کسی سیاسی جماعت سے وابستہ لکھاری کے لیے لکھنا اس وقت کافی مشکل ہوتاہے جب اسے اپنے نظریات کا دفاع یا مخالفین پر تنقید کرنا ہو کیوں کہ ایسے وقت میں اس کی رائے عموماًاس کی جماعتی رائے سمجھ کراس کے علمی وفکری پہلوکو نظر انداز کیا جاتاہے یہی سلوک راقم کے ساتھ بھی روارکھا گیا ۔ جب میرا مضمون ’’کشتی ڈبونے والے ‘‘روزنامہ انتخاب میں 29ستمبرسے یکم اکتوبر 2009تک تین اقساط میں شائع ہواتو مضمون مکمل ہونے سے پہلے ہی رائے زنی کا ایک سلسلہ چل پڑا ناقدین موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی رائے سے نوازتے رہے ۔ نہ مخالفین کی تنقید پر میری پیشانی شکن آلود ہوئی نہ کہ حامیوں کے تعریفی کلمات پر باچھیں کھلیں کیوں کہ یہ سب میرے توقعات کے عین مطابق تھا۔ میں جس سماج میں رہ رہاہوں اس کے ارتقائی مرحلے سے واقف ہونے اور علماء کے منصب جلیلہ پر فائض افراد کی اپنی جیسی کیفیت کاادراک رکھنے کے باعث اس مضمو ن کے ہر لفظ کو لکھتے ہوئے میں نے اس کے ممکنہ ردعمل کا اندازہ لگالیا تھا۔ الفاظ خیال کو جو زندگی عطاکرتے ہیں اگر تخلیق کار اس کی کارکردگی مطلب عمل اور ردعمل کا پیشگی علم نہیں رکھتا تو میری دانست میں اسے لکھنے کا شوق موخر کرکے ریاضت کا سلسلہ جار ی رکھنا چاہئے ۔ یہی ایک لکھاری کی بحیثیت لکھاری بلوغیت کے آثار ہیں کہ اسے لفظوں کے معنی لغت کے مطابق نہیں بلکہ صفحہ قرطاس کے توسط قارئین کے ذہنوں پر منتقلی کے بعد کے اثرات کے مطابق معلوم ہو ں کہ کونسا لفظ کس پیرائے میں قارئین کے ذہن میں کیاہلچل پیدا کرتاہے۔ تخلیق کا ر کاکمال یہ ہے کہ وہ الفاظ کوجب ان کے لغوی مفہوم کے برعکس استعمال کر ئے تو قارئین بھی اُن کا وہی مفہوم اخذکر لیں جس مفہوم میں لکھاری نے انہیں استعمال کیاہو ۔

مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے یہاں پڑھنے والے پڑھنے والے نہیں بلکہ روحانی تسکین کے طالب ہیں جنہوں نے اپنے مطالعہ کا داہرہ کار اپنے نظریات کے حد بندیوں کے مطابق رکھاہے ۔ تحریر میں فکر وعلمیت کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جوان کے نظریات سے مطابقت رکھتاہو۔ یہی وجہ ہے میرے مضمون کے وہ ناقدین جنہوں نے اس پر منفی رائے دی وہ نظریاتی طورپربھی میر ے مخالف ہیں اور تعریفی کلمات کہنے والے میرے نظریاتی ساتھی ۔ البتہ اس مرتبہ ستر فیصد قارئین ایسے بھی تھے جنہوں نے مفہوم کو سمجھے بغیر مجھے بذریعہ ایس ایم ایس اپنے تنقیدی آرائ سے نوازا ۔ مند سے ایک دوست نے یہاں تک سمجھ لیاکہ خاکم بدہن میں نے شہید غلام محمد بلوچ کوایجنسیوں کا آلہ کار کہاہے جس کی وضاحت میرے لیے کافی مشکل تھی ۔ اسی طرح ایک دوست نے لغوی مفہوم کے اعتبار سے تویہ درست اخذ کرلیاکہ میں نے نوری نصیر خان اوّل کواسلامی دہشت گرد قرار دیاہے لیکن جس پیرائے میں اظہار بیان ہے اس سے یہ مفہوم ہرگز نہیں نکلتا ۔ مگر جن دوستوں نے میری طرح دل پہ پتھر رکھ کر’’امان اللہ گچکی ‘‘کے مضمون ’’اور کشتی ڈوب گئی ‘‘ اور میرے مضمون’’کشتی ڈبونے والے ‘‘کے لفظ لفظ کو جوڑ کر پڑھا ہے انہیں سب باتیں سمجھ میں آچکی ہوں گی ۔ میرے مذکورہ مضمون میں کچھ ایسی راز کی باتوں کی طرف بھی اشارہ تھا جس سے محدود لوگ ہی واقف ہیں یہ جملے دراصل انہی کے لیے تھے او ر انہوں نے یقینا سمجھ بھی لیے ہوں گے البتہ جن کو میں کریدنا چاہتاتھا وہ اب بھی مصلحتاًلب بہ مہر ہیں ۔ جن کو مخاطب کیا وہ شاید اخبار بینی کا شوق ہی نہیں رکھتے یا چند نوخیز انقلابیوں کی طرح انتخاب بینی سے کتراتے ہیں ۔

