نوٹ : یہ فیچر رپورٹ جسے میں اپنی مختصر صحافتی زندگی کی سب سے بہترین رپورٹوں میں شمار کرتاہوں ۔غالباً2004میں خصوصی طور پر روزنامہ گراب ایکسرپریس کے لیے لکھا گیاتھا ۔اس رپورٹ میں شامل کئی لوگ آج ہیروئن کے موذی نشہ کی وجہ سے جان سے گزر چکے ہیں لیکن اس فیچر رپورٹ کی آج بھی وہی اہمیت ہے ۔ بلوچ سر مچاروں کی طرف سے ہیروئن فروشوں کے خلاف ٹارگٹ مہم کے تناظر میں اس رپورٹ کو اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں پیش کررہاہوں ۔ زندگی رہی تو بلوچ سر مچاروں کے مذکورہ مہم کے اثرات پر رپورٹ ترتیب دوں گا۔ راقم

جو زندہ تو ہیں لیکن مُردوں سے بد تر ہیں ۔جنہیں نہ کھانے کا ہوش ہے نہ اپنی صحت اور صفائی کا خیال ۔ہر شہر ہر محلے کی گلیاں ان سانس لیتے مُردہ لوگوں کا قبر ستان ہیں ۔جہاں وہ سارا دن کسی بے جان وجود کی طرح پڑے رہتے ہیں ۔جن میں نوجوان بھی ہیں او ر بوڑھے بھی ۔ان کے اس طرح جیتے جی مردار وجود میں تبدیل ہونے کے ذمہ دار یہ خود ہیں۔ جو اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں ۔لیکن وہ سفید پوش موت کے سوداگر جو اس گھناؤنے کاروبار کو بڑھاوادینے میں پیش پیش ہیں ان کو زندہ در گور کرنے کے سب سے بڑے مجرم ہیں ۔




اسی طرح کے ایک تجار مرگ سے میری بات ہوئی تو اس نے اپنی سرخ آنکھیں مجھ پر جماتے ہوئے کہا''یہ میری روزی ہے ۔اس لئے میں اسے نہیں چھوڑ سکتالیکن نوجوان تم جاننا چاہتے ہوتو سنواس شہر میں یہ کیسے پھیلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔''اس نے مجھے بتایاکہ ان کا نٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہواہے جسے کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔حکومت کے لئے شاید القاعدہ اور دیگر تنظیموں کا صفایاآسان ہوگا لیکن ڈرگ مافیا کانہیں ۔''مجھے اس بات پہ تعجب ہواکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ایک براآدمی ہے اور برا کام کررہاہےاور کئی دفعہ جیل کی سزا بھی کاٹ چکاہے ۔لیکن پھر بھی وہ دولت کمانے کی جنون میں اس دلدل میں پھنسا ہواہے ۔



مجھے اسی نے یہ فلسفیانہ بات بتائی کہ ''اگر کوئی ایک گولی کا سودا کرتا ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ ایک موت کا سودا ہوگالیکن اگرہیر وئن کی ایک پڑی بیجتاہے توپو رے معاشرے کو ناسور بنا دیتا ہے ۔''میں نے اس سے مزید کچھ پوچھنا چاہاتواس نے صرف اتنا بتایاکہ ''سوال تم کافی پوچھ رہے ہولیکن ان کا جواب تمھارا قلم نہیں لکھ سکتا۔سچ اکثر کڑوہ نہیں ہوتا کبھی زہر بھی بن جاتا ہے ۔''اس کے جانے کے بعد میں اس کے تُرش رویہ اور تلخ باتوں میں الجھ کر رہ گیا۔وہ قصووار ہوکر بھی خود کوبے قصور ثابت کرنے کی ایک عجب بے معنی جنگ لڑرہاہے یاشاید دولت حاصل کر نے کی ہوس نے اسے اندھا کر دیاہو ۔ لیکن وہ لوگ کیسے ہیں جوجان بوجھ کراس آگ میں کھودتے ہیں ؟کیا انہیں خبر نہیں کہ اس لعنتی نشہ کا چسکا لگتے ہی وہ زندگی کی تما م رنگینیوں سے محروم ہوجائیں گے ؟؟




