گوادر کے رہائشی احمدداد کے متعلق سرکاری پروپیگنڈہ مشینری نے اتنا کا م کیاہے کہ اُن کی سماجی، سیاسی ،ادبی اور صحافتی شناخت دھندلا گئی ہے ۔اُن پر بم دھماکوں ،راکٹ باری اور دہشت گردی کے اتنے جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ہیں کہ گوادر کا کوئی ذی ہوش شہری ایسا نہیں کہ جو یہ نہ سمجھتا ہو کہ احمد داد کا تعلق بلوچ مسلح حریت پسندوں سے ہے جب کہ اس میں سچائی محض اس قدر ہے کہ وہ گوادر کے اُن چند نوجوانوں میں شامل ہیں جنہو ں نے گوادر میں غیر مقامیوں کی آبادکاری اور بلوچوں کو اُن کی سر زمین سے بے دخل کرنے کی مقتدر پنجابیوں کے کالونیل سازش کو بے نقاب کرنے میں کردار اداکیا ۔انہوں نے گوادر کے بلوچوں کی سیاسی قوت کو بڑھانے اور ان کو اپنی شناخت کا احساس دلانے کے لیے ان کے بلوچستان کے دیگرعلاقوں کے ساتھ کمزور رشتوں کو مضبوط کیا۔ایک نڈر سیاستدان جو اپنا حق نہ صرف پہنچانتے ہیں بلکہ دوسروں کو حقوق کی آگھی دینے میں اپنے ہم خیال دوستوں میں سب سے زیادہ متحرک اور بااثر کردارکے حامل ہیں۔اُن کی سب سے بڑی غلطی وہی ہے جسے ہم جیسے لوگ آج بھی دہرارہے ہیں ”قلم ، زبان اور سیاسی عمل کے ذریعے اپنے حق کے حصول کی کوشش “ ۔ انہیں پہلی باراگست 2006کو پولیس کی حراست سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواءکے بعدکئی روز تک انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد عوامی دباﺅ پر مجبوراً دوبارہ پولیس کے حوالے کیا اوربعدازاں عدالت میں ضمانت پر رہاہوئے تو انہیں گوادر میں رہنے کی صورت سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی جس پر اُنہیں مجبوراًشہر بدر ی کی زندگی گزارنی پڑی ۔اس دوران انہوں نے کئی مرتبہ شہر میں دوبارہ آکر سیاسی کردار اداکرنے کی کوشش کی لیکن نادیدہ قوتوں نے اسے روکے رکھا ۔سرکار کی طرف سے ان کوششوں کی وجہ سے کئی دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ زیر زمین حریت پسندتنظیموں میں شامل ہوکر جدوجہد کریںجو انہوں نے اس بنیاد پر مسترد کردیاکہ اُن کے خیال میں وہ ایک سیاسی کارکن ہیں بندو ق سے زیادہ زبا ن اور سیاست پر قدرت رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے روپوشی کے دوران بھی بلوچ ری پبلکن پارٹیضلع گوادر کے آرگنائز ر طور پر کام جاری رکھاکیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں ایک سیاسی کارکن کے طور پر شناخت کیا جائے ۔لیکن باوجود اس کے کہ انہوں نے روپوشی کا زیادہ تر عرصہ ایران کے زیر انتظام بلوچستان میں گزار ا اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی برائے نام متحرک رہے سرکار بدستور اُن کے جان کی دشمن بنی رہی ۔وہ اپنے عدالتی کیسوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے لیکن اُنہیں عدالت میں پیشی کی صورت خفیہ اداروں کی طرف سے جان کا خطرہ تھا ‘اس لیے وہ عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔

خفیہ اداروں اور احمد داد دشمنی کی ایک بڑی وجہ شاید اُن کا مضبوط کردار بھی ہے کیوں کہ انہیں طلباءسیاست کے زمانے سے ہی ضمیرکی سودابازی کی صور ت خفیہ ایجنسیوں کے افسران نے مادی مفادات کالالچ دے کرقوم دوستانہ سیاست سے دست بردار کرنے کی کوشش کی جسے اُنہوں نے ٹھکرا دیا۔انہوں نے اپنی مختصر سیاسی کیریر میں عوام میں سیاسی شعور کے فروغ کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیے جس سے وہ گوادر کے نوجوانوں کا ہیرو بن گئے ۔اب شاید لوگ بھول چکے ہوں اور سر کار کو اس بات سے غرض نہیں کہ اس باغی سرشت نوجوان کے نشونما میں ان کی دماغی ساخت کا اتنا دخل نہیں جتنا سرکار کے جارحانہ اقدامات کا۔