مگر انور ساجدی صاحب نے جس ردعمل کااظہار کیا وہ میرے لیے کافی حیران کن ہے ۔ میں جانتاتھا کہ عام لوگ ایک سیاسی کارکن کی تحریروں میں علمی ، ادبی اور فکری پہلونظرانداز کردیتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ اُن کی تحریروں کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے لیکن معذرت کے ساتھ ساجدی صاحب جیسے عالم اور تجربہ کار بزرگ سے مجھے یہ اُمید ہرگز نہ تھی کہ مجھ جیسے نوجوان لکھاری کی تنقید کی ادنیٰ سی کوشش پراس برہمی کا اظہار کریں گے ۔ میری ذاتی خیال آرائی پر میرے پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیں گے تنقید کرتے توسر آنکھوں پر لغواور بے بنیاد الزامات لگاکر سودابازانہ جملے اُچال کر ایک ایسی جماعت کی جدوجہد کو لفظی جادوگری کے بل پر کم وقعت دکھانے کی فنکارانہ غلطی کریں گے جوبلوچ قومی آزادی کے لیے ﴿وہ قومی آزادی جس سے بقول ساجدی صاحب انہیں بھی انکار نہیں ﴾سروں کے فصل اُگا رہی ہے ۔ محترم ساجد ی !میں نے کب آپ سے یہ عرض کیا تھاکہ میری تحریر کے مندرجات میری پارٹی موقف کی ترجمانی کرتے ہیں اورتحریرمیں کہاں یہ تاثر دیاہے کہ میراتعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے ہے؟؟اگر ایسا ہو تاتومیں ہرگزبی این ایف میں شامل بی این ایم کے اتحادی جماعتوں کے کچھ دوستوں پرتنقید نہ کرتا،اگر میری باتیں آپ کو ناگوار گزر ی ہیں یامضمون میں شامل کسی جملے سے آپ کی دل آزاری ہوئی توآپ مجھ پر تنقید کرتے اس میں میری دانست یہی کہتاہے کہ آپ کی طرف سے میری پارٹی کو جوابی تنقید کانشانہ بنانا درست نہیں ۔

محترم !آپ نے اپنے مضمون میں غالباًیہ طنزاًلکھاہے کہ’’ہماری کم علمی ہے کہ ہم قاضی صاحب سے اچھی طرح واقف نہیں ‘‘لیکن آخرمیں آپ نے یہ تجویز دے کر کہ ’’ذرا آپ باتیل پر چڑھ کر اعلان تو کردیں کہ قومی تحاریک میں جذباتیت بھی ہوتی ہے ‘‘خود ہی قلعی کھول دی کہ قاضی صاحب کا باتیل سے تعلق ہے جو گوادرمیں سینہ تانے کھڑ اہے وگرنہ آپ کوہ سلیمان یا کے ٹو جیسے کسی بلند ترین پہاڑ کانام بھی لے سکتے تھے ۔ میں آپ کے حساب سے بچہ لکھاری ہوں لیکن اب جب میں حساب لگانے بیٹھاتو معلوم ہو اکہ ا س ریاضت میں نودس سال بیت گئے ہیں گوکہ جن بچوں کو ہم پڑھا یاکرتے تھے اُ ن کو ہماری کوتائیوں کی وجہ سے ہمارے ہم مکتب ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آج کل جو اساتذہ سبق پڑھاتے ہیں وہ جب تائیدی نظروں سے جانچتے ہیں اور مسابقت میں دوسرے ہم مکتب طلباء کے ساتھ شامل نہیں کرتے تو اپنے سفید ریشی کا کچھ کچھ گمان ہوتاہے یہ احساس تفاخرانہ سے زیادہ سوہان روح ہے کہ جوانی روبہ زوال ہے ۔ میرے مضامین بلوچستان کے اخبارات کے علاوہ کئی دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آساپ کے ناکوجان محمد دشتی ‘توار کے واجہ خادم لہڑی اور ماہتاک بلوچی کے واجہ عبدالواحد بندیگ نے کبھی یہ فرمائش نہیں کی کہ میں اُن کو اپنے متعلق تعریفی کلمات تحریرکرئوں ۔ اُن کو اپنی مردم شناسی کی بدولت اتنا علم ضرورہوگاکہ و ہ میرے متعلق بقدر ضرورت معلومات رکھیں لیکن لکھاری کاتعارف اس کامضمون ہوتاہے اس کاخاندانی حسب نسب نہیں آپ نے توپیشہ بھی دریافت کرلیاکہ’’قاضی صاحب کس مقام سے مزاحمت میں مصروف ہیں ۔ ‘‘آپ کی خواہش پر چند کلمات درج کیے دیتے ہیں ۔