سُلور مسجد کے قریب ماہیگیروں کے لئے بنایاجانے والا شیڈ تپتی دھوپ میں انہی سانس لیتے مردہ لوگوں کا مسکن بن جاتا ہے ۔میں خراماں خراماں دبے قدموں ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا۔ایک نوجوان سفید کاغذپر پاؤڈرچاٹ رہاتھا۔بشیر نامی ملاکریم بخش وارڈ کا نوجوان ستون سے ٹیک لگائے اونگ رہاتھا۔میں نے ان سے بات کرنے کی کافی کوشش کی لیکن بے سود ۔انہیں شاید اونگنے کے سواء کچھ نہیں آتا۔اسی شیڈ کے نیچے شریف اشتاپ بھی لیٹاہواتھا۔آج شریف کو دیکھ کرتو ایسانہیں لگتا کہ یہ بھی کبھی خوبرونوجوان رہاہوگا۔جس کے کان اور ناک نسوار سے یوں بھرے نہیں رہتے تھے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ بھی کبھی خوش مزاج اور خوش لباس تھا۔مگر آج یوں پاگلوں کی طرح گم سم لیٹا ہواہے ۔اس کی کہانی معلوم کرنے کی کوشش کی :''کسی زمانے میں یہ انتہائی چست اور چالاک لڑکاتھا۔نہ جانے کس طرح حالات کے بھنور میں پھنس کر اس نے موت کی سوداگری کا گھناؤنا کاروبار شروع کیا۔غنڈہ گردی اور بھر م بازی سرشت میں شامل تھیں۔وہ اسی لعنتی نشہ کاسوداکرتا رہا ۔سینکڑوں نوجوان اس کے حلقہ میں آتے گئے ،اس کے جال میں پھنستے گئے اور بلآخر وہ بھی اس اندھیرے کنوئیں میں ہمیشہ کے لئے گر پڑااور آج اس کی حالت یہ ہے کہ پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکتا ہے ۔ہیر وئن اور دیگر نشہ آؤرگولیوں کے لئے بھیک مانگتا ہے................''گوادر کیسکوکے ساتھ ابراھیم پیلے سورگ د ل گراؤنڈ ہے ۔موسم کافی خوشگوار دوپہر ہوتے ہوئے بھی دوپہر کا احساس نہیں ہورہاتھا۔میں گراؤنڈ میں جیسے ہی داخل ہوا۔ایک اجنبی شخص کو دیکھ کر وہاں لگا مجمع تیزی سے منتشر ہونے لگا۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُن ہیر ؤنچیوں کے مجمع میں چندایسے سفید پوش لوگ بھی شامل تھے جن کے متعلق سو چابھی نہیں جاسکتاکہ وہ ہیروئن پی سکتے ہیں ۔ایک باریش لمبا کرتہ پہنے ہوئے شخص بظاہر مولوی لگتاتھا۔دوسرابھڑکتا ا لباس پہنے بر گر نوجوان ۔ایک آدمی اپنا بچہ کندھا پہ اٹھائے ہوئے کھڑا تھا۔میرے ان لوگوں کے قریب آتے آتے صرف دو آدمی باقی رہ گئے ۔دونوں ہیر ؤن سونگھ رہے تھے پاؤڈر سونگھنے والے ہیر ؤنیوں کوآخری درجہ کا ہیروئنی کہا جاتا ہے ۔




