُن پر یقین کیاہے اور آپ بھی اس پر یقین کرتے ہوئے اپنافیصلہ قرآن پر چھوڑ دیں ۔"قرآن کے نام پر گزشتہ 58سالوں سے حکومت پاکستان بلوچوں کودھوکہ دیتی اور اسلام کی چھری سے ذبح کرتی آرہی ہے۔گوکہ حکمرانوں کے ان باتوں پر گمشدہ بلوچوں کے لواحقین کو یقین نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی بھوک ہڑتالی کیمپ میں رُکی زندگی کی گاڑھی کوہمیشہ یہی پارک نہیں کرسکتے ۔اس لئے انہوں نے بھوک ہڑتال مجبوراًختم کی ہوگی ۔ا س موقع پر علی اصغر بنگلزئی کے نمائندے نصراﷲ نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ :"ہم نے گورنر اویس غنی سے بہت سی نشستیں کیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیاجب کہ سابقہ کورکمانڈر بلوچستان عبدالقادر بلوچ ، ڈائریکٹر آئی ایس آئی بریگیڈئیر صدیق اور ایم ایم اے کے رکن قومی اسمبلی حافظ حسین احمداس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ علی اصغر بنگلزئی اس وقت آئی ایس آئی کی تحویل میں ہی اور تحقیقات کے بعد ا س کو رہا کردیا جائے گا۔"لواحقےن اس سے بڑھ کر عدم اعتمادکا اور کیا اظہا ر کریں ۔

ایک مضمون نگار نے گزشتہ دنوں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں منیر مینگل کی گرفتاری پر قوم پرست حلقوں کی خاموشی پر شکوہ کےاتھاجوا س لئے درست نہیں کہ آج بلوچستان کے کونے کونے سے جس طرح ہزاروں بلوچوں کوغائب کےاگےاہے اورجس کا تسلسل آج تک جاری ہے صرف منیر مینگل پر توجہ موکوز کرنامشکل ہے ۔اسی طرح جب ڈاکٹر حنیف شریف کی بازیابی کی تحریک چل رہی تھی تو کچھ حلقوں نے تشویش کااظہار کیاتھاکہ لوگ اﷲ نذر کو بھول گئے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جبرستان کے جبر کاکوئی شمارممکن نہےںکہ ہم اپنے گمشدگان واسیران کانام لے لے کر احتجاج کریں۔کراچی پریس کلب میں سجی درجنوں تصویریں بھی اُن چند لوگوں کی ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں ورنہ بلوچ اسیران ومغویان کی فہرست کافی لمبی ہے ۔
(2006)












0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.