میرا تعلق بلوچوں کے’’لٹیگ ‘‘ قبیلہ سے ہے جولٹ نامی ایک مقام پر بودباش اختیار کرنے کی وجہ سے ’’ لٹیگ ‘‘کہلایا۔ آبائواجداد چار یاپانچ سوصدی قبل باھو کلات سے ہجرت کرکے گوادر میں آکر آباد ہوئے ۔ میری پیدائش اسکول کے ریکارڈ کے مطابق 4اگست 1983کو اپنے آبائی شہر میں ہوئی والد محترم کا نام قاضی عبدالواحد ہے ۔ انہوں نے میر انام اپنے والدمحترم قاضی داد محمد کے نام پر رکھا جو کہ ’’ریحان ‘‘تخلص کیا کرتے تھے ۔ آپ ﴿ میرے دادا﴾کو عربی ‘فارسی اور اُردو زبان پرعبورحاصل تھا ۔ اس وقت گوادر پر سلطنت عمان کا قبضہ تھا اور آپ گوادر میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے انہی کی نسبت قاضی ہمارے خاندانی نام کا حصہ بنا آپ کے ریکارڈ میں آپ کی لکھی ہوئی کوئی تخلیقی تحریر نہ مل سکی البتہ شرعی مسائل پر عربی میں ایک کتاب ’’رسالہ ریحان‘‘ کا نامکمل مسودہ دستیاب ہے۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے تمام کتب پِشّوکان ﴿ اصل تلفظ پیشکان نہیں ہے ﴾ کے ایک عالم کو دیئے تھے جنہیں وہ اُونٹ پر لادکر لے گئے ۔ آپ کو شاعری سے پڑھنے کے حد تک لگائو ضرور تھا اور انتہائی خوشنویس تھے ۔ آپ کے کتب سے کچھ اُردوکے قلمی نسخے جن میں بزرگان دین کے شجرہ نسب اور منقبت وغیرہ ہیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کا صوفی ازم کے طرف جھکائو عارفانہ کلا م میں دلچسپی کی بنیادی وجہ تھی ۔ ناکو حسین کے مطابق گوادر میں ہری پگڑی والے مسلک کے لوگوں کی آپ نے سر پرستی کی ۔ گوادر میں اب بھی آپ سے موسوم ایک مسجد ’’جامع مسجد قاضی داد محمد‘‘پر انہی مسلک کے ملا ئوں کا قبضہ ہے۔ سن شعور میں آنے کے بعدآپ کے لکھے ہوئے کچھ یاداشتوں میں آپ کے نام کے ساتھ ’’ریحان ‘‘کا تخلص لکھا دیکھ کر میں نے بھی یہی تخلص اختیار کیا ۔ ا بتدائی تعلیم گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول گوادر سے حاصل کی ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ترجمان ہمقدم میں ایک مضمون ’’یزدانی قانون میں جزاورسزاء کا منظر اور اسلامی جمعیت طلبہ بلوچستان کے میٹرک کے سطح پر تنظیم بزم شہباز کے زیر اہتمام شائع ہونے والے بچوں کے رسالہ کے ابتدائی کچھ شماروں کے لیے کہانیاں اسکول کے زمانے ہی میں شائع ہوچکی تھیں ۔ لیکن باقاعدہ لکھنے کا آغاز بحیثیت افسانہ نگار 1999میں ماہتاک بلوچی سے کیا ۔ میرا پہلا افسانہ ’’سر تگیں برنج ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ افسانوں میں دودانی سیاھگ ‘ماما‘مات ،مال ، ءُ مشک شائع ہوئے ۔ مزاج میں لڑکپن سے طنز ومزاح کا حِس موجود ہونے کی وجہ سے اس میں بھی طبع آزمائی کی کوشش کی بلوچی میں من ءُ منی پینٹ ، اور شائر ماہتاک بلوچی میں شائع ہوچکے ہیں البتہ سیاسی سر گرمیوں میں اضافے کے بعد مزاح کے اس حِس نے کام چھوڑ دیا ۔ ان کے علاوہ فن شاعری پر نصف درجن سے زائد تنقیدی مضامین شائع ہوئے ۔ ماہتاک سچکان کے لیے راجد پتر ‘راجی سروک اور سیاسی جاورھال کے موضوعات پر کئی مضامین اور تراجم لکھنے کے علاوہ اپنے قلندر سلسلہ کے بعض مضامین بھی ’’شئے پھوال ‘‘کے نام سے کردار متعارف کرواکر بلوچی میں ترجمہ کیے۔ زرمبش پبلی کیشنز کی طرف سے مختصراًکتابچہ ’’شہید اکبر ‘‘ بھی شائع ہواہے جس میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کی زندگی کے مختصراًاحوال ‘اُن کی سیاسی زندگی پر تنقیدی جائزہ اور سانحہ تراتانی کی تفصیلات شامل ہیں ۔ بلوچی افسانے حسن سول ﴿استاداے آرداد﴾‘زریں چمانی آلاڑ﴿یونس حسین ﴾‘اسٹیکر ﴿ناگمان ﴾‘کلیر ءَ جتگ تاکے ﴿جاوید حیات ﴾اور استاد صبادشتیاری کا افسانہ ’’لیاری ءِ جیالا‘‘ترجمہ کیے جوکہ گراب اور آساپ کے ادبی صفحے پر شائع ہوئے ہیں ۔