ان سے میں نے نہا یت کھلے لفظوں دوستانہ اندا زمیں بات چیت شروع کی :''میرا نام اختر ہے ۔دَیر کا رہنے والا ہوں ۔تین بچوں کا باپ ہوں ۔جن کاخرچہ میر ا والد دیتا ہے ۔۔۔محنت مزدوری کر کے ہیر و ئن پینے کے لئے پیسہ کماتا ہوں ۔۔۔۔نہیں گھروالوں کوپتا نہیں کہ میں ہیر وئن جیسی لعنت میں مبتلاہوں ۔صرف میری بہن کومعلوم ہے جومجھے دیکھ کر اکثر روتی ہے ۔اسے قسم دے کر منہ بند رکھنے کو کہاہے ۔اپنی کرتوتوں سے شرمندہ ہوں ۔باپ سے جھوٹ بولاہے کہ جیل میں تھا اس لئے پیسہ نہیں بھیج سکا۔ منشیات فروش لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے افیون کی لت لگ گئی ۔ہمارے یہاں افیون سستی ہے یہاں ہیر وئن پیتا ہوں ۔نوک آباد آنے جانے سے یہ بیماری بڑھ گئی ہے ۔ہاں پتاہے مجھے ۔۔۔منشیات بلوچستان میں کیسے پھیلتا ہے ۔پہلے گِر دی جنگل میں آتا ہے ،وہاں سے پنجگور پھر مند اور پھر پورے بلوچستان میں پھیلتا ہے ۔خدا تم جیسے نوجوانوں کو اس لعنت سے بچائے ۔'' دوسراسانولا نوجوان میر اشناساتھا۔یعقوب اسماعیلی وارڈ اور ملابند میں رہتا ہے ۔اس نے مجھے اپنی کہانی بتانے سے پہلے پائپ ناک میں گھسا کر ہیر وئن پیتے ہوئے اپنی تصویر کھنچوائی ۔''مجھے جیل جانے سے کوئی ڈر نہیں لگتاہے ۔میں خوش ہوں کہ مجھے جیل میں بند کیا جائے۔ اچھا خاصا کام کرتا تھا۔صرف چرس پیتا تھا ۔اس پاگل (شریف اشتاپ )کی وجہ سے اس دلدل میں پھنس چکاہوں ۔اسی نے دھوکا دیاتھا کہ یہ اچھا نشہ ہے ۔دماغ کو چرس سے زیادہ ٹائٹ کر تا ہے ۔پہلے اس نے مفت میں پلایا ایک ہفتے تک پیتا رہا اس وقت پتا نہیں تھا کہ ہیر وئن کیا ہوتا ہے ۔پھر جب چھوڑا تو گھٹنے دردر کرنے لگے ۔جب شریف کو اس کے متعلق بتایا تواس نے کہا کہ میں ٹھیک کردوں گا۔میں نے حیرانی سے پوچھا !۔ ابے کیا تو ڈاکٹر ہے ؟................اس نے پھر ہیر وئن پلایااور درد چلایا گیا لیکن ساری عمر کا عذاب دے گیا۔کام کرتا ہوں تین چار ہزار روپے مل جاتے ہیں ۔سب کا ہیر وئن پیتا ہوں ۔بہت بری نشہ ہے۔اس میں نہ پیسوں کی بچت ہوتی ہے نہ زندگی کی ۔یہ جو آدمی ہمارے پاس کھڑاتھا ؟..............ہاں وہی جس نے کندھے پہ بچہ اٹھا رکھاتھا ۔وہ اور اس کی بیوی دونوں ہیر وئن پیتے ہیں ۔''مجھے بے ضرر دیکھ کرایک اور ہیر وئنی بھی ہمارے پاس آگیا۔اسے بڑی مشکل سے بات کرنے پر راضی کیا۔وہ سوکھے پن سے بولا''اسحاق.............اسحاق نام ہے میر املا بندوارڈ میں رہتا ہوں ۔کراچی سے نشہ کیاہے۔کسی نے دھوکا نہیں دیادل نے دھوکا دیا ہے ۔میں نہیں مانتا کہ کوئی کسی کو دھوکا دے سکتا ہے ۔۔صاف بتا تا ہوں عیاشی کے لئے پینا شروع کیا تھا۔نہیں معلوم تھا کہ آخر میں یہ حالت ہوگی ۔زندگی برباد کردی میں نے اپنی ۔چوری کرتا ہوں ۔چوری کے پیسوں سے ہیروئن پیتا ہوں ....................(مسکراتے ہوئے )کوئی ڈکیتی نہیں کرتابھئی مچھلی چوری کرتاہوں۔بڑے چور ہیر وئن نہیں پیتے ووٹ لیتے ہیں ۔اچھا تم بتا ؤ تم بھی الیکشن لڑ رہے ہو؟''اس نے ایک سچی بات قدرے بے ڈھنگے انداز میں کہہ ڈالی ۔