لاہور کے ادبی حلقے میں شاید اب کسی شناسا کو وہ احمد داد نامی لڑکا یاد ہو جو اُن کے محفلوں میں ادبی موضاعات پر کئی گھنٹے بلاتھکان گفتگو کیاکرتے تھے ۔اُنہوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ میں ایک قدآﺅر سیاستدان بننا چاہتا ہوں پھر وہ بھول گئے کہ وہ اُردو میں ”چیونٹی “جیسی نظم لکھکر عصر حاضر کے کئی ثقہ شعرا ءسے داد وصول کرچکے ہیں اور یہ بھی کہ گوادر کے پہلے اخبار روزنامہ گراب کے معاون مدیر ہیں .....................ہاں وہ بھول گئے کہ بندوبست پاکستان میں سچی اور پرخلوص سیاست ”شجر ممنوعہ “ہے خاص بلوچوں کے لیے جس کی سزاءاغوائ،موت اور مسخ شدہ لاشیں ہیں ۔اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اگر اُنہیں سیاست کے میدان میں پنپنے کا موقع دیا جاتا ہے اُن کے لڑکپن کی تیز قدمی کو اُن کے پیشرو سیاستدان درست سمت میں بڑھنے کے لیے رہنمائی کرتے ،بلوچستان میں ریاست دوبارہ اپنی کالونیل پالیسیوں پر عمل پیر انہ ہوتی،اُن کے دوستوں کو اس ہیرے کی قدر ہوتی توآج وہ بلوچستان کے صف اول کے سیاستدانوں میں شمار ہوتے۔ لیکن ہماری اُن سے متعلق غیر سنجیدگی نے اُنہیں ذہنی خلفشار کا شکار بنا دیاوہ اگر چاہتے تو بیرون طن فرار ہوکر خوشحال زندگی گزارتے لیکن انہوں نے اپنی زندگی سے متعلق فیصلے کا اختیار اپنے سیاسی وتنظیمی دوستوں کو دے رکھا ہے وہ اپنے سیاسی وقومی مقاصد کی کامیابی کے لیے نظم کے اندر رہ کرکام کرناچاہتے ہیں ۔میں یہ بات کئی مرتبہ دہرا چکاہوں کہ ایک سیاسی شخصیت کے ذاتی تحفظ کی ذمہ داری اُن کی بجائے اُن تنظیموں کی ہوتی ہے جن سے وہ وابستہ ہیں ۔تنظیموں ( جو بجا طور پر انہی شخصیات پر مشتمل ہوتی ہیں )کو اپنے کیڈر ،خاص طور پر صف اول کے رہنماﺅں اور باصلاحیت افراد کی قدر ہونی چاہئے ۔انہیں اس سائنس کو سمجھاہوگا کہ آخر دشمن کیوں صف اول کے رہنماﺅں یا باصلاحیت افراد کو نشانہ بناتا ہے؟فوج میں کمانڈر کی حیثیت عام سپاہی سے کیوں زیاد ہ ہے ؟ان سوالا ت کے جوابات دیگر اقوا م کی تحریکات کے مطالعے سے باآسانی مل جاتے ہیں ۔اگر تنظیم اپنی قیادت اور کیڈر سے متعلق خطرات کو بھانپ کر اُنہیں محفوظ ذمہ داریوں پر لگادیں تو ایک باصلاحیت ”ذہن “کے تجربا ت تحریک کے استحکام کا سبب بن سکتے ہیں ۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ قربانیاں تحریک کا ایندھن ہوتی ہیں لیکن انسانی جانوں کی قربانیوںکا دوسرا پہلو افرادی قوت سے محرومی ہے جس کابرائے راست اثر تحریک کی استعداد کار پر پڑتا ہے کیوں کہ احمدداد جیسے سیاسی کارکنان کی فکری اور ذہنی نشونما میں کئی سال لگے ہیں۔نہ کہ شہیدغلام محمد جیسے قائد روز روز پیدا ہوتے ہیں کہ ہم اُن کی شہادتوں پرایک لفظ ”قربانی “کہہ کر ردعمل میںہونے والی ہنگامہ آرائیوں میں جلنے والے سرکاری املاک کوقربانی کی قیمت تصور کریں۔ ان قربانیوں کی اصل قیمت وہ نفرت ہے جو ظالم قبضہ گیر کے خلاف پیدا ہوئی ہے یہ قربانی اسی وقت رائیگاں نہیں جائے گی کہ اس نفرت کو نظریہ میں ڈھال کر نفرت کرنے والے لوگوں کو شہید واجہ کے کارروان کا سپاہی بنایا جائے ۔
بلوچستان میں پچاس ہزار کے لگ بھگ قوم دوست سیاسی کارکنان کے اغواء اور اُنہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاست پاکستان اپنے تمام اخلاقی اور اِنسانی حدود سے تجاوز کرگئی ہے جس کی وحشیانہ وارداتوں سے چشم پوشی کرکے پاکستانی میڈیا،عدلیہ،سول سوسائٹی اورپارلیمان بھی اس جرم کے برابر شراکت دار ہیں ۔اس لیے یہ سلسلہ نہ شہدائے مرگاپ ( شہید غلام محمد ،شہیدلالہ منیراورشہید شیر محمد) کی شہادت کے بعد رُکا نہ احمدداد کے بعد یہ امید ہے کہ پاکستان کے اصل حکمران (پنجابی مقتدر)اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے ۔گوادر کے یہ پانچویں سیاسی کارکن ہیں جنہیں کراچی سے اغواءکر کے غائب کردیا گیا ہے۔جس طرح محبوب واڈیلہ ، عبدالرحمن عارف،رمضان مشکے اور سعید عبدالرحمن کے لواحقین اور چشم دید گواہ یہ کہہ رہے ہیں ان اغواءکے وارداتوں میں پاکستان کے سیکورٹی فورسز اورخفیہ اداروں ( ایم آئی اور آئی ایس آئی ) کے اہلکار ملوث ہیں ۔احمدداد کے اغواءسے متعلق بھی یہی کہا جارہاہے کہ انہیں 3اکتوبر کو شا م پانچ بجے زیروپوائنٹ سے کراچی جانے والی جاوید کوچ سے پولیس وردی میں ملبوس اہلکاروں نے کوچ روک کرآنکھوںپر سیاہ پٹیاں باندھ کر نیچے اُتارا جہاں بڑی تعداد میں سادہ لباس میں مسلح افراد موجود تھے جوانہیں ایجنسیوں کے زیر استعمال مخصوص ویگو گاڑی میں ڈال کرکوئٹہ وخضدار کی سمت نامعلوم مقام کی طرف لے گئے ۔اس دن دیہاڑے واردات کو اب روایتی بیانات سے یامکر جانے سے چھپانا ممکن نہیں رہا اس لیے حکومت پاکستان اور بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت بھی اس طرح کی وارداتوں کی تردید کرنے کی بجائے چپ کا روزہ رکھی ہوئی ہیں ۔
پہلے بھی اس بات کا ذکر کرچکاہوں کہ پاکستان کا سیاسی ،سماجی اور ادبی حلقوں کا بلوچستان سے متعلق رویہ نظر انداز اور چشم پوشی کرنے کا ہے لیکن بلوچستان کے سیاسی اور صحافتی حلقے (ان میں پاکستانی بندوبست کی سیاست کو مجبوری کہنے والے بھی شامل ہیں اور مجبوری کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے بھی )بغیر لگے لپیٹے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان اغواءکی وراداتوں کے نتائج پاکستان کے حق میں قطعاً نہیں ہوں گے۔ بلوچ مزاجاًگوریلا صفات کے حامل ہیں اس لیے ا ن وارداتوں کے خلاف وقتی خاموشی پاکستان کی کامیابی نہیں بلکہ بلوچوں کی طرف سے ایک بھر پور اور فیصلہ کن حملے کی تیاری ہے۔ اپنے زہم میں پاکستان اس حملے کو پیشگی کچلنے کے لیے جارحانہ ،غیر قانونی اور غیر انسانی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے لیکن احمدداد جیسے نوجوانوں کے اغواءپران کے خاندان ، دوستو ں اور شہریوں میں جو نفرت پیدا ہوئی ہے وہ بے بسی کی کیفیت میں ڈھلنے کے بجائے جولامکھی کی طرح پھٹ پڑے گی ۔ گوادر کے اسکولوں کے طلباءپہلے ہی اپنے اُستاد عبدالرحمن عارف کے اغواءکے خلاف پاکستانی ترانہ اور مطالعہ پاکستان کا بائیکاٹ کیے ہوئے روزانہ سراپا احتجاج ہیں ان مظالم سے اُن کا اس بات پہ ایمان او ر زیادہ مضبوط ہوگا کہ پاکستانی بندوبست میں اُن کی زندگی ،عزت ،شناخت اور بقاءخطرے میںہیں ۔ بلوچوں کی بیرگیری(بدلہ لینے) کی روایا ت میں احمدداد کا بدلہ لینے کے لیے کئی احمدداد پیدا ہوں گے اب یہ سرکار بھی بخوبی جانتا ہے کہ ایک احمد داد سے نمٹنے کے لیے اسےکتنی طاقت اور وسائل صرف کرنے پڑے ہیں تو کئی احمددادوں کو روکنے کے لیے اسے کتنی طاقت درکار ہوگی؟ ...............................یہ سچ شاید نہ بدلے کہ حکمران طبقہ غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔لیکن احمدداد کے کارروان کے ساتھیوں کو احمدداد کی اُن تمام غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی ہوگی تاکہ بلوچ تحریک مقتل گاہ کی بجائے ترقی ،خوشحالی ،آزادی اور بقاءکی شاہراہ بن سکے۔ احمدداد کے اغواءکے بعد یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ کوئی دوسرا نوجوان اغواءہو۔

٭٭٭٭٭
احمد انٹر نیٹ چیٹنگ کے لیے شپچراگ کا نک نام استعمال کرتے ہیں

Sign Petition
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.