بلوچی گرائمر کے حوالے سے سست رفتاری سے کام کرتے ہوئے ’’بلوچی سیاھگ ءُ بنرھبند ‘‘کے نام سے کتاب ترتیب دے رہاہوں جس میں بلوچی لکھاریوں کی طرف سے کی جانے والی املا کی غلطیوں کی نشاندہی اور اُن کی درستگی اور ادبی پرچوں میں املا کی یکسانیت کے لیے تجاویز شامل ہیں ۔ شاعری ذاتی حد تک کرتاہوں ایک آدھ اردو غز ل اور نظم کے غیر معروف پرچوں میں اشاعت اور بلوچی میں ایک دستونک ’’لھتیں ماہ ءُ استال ‘‘ اور لچہ ’’من ءُ یونان ‘‘کے علاوہ اب تک میرے کسی شاعرانہ کلا م کو قابل اشاعت نہیں سمجھ گیا ۔ سیاسی سفر کا آغاز 1997-98میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے کی جوکہ جماعت اسلامی کا طلباء بازوہے ۔ اسلامی جمعیت طلبہ گوادر کے معتمد ‘منتظم اوربیت المال ﴿خازن ﴾کے عہدوں پر کام کیا ۔

دوھزارتا دوھزار ایک کو کراچی میں تعلیم کے غرض سے گیا لیکن چندوجوہات کی بنائ پر تعلیم مکمل کیے بغیر گوادرآکر ذاتی کاروبار شروع کی۔ اسی دوران گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخلہ لیا ۔ 2004میں شعبہ صحافت سے منسلک ہوگیا۔ صحافت کا آغاز میں نے روزنامہ گراب سے کیا جوکہ واجہ اسماعیل بلوچ کی ادارت میں گوادر سے شائع ہواکرتا تھا ۔ جس میں آپ کا قلم کیالکھتا ہے ؟ ‘ فیچر رپورٹنگ ‘قطعہ نویسی اور دیگر مستقل سلسلوں کو ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی پروگرامات کی کورریج ، عمومی واقعات اور سماجی سر گرمیوں کی رپورٹنگ بھی کیا کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ میں نے ’’تجزیاتی رپورٹنگ ‘‘﴿ تجزیاتی مندرجات پر مشتمل خبر کے لیے یہ مخصوص نام واجہ اسماعیل بلوچ کی تجویز کردہ تھی ﴾کے نام سے رپورٹنگ کاایک نیا طریقہ متعارف کیا جوکافی مقبول ہوا۔ گراب 90دن کی اشاعت مکمل کرنے کے بعد عوام میں زبردست پذیرائی کے باوجودمالی مشکلات کا شکار ہوکر بند ہوگیا۔ لیکن صحافت سے جورشتہ تھا وہ قائم رہا۔ صحافت کے شوق میں مَیں ذاتی کاروبار پر توجہ نہ دے سکا اورمیری فوٹواسٹوڈیو بالآخر بند ہوگئی ۔ گراب کی بندش کے چند دن بعد میں نے ایگل کے مقامی بیوروچیف کے ساتھ کام کیا بعدازاں واجہ اسماعیل بلوچ کے مشورے پرروزنامہ توار میں بحیثیت بیوروچیف رضاکارانہ صحافت جاری رکھی ۔ واجہ خادم لہڑی اور جاوید نصیر کی خصوصی توجہ پر اپنا سلسلہ وار کالم ’’بقدر ظرف قلم ‘‘میں لکھنے کے ساتھ ’’احوال بولان ‘‘کے نام سے قلمی نام ’’مھراللہ مھر ‘‘کے نام سے بھی ہفتہ وار ایک خصوصی صفحہ لکھتا رہاجسے منفرد انداز تحریر اور مخصوص میک اپ کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل تھی ۔ اسی دوران گوادر پریس کلب گوادر کی تنظیم نو کی کوشش کی گئی ۔ ہماری طرف سے جو مصالحتی کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں راقم بھی شامل تھا۔ دونوں گروپوں میں اتفاق رائے پید اہونے کے بعد آئینی کمیٹی میں شامل ہوکرآئین کی ترتیب میں اپنے استاد اسماعیل بلوچ کی معاونت کی ۔ اُنہی کی دست شفقت کی بدولت پریس کلب کا جنرل سیکریٹری چناگیا۔
سنگل بی ایس او کے قیام کے بعد میری قوم دوستانہ سیاست کا آغاز ہوا
مجھے بی ایس اوگوادر کی قیادت اور اپنے درمیان نفسیاتی خلیج اور شخصی اختلافات کا بخوبی اندازہ تھااس لیے میں نے دوستوں پر واضح کر دیا کہ وہ میری جگہ کسی دوسرے دوست کونامزد کریں لیکن انہوں نے اکثر یت کی حمایت کا یقین دلاکر عہدہ لینے پر مجبور کیا ۔ ڈپٹی آرگنائزر کے عہدے پر میری نامزدگی پر شدید اعتراضات کیے گئے جنہیں خلیل بلوچ نے مجھے سابقہ بی ایس او﴿امان ﴾ کا ممبر ظاہر کر کے جواب دیا لیکن بی ایس او کے دوست مجھے بی ایس او کے دوبارہ تین دھڑوں میں تقسیم ہونے تک ذہنی حوالے سے قبول نہ کرسکے ۔ مجھے پہلے ہی مہینے میں ایک اجلاس میں عدم شرکت کو جواز بناکر ھنکین آرگنائزر نے نوٹس جاری کیا ۔ گوادرھنکین کے ایک اجلاس میں مَیں نے اعتراض کیا کہ ’’بی ایس اواگر اُن سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے چندہ لیتی رہے گی جن کا وہ ماضی قریبمیں پاکٹ آرگنائزیشن تھے ‘بی ایس اواور ان کی سوچ میں تضادات بھی واضح ہوچکے ہیں بی ایس او ہر گز ایک آزاد تنظیم کی حیثیت اختیار نہیں کرپاسکے گی۔ ہمیں اس ابتدائی مرحلے پر احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے چندہ کی ابتداء اگر ہم اپنے جیب اور اُن لوگوں سے کریں جوکسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھتے توہم سیاسی جماعتوں کی مداخلت اور سازشوں سے خود کومحفو ظ رکھ سکیں گے ۔ ‘‘جسے سختی کے ساتھ رد کیا گیا ۔ توار گوادر بیوروکی طرف سے ا سی دوران واجہ اسماعیل بلوچ کی لکھی ہوئی رپورٹ شائع ہوئی جس میں انہوں نے ان عناصر کا ذکر کیا تھا جو بی ایس او کی دوبارہ تقسیم کے لیے سر گرم تھے ۔ بی ایس او نے اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی بجائے مجھے مورد الزام ٹہراکرجواز پیدا کیا کہ میں نے بی ایس او کے خلاف لکھنے کا قومی جرم کیا ہے اور مجھے نوٹس کیے بغیر بی ایس او سے فارغ کردیا گیا۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ تھا کہ میری ممبر شپ ختم کرنے کا فیصلہ کرنے والے اکثر لوگوں نے اس کے مندرجات کو سرے سے پڑھا ہی نہیں تھا ۔ بی ایس او کے اس فیصلے کے بعد گوادر بی ایس او کا وہ پہلا ھنکین ﴿زون ﴾ بنا جو نظریاتی طور پر تقسیم ہوگیا لیکن یہی وہ واحد زون بھی تھا جس نے انضمام کی مدت میں بی ایس اوکی ڈیرہ بگٹی کے جنگ زدہ لوگوں کے لیے امدادی کیمپ لگانے کے مرکزی فیصلے پر عمل کیا ۔

پولیس کی طرف سے کیمپ کو اکھاڑنے کی دھمکی کے بعد امدادی کیمپ کے آخری روز کیمپ میں لالہ حمید ‘احمد اور راقم کے علاوہ کوئی دوست بیٹھنے پر آمادہ نہ ہواجن میں راقم اور لالہ حمید کی ممبر شپ بی ایس اوکی قیادت نے معطل کی ہوئی تھی جب کہ احمدکا تعلق جمہوری وطن پارٹی سے تھا۔

یہ بی ایس او کاانوکھا کیمپ تھا جو بی ایس او کے ایسے ممبران نے لگایا تھا جنہیں پارٹی نے معطل کیا ہو ا تھا اورپورے بلوچستان میں پارٹی کی مرکزی کال پر عمل کرنے والے ہم دو ہی معطل کارکنان تھے۔ بی ایس او کی دوبارہ تقسیم کے بعد موجودہ بی ایس او﴿آزاد ﴾ کے چیئر مین واجہ بشیر زیب کی طرف سے اخبار میں میری بنیادی رکنیت کی بحالی کی خبرشائع کروائی گئی لیکن میں نے موقف اختیار کیا کہ میں اس بی ایس اوکا جس کے چیئر مین بشیر زیب ہیں کبھی ممبر ہی نہیں رہاہوں بلکہ میں اس بے عمر بی ایس او کا ممبر تھاجو تین دھڑوں کے انضمام سے وجود میں آئی تھی اور بی ایس او میں دوبارہ فعال ہونا مناسب نہیں سمجھا البتہ ان کی بھرپور حمایت جاری رکھی ۔ گوادر پریس کلب گوادر کی کابینہ کی آئینی مدت کے خاتمے کے بعد میں نے اپنی پوری توجہ سیاست پر دی جلد ہی میری سیاسی پہچان نے میرے صحافتی قد کو گھٹا دیا۔ میں نے بھی شعوری طورپر گوادر کے مخصوص حالات میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر اپنی ذات کی تشہیر کے مقابلے پر اپنے سیاسی کردا ر کی تشہیرکو ترجیح دی ۔ شہید اکبر کی شہادت پرہونے والے جلسہ جلوس میں ہم عوامی سطح پر متعارف ہوئے ۔ شہید اکبر کی پہلی برسی پرماہ اگست کے شروع میں توارکے مقامی نیوز ڈسک پر شہید اکبر ہی موضوع تھا لالہ حمید نے خواہش ظاہر کی کہ 26اگست کو قوم ایک قومی سانحے کے طورپر یاد رکھے میں نے کہا یہی ہوگا ۔ انہوں نے کہاکیسے تو میں نے بلوچ نوجوان اتحاد کے نام سے اسی جگہ دورکنی تنظیم تشکیل دی او ر شٹر ڈائون ہڑتال کی کال د ی بعد میں ہم نے نیشنل پارٹی ، بی این پی ﴿ مینگل ﴾ ،جمہوری وطن پارٹی اور بی ایس او ﴿پجار ﴾ کے ساتھ مل کر 26اگست کوسمینار کیا جس میں ہم نے اس موقف کی تائید کی جسے شہید واجہ ﴿ شہید غلام محمد بلوچ ﴾ بی این ایم کی فلیٹ فارم سے پیش کررہے تھے ۔

پارٹی سیشن 15جولائی 2008میں چند سینئر دوستوں کے شدید اصرار پر میں نے بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے کے لیے نامزدگی کاغذ ات پر دستخط کیے اور اس عہدے پر بلا مقابلہ کامیاب قرار پایا۔ گزشتہ ایک سال چار مہینے سے یہ ذمہ داری نبھانے کی سعی کررہاہوں ۔ سر کار پاکستان نے راقم پر بغاوت کے مقدمات کے علاوہ بم دھماکوں کے کئی جھوٹے مقدمات بھی قائم کر رکھے ہیں ۔ تعارف میں یہی چند ایسے واقعات تھے جن کا میری سیاسی ادبی وصحافتی زندگی پر گہرے اثرات ہیں۔ رہی مقام مزاحمت کی بات تو میں اس درخت کی ٹھنڈی چھائوں میں برسر پیکار ہوں جس سے میرے دوست شہید رسول بخش مینگل کی تشدد زدہ لاش لٹکائی گئی تھی ۔ میں مرگاپ کور میں ایستادہ پتھروں کے چھائوں میں ہوں جہاں میرے قائد شہید غلام محمد بلوچ ‘میرے ساتھی لالہ منیر شہید اور شہید شیر محمد بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاشیں شہادت کے پانچ روزبعدمسخ شدہ حالت میں ملی تھیں ۔ میں اپنے گھر کی چھت کے اس ٹھنڈی چھائوں میں ہوں جہاں کئی مرتبہ میری ماں مجھ سے پوچھتی ہیں بیٹا تمہیں پنجابی ایجنسیوں سے کوئی خطرہ نہیں ؟بیٹا ڈاکٹر دین محمد ابھی تک لاپتہ ہیں ؟اور پھر اس کی آبدیدہ آنکھیں شہید واجہ ﴿شہید غلام ۔ محمد بلوچ ﴾ کی تصویر پر جم جاتی ہیں اورچھائوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی آپ نے ’’قاضی صاحب کس مقام سے مزاحمت میں مصروف ہیں پہاڑوں میں ہیں یا ہماری طرح کسی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر قلم کے ذریعے مزاحمت کو مہمیز دے رہے ہیں ‘‘لکھ کر میری تنقید کو طعنہ کہاتومیں نے فوراًسمجھ لیا کہ یہ جوابی طعنہ ہے ۔ جناب والا!آپ نے جن مندرجات پر اپنے مضمون کی بنیاد کھڑی کی ہے ۔ وہ میرے روزنامہ انتخاب میں شائع شدہ مضمون میں شامل ہی نہیں یعنی انہیں آپ نے حذف کردیا ہے ۔ میں ایڈیٹر کے بہت سے اختیارات کا قائل ہوں وہ اپنی پالیسیوں کے مطابق ترمیم کے اختیارات رکھتاہے لیکن حذف شدہ الفاظ پراس کے اپنے تنقید کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ خیر آپ نے انٹر نیٹ کا حوالہ دے کر ایک جواز پیدا کیاہے کہ آپ نے یہ الفاظ میر ے بلاگ پر پڑھ لیے ہیں۔

میں نے آپ کے ’’اظہار رائے کی آزادی ‘‘کے دعوے پر تنقید کی ہے یہی تنقید میں نے آساپ پر بھی کی ہے لیکن ساتھ ہی میں نے آساپ ودیگر اخبار کی نسبت آپ کی پالیسیوں کو قدرے متوازن قرار دیاہے یہ کوئی طعنہ نہیں بلکہ توازن کی طرف اشارہ ہے کہ اگر آپ اشتہارات لے کر14اگست کو رنگین اشتہارات شائع کرتے ہیں تو 26اگست کو ’ ’شہید اکبر کی یوم شہادت ‘‘ کے موقع پر خصوصی ضمیمہ شائع کرتے ہیں ہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ہمارے بیانات کے بعض مندرجات کس صحافتی اقدار کے تحت حذف کرتے ہیں ۔ ریاست کے خلاف سخت لب ولہجہ کی ترمیم وقطع وبریدہم آپ کی مجبوری سمجھ لیں لیکن نیشنل پارٹی کے خلاف بیان میں آپ کی طرف سے ترمیم وقطع وبرید کا کوئی ٹھوس جواز ہوگاآپ کے پاس ؟..........ہمارے بعض بیانا ت مسخ شدہ مندرجات اور ایسی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے کارکنان اور دوستوں کووضاحتیں دینی پڑتی ہیں بلکہ ہمارے سیاسی ساکھ کو بھی نقصان ہوتاہے مثلاًشہید غلام محمد سے متعلق دل آزار ریما رکس معاملے پر نیشنل پارٹی ہی کی اپیل پر دفتر اطلاعات سے جوبیان جاری کیا گیاتھااس میں نیشنل پارٹی کی طرف سے معذرت کا واضح ذکر تھاجو کہ توار اخبار میں من وعن شائع ہوچکاہے لیکن انتخاب نے معذرت کے الفاظ اپنی’’ انوکھی آزادی اظہار رائے کی پالیسی‘‘ کی بنیاد پر حذ ف کر لیے؟
اسی طرح واجہ عصا ظفر کے پریس کانفرنس کو صحافیوں نے ایسے مندرجات کے ساتھ لکھ کر اخبارات کو ارسال کیا کہ پڑھ کر ایسا لگاکہ جیسے واجہ نے ڈاکٹر مالک کے خلاف پریس کانفرنس نہیں بلکہ خود اپنے ہی خلاف پریس کانفرنس کیاتھا .........................تو ہر طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں ۔ ہمارے ایک دوست نے ’’گولو ھرام اِنت ءُ آپشک ئِے ھلار ‘‘کا محاورہ استعمال کرکے اس سے خوب مزالیااور ہم تکریم صحافت میں احتجاج تک نہ کرسکے ۔ آپ نے سودابازی کی دعوت دی ہے کہ’’ ہمارے‘‘ مطلب بی این ایم کے ’’جو سفیر جگہ جگہ نگر نگر دوبئی سے سویڈن تک جو چندہ اکھٹاکر تے ہیں اس میں ایک حصہ انتخاب کو دیں وہ کوئی اشتہار شائع نہیں کرئے گا۔ ‘‘ بندوبست پاکستان کی مقتدر طاقت کا ہم حریت پسندوں پر الزام ہے کہ ہمیں اس کے روایتی دشمن بھارت کاامداد حاصل ہے ‘ مُلا سمجھتے ہیں کہ امریکہ ہماری مدد کررہاہے ‘ حاصل بزنجوصاحب اکثر ٹی وی پروگرام میں ان کی تائید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ پاکستان کو ادراک ہوناچاہئے کہ بلوچستان میں دوسرے ممالک دلچسپی لے رہے ہیں .................ہم ان سب الزامات کی تردید کرتے ہیں ۔ کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بی این ایم والے نالائقی کی وجہ سے اپنے ترجمان کی اشاعت میں تاخیر کررہے ہیں ؟سویڈن سے پیسہ وصول کرنے کے باوجود بی این ایم کے کابینہ کے اراکین ایک کل وقتی قومی ذمہ داری نبھانے کے ساتھ پیٹ کی خاطر بھی مشقت پر مجبور ہیں ۔ شہید رسول بخش مینگل اُتھل میں جس مقام سے اغواء کر کے شہید کیے گئے تھے آپ﴿شہید﴾ وہاں سیر سپاٹا کو نہیں گئے تھے بلکہ کھیتی باڑی کے کام سے منسلک تھے ۔
ہمارے پریذیڈنٹ ﴿ سابقہ وموجودہ ﴾ سیکورٹی وجوہات کے باوجود بسوں پر سفر کر نے پر مجبور ہیں ۔ ..........جناب والا!ہمیں دنیا بھر کے بلوچوں سے چندہ لینے میں کوئی عار نہیں ہم غیر مشروط طور پرہر بلوچ سے چندہ وصول کرتے ہیں ۔ لیکن اگر ہمیں اتنی بڑی رقم جتنا آپ سرکاری اشتہارات کی مد میں کماتے ہیں ماہانہ چندہ میں ملتی تو ہماری جما عت ’’انتخاب اخبار ‘‘کو خرید ہی لیتی﴿اُمید ہے کہ آپ سردار مینگل کے آفر کی طرح ہمارا آفر نہیں ٹھکراتے ﴾تاکہ آپ کل وقتی طور پر فکر معاش سے فارغ ہوکر اپنی توانائیاں تحریک کو مہمیزکرنے میں صرف کرتے ۔ ہم نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ کچھ قومی اور دوستانہ راز ہوتے ہیں جنہیں امانتاًسینوں میں دفن کیا جاتاہے اگر ہم ذہن پر زور دیں تو ہمیں ایک دوسرے کے متعلق بہت سی ناگفتنی یاد آئیں گی لیکن ہم دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے محفلوں میں ان کا ذکر نہیں کرتے اگر جناب کی یہ سویڈن ‘دوبئی سے چندہ لینے کی بات درست بھی ہوتی تو اسے یوں اخبارمیں اُچالنا دوستانہ رویہ ہے ؟شاید آپ بی این ایم کو قومی تحریک کا جزہی نہیں مانتے اگر مانتے ہیں تو آپ اس پر الزام تراشی کو درست سمجھتے ہوں گے کیوں کہ بقول آپ کے ’’انتخاب کا مطمع نظر مجموعی قومی تحریک سے وابستگی ہے ‘‘؟

آپ نے اپنے مضمون میں چند اہم سوالات اُٹھائے ہیں اور تحریک سے متعلق اپنے خدشات کا بھی کھل کر اظہار کیاہیلیکن یہ مضمون تو تعارف ہی میں ختم ہوگیا ان سوالات کے جوابات اگلے مضمون میں ضرو ر دینے کی کوشش کرئوں گا ۔ البتہ اس پر توجہ فرمائی کی درخواست ہے کہ تنقیددراصل وہ ہے جس میں تجویز پوشیدہ ہوتی ہے طعنہ نہ تنقید ہے نہ تجویز ۔ اگرآپ کو اس پر اتفاق نہیں تو آپ اپنے اس ایک ہی جملے ’’قاضی صاحب آپ کس مقام سے مزاحمت کررہے ہیں ‘‘کو آپ ہی کے حوالہ دیئےگئے میرے جملے ’’14 اگست کو سبزاور 26اگست کو سیاہ ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘کا موازانہ کرکے دیکھ لیں ۔

٭٭٭٭٭٭
24-10-2009
Labels:
1 Response
  1. A good article,i think some people want to create miss-understanding between baloch nation, that why they are targeting those organizations whom belong to BNF.Qazi go on we are with you!

    Regard
    Jamal Nasir Baloch


Post a Comment

Powered by Blogger.