اسی وقت ایک لڑکا ہمارے پاس آیا ۔عام ہیر وئنیوں سے قدرے اسمارٹ لگتا ہے لیکن اس کا چہرہ چغلی کھا رہاتھاکہ وہ بھی اپنی زندگی گنواچکاہے''پسنی کی ایک لڑکی نے میری زندگی برباد کی اس کی ماں ہیروئن بھیجتی تھی ۔ابھی نہیں پی رہاہوں ۔''اس کے آتے ہی وہ چاروں اکھٹا ہوکر وہاں سے نکل گئے ۔شاید کسی ایسی جگہ جہاں وہ سکون سے بیٹھ کر اپنے نشہ کا مزالے سکیں ۔


انہی گلیوں سے واپس آتے ہوئے ایک نوجوان پر نظر پڑی ایک ہاتھ پہ پٹی بندھی ، منہ میں سگریٹ دبا ہوابچوں سے باتیں کر رہاتھا ''ماں کی بات آدمی کو ماننا چاہئے.............''مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوا۔لیکن میں نے اپناموضوع چھیڑ کر اسے اپنی مختصراًکہانی سنانے پر مجبور کیا''میر انام ناصر ہے ۔صالح محمد وارڈ میں رہتا ہوں ۔ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوکر نشہ شروع کیا۔پہلے گھر سے چھپ کر سگریٹ پیتا تھا ،پھر چرس کا عا دی ہوا،اور پھر اسی طرح افیون اور ہیر وئن کا چسکا لگا۔لیکن اب انشاء اﷲچھوڑ دوں گا۔ہاتھ جب میرا اچھا ہوجائے گاتو لانچ میں جاؤں گا..................ماں روزانہ سو روپیہ دیتی ہے ۔کون اپنے بچوں کو زہر پینے کے لئے پیسہ دیتا ہے میں ہی بد نصیب ہوں جو اپنے لئے موت کو چنا ہے ۔۔۔خد اتمہیں بچائے بھائی ۔''اگر ہم اپنی چاروں طرف نظر دوڑائیں توسینکڑوں شریف ،بشیر ، اسحاق ،اختر ،یعقوب اور ناصر جیسے نوجوان اسی موذی نشہ کا شکار ہیں ۔بہت کم ایسے گھرانے ہوں گے جو موت کے سوداگروں کا شکار ہونے سے رہ گئے ہوں ۔لیکن اگر ہم چائیں تو انہیں دوبارہ زندگی کی رونقوں کی طر ف لوٹا سکتے ہیں۔موت کے سوداگروں کا ہم سب اگر مل کر مقابلہ کریں توکس کی اتنی مجال کہ وہ یوں آسانی سے ہمارے معاشرہ کو آلودہ کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔ان سب کی کہانیاں سبق ہیں ان نوجوانو ں کے لئے جوجو انی کی مستی میں مد ہوش زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔بشیر چلوک اور ماسٹر اسحاق جیسے ہنر مند نوجوان بھی کبھی یہی سوچا کرتے تھے کہ زندگی موج مستی میں گزارنی چاہئے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بشیر انتہائی دردناک موت سے دو چار ہوااور ماسٹر اسحاق موت سے بھی بدتر زندگی گزاررہاہے ۔




***********


2004